شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت اور اسکی اہمیت

Rate this item
(0 votes)
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت اور اسکی اہمیت
 
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد چین، روس، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور قازقستان نے جون 2001ء میں رکھی تھی۔ اس تنظیم کی تشکیل اس مذاکراتی سلسلے کا نتیجہ تھا جو 26 اپریل 1996ء میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان شروع ہوا اور اس کا مقصد اپنی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور باہمی اعتماد قائم کرنا تھا۔ چونکہ پہلی نشست چین کے شہر شنگھائی میں منعقد ہوئی لہذا اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آغاز سے ہی اس تنظیم میں شمولیت کی کوششیں شروع کر دیں جن کے نتیجے میں 2005ء میں ایران کو ناظر کی حیثیت سے اس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ اسی سال پاکستان، انڈیا اور افغانستان کو بھی ناظر رکن کی حیثیت سے تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا موقع دیا گیا۔
 
2017ء میں پاکستان اور انڈیا کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت عطا کر دی گئی جبکہ 16 ستمبر 2022ء کے دن ایران کو بھی مستقل رکن کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ یوں اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم 9 مستقل اراکین پر مشتمل ہے یعنی ایران، پاکستان، انڈیا، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان۔ دوسری طرف تین ممالک افغانستان، بیلارس اور منگولیہ ناظر رکن جبکہ چھ ممالک آذربائیجان، آرمینیا، کیمبوج، نیپال، ترکی اور سری لنگا مذاکرات میں شریک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے مختلف پہلووں سے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتوں نے گذشتہ چالیس برس سے ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری طرف خطے اور دنیا کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں بھی یہ رکنیت اہم ہے۔
 
1)۔ امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر فوجی تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کا مقصد فوجی میدان کے علاوہ سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں باہمی تعاون کو فروغ دے کر خطے میں امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ ایسی چند محدود تنظیموں میں سے ایک ہے جس کی تشکیل، مدیریت، فیصلہ سازی اور اراکین میں مغربی ممالک کا کوئی عمل دخل شامل نہیں ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہی مغرب اور اس سے وابستہ اداروں جیسے نیٹو کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم نے 2005ء میں امریکہ کی جانب سے رکنیت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ یہ چیز سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے متعلق اس تنظیم کے رکن ممالک کی وسیع نگاہ کو ظاہر کرتی ہے۔
 
2)۔ دنیا میں سب سے زیادہ انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے والے ممالک
شنگھائی تعاون کونسل کے رکن اور ناظر ممالک دنیا میں انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔ لہذا یہ تنظیم دنیا بھر میں انرجی کی برآمدات اور درآمدات کیلئے رکن ممالک کے درمیان گہرا تعاون قائم کر سکتی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر انرجی کی قیمت اور منڈی پر بھی بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن کی حیثیت سے تیل اور گیس کی برآمد سے متعلق بہت زیادہ فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے ایران بہت آسانی سے اپنا تیل اور گیس عالمی منڈی میں فروخت کر کے زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ البتہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں کچھ حد تک رکاوٹ ضرور بن سکتی ہیں۔
 
3)۔ دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ان ممالک کا کل رقبہ دنیا میں موجود خشکی کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ یہ امور اقتصادی لحاظ سے عالمی سطح پر بہت بڑی منڈی تشکیل دیتے ہیں جس کی بدولت رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے وسیع افق ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں آبادی اور رقبے کی یہ صلاحیت عالمی سطح پر موجود طاقت کی مساواتیں تبدیل کر کے طاقت کا توازن برقرار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اس کی تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس وقت مشرقی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کی تجارت بہت کم سطح پر ہے۔
 
4)۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ایران کی رکنیت کی تسہیل
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت کا ایک اور بڑا فائدہ عالمی تجارت کی تنظیم ڈبلیو ٹی او میں مستقل رکنیت کی راہ ہموار ہو جانا ہے۔ ایران گذشتہ طویل عرصے سے اس تنظیم میں شامل ہونا چاہتا ہے جبکہ اب تک اسے صرف ناظر کی حیثیت سے ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ اس تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کرنے میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف ڈبلیو ٹی او کے کچھ قوانین ایران میں موجود اقتصادی ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب جبکہ ایران شنگھائی تعاون کونسل کا مستقل رکن بن چکا ہے یقیناً اس کا اقتصادی انفرااسٹرکچر بھی ترقی کرے گا اور دھیرے دھیرے ڈبلیو ٹی او میں رکنیت کا زمینہ بھی فراہم ہو جائے گا۔ 
 
 
 
Read 344 times