گذشتہ تین ماہ سے افغانستان میں طالبان نے تیزی سے پیشقدمی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ امریکہ نے افغان حکومت کو بہت سے وعدے دے رکھے تھے لیکن مشکل وقت آنے پر یہ تمام وعدے بھلا کر افغانستان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا چکا ہے۔ یوں افغانستان کا مستقبل بہت زیادہ مبہم اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے کل 370 صوبوں میں سے 160 سے زائد صوبوں پر طالبان کا قبضہ برقرار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی کا دورہ امریکہ بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس میں انہوں نے امریکی حکام سے فوجی انخلاء میں تاخیر کرنے کی درخواست کی تھی۔ امریکی حکام نے ماضی میں بے شمار وعدوں کے باوجود طالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کی۔
امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے خفیہ مذاکرات بھی انجام دیے۔ ان مذاکرات میں امریکی حکام نے نہ صرف افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ حتی انہیں اطلاع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اسی طرح ٹھیک اس وقت جب طالبان نے اپنی پیشقدمی تیز کی ہوئی تھی اور تیزی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے تھے امریکہ نے مکمل طور پر اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ امریکہ دوحہ مذاکرات میں طالبان کو اس بارے میں سبز جھنڈی دکھا چکا تھا۔ دیگر اہم نکتہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ذرائع ابلاغ بھی متضاد صورتحال کا شکار ہیں۔ ایک طرف طالبان کو شدت پسند گروہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ طالبان عوام کی مرضی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک طالبان نے عام شہریوں خاص طور پر ہزارہ، اہل تشیع اور تاجک اقوام کے ساتھ شدت پسندانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ان کے تمام تر فوجی اقدامات حکومتی فورسز کے خلاف انجام پائے ہیں۔ لہذا افغانستان کے مستقبل سے متعلق واضح تصویر نظر نہیں آ رہی۔ البتہ طالبان کی مختلف علاقوں پر قابض ہونے کی طاقت اور متعدد علاقوں کی عوام کا طالبان سے اظہار یکجہتی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ تین سے چھ ماہ تک افغانستان میں اقتدار کی کیفیت یونہی رہے گی جیسی اس وقت پائی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی موجود ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ گذشتہ بیس برس میں اپنے فوجی قبضے کے دوران القاعدہ اور داعش سمیت کئی دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم کر کے انہیں کافی مقدار میں اسلحہ فراہم کر چکا ہے۔
اسی طرح امریکہ نے وہ فوجی سازوسامان بھی مختلف افغان گروہوں میں بانٹ دیا ہے جسے امریکی فوجی اپنے ساتھ واپس لے جانے سے عاجز تھے۔ البتہ یہ امریکی اسلحہ اور فوجی سازوسامان ہمسایہ ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے کوئی خطرہ قرار نہیں پا سکتا کیونکہ اب تک خود امریکی فوجی اس سے کہیں زیادہ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس وہاں موجود رہے ہیں لیکن ایران کے سرحدی علاقوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آیا۔ اس بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے یہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو دیا ہے جس کا مقصد خطے میں بدامنی اور عدم استحکام برقرار رکھ کر امریکی اہداف اور مفادات کا حصول یقینی بنانا ہے۔ یوں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ امریکہ جس ملک سے باہر نکلتا ہے وہاں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں بین الافغان مذاکرات بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ مذاکرات مفید بھی ہیں اور افغانستان کی قومی سلامتی اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح بین الافغان امن مذاکرات خطے میں قیام امن کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ بین الافغان امن مذاکرات کی حمایت کی ہے اور ان کے انعقاد پر زور بھی دیا ہے اور ان کے انعقاد میں مدد بھی فراہم کی ہے۔ اشرف غنی کی سربراہی میں موجودہ افغان حکومت ملک میں موجود وسیع پیمانے پر انارکی اور بیرونی امداد پر حد سے زیادہ انحصار کے باعث زیادہ عرصے تک اقتدار میں باقی رہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ دوسری طرف افغان حکومت میں موجود سابقہ جہادی عناصر بھی عوام میں محبوبیت کھو چکے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے ممکنہ حد تک فوجی ٹکراو اور جنگ روکنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے تمام گروہوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی تگ و دو جاری ہے۔ شدت پسندی اور قتل و غارت سے بچنے کا واحد راستہ گفتگو اور مذاکرات ہیں۔ افغانستان میں نئی جنگ کا آغاز اور بدامنی کا نیا سلسلہ شروع ہونا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس کا نقصان سب سے پہلے افغان عوام کو ہو گا اور اس کے بعد ہمسایہ ممالک کو اس کے منفی اثرات بھگتنے پڑیں گے۔ اس وقت افغانستان میں کوئی ایسا گروہ یا طاقت موجود نہیں جو اکیلے اپنے سو فیصد اہداف اور مفادات کی تکمیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لہذا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام گروہ مل کر قومی سلامتی اور عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔
تحریر: ڈاکٹر سید رضا صدر الحسینی