اسلامی مزاحمت کی بڑھتی ڈرون طاقت اور صہیونی رژیم کی بے بسی

Rate this item
(0 votes)
اسلامی مزاحمت کی بڑھتی ڈرون طاقت اور صہیونی رژیم کی بے بسی

غاصب صہیونی رژیم کے خلاف برسرپیکار قوتوں پر مشتمل اسلامی مزاحمتی بلاک خطے کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی قوتوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار پتھر تھا۔ دھیرے دھیرے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک طاقتور ہونے کے نتیجے میں فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آج فلسطینی مزاحمتی گروہ جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائل اور مختلف قسم کے ڈرون طیارے شامل ہیں۔ حال ہی میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ "سرایا القدس" نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ متعارف کروایا ہے جس کا نام "جنین" رکھا گیا ہے۔ حماس کا دعوی ہے کہ یہ ڈرون طیارہ مکمل طور پر مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے۔
 
اس ڈرون طیارے کی نقاب گشائی کے بعد غزہ میں "القسام بریگیڈز" کے بعد سرایا القدس دوسری بڑی ڈرون طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب اسے مستقبل کی ممکنہ جنگوں میں اسلامی مزاحمت کی میزائل طاقت کے ساتھ ساتھ ڈرون طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ برس بھی سیف القدس معرکے میں اسلامی مزاحمت نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود یہ ڈرون طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن اس کے باوجود صہیونی دشمن کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کے سکیورٹی نظام کو شدید چیلنجز سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
 
العربی الجدید نیوز ویب سائٹ نے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود ڈرون طیاروں کی تیاری کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: "اگرچہ گذشتہ برس سیف القدس معرکے کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف ان ڈرون طیاروں کا بھرپور استعمال کیا تھا لیکن اسلامی مزاحمت کی جانب سے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ 2006ء سے شروع ہوا۔ اس سال حماس نے ڈرون طیاروں کی تیاری کیلئے پہلا قدم اٹھایا۔ 2008ء میں فلسطینی انجینئرز کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کی سربراہی تیونس کے شہری محمد الزواری کر رہے تھے۔ یہ ٹیم فلسطین سے باہر رہ کر 30 ڈرون طیارے تیار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2016ء میں صہیونی جاسوسی ادارے موساد نے تیونس کے انجینئر محمد الزواری کو صفاقس میں واقع ان کے گھر کے سامنے شہید کر ڈالا۔"
 
العربی الجدید اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "فلسطینی سرزمین کے اندر تیار ہونے والے پہلے ڈرون طیارے کا نام "ابابیل" تھا۔ یہ ڈرون طیارہ 2014ء میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جنگ میں بروئے کار لایا گیا۔ اس سال القسام بریگیڈز نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ اس کے پاس تین ابابیل ڈرون طیارے کے تین مختلف ماڈل موجود ہیں۔ ایک ماڈل جارحانہ، دوسرا خودکش اور تیسرا جاسوسی مقاصد کیلئے ہے۔ حماس کی جانب سے اس سال جو خبر دنیا والوں کی حیرت کا باعث بنی وہ "الکریاہ" میں واقع غاصب صہیونی رژیم کی وزارت جنگ کی عمارت کو کامیابی سے اس ڈرون طیارے سے نشانہ بنانا تھا۔ اسلامی مزاحمت نے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حالیہ سیف القدس معرکے میں بھی القسام بٹالینز نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ تیار کرنے کا اعلان کیا جس کا نام "شہاب" ہے۔"
 
شہاب ڈرون طیاروں کے ذریعے اسلامی مزاحمت نے مختلف کاروائیاں انجام دی ہیں جن میں سے النقب صحرا میں "نیر عوز" قصبے میں صہیونی آئل ریفائنری پر حملہ قابل ذکر ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق شہاب ڈرون طیارہ، ابابیل ڈرون طیارے سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ ڈرون طیارہ دشمن کے دفاعی نظام اور ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہاب ڈرون طیارے کی تیاری کے کل اخراجات صرف 300 ڈالر ہیں جس کی بدولت ضرورت پڑنے پر ایسے ہزاروں ڈرون طیارے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے صہیونی رژیم سے وابستہ سکیورٹی ذرائع نے اس بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ ممکن ہے اسلامی مزاحمت کے پاس ایسے سینکڑوں ڈرون طیارے موجود ہو سکتے ہیں۔
 
غاصب صہیونی رژیم اور خطے کے امور کے ماہر مصنف اور تجزیہ نگار حسن لافی اس بارے میں کہتے ہیں: "غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شدید فضائی دفاعی اقدامات کی بدولت اسلامی مزاحمت کے پاس ترقی یافتہ ڈرون طیاروں کی موجودگی فوجی میدان میں ایک اہم پیشرفت جانی جاتی ہے۔ اس بارے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت ان ڈرون طیاروں کو مقامی سطح پر ہی تیار کر رہی ہے اور خود فلسطینی جوان ان کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یوں یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے فوجی شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز کی جانب گامزن ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر غاصب صہیونی رژیم کی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کا عزم کر چکی ہے۔"

تحریر: علی احمدی

Read 375 times