ان دنوں مغرب میں آزادی اظہار، قرآن کریم کو نذر آتش کرنے، پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کرنے اور اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کا بہانہ بن چکا ہے۔ یہ آزادی "مغربی جمہوریت" کے تاج کا نگینہ سمجھی جاتی تھی اور یہ جمہوریت اکثر یورپی ممالک میں دائیں بازو کی فاشسٹ اور نسل پرست جماعتوں کے برسراقتدار آنے سے نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سویڈن نے جو توہین آمیز اقدامات انجام دیے ہیں وہ برفیلے پہاڑ کی نوک ہے۔ مغرب کا "آزادی اظہار" صرف ان کے اپنے لئے ہے اور ہمارے لئے نہیں ہے اور وہ اس آزادی کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں اور موقف سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم عرب یا مسلمان ہونے کے ناطے اس آزادی اظہار سے برخوردار نہیں ہو سکتے اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم مہاجر ہوں یا کسی عرب یا اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارے منصفانہ اہداف خصوصا فلسطینیوں کی بات آتی ہے۔
مذکورہ بالا مسئلے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کی لابیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کے بعد اسلامی مقدسات کی توہین پر عرب یا اسلامی ممالک کوئی موثر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ ہم امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ اور ان کی پالیسیوں اور تاریخ پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں رہتے ہوئے فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات، فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جانے اور روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کے قتل عام پر تنقید نہیں کر سکتے۔ اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدمات پر تنقید کریں تو مغربی ممالک کے قانون کی روشنی میں یہ اقدام یہود دشمنی کے زمرے میں آتا ہے جس کیلئے 15 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ اسرائیل پر تنقید منافرت پیدا کرنا اور دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جرمنی نے جنین، نابلس اور غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے مزاحمت کے جائز حق کی حمایت کرنے کیلئے مظاہرون پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ جرمنی کی عدالتیں عرب صحافیوں کو اپنا کام چھوڑ دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی جو شخص حماس کا پرچم لہراتا ہے یا اس جیسا نظریہ رکھتا ہے اسے قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ حماس سے وابستگی تو بہت دور کی بات ہے۔ برطانیہ میں صرف حماس کی حمایت بذات خود جرم قرار پاتا ہے جس کی سزا شہریت منسوخ کر کے ملک سے نکال باہر کرنا ہے۔ فرانس میں "ہولوکاسٹ" کا انکار یا اس کے بارے میں کسی قسم کے شک کا اظہار جرم تصور ہوتا ہے۔ مغرب میں یہ سلسلہ جاری ہے اور نہیں معلوم کہاں جا کر رکے گا۔
میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں گذشتہ برس شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے حملے کے بارے میں گفتگو کیلئے شریک تھا۔ میں نے کہا کہ مسلمان اس کتاب کو اسلام کی توہین اور اسلاموفوبیا کی ترغیب کے زمرے میں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا کہ یہ کتاب آزادی اظہار کے بہانے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائے جانے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد صہیونی لابی نے میرے اور اس پروگرام کے خلاف شدید پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ صیہونی لابی نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ، صحافیوں اور اعلی سطح کے ادیبوں سمیت 10 ہزار افراد سے دستخط کروائے تاکہ میرے اور بی بی سی کے اس پروگرام کے خلاف پارلیمنٹ میں تحقیق کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی سی نے ایک یہودی دشمن شخص کو دعوت دی تھی جو اسرائیل اور صیہونزم سے متعلق اعتدال پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
سویڈن کا قانون ہم جنس پرستوں کے پرچم کو نذر آتش کرنے کو جرم قرار دیتا ہے کیونکہ یہ اقدام اس ملک کے بعض شہریوں کے خلاف منافرت پھیلانے والا اور اشتعال انگیز اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہی ملک ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نسل پرست شہری کی جانب سے اربوں مسلمانوں کی نظر میں مقدس کتاب کو نذر آتش کئے جانے کو جرم نہیں سمجھتا اور سویڈن میں اس جیسے دسیوں ہزار افراد موجود ہیں۔ عرب حکومتوں سمیت اکثر اسلامی ممالک نے قرآن کریم کے خلاف اس توہین آمیز اقدام کی مذمت کی ہے۔ لیکن صرف مذمتی بیانیے جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ایسے توہین آمیز اقدامات نہیں رکیں گے۔ کیا فرانسیسی مجلے چارلی ہیبڈو کے خلاف بیانیے اس کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین رک جانے کا باعث بنے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک قرآن کریم کو نذر آتش کرنے اور مسجد اقصی پر حملہ ور ہونے والے یہودی آبادکاروں کے خلاف کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔
یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کے برسراقتدار آنے، عقل مند حکمرانوں کا فقدان، یورپ پر امریکی اثرورسوخ اور یوکرین جنگ کا طول پکڑ لینے جیسے عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلامی مقدسات کی توہین جاری رہے گی بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ آئے گا۔ لہذا عرب اور مسلمان شہریوں کو مزید برے حالات کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ممکن ہے ان کے خلاف سخت اقدامات انجام پائیں اور حتی لاکھوں مسلمانوں کو یورپی ممالک سے نکال دیا جائے۔ مغرب میں صیہونی لابیز عدالت پر مبنی اقدار جیسے آزادی اظہار اور دوسروں کے عقائد کا احترام، کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہیں اور وہ خود ان اقدامات کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہولوکاسٹ کسی اسلامی مغربی ملک یا مشرق وسطی میں رونما نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے مرکز میں رونما ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام حقائق واضح ہو جائیں گے۔
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)