افغانستان ایک، کھلاڑی متعدد

Rate this item
(0 votes)
افغانستان ایک، کھلاڑی متعدد

افغانستان امن و سلامتی کے جس بحران سے دوچار ہے، اس کے بارے میں کسی طرح کی پیشنگوئی ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان میں سرگرم عمل اندرونی اور بیرونی کھلاڑیوں یا آج کی اصطلاح میں اسٹیک ہولڈروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں تجزیہ کا اہم منبع فریقین کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف بیانات میں محسوس تبدیلی خود ایک معمہ ہے۔ افغانستان کے اس وقت کے بڑے اور طاقتور فریق طالبان اپنے ماضی کے بیانیئے میں گرفتار ہیں، مرکزی قیادت اور مقامی قیادت میں موقف اور حکمت عملی کے حوالے سے نمایاں فرق محسوس ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگار بھی مجبور ہیں کہ ان بدلتے روئیوں اور بیانیوں میں حقیقیت کو تلاش کرے۔ مثال کے طور پر روس کا موقف ایک طرف یہ ہے کہ طالبان ایران اور ہندوستان کو ساتھ لیکر چلیں تو دوسری طرف افغانستان میں روسی مندوب زامیر کوپوولوف نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں پہنچنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والی طالبان بیس برسوں کے بعد کسی بھی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں موقف ہی میں نہیں ان کے خیالات کے بدلنے کی بات کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا اور دیکھ رہا ہوں کہ وہ سیاسی تصفیہ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیس سالوں کے بعد بہت سے طالبان رہنماء یقیناً جنگ سے تھک چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ موجودہ تعطل سے نکلنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی دوران انہوں نے زور دے کر کہا طالبان کے چھوٹے گروہ مگر زیادہ "انتہاء پسند" جنگجو لڑائی روکنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک کابل میں نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہو جاتی اور صدر اشرف غنی کا عہدہ ختم نہیں ہو جاتا، تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

طالبان کے  مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں طالبان کے موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کے درمیان قابل قبول گفتگو کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے گی، تب وہ مسلحانہ جدوجہد روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار پر قبضے میں یقین نہيں رکھتے، کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اکیلے حکومت کرنے والے گروہ کی حکومت نہیں چل سکی، اسی لئے ہم اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کا بیان اپنی جگہ، تاہم طالبان کے زیر قبضہ اضلاع سے بار بار ایسی مستند رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، حتیٰ کہ اسکولوں میں آگ لگا دی۔ ایک لرزہ خیز ویڈیو سامنے بھی آئی ہے، جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے گرفتار کیے گئے کمانڈوز کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

طالبان کے مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان کمانڈروں نے جابرانہ اور سخت رویئے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹریبونل کے سامنے پیش بھی کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے سزاؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، چین کا لداخ میں گھسنا، بھارت کے طالبان کے ساتھ ناکام رابطے، طالبان کا ترکی کو کابل میں اپنی موجودگی کو محدود رکھنے کا مشورہ، پاکستان کا اپنی سرحدوں پر باڑ لگا کر مزید گشت بڑھانا، دوحا مذاکرات کا جاری رہنا، امریکہ کا پاکستان، ازبکستان و افغانستان پر مشتمل نیا ورکنگ گروپ تشکیل دینا اور روس کا اس سارے عمل میں خاموش کردار ادا کرنا خطے میں جاری نئی کشیدگی کا ایک واضح پیغام ہے۔ امریکہ خطے بالخصوص افغانستان کو اپنے مخالفین بالخصوص ایران و چین کو پلیٹ میں رکھ کر ہرگز نہیں پیش کرے گا، امریکہ کا بی پلان یقینی ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے خدوخال کب سامنے آتے ہیں۔ امریکہ شکست خوردہ ہے، لیکن وہ اتنی آسانی سے خطے میں موجود اپنے مفادات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 614 times