سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد جنوبی قفقاز خطے میں تین خودمختار ریاستیں، جمہوریہ آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا ابھر کر سامنے آئیں۔ ان تین ریاستوں کے قیام کے باوجود جنوبی قفقاز خطہ ہمسایہ ممالک ایران، ترکی اور روس سے تعلقات اور خطے کی سلامتی سے متعلق عالمی سطح پر ایک جیسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ سیاست میں جنوبی قفقاز خطہ تین مختلف سطح پر توجہ کا مرکز ہے:
1)۔ دوطرفہ تعلقات: اس میدان میں ایران اس خطے کی تینوں ممالک یعنی آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جنوبی قفقاز کے دو ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کی ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد بھی پائی جاتی ہے۔
2)۔ علاقائی تعلقات: مذکورہ بالا تین ممالک سے ایران کے تعلقات خطے کی سطح پر جاری مقابلہ بازیوں اور اہم واقعات سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان مقابلہ بازیوں کے نتائج صرف جنوبی قفقاز خطے کے ممالک تک محدود نہیں بلکہ وہ ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور مفادات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ مذہب، قومیت، قرہ باغ جیسے علاقائی تنازعات اور بحران، اوستیا، آبخازیا اور چچنیا کے علاوہ بحیرہ کیسپین کے قانونی مسائل، تجارت، انرجی کی مصنوعات، تیل اور گیس کی سپلائی لائنیں، ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورکس، ٹرانزٹ، بجلی کی لائنیں اور ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ ایسے شعبے ہیں جو دوطرفہ تعلقات میں اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود خطے کی سطح پر جاری حالات و واقعات سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
3)۔ عالمی سیاست: قفقاز خطہ، براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان پل کی طرح ہے۔ یہ خطہ اسلامی اور مسیحی ممالک کا ملاپ تصور کیا جاتا ہے جو ثقافتی اور تہذیب و تمدن کی نگاہ سے بھی دو مختلف انسانی تہذیبوں کی مشترکہ سرحد سمجھا جاتا ہے۔ قفقاز خطے سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی اس اہم خصوصیت سے بھی متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا تین قسم کی حکمت عملی یعنی اسلام پسندی، ایٹلنٹک پسندی اور یوریشیا پسندی کے علاوہ اس تناظر میں تشکیل پانے والے اتحادوں نے بھی ایران کیلئے اس سطح کی اہمیت دو چندان کر دی ہے۔
جنوبی قفقاز خطے میں آزربائیجان اقتصادی اور فوجی لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف آرمینیا کو روس کی فوجی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی پائے جاتے ہیں۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان موجود تنازعات کے حل کیلئے مختلف راہ حل پیش کئے گئے ہیں۔ اس بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جو راہ حل پیش کیا ہے وہ کسی کی ثالثی کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان گفتگو اور مذاکرات انجام پانے پر مشتمل ہے۔ گذشتہ 28 برس میں جمہوریہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مستقل امن کیلئے کئی پرامن راہ حل سامنے آئے ہیں جن میں سے بعض دونوں جانب سے قبول بھی کئے گئے تھے لیکن شدت پسند عناصر کی مداخلت کے نتیجے میں ان پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ایسا ہی ایک راہ حل قرہ باغ کو جمہوریہ آذربائیجان کی زیر سرپرستی فیڈریشن کی صورت میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری عطا کرنے پر مبنی تھا۔ یہ راہ حل حیدر علی اف اور لئون ٹرپٹروسیان کے زمانے میں انتہائی پرامید دکھائی دیا لیکن آرمینیا میں رونما ہونے والے بعض واقعات نے اسے ناکام بنا دیا۔
دوسری طرف بعض علاقائی اور عالمی طاقتیں جنوبی قفقاز میں موجود اس متنازعہ فضا کو اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جنوبی قفقاز کا خطہ ایک چھوٹا سا خطہ ہے جہاں بڑے پیمانے پر جنگ اور تباہی پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک میں ایسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو سرحدی تنازعات کو سیاسی ایشو بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔ اسی طرح علاقائی اور عالمی سطح پر اسلحہ کے ڈیلرز بھی خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں چھوٹی سے چنگاری فورا پراکسی جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ 2008ء میں بھی قفقاز خطے میں امریکہ کے اشتعال انگیز سرگرمیاں روس اور جارجیا کے درمیان جنگ کا باعث بنی تھیں۔ ایسے حالات مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کے علاوہ خطے کو سکیورٹی بحران سے روبرو کر دیتے ہیں جس کا اثر سب سے زیادہ ہمسایہ ممالک پر پڑتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بیرونی طاقتوں کی جانب سے جنوبی قفقاز خطے میں اشتعال آمیز سرگرمیوں کو بے اثر کر کے جنگ جیسی صورتحال پیدا نہ ہونے دے۔ ایران ماضی میں یعقوب محمد اف اور ٹرپٹروسیان کے دور میں کامیابی سے ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔ اسی طرح جب آرمینیا نے آذربائیجان کی سرحدوں میں پیشقدمی شروع کی تو حیدر علی اف کی درخواست پر ایران نے آذربائیجان کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ 1994ء میں جب مینسک گروپ نے راہ حل پیش کیا تو آذربائیجان اور آرمینیا دونوں نے اس مسئلے کو فریز کر دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح آذربائیجان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر رسول قلی اف نے ایرانی حکام کو خط لکھ کر ایران کے کردار کی قدردانی کی اور ایرانی مشیروں کو واپس بلانے کی درخواست کی۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایران نے یہ اصول موقف اپنا رکھا ہے کہ قرہ باغ تنازعہ گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
تحریر: علی رضا بیکدلی