میدانِ مشرق وسطیٰ میں ایران اور چین کیساتھ محاذ آرائی میں امریکہ کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ میں کہیں سے بھی امریکی صدر کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں ملا۔ جو بائیڈن کو سعودی عرب سے بڑی اُمیدیں تھیں، مگر شائد سعودی قیادت زمینی حقائق اور امریکہ کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے آشنا ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار امریکہ کا عربوں کو ایران سے ڈرانے کا "چورن" فروخت نہیں ہوا۔ ایک ماہ بعد جو بائیڈن کے دورہ مشرقِ وسطیٰ کی ناکامی کے چرچے ابھی تک چینی میڈیا میں ہیں۔ جو بائیڈن کے اس ناکام دورے سے ایک چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ جہاں عربوں کو ایران اور چین کی دفاعی قوت سے ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کیا کرتا تھا، اب اس بار جو بائیڈن کا یہ ڈرامہ "فلاپ" ہوگیا ہے اور اس بار پہلی مرتبہ عربوں نے امریکی مشورے پر ایران سے ڈرنے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکہ کے کچھ مطالبات ایسے تھے، جن سے اس کی مفاد پرستی بے نقاب ہوئی۔ مثال کے طور پر امریکہ تیل کے بحران سے دوچار ہے اور سعودی عرب نے امریکی مطالبے پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، جو امریکہ کی ناکامی ہے۔ چینی تجزیہ کار تو اسے امریکہ کی خود غرضی اور منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ روکنے اور ریاض کو تیل کی پیدوار بڑھانے کیلئے آمادہ کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور امریکی صدر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن بہت سی امیدیں لے کر دورے پر آیا تھا، مگر اسے اس دورے نے اپنی حیثیت کا احساس دلا دیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ کی مشرق وسطیٰ کیلئے پالیسی خطے کی بہتری کیلئے نہیں، بلکہ انتشار پھیلانے کی پالیسی ہے۔
امریکہ کی کوشش تھی کہ خطے میں چین کے مخالفین پیدا کئے جائیں، لیکن اس میں امریکہ کو اس لئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، چین کسی ملک کی رجیم جینج کیلئے سازشوں کے جال نہیں بنتا، چین اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے جنگیں کاشت نہیں کرتا۔ چین کسی ملک سے اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کا تقاضا نہیں کرتا، چین ہمیشہ دو طرفہ مفادات کے معاہدے کرتا ہے، اگر کسی ملک سے فائدہ لیتا ہے تو اس ملک کو فائدہ پہنچاتا بھی ہے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر اقتصادی پابندی لگا کر وہاں کے عوام پر عرصہ حیات تنگ نہیں کیا۔ جب جو بائیڈن ریاض میں بیٹھ کر چین اور ایران کیخلاف لفظی گولہ باری میں مصروف تھا، عین اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی عرب نے واضح پیغام دیدیا کہ جتنا احترام ہم امریکہ کو دیتے ہیں، اتنا ہی چین کو بھی دیتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یو اے ای بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے پچھتا رہا ہے۔ یو اے ای کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایران کیساتھ کشیدگی کم کرنا اور اقتصادی امور میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ یو اے ای کو احساس ہوا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرکے، یہاں اسرائیلی مراکز بنا کر انہوں نے اپنی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔ جس پر اب یو اے ای کے حکام نادم بھی ہیں اور پریشان بھی۔ یو اے ای چاہ رہا ہے کہ ایران کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ملے تو وہ اس سے استفادے کیلئے تیار ہے۔ یو اے ای ایران کیساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرنا چاہتا ہے اور انور قرقاش نے اس انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایران کیخلاف خطے میں بننے والے کسی مخالف بلاک یا اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یو اے ای کی جانب سے یہ ایک اشارہ تھا کہ اس کا جھکاو اب ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کچھ سعودی عرب میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔
امریکہ اس وقت چین کے خوف کا شکار ہے، چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں اور ایران کیساتھ بیجنگ کی قربتوں نے واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مغربی ماہرین امور خارجہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے کبھی روس کو یوکرائن سے لڑاتا ہے تو کبھی چین کے مدِمقابل تائیوان کو ہلہ شیری دیتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین کو خطے میں ہی مصروف کر دے۔ مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی سامراجی سوچ کا سورج اب غروب ہونیوالا ہے۔ چین دفاع سمیت کئی شعبوں میں امریکہ پر غلبہ حاصل کرچکا ہے، جبکہ امریکہ کی اقتصادی پابندیاں روس اور ایران کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں، بلکہ دونوں ملک ماضی کی نسبت زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔ ایران، روس اور چین امریکی سازشوں کے باوجود معاشی طور پر مستحکم ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں مہنگائی، بے روز گاری اور کساد بازاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ جن ملکوں کو تنہا کرنے چلا تھا، وہ آج بھی مستحکم ہیں، کویت نے چھ سال بعد ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ عراق اور شام بھی ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ روس کیساتھ بھی ایران کے تعلقات مضبوط ہیں اور چین بھی اس ساری صورتحال میں اہم کھلاڑی ہے۔ یہ بلاک مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ کمزور اور تنہا ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ظلم کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ دنیا اب سازشوں اور سامراجیت کے چُنگل سے آزاد ہو رہی ہے۔ سویرا بہت قریب ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد