سحر نیوز/ دنیا: علاقے میں اسرائیل کی فوجی ترجیح اس وقت پوری طرح سے ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت تک خود اسرائیلی قبضے والے علاقوں میں حالات اتنے بے قابو ہو چکے ہيں کہ صیہونی اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں جبکہ عالمی سطح پر بھی انہیں اپنے وجود کو باضابطہ قبول کروانے کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس پوری مدت میں فلسطینیوں نے اپنے مطالبات نہیں چھوڑے ہيں بلکہ ان کی مزاحمت بدستور تیز ہوتی جا رہی ہے۔
اگر اسرائیل کے قیام کے اہداف پر نظر ڈالی جائے اور اس کی آج کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو صاف ہو جائے گا کہ سیاسی، اجتماعی پہلوؤں اور آبادی کی سطح پر اس کے سامنے شدید بحران ہے اور اس کا وجود پوری طرح سے خطرے میں ہے۔
اسرائیل کے قیام کا پہلا ہدف یہ تھا کہ یہودیوں کا ایک بڑا ملک بنے جو مشرق وسطی کے علاقے کی سپر پاور ہو۔ مگر آج غور کیجئے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں سے زیادہ تر اہداف ناقص رہ گئے ہیں، اسرائیل اپنی مرضی سے اپنی سرحدوں کا تعین نہیں کر پا رہا ہے جبکہ اس درمیان اس کے سامنے آبادی کا بڑا بحران کھڑا ہوا ہے۔
اس وقت اسرائیل جغرافیائی طور پر محاصرے میں ہے جس کے نتیجے میں وہ توسیع پسندانہ اسٹراٹیجی دیوار سے لگانے پر مجبور ہے۔ چالیس لاکھ فلسطینیوں کی آبادی اب بھی فلسطینی علاقوں میں بستی ہے۔
اسرائیل ان سے نجات پانے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تاہم ناکام رہا۔ ان فلسطینیوں کی مزاحمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکا کی نگرانی میں کچھ عرب حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے بھی ہو گئے ہیںن تاہم علاقے پر تسلط قائم کرنے کا اس کا خواب آج بھی مکمل نہيں ہوا ہے۔
علاقے میں فوجی تسلط اور ترجیح بنائے رکھنا، اسرائیل کا اہم ہدف تھا وہ اپنے مخالفین کی سرحدوں کے اندر جنگوںن کو لے جانا چاہتا تھا تاہم اب اپنے قبضے والے علاقے میں جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔
اسرائیل کی یہ کوشش تھی کہ دنیا بھر سے یہودی مہاجرت کرکے فلسطینی علاقوں میں آ جائیں تاہم سب کچھ برعکس ہو گیا اب تو فلسطینی علاقوں میں آکر بسے اسرائیلی وہاں سے واپس جانے لگے ہيں۔
اسرائیلی معاشرے میں تقسیم بہت شدید ہو گئی ہے اور پوری کمیونیٹی پوری طرح سے تقسیم ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی ہوم لینڈ سیکورٹی کے ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار نے کہا کہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ اسرائیلی معاشرے میں بہت بری طرح اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔
ان حالات کی وجہ سے اسرائیلی رہنماؤں نے اب اسٹراٹیجی اہداف کے بارے میں بات کرنا بند کر دیا ہے۔ اب ان کی نظر فرعی اور چھوٹے اہداف پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلیوں پر ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔