افغان محاذ، شیطان کا شر اور پاکستان

Rate this item
(0 votes)

امریکہ نے ویسے تو اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل رہا ہے، مگر ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا مصداق امریکہ افغانستان سے نکل نہیں رہا بلکہ یہاں قیام کا انداز بدل رہا ہے۔ امریکہ پہلے یہاں فوجی طاقت کے طور پر مقیم تھا، لیکن اب سول سٹائل میں اپنا قیام جاری رکھے گا اور خطے میں آگ و خون کا یہ گھناونا کھیل نئے انداز میں کھیلے گا۔ اس حوالے سے امریکہ کے جہاں افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، وہیں یہ طالبان کو بھی مضبوط بنا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، بھارت کے ذریعے افغانستان میں ایک نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان خفیہ ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ کیساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ایک طرف انڈیا سرکار کے افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، تو دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان طالبان کیساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ بھارت افغان طالبان کو انڈیا میں فوجی ٹریننگ دے رہا ہے، اس میں نہ صرف زمینی جنگ کی ٹریننگ بلکہ ٹینک، توپ اور فائیٹر طیارے چلانے کی تربیت بھی شامل ہے۔ ٹریننگ مکمل کرنیوالے طالبان کی باقاعدہ پاسنگ آوٹ پریڈ بھی منعقد کی گئی، جس میں ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

افغانستان میں طالبان کا بظاہر دشمن امریکہ اپنے دوست بھارت کے ذریعے طالبان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ طالبان کو چین، پاکستان اور ایران کیخلاف استعمال کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ طالبان کو امریکہ افغانستان میں تمام دفاعی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ اپنا اسلحہ، ٹینک، توپیں، فوجی گاڑیاں (حماری جیپیں)، بارود اور دیگر دفاعی سامان ساتھ لے کر رخصت نہیں ہو رہا، بلکہ یہ سارا سامان افغانستان میں طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ طالبان جو کبھی پاکستان کے اشاروں پر جان وار دینے کیلئے تیار دکھائی دیتے تھے، اب انڈیا کے گود میں کھیل رہے ہیں۔ یہی طالبان مستقبل قریب میں مغربی ریمورٹ کنٹرول سے فعال ہوں گے۔ طالبان نے اس وقت افغانستان کے 8 فیصد سے زائد علاقے اور 13 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی پیش قدمی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جو آنیوالے دنوں میں سی پیک سمیت خطے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو امریکی انخلا کے بعد مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی سمیت دفاعی اداروں کو سر جوڑنا ہوں گے۔ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا لاپرواہی بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کیلئے امریکہ کا رویہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو پابندیوں کی زد میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب امریکہ نے ’’چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ‘‘ کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا نے پاکستان کی غیر ریاستی دھڑوں اور دہشتگرد تنظیموں کیخلاف جنگ اور کوششوں کو واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے قبل امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کسی ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو وہ تفصیلات دی گئی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ رپورٹ ترتیب دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل ممالک کی فوجی امداد اور امن مشن کے پروگرام میں شرکت پر پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔ رواں سال کیلئے جاری ہونیوالے فہرست میں پاکستان اور ترکی کو شامل کیا گیا ہے۔ چائلڈ سولجر پریوینشن ایکٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے کم عمر فوجیوں کو بھرتی کیا ہو۔ اس سلسلہ میں جن اداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان میں مسلح افواج، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حمایت یافتہ مسلح گروہ شامل ہوتے ہیں۔

سال 2021ء کیلئے جاری ہونیوالی اس فہرست میں پاکستان، افغانستان، برما، جمہوریہ کانگو، ایران، عراق، لیبیا، مالی، نائیجریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ امریکہ نے چائلڈ سولجرز کے الزامات کیساتھ ساتھ پاکستان پر انسانی سمگلنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ حربے اس وقت استعمال کئے جاتے ہیں، جب کسی ملک کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ہو۔ اگر وہ ملک انکار کر دے تو امریکہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس ملک کو بلیک میل کرتا ہے، جو اب پاکستان کیساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ نے دو بڑے مطالبے کئے تھے، جنہیں پاکستان نے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پہلا مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کو مرکز بنانے کی اجازت دی جائے اور دوسرا مطالبہ چین کیساتھ تعلقات کو محدود کرکے سی پیک کا منصوبہ لپیٹ دیا جائے۔ سی آئی اے کا مرکز یہاں بنانے کا مقصد چین، ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے، جبکہ سی پیک پاکستان کی لائف لائن ہے، اس سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا، امریکہ کو یہ گوارہ نہیں کہ پاکستان مستحکم ہو، کیونکہ خوشحال پاکستان امریکہ کا دستِ نگر نہیں رہے گا۔

امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مسلسل اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے، جبکہ پاکستانی قیادت اب سات سمندر پار اور آزمائے ہوئے دُور کے دوستوں کی بجائے قریب کے اور ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا سوچ رہی ہے۔ پاکستانی قیادت کی اسی سوچ نے امریکہ کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ اب ہم کسی پرائی جنگ میں نہیں کودیں گے، ہم امریکہ کا ساتھ جنگ میں نہیں دیں گے، البتہ ہم امن کیلئے امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ شائد وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ نے جتنی بھی جنگیں مسلط کی ہیں، تمام کی تمام امن کے نام پر مسلط کی ہیں۔ امریکہ کا امن کے نام پر ساتھ دینا بھی بدامنی کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم پاکستان اگر واقعی خطے میں امن اور پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو واضح پیغام دیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیں گے، کیونکہ شیطان تو شیطان ہوتا ہے، اس کا کام ہی تخریب ہے، شیطان کبھی تعمیر کی طرف نہیں جاتا، اس لئے امریکہ پر واضح کر دینا چاہیئے کہ ’’نو مور‘‘ اب وہ دن گئے جبکہ خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب امریکہ کا ایک ’’خلیل خان‘‘ برطانیہ میں بیماری کا بہانہ کرکے چھپا ہوا ہے اور دوسرا اور بڑا ’’خلیل خان‘‘ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، وہ ڈر کے مارے دبئی میں زیر علاج ہے۔ لہذا حکومت پاکستان واضح کر دے کہ ہم شیطان کے کسی کام میں شریک نہیں ہوں گے۔ شیطان اپنی خیر کی دعوت میں بھی شر رکھتا ہے اور امریکہ دنیا میں ایک شرِ محض ہے۔

Read 420 times