فلسطین نے ورلڈ کپ جیت لیا

Rate this item
(0 votes)
فلسطین نے ورلڈ کپ جیت لیا


قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ 2022ء کے فائنل مقابلے میں ارجنٹینا نے فرانس کو ایک دلچسپ مقابلے میں شکست دے دی اور یوں قطر میں منعقدہ فٹبال ورلڈ کپ 2022ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران قطر کے عوام، خطے کے مسلمانوں اور یہاں تک کہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام نے ورلڈ کپ 2022ء کے دوران فلسطین کے لیے  جس حمایت کا اظہار کیا، وہ مدتوں تک یادگار رہے گا۔ "فلسطین نے ورلڈ کپ جیت لیا" یہ وہ جملہ ہے، جو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران عرب دنیا کے سوشل نیٹ ورکس میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ سوشل میڈیا نے فلسطین کو 2022ء کے قطر ورلڈ کپ کے چیمپئن کے طور پر اعلان کیا ہے۔ اگر آپ ورلڈ کپ سے متعلق خبریں دیکھتے اور سنتے رہے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ فلسطین سے تھوڑی دور قطر میں  ورلڈ کپ کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جنہوں نے صیہونیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔

انگریزی اخبار گارجین کے مطابق اگرچہ اسرائیل اور فلسطین نے قطر ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کی، تاہم قطر میں فلسطین کی نمایاں موجودگی بہت ہی واضح تھی۔ درحقیقت 2022ء کے ورلڈ کپ نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو دنیا کے اہم ترین کھیلوں کے مقابلوں میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کی ویب سائٹ کے مطابق فلسطینی پرچم ایک ایسی علامت بن گیا ہے، جو 2022ء ورلڈ کپ کی سرگرمیوں کے دوران ایک مضبوط موجودگی کا حامل رہا ہے اور عرب ٹیموں کے شائقین اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لہرانے کے لیے ہر وقت تیار نظر آئے۔ تیونس، سعودی عرب اور الجزائر کے شائقین نے میچوں میں فلسطینی پرچم نمایاں طور پر اٹھا رکھے تھے اور انہیں اسکارف اور مفلر کے طور پر پہنا تھا۔ ان حامیوں نے یہ نعرے لگائے: "ہم فلسطین پر اپنی جانوں اور خون کو قربان کرتے ہیں۔"

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عرب شائقین کی جانب سے ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے قطر جانے والے اسرائیلی صحافیوں سے گفتگو کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، جن میں اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کیا گیا۔ ان شائقین کی کہانی ورلڈ کپ کے آغاز سے کچھ دیر پہلے شروع ہوئی تھی، جس میں "ورلڈ کپ میں فلسطین" مہم کا آغاز ہوا۔ اسٹیڈیم میں فلسطینی کاز سے محبت کرنے والوں کی طرف سے ٹی شرٹس اور جھنڈے تقسیم کرنے اور تماشائیوں کے اسٹینڈز میں "فلسطینی نعرے لگانے جیسی چیزوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ قطر میں 2022ء کے عالمی کپ کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی کوششوں کے بارے میں بین الاقوامی بیداری بڑھانے کے مقصد سے سوشل میڈیا پر کئی مہمیں چلائی گئیں، جس میں درجنوں ممالک کے شائقین کو اکٹھا کیا گیا۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے لئے اشتہارات اور پوسٹر ڈیزائن کئے گئے، ان اشتہارات کا عنوان تھا "آپ ورلڈ کپ میں فلسطین کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟" ان اشتہارات کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جس میں فلسطینی پرچم کے ساتھ اسکارف اور فلسطین کے پرچم کے رنگوں کے کپڑوں کے استعمال کی تجاویز بھی دی گئی تھیں۔، اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی پرچم کے رنگوں پر مشتمل ایک بڑا رومال اور مفلر بھی شامل تھا۔ اس مہم میں عرب عوام اور قطر کے ورلڈ کپ کے شائقین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسٹیڈیم کے اردگرد سیڑھیوں، پلیٹ فارمز، میدانوں اور مختلف ٹیموں کے اجتماع کی جگہ پر فلسطین کے لیے حمایت کا اظہار کریں۔ "عالمی کپ میں #Palestine" کا ہیشٹیگ بھی عام تھا۔ "آزاد فلسطین" اور "قدس العربی" کا نعرہ  بھی اکثر کی زبان پر تھا۔ فلسطین آزاد کرو کے موضوعات والے بینرز کی تقسیم بھی نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ اس کے علاوہ شرکاء سے کہا گیا کہ وہ ورلڈ کپ میں فلسطین کے لیے اپنی حمایتی سرگرمیوں کی فلمیں اور دستاویزی پروگرام سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔

فلسطین کی حمایت میں ایک غیر معمولی علامتی اقدام میں، تیونس کے شائقین نے 26 نومبر کو آسٹریلیا کے خلاف تیونس کی قومی ٹیم کے میچ کے 48 ویں منٹ میں فلسطینی پرچم بلند کرکے 1948ء کے سانحے کی یاد منائی۔ مراکشی شائقین نے بھی کروشیا کے خلاف اپنی قومی ٹیم کے میچ کو انصاف کے حصول اور "شیرین ابو عاقلہ" کی شہادت کی یاد منانے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ "شیرین ابو عاقلہ" ایک فلسطینی صحافی تھیں، جسے اس سال کے شروع میں جنین پر اسرائیلی فوجی حملے کی کوریج کرتے ہوئے صہیونیوں نے شہید کر دیا تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران، فٹ بال کے شائقین نے "نو ٹو نارملائزیشن" کے تھیم والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور "شیرین ابو عاقلہ" کی تصویر کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ بلاشبہ یہ اقدامات صرف عرب اور فلسطینی شائقین کے لیے نہیں تھے بلکہ غیر عرب اور اسلامی ممالک کے شائقین نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کی۔

قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران فلسطینی قوم کی حمایت کے حوالے سے جو واقعات دیکھے گئے۔ یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے، اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ صیہونیوں کی کھل کر مخالفت ہے۔ اس قابض صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینی زمینوں پر قبضے پر عوامی بیزاری کا اعلان بھی اس موقع پر پوری طرح سامنے آیا۔ میڈیا پرسن اور وہ صہیونی صحافی جو کئی عرب ممالک کے ساتھ  اسرائیل کے کامیاب اور امید افزا تعلقات کو معمول پر لانے کی امید کے ساتھ متعدد نیوز ٹیموں کی شکل میں قطر گئے تھے، انہیں اپنی رپورٹس کی تیاری کے دوران وہاں موجود لوگوں اور غیر ملکی مسافروں سے ایک غیر متوقع رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر Haaretz اخبار کے نمائندے نے 2022ء کے ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کے لیے فٹ بال شائقین کی بھرپور حمایت کے معاملے کا ایک رپورٹ میں باقاعدہ ذکر کیا ہے۔

اس اخبار کے رپورٹر "عوزی دان" نے عالمی کپ کے دوران فلسطین کے لیے وسیع پیمانے پر حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ میں اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ دوحہ کی گلیوں اور اسٹیڈیمز میں فلسطینی پرچم لہرانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ قطر کے اسٹیڈیموں میں جلی حروف میں بینرز اور بل بورڈز نصب کیے گئے ہیں، جن پر FREE PALESTINE کے الفاظ تحریر ہیں۔ ایک ایسا عمل جس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔ تمام ورلڈ کپ کے شائقین اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسی تناظر میں انھوں نے لکھا: "یہ تل ابیب کے رہنماؤں کے لئے واضح پیغام ہے۔ "عوزی دان" نے قطر میں لہرائے جانے والے جھنڈوں میں صیہونی حکومت کے جھنڈے کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید لکھا: "گذشتہ ورلڈ کپ میں ہمارا جھنڈا لہرایا گیا تھا، لیکن یہاں قطر میں ہمارا جھنڈا نہیں تھا اور میرے خیال میں اسرائیلی حکام کو اس سلسلے میں پہلے سے کچھ کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے موجودہ حقیقت کو صحیح طور پر سمجھ لیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ دنیا کی رائے عامہ بالخصوص عربوں اور مسلمانوں میں اسرائیل کا کیا مقام ہے، لہذا انہوں نے خود کو زیادہ پریشان نہیں کیا۔

اس رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ دوحہ کے تمام حصوں بشمول کافی ہاؤسز، ریسٹورانوں، دکانوں، سڑکوں اور بسوں میں فلسطینی پرچم کا نظارہ اس قدر وسیع تھا کہ ہم فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کو عالمی کپ میں شرکت کرنے والی 33ویں ٹیم کے طور پر تصور کر رہے تھے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ تیونس کے شہریوں کے لیے فلسطین، عالمی کپ میں کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ اس  لائیو رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیونس کی قومی فٹ بال ٹیم کو آسٹریلیا کا سامنا تھا، لیکن اس ٹیم کے شائقین دیگر مسائل میں مصروف تھے اور ان میں سے بہت سے افراد فلسطینی قوم کی حمایت میں مظاہرے میں شریک تھے، جس میں فلسطینیوں کی حمایت کا  واضح پیغام تھا۔ تیونس کے شہری اسٹیڈیم میں فلسطین کی آزادی کے موضوع پر پلے کارڈز لے کر آئے تھے، اس حد تک کہ ان میں سے کچھ نے ان میچوں کو فلسطین کے واقعات کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ورلڈ کپ فٹ بال میچوں کے انعقاد کو فلسطینیوں اور اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے لیے فلسطینیوں کے نظریات کی حمایت کا اعلان کرنے کا ایک سنہری اور ناقابل تلافی موقع قرار دیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے فوٹو گرافروں اور صحافیوں نے ان نشانیوں اور علامتوں کی تصاویر کو دنیا بھر میں شیئر کیا۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ عالمی کپ میں فلسطین کا مسئلہ مرکزی مسئلہ بن گیا۔ اس اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں مزید کہا: "جب مراکش کی ٹیم کے ارکان گروپ تصاویر کے لیے جمع ہوئے تو کچھ کھلاڑیوں نے اپنے ملک کا جھنڈا اٹھا کر جشن منایا، لیکن وہاں ایک جھنڈا اور بھی تھا، جسے کئی کھلاڑیوں نے دکھایا اور وہ جھنڈا تھا فلسطین کا۔ ایک ایسا جھنڈا جو سٹیڈیم کے تمام حصوں میں نظر آرہا تھا، درحقیقت یہ واقعہ اس ورلڈ کپ میں ہوا، جو پہلی بار مشرق وسطیٰ میں منعقد ہوا۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں مزید آیا ہے: "اس ورلڈ کپ کو بہت سے مشکل سوالات کا سامنا رہا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلے میں کسی قسم کی سیاسی رائے دینے کی اجازت ہوتی ہے اور کیا اس طرح کے کھیلوں کے مقابلوں میں سیاست کی کوئی جگہ ہے یا نہیں؟ بلاشبہ فیفا کے قوانین، فٹ بال اور سیاست کو ملانے سے منع کرتے ہیں، لیکن یورپیوں نے یوکرین کی وجہ سے ان قوانین کو توڑا اور انہیں سزا نہیں دی گئی، جو یقیناً مغرب کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ حال ہی میں پولینڈ کی قومی ٹیم کے کپتان "رابرٹ لیوینڈوسکی" نے کہا ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں یوکرین کے پرچم کے رنگ کا بازو بند باندھیں گے۔ اس کے علاوہ اوپٹاسیا Optasia جیتنے والے مصری اسکواش کھلاڑی "عمر فراج" نے مارچ 2022ء میں لندن میں ہونے والی چیمپیئن شپ کے موقع پر کہا تھا کہ "ہمیں کبھی بھی کھیلوں میں سیاست کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب اچانک ایسا ہوگیا۔ اس لیے اب جبکہ اجازت مل گئی ہے تو مجھے امید ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ہونے والے ظلم و جبر پر آواز اٹھائی جائے گی اور لوگ بھی جان لیں گے کہ پچھلے 74 سالوں میں فلسطینیوں پر کتنا ظلم ہوا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 210 times