افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء اور امریکی اتحادیوں کیلئے عبرت کا مقام

Rate this item
(0 votes)
افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء اور امریکی اتحادیوں کیلئے عبرت کا مقام

امریکہ نے بیس سال افغانستان میں جنگ اور بدامنی پیدا کرنے کے بعد آخرکار اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ یعنی بگرام ہوائی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ ان بیس سالوں میں امریکہ کے 3500 سے زیادہ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دسیوں ہزار فوجی زخمی بھی ہو گئی۔ دوسری طرف افغانستان پر بیس سالہ فوجی چڑھائی کے دوران امریکہ نے 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات بھی برداشت کئے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی فوجی پسپائی کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مطلب سرکاری طور پر فوجی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس ملک میں فوجی مشن کے اختتام کا اعلان ہے۔
 
افغانستان ایسا ملک ہے جہاں اس سے پہلے سابق سوویت یونین کے بھی دانت کھٹے ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے میں خود امریکہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ نے اس زمانے میں افغان مجاہدین نامی مسلح افراد کو فوجی ٹریننک اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یوں یہ کہنا بجا ہو گا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔

2)۔ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف پشتو بولنے والے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل "طالبان" گروہ ہے جو ملکی آبادی کا 45 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو اقلیت میں ہیں اور اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہی ہیں۔
 
3)۔ موجودہ حالات میں افغانستان ایک اور بڑے خطرے سے بھی روبرو ہے جو قومی اور مذہبی بنیادوں پر اس ملک کے ٹوٹ کر کئی حصوں میں تقسیم ہو جانے پر مشتمل ہے۔ یوں افغانستان ایک ایسے شکست خوردہ اور ناکام ملک میں تبدیل ہو جائے گی جو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انتہائی خاموشی سے انجام پایا ہے۔ اس کیلئے نہ تو کسی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے خوشی یا افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو امریکہ کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں کا تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کی مدت پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب صدارتی محل ترک کرتے ہیں۔

افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک اور بھیانک خطرہ بھی موجود ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی جانب سے ہے۔ القاعدہ کی جانب سے اپنی نئی شکل یعنی "داعش" کے روپ میں واپسی کا بہت قوی امکان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان مختلف قسم کے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے جنگل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان آرمی کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز گذشتہ دو ماہ سے ہو چکا ہے اور اشرف غنی سمیت دیگر سیاسی رہنما اور لیڈران امریکہ سے لے کر یورپ تک محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کر چکے ہیں۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب وہ طالبان کے ہاتھ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عراقی کی طرح افغانستان کے بارے میں بھی تمام امریکی وعدے محض دھوکہ اور فریب ثابت ہوئے۔
 
افغانستان پر فوجی جارحیت کے وقت امریکی حکام کا دعوی تھا کہ وہ اس ملک کو امن و امان کا ایسا گہوارہ بنا دیں گے جہاں فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کی گہما گہمی ہو گی۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا تھا گویا افغانستان بہشت عدن میں تبدیل ہو جائے گا۔ امریکی حکام نے عراق کے بارے میں بھی ایسے ہی وعدے کئے تھے۔ اب پوری دنیا کیلئے واضح ہو چکا ہے کہ ان وعدوں کا مقصد انہیں دھوکہ اور فریب دینا تھا۔ اس وقت طالبان تیزی سے پیشقدمی کر رہے ہیں اور ملک کے اکثر صوبوں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ طالبان سے وابستہ مسلح عناصر دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر پورے ملک پر ان کا قبضہ حتمی دکھائی دیتا ہے۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی میں موجود تنازعات اور بدامنی کو چین کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس مقصد کیلئے سیاسی اسلام کا ہتھکنڈہ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس نئے امریکی منصوبے کیلئے بہت جلد خلیجی ریاستوں کی جانب سے اربوں ڈالر منتقل کئے جانے کی توقع رکھنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان سرحد کے قریب مشرقی چین میں ایگور قبیلے کے مسلمان شہری اچانک امریکی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ بہرحال، افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء امریکی تاریخ کی ایک اور ذلت آمیز شکست اور اپنے اتحادیوں کے حق میں امریکہ کی ایک اور غداری ہے۔ امریکہ کے اتحادی ممالک کو اس واقعے سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے لیکن اس کی امید بہت کم ہے۔

 تجزیہ نگار: عبدالباری عطوان

Read 439 times