سحر نیوز/ ایران: ایک اسرائیلی ویب سائٹ نے ایرانی ڈرون سٹی کی نقاب کشائی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ ایران ڈرون طیاروں کی تعیناتی اور پیداوار کی اپنی صلاحیت بڑھا رہا ہے اور اس نے پہلے ہی حملہ روکنے کی صلاحیت کو فروغ دے دیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، جیوش نیوز سنڈیکیٹ (جے این ایس) نے زاگروس کے پہاڑوں کے دل میں ایرانی ڈرون سٹی کی نقاب کشائی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ ایران ڈرون طیاروں کی تعیناتی اور پیداوار کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار لکھتا ہے کہ تہران سٹیک ہتھیاروں، لانچ پیڈ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے نظام پر کام کر رہا ہے، یہ سب غیر متناسب جنگ کے نظریے کا حصہ ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے ایرانی حکام کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اصرار کیا ہے کہ کچھ ایرانی ڈرون ماڈل گزشتہ سال مقبوضہ فلسطین میں بھیجے گئے تھے اور ان کا مقصد صیہونی حکومت کے خلاف "قبل از وقت حملہ" کرنا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ سے سیکھے گئے اسباق کی مدد سے یہ صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔
صہیونی میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایران یمن، لبنان، شام اور عراق میں مزاحمتی گروہوں کو ڈرون برآمد کرتا رہتا ہے اور ڈرون، میزائل، کروز میزائل اور جنگی کشتیوں کے استعمال کے ایک اہم میدان کے طور سعودی عرب اور خلیج فارس کے بعض دیگر کے خلاف پر یمن کو استعمامل کر رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کا دعوی ہے کہ ایران نے ابابیل-2 ڈرون تیار کرنے کے لیے تاجکستان میں ایک ڈرون پلانٹک کا افتتاح کیا ہے جو ایران ایئرکرافٹ انڈسٹریل کمپنی کا نتیجہ ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے ایرانی ڈرون سٹی کے بارے میں لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں طاقت کے اظہار کے ایک حصے کے طور پر اور حالیہ سیکورٹی واقعات بشمول قتل و غارت گری اور پراسرار دھماکوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے، قومی ٹیلی ویژن پر خفیہ ڈرون طیاروں کے اڈے کی رپورٹ نشر کی کہ یہ خفیہ اڈہ مغربی ایران کے صوبہ کرمانشاہ میں واقع ہے جو عراق کی سرحد پر ہے اور ڈرون طیاروں کو اس جگہ سے مقبوضہ علاقوں میں بھیجنے کی تیار پوزیشن میں رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف "محمد حسین باقری نے جو ڈرون طیاروں کی رپورٹ نشر ہونے کے وقت وہاں موجود تھے، کہا کہ دشمن کے سامنے حملے سے پہلے ہی حملہ کرنے کے لئے قدیمی ہتھیاورں کو چھوڑ کر نئے ہتھیاروں اور جدید و نئے جنگی طریقون کی ضرورت ہوتی ہےاور یہ بات یوکرین، عراق اور شام کی لڑائیوں میں ثابت ہو چکی ہے۔