ایک صدی تباہی اور فساد کا اختتام

Rate this item
(0 votes)
ایک صدی تباہی اور فساد کا اختتام

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ان کی ستر سالہ سلطنت ایسے مختلف انسان سوز اور مجرمانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے جو ان کے یا ان کے ماتحت افراد کے حکم پر دنیا بھر کے مختلف مقامات پر انجام پاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے وقت اقتدار سنبھالا جب دنیا میں برطانیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ایران میں تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو قومیانے کی تحریک تھی۔ ایرانی قوم خدا کی جانب سے عطا کردہ حق یعنی تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو بوڑھی لومڑی برطانیہ کے تسلط سے آزاد کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ملکہ الزبتھ دوم کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ہی ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹس نے امریکی حکام کے تعاون سے ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے بغاوت کی منصوبہ بندی انجام دی۔
 
ایران میں یہ جمہوری حکومت ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں برسراقتدار تھی اور امریکہ اور برطانیہ کی نظر میں اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ملک میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو قومیانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19 اگست 1953ء کو انجام پانے والی اس بغاوت کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں برطانیہ اور امریکہ کو ایرانی تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے مزید 25 برس کا موقع میسر ہو گیا۔ جب برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کی فرمانروائی کا دور شروع ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں برطانیہ کی معیشت تباہ حال ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے مجبور ہو کر استعماری طاقت کا ایک حصہ امریکہ کے سپرد کر دیا۔ اگرچہ اس عرصے میں برطانیہ بتدریج اپنی کالونیاں کھوتا چلا گیا لیکن اس نے اپنا اثرورسوخ ہر گز کم نہیں ہونے دیا۔
 
ایسی صورتحال میں برطانیہ نے عالمی سیاست کے میدان میں درپردہ رہ کر بالواسطہ طور پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا لی۔ اگرچہ برطانیہ بظاہر سویز کے اکثر مشرقی حصوں سے دستبردار ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی برطانیہ کی ان گذشتہ کالونیوں میں برطانوی حکومت کی مرضی کے بغیر اہم فیصلہ جات انجام نہیں پاتے تھے۔ عملی طور پر "دولت مشترکہ ممالک" یا Commonwealth countries وہ کوڈ ورڈ تھا جو ملکہ برطانیہ کے استعماری تسلط کیلئے بروئے کار لایا جاتا تھا۔ جس جگہ بھی حریت پسند انسان بوڑھی لومڑی برطانیہ کے اثرورسوخ کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتے تھے انہیں ملکہ برطانیہ کی مسلح افواج کی جانب سے آہنی ہاتھ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ 1960ء کے عشرے میں یمن کے انقلابی عوام نے آبنائے باب المندب پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی حکومت حرکت میں آ گئی اور انقلابی عناصر کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع ہو گیا۔
 
یمن میں انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے ٹارچر سیل تشکیل دیے گئے۔ انقلابیوں کو برہنہ کر کے فریزر والے کمروں میں ڈال دیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد ٹی بی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ قیدیوں کے جسم کو سگریٹ سے جلانا، انہیں برہنہ کر کے نیزے پر بٹھانا، ان سے جنسی زیادتی انجام دینا وغیرہ وہ انسان سوز جرائم تھے جو ملکہ الزبتھ دوم کی زیر نگرانی انجام پاتے تھے۔ سمندر کے اس پار کینیا وہ ملک تھا جس کی عوام نے اپنے قدرتی ذخائر پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی وہاں انقلابی تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ برطانوی استعمار نے محض انقلاب کے خوف سے 15 لاکھ افراد کو بیگاری کے کیمپوں میں قیدی بنا دیا۔ ان کیمپوں میں کینیائی عوام سے زبردستی موت کی حد تک مزدوری کروائی جاتی تھی۔
 
بیگار کیمپوں میں قید افراد کی بڑی تعداد شدید حالات کو برداشت نہ کر سکی اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بڑی تعداد میں مزدوروں کو برطانوی گماشتوں نے سزائے موت دے دی۔ تاریخی دستاویزات میں بیماری کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد 2 ہزار ذکر کی گئی ہے جبکہ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی لاکھ افراد کو برطانوی گماشتوں نے قتل کر دیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد برطانیہ نے محسوس کیا کہ ایران اس کے اثرورسوخ سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ لہذا ایران کے انقلابی اور مسلمان عوام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کا آغاز کر دیا۔ ملکہ برطانیہ کے گماشتوں کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ صرف ایشیا اور افریقہ تک محدود نہیں بلکہ برطانوی تسلط کے خلاف اٹھنے والے یورپی عوام بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں تھے۔
 
1970ء سے 2000ء تک شمالی آئرلینڈ میں ملکہ برطانیہ کے سپاہیوں نے تین سو سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا۔ یہ سب عام شہری تھے اور برطانوی فوجیوں کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھے۔ قتل ہونے والے افراد میں کیتھولک پادری، بوڑھی خواتین، بچے اور حتی بچیاں تک شامل تھیں۔ بعد میں ان تمام برطانوی سپاہیوں کو ملکہ برطانیہ نے معاف کر دیا۔ 1955ء سے 1959ء کے درمیان جزیرہ قبرص میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برطانوی فوجیوں نے 3 ہزار سے زائد شہریوں کو قید کر کے شدید ترین ٹارچر کا نشانہ بنایا۔ پکڑے جانے والے افراد کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اور ملکہ برطانیہ کے گماشتے جس پر شک کرتے اسے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی بن گیا اور مغربی ایشیا میں فوجی جارحیت کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

تحریر: محمد جواد اخوان

Read 336 times