ایران کا اسلامی انقلاب اپنی شاندار فتح کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا، جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ انقلاب کے عظیم رہنماء امام خمینی نے اپنی وسیع اور شاندار فکر میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے اعلیٰ اور وسیع اہداف کی پیروی کی۔ وہ اہداف جو ان کے لائق جانشین آیت اللہ خامنہ ای بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان عظیم مقاصد میں سے ایک "نئی اسلامی تہذیب کی تخلیق" یا جدید اسلامی تہذیب کا احیاء ہے۔ اسلامی انقلاب، اسلامی تہذیب کے احیاء کا ایک اہم عامل ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "اسلامی امت اور امت مسلمہ اور اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم اور اہم پیغام، اسلامی تشخص کا احیاء، اسلام کی طرف واپسی، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی طرف واپسی ہے۔ مسلم قوموں کے لیے ہمارے انقلاب کا یہ عظیم پیغام ہے کہ امام خمینی اس راہ کے عظیم رہنماء اور اس سلسلے اور مکتب کے عظیم معلم تھے۔"
پوری تاریخ میں بہت سے مفکرین نے تہذیب کے اجزاء کے بارے میں بات کی ہے۔ رابرٹ پل، ایک فرانسیسی ثقافتی ماہر، تہذیب کو سماجی مظاہر کے ایک مجموعہ کے طور پر دیکھتا ہے، جیسے مذہبی، اخلاقی، علمی، تکنیکی، جمالیاتی اور فنکارانہ مظاہر، جو ایک بڑے معاشرے میں بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ تاہم تہذیب کا لغوی معنی شہری زندگی یا شہر نشینی ہے اور یہ شہری زندگی اور تہذیب کی جڑوں سے ماخوذ ہے اور زیادہ تر اس کا استعمال شہریت، شہری مزاج کی تخلیق اور وحشیانہ، بدامنی اور لاقانونیت کے مقابلہ میں کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تہذیب ایک سماجی تصور ہے، جس کا مطلب ہے، انسانی زندگی میں ترقی اور ارتقاء کے دور تک پہنچنا۔ اس تصور میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ مختلف علوم، فنون، رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں اور تہذیب کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔
لیکن امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کون سی نئی اسلامی تہذیب کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کے حصول کو ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے ایک قرار دیتے ہیں وہ کیا ہیں۔؟ نئی اسلامی تہذیب، زندگی میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس میں ایک انسان روحانی اور مادی طور پر ترقی کرسکے اور مطلوبہ مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان مقاصد کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ وہ مقاصد اچھی اور باوقار زندگی اور قدرتی دنیا میں طاقت، ارادہ، پہل اور تخلیقی صلاحیتتوں کا حصول ہے۔ ایسی تہذیب قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں انسانوں کی تمام روحانی اور مادی جہتوں کو شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ تہذیب جس کی بنیاد مذہبی اخلاقیات پر ہے، متحرک ہے اور اس میں حرکت اور تعامل شامل ہے۔
امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں اسلامی تہذیب سے مراد ایک خارجی اور تاریخی حقیقت ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تشکیل پائی اور بعد میں پھیل گئی۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کی ذمہ داری اور اسلام کی روشنی کو پھیلانے کے ساتھ ایک نئے الہیٰ ترقی پسند مکتب کی منفرد خصوصیات کے ساتھ تہذیب کا ایک نیا چہرہ دکھایا۔ اس نئی تہذیب نے جزیرہ نما عرب کی سرزمین میں جڑ پکڑی۔ ایک ایسی سرزمین جس میں اس وقت تہذیب کے سب سے کم مظاہر تھے اور دنیا تاریکی میں تھی اور عظیم تہذیبیں جیسے قدیم ایران، روم اور یونان کی تہذیبیں زوال پذیر تھیں۔ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے ایک ایسی اسلامی تہذیب کی تعمیر کی، جس نے فکر، عقیدہ، سائنس، فنون لطیفہ، صنعت، سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، حتیٰ کہ عسکری اور حفاظتی تعلقات میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ جو مسلمان مفکرین کی کوششوں سے تشکیل پائی اور دنیا میں تہذیب کا ایک نیا مفہوم پیدا ہوا۔
کھلا ثقافتی ماحول، اخلاقی نظم و ضبط کو وسعت دینا، روحانیت کی حکمرانی، سوچ اور فکر کی اصلیت، بہتر معیار زندگی، فلاح و بہبود کی سطح کی بلندی، نسلی اور قبائلی تعصبات سے اجتناب، خود غرضی پر یکجہتی کی فوقیت، علم اور ادب کی ترقی اور غریبوں کا خیال وغیرہ وہ اسلامی تہذیب کے شاندار اجزاء تھے، جن کی اسلام کے عروج کی پہلی چند صدیوں میں نشوونما ہوئی۔ اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس تہذیب نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ایک قوم اور نسل تک محدود نہیں رکھا، اس لیے تمام مختلف نسلی گروہوں بشمول عرب، ایرانی، ترک، ہندوستانی، چینی، منگول، افریقی اور یہاں تک کہ دیگر نسلی گروہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔
دوسری طرف اس تہذیب نے سائنس اور علم کو بہت اہمیت دی۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) کی بہت سی احادیث لوگوں اور معاشرے میں عام تھیں، جو لوگوں کو علم سیکھنے کی ترغیب دیتی تھیں اور پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) اسے قیمتی اور ضروری سمجھتے تھے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں انسانوں کو اپنی حکمت، علم اور شعور میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علم کی تاریخ کے باپ جارج سارٹن کہتے ہیں: ’’علم میں اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے دنیا پر چھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس کے بعد 250 سال تک وہ عیسائیوں کے ساتھ ملکر علم کی عالمی تحریک کے علمبردار رہے۔"
اخلاقیات کو اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں "اچھے اخلاق" کی ترویج اسلامی تہذیب کی ایک اور اہم خصوصیت تھی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں صبر، تحمل اور بردباری جیسی صفات میں اضافہ ہوا۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب کی تشکیل کے اہداف میں سے ایک ایسا سیاق و سباق پیدا کرنا ہے، جس میں مسلمان اسلامی اخوت اور محبت کی لڑی میں پرو کر اختلافات کو کم کریں اور اتحاد کے نکات کو زیادہ سے زیادہ اہم سمجھیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور باہمی مشترکات کی طرف توجہ کے مسئلہ پر رہبر انقلاب کی پر زور تاکیدات اسی تناظر میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال وحدت اسلامی کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان جیسے دیگر پلیٹ فارم بنا کر مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے جذبے کو بڑھانے اور ایک نئی اسلامی تہذیب کے ظہور کے لیے مرکزی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔
نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کا مطلب ماضی میں واپس جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی تہذیب کے سرمائے کو جدید تہذیب کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور ایران کا اسلامی انقلاب اپنی صلاحیتوں کے ساتھ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایرانی مفکرین میں سے ایک سید حسین نصر اپنی کتاب "معرفت جاودان" میں لکھتے ہیں: "ایران کے اسلامی انقلاب اور نئی اسلامی تہذیب کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہوئے، یہ کہنا چاہیئے کہ اسلامی انقلاب جدید اسلامی تہذیب کا نقطہ آغاز ہے اور اسلامی انقلاب ماضی کے تجربات اور فتوحات اور شکستوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
اسلامی انقلاب کے ذریعے نئی اسلامی تہذیب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب ترقی سے متصادم نہیں ہے، بلکہ اسلامی قانون میں موجودہ صفات کیوجہ سے سماجی انصاف اور مساوات کو نافذ کیا جا سکتا ہے، جو اقتصادی اور سیاسی ترقی وغیرہ میں تمام لوگوں کے لئے سودمند ہے۔ درحقیقت اسلامی تہذیب کا احیاء نئے حل تلاش کرنے کی کوشش ہے، جس میں تباہ کن مغربی ثقافت کی کوئی جگہ نہیں۔ دنیا میں طبقاتی فرق اور طاغوت کی حکمرانی کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب کی تشکیل، جس کی بنیاد عدل پر ہو، سب سے اہم ہے۔ اسلامی انقلاب نے علم کے میدان بالخصوص، صنعتی، فوجی، طبی ،دوا سازی، ایٹمی ٹیکنالوجی میں ترقی اور خود کفالت و خود انحصاری کے میدانوں یہ ثابت کر دیا کہ پابندیوں کے مشکل ترین حالات میں بھی اسلامی حکومت چل سکتی ہے۔
مسلم اقوام اسلامی جمہوریہ کے مزاحمت اور پیشرفت کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی اور ہمدردی کو بڑھا کر نیز خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو کر ترقی حاصل کرسکتی ہیں۔ اگر مسلمانوں میں روحانیت، علم اور اخلاقیات پر توجہ دی جائے تو نئی اسلامی تہذیب بھی زندہ ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے مفکرین کا اہم کردار ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ بیداری اور بصیرت پیدا کرکے مسلمانوں کو نئی اسلامی تہذیب کے مقاصد اور نظریات سے آگاہ کریں اور اس آزاد تہذیب کی تعمیر میں اپنے اہم اور سنجیدہ کردار سے بے خبر نہ رہیں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی