اس سال یوم القدس ماضی کے تمام سالوں سے بہت مختلف صورتحال میں منعقد ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین نہ صرف عالمی سطح پر مزید ابھر کر سامنے آ چکا ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کا دائرہ بھی غزہ کی پٹی سے نکل کر فلسطین کے مرکزی علاقوں تک وسعت اختیار کر چکا ہے۔ آج مغربی کنارے میں مسلح مزاحمت آرزو نہیں رہی بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ ان تمام مثبت تبدیلیوں کی روشنی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے رہنما غاصب صہیونی رژیم کے مکمل زوال اور خاتمے کو یقینی امر قرار دے رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطین کی آزادی کیلئے فیصلہ کن ٹکراو اور حتمی فتح انتہائی قریب ہے۔
اس سال یوم القدس کے موقع پر غاصب صہیونی رژیم کو درپیش خطرہ صہیونی وزیراعظم نیفتلی بینت کے گھر کے قریب تک جا پہنچا ہے۔ اسی ہفتے منگل کے روز بینت کو ایک گولی کے ساتھ دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس کے بعد صہیونی وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ صہیونی سکیورٹی اداروں نے وزیراعظم اور اس کے اہلخانہ کی سکیورٹی مزید بڑھا دی ہے۔ وائی نیٹ نامی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق گولی سمیت دھمکی آمیز خط پر مشتمل یہ پیکٹ صہیونی وزیراعظم کے ایک قریبی رشتہ دار کو دیا گیا تھا۔ اس خط میں صہیونی وزیراعظم اور اس کے اہلخانہ کو رعنانا میں واقع ان کی رہائش گاہ میں قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ صہیونی رژیم کی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک نے اس بارے میں تحقیق شروع کر دی ہے۔
صہیونی پولیس نے اس دھمکی آمیز خط کی تفصیلات شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اس بارے میں شاباک کے تعاون سے تحقیق جاری ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی صورتحال انتہائی متزلزل اور عدم استحکام کا شکار ہو گئی ہے۔ خود صہیونی وزیراعظم نے اپنے بیانئے میں کہا ہے کہ سیاسی مقابلہ بازی جس قدر بھی شدید ہو جائے شدت پسندی کی جانب بڑھنے اور قتل کی دھمکیاں دیے جانے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہئے۔ اس کے بقول سیاسی میدان میں اختلافات ایک فطری امر ہے لیکن قتل کر دینے کی دھمکی سیاسی مقابلہ بازی میں “ناقابل قبول” امر ہے۔ دوسری طرف یوم القدس کے موقع پر مغربی کنارہ ایک آتس فشان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ عنقریب مغربی کنارہ بھی غزہ کی پٹی کی مانند تل ابیب کے مقابلے میں شدید اسلامی مزاحمت شروع کر دے گا۔ تل ابیب اور یافا کے علاقے میں فلسطینی مجاہدین کی جانب سے شہادت پسندانہ کاروائیاں انجام پانے کے بعد، جن میں کم از کم 12 صہیونی ہلاک ہو گئے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ ان مجاہدین میں سے دو افراد کا تعلق مغربی کنارے کے شہر جنین سے تھا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران صہیونی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے خاص طور پر جنین شہر میں بھرپور جارحانہ کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ کل ہی اس جارحیت کے نتیجے میں جنین کیمپ میں ایک 18 سالہ فلسطینی جوان شہید ہوا ہے جبکہ 4 دیگر جوان زخمی ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والے جوان کا نام احمد مساد تھا اور وہ جنین کے قصبے برقین کا رہائشی تھا۔
منگل کی رات خطے میں اسلامی مزاحمت کے 11 قائدین نے “منبر قدس” نامی سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔ تمام رہنماوں کی تقاریر کا مرکزی نکتہ عنقریب غاصب صہیونی رژیم کے زوال کا یقینی ہونا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس اجلاس کو “محور قدس” کا نام دیتے ہوئے کہا: “آج غزہ میں قدس شریف کی ایک شمشیر موجود ہے جو اس کا دفاع کر رہی ہے جیسا کہ گذشتہ برس سیف القدس معرکہ رونما ہوا ہے۔” اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا: “ہم حتمی فتح تک ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گے اور سازباز نہیں کریں گے۔” انہوں نے مزید کہا: “سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سربراہ شہید قاسم سلیمانی شہید قدس تھے۔”
انصاراللہ یمن کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے بھی اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کے وجود کو چند دن کا مہمان قرار دیا اور کہا کہ اس رژیم کا خاتمہ یقینی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے واضح، اصولی اور دینی موقف پر ثابت قدم رہیں گے اور ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرتے رہیں گے۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے اور فلسطین کے مرکزی حصوں میں اسلامی مزاحمتی کاروائیاں اس اہم حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ فلسطینی عوام اسلامی مزاحمت کا انتخاب کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اپنی پوری طاقت سے اسلامی مزاحمت اور عرب دنیا خاص طور پر فلسطین میں جاری مزاحمت کی حمایت کر رہا ہے۔
تحریر: علی احمدی