ملت ایران کا امریکی بلاک کو دندان شکن جواب

Rate this item
(0 votes)
ملت ایران کا امریکی بلاک کو دندان شکن جواب

ایران کے 13ویں صدارتی انتخابات میں ملت ایران نے بیک وقت کئی محاذوں پر تاریخی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایک طرف ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے والے امریکی بلاک کو دندان شکن جواب دیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے اندر مالی بدعنوانیوں میں ملوث اشرافیہ کے خلاف واضح فیصلہ سنا دیا ہے۔ جمعہ 28 خرداد سال 1400 ہجری شمسی بمطابق سات ذیقعد 1442 ہجری قمری (18 جون 2021ء) کے صدارتی الیکشن میں آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کرکے ایرانی قوم نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ انتخابات کئی حوالوں سے تاریخی قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ صبح سات بجے پولنگ کے آغاز کا وقت معین تھا۔ طے پایا تھا کہ رات بارہ بجے تک ووٹنگ کی اجازت ہوگی۔ ایران میں الیکشن کا انعقاد وزارت کشور (یعنی وزارت داخلہ) کے تحت ہوتا ہے۔ البتہ بہت سے پولنگ اسٹیشن پر پولنگ دیر سے شروع ہوئی۔ بعض جگہوں پر بیلٹ پیپرز تاخیر سے پہنچے یا ووٹرز کی تعداد سے کم بیلٹ پیپرز تھے۔ صدارتی انتخابات لڑنے والے امیدواروں سید ابراہیم رئیسی اور سید امیر حسین قاضی زادہ ھاشمی کے حامیوں کی جانب سے ایسی شکایات تحریری طور پر وزارت داخلہ کو ارسال کی گئیں۔ رات بارہ بجے جب پولنگ کا اضافی وقت بھی اختتام کو پہنچا، تب بھی ایران کے مختلف مقامات پر پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر ووٹرز جمع تھے۔ لہٰذا صدارتی الیکشن کے چاروں امیدواروں کی درخواست پر پولنگ کا وقت رات دو بجے تک بڑھا دیا گیا، یعنی 19 گھنٹے تک ووٹ کاسٹ کیے جاتے رہے۔

ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے صدارتی الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ دو کروڑ نواسی لاکھ تینتیس ہزار چار ووٹرز نے ووٹ ڈالے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی کے حق میں ایک کروڑ اناسی لاکھ چھبیس ہزار تین سو پینتالیس ووٹ ڈالے گئے۔ دوسرے نمبر پر محسن رضائی کے حق میں چونتیس لاکھ بارہ ہزار سات سو بارہ اور تیسرے نمبر پر عبدالناصر ھمتی کے حق میں چوبیس لاکھ ستائیس ہزار دو سو ایک ووٹ آئے، جبکہ سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی نے نو لاکھ ننانوے ہزار سات سو اٹھارہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ایرانی ووٹرز نے اس مرتبہ پہلے ہی راؤنڈ میں ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ ورنہ ایران کے صدارتی الیکشن میں پہلے راؤنڈ میں کم ترین مطلوبہ پچاس فیصد ایک ووٹ کا حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوچکا تھا۔ صدارتی الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی قوم کافی حد تک منسجم و متحد ہے اور سبھی عدل کو حقیقی معنوں میں واقعی طور پر نافذ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے عوام کی حکومت برائے قوی ایران یعنی مضبوط و مستحکم و توانا ایران کے نعرے کے تحت عوام کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ ایک تاریخی فتح ہے، جو ایران کے ووٹرز نے رئیسی صاحب کے نام کر دی ہے۔

ملت ایران نے ایک ایسا صدر منتخب کیا ہے، جس پر یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا نے پابندی لگا رکھی ہے۔ یوں ایرانی قوم نے سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کرکے درحقیقت براہ راست امریکا اور پورے امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ تمہاری پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔ یہ جمہوری اسلامی ایران کے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور اسکے اتحادی نیٹو و غیر نیٹو ممالک کی حکومتیں ایران کے عوام کے جمہوری مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں یا نہیں!؟ ایرانی قوم نے بال امریکی بلاک کی کورٹ میں داخل کر دی ہے۔ امریکی، یورپی اور ان کے اتحادی سعودی عرب کا میڈیا ایرانی عوام کے اس مینڈیٹ سے متعلق منفی رپورٹنگ میں مصروف رہا ہے۔ اس میڈیا نے ایرانی عوام کے اس منتخب صدر کے ساتھ لاحقے و سابقے لگا کر جو رپورٹس دنیا کے سامنے پیش کی ہیں، یہ جمہوری اقدار کی توہین کے مترادف ہے۔ خاص طور پر امریکا کے اتحادی وہ ممالک جہاں موروثی شاہ و شیوخ آغاز سے مسلط ہیں یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ۔ ایرانی قوم نے آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کیا ہے۔ ہارڈ لائنر، کنزرویٹو یا الٹرا کنزرویٹیو کے لاحقے سابقے سے ایرانی قوم کے جمہوری مینڈیٹ کی حقانیت اور اہمیت کو کم کرنے کی یہ کوشش اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ مغربی اور سعودی ذرایع ابلاغ بالکل بھی آزاد نہیں ہیں۔ بہرحال اب دنیا کو ایرانی عوام کے منتخب کردہ اسی نئے صدر کے ساتھ روابط قائم کرنے ہوں گے، خواہ امریکا اور امریکی بلاک کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔

ایرانی قوم نے ایران کے اندر ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی حق رائے دہی استعمال کرکے امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کے پراکسیز کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یورپی ممالک میں ایرانی ووٹرز کو ایران کے سفارتی مشنز میں قائم پولنگ اسٹیشنز پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سابق شاہ ایران کے حامیوں اور ایران کے اسلامی انقلاب کے دیگر مخالفین نے سر توڑ کوششیں بھی کیں۔ بعض جگہوں پر انہوں نے ایرانی ووٹرز کو مارا پیٹا بھی۔ خاص طور پر برمنگھم میں ایک ایرانی خاتون ووٹر کو شدید زدو کوب کیا گیا۔ یہ زمینی حقائق بیک وقت دو مختلف رخوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ دیگر ممالک میں آبا ایرانی بھی اپنے ملک ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس کے حال و مستقبل کے لیے فکرمند بھی ہیں اور اپنی اس ملت کی سرنوشت میں اپنا انفرادی حصہ ڈالنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایرانی قوم کے بنیادی حقوق کے منکر اور دشمنوں کے آلہ کار خائن اور منافق بھی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اپنے ہی ایرانی بہن بھائیوں کی آزادی اور جمہوری حق پر حملہ آور ہیں۔ یعنی جس طرح امریکا اور امریکی زایونسٹ بلاک ایران کی اسلامی جمہوریت سے خار کھاتا ہے اور اسے ختم کرنے کے درپے رہتا ہے، یہ خائن و منافق بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ حالانکہ جتنا موقع پہلوی شاہ ایران کو ملا یعنی باپ بیٹے کی بادشاہت کے مسلسل 6 عشرے، اور تب بھی وہ ایرانی قوم کی تعمیر و ترقی کرنے کی بجائے ذاتی و خاندانی استحکام کو ترجیح دیتے رہے۔ اسی طرح دیگر گروہ ہیں کہ جنہوں نے بیرونی جارحین کی جارحیت سے ایران کا دفاع کرنے کی بجائے غیر ملکی جارح سے ہاتھ ملا لیا تھا، اس ففتھ کالم خائن و غدار ٹولے کو ایرانی قوم کیسے اپنا ہمدرد مان لے!؟

یہ بھی یاد رہے کہ اس صدارتی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید رہبر معظم انقلاب اسلامی امام سید علی حسینی خامنہ ای صاحب نے کی تھی۔ انہوں نے اپیل کی تھی کہ عوامی شکایات بجا ہیں، لیکن الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے ہی مسائل و مشکلات حل کیے جاسکتے ہیں۔ باشعور عوام نے مسائل و مشکلات کی وجہ سے حکومت سے ناراضگی کے باوجود الیکشن میں بھرپور شرکت کرنے کی نصیحت پر عمل کیا۔ یوں ایرانی قوم نے ولی فقیہ کے ساتھ اپنی عقیدت و احترام کو بھی ظاہر کیا تو ایک مطیع امر رھبری قوم ہونے کا ثبوت بھی دیا۔ باوجود این کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حفاظتی تدابیر پر بھی عمل کیا گیا، لیکن اگر کورونا نہ ہوتا تو ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اس مرتبہ بہت زیادہ ہوتا۔ پھر بھی ایرانی قوم نے جمہوری اسلامی نظام پر اپنے اعتماد کو رسمی طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ امام خامنہ ای صاحب نے بھی ملت ایران کے اس مینڈیٹ، اس فیصلے کی قدردانی کی ہے۔ انہوں نے الیکشن کا سب سے بڑا فاتح ملت ایران کو قرار دیا ہے۔ کوئی چیز ملت ایران کے عزم پر فائق نہیں آسکی۔ اس الیکشن کے بعد ان کے بیان کا آخری جملہ پوری دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کے لیے توجہ کا باعث ہونا چاہیئے کہ ایران اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے اصل سربراہ تو حضرت ولی اللہ الاعظم (امام مہدی عج) ہیں۔ یقیناً دنیا کے محروم و مستضعف انسانوں کے اس نجات دہندہ پر غیر متزلزل اعتقاد ہی مظلوم و محکوم و محروم انسانوں کی آخری امید ہے اور امریکی زایونسٹ بلاک کی ذلت و رسوائی کے لیے یہی کافی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی الیکشن کو اور نیتن یاہو اسرائیلی حکومت کے الیکشن کو فراڈ قرار دے رہا ہے۔ ایرانی عوام نے ان فراڈیوں کے خلاف ایران کے شفاف اسلامی جمہوری نظام کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب دنیا پر لازم ہے کہ ایرانی قوم کے جمہوری فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ بین الاقوامی تعلقات میں ایران کا بھی حق ہے، بحیثیت ایک نیشن اسٹیٹ ایران کا یہ حق تسلیم کیا جانا چاہیئے۔

تحریر: محمد سلمان مہدی

Read 444 times