مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں کاوه دلیری نے ایرانی صدر کے جکارتہ کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انڈونیشیاء کے ساتھ ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی صورتحال پر تبصرہ کیا اور کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران انڈونیشیا کے درمیان سیاسی اور دیگر مختلف شعبوں میں تعلقات کی صورتحال بہتر ہے، لیکن دونوں ممالک میں صلاحیتیں موجود ہونے کے باوجود، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں پیشرفت نہیں ہوئی ہے، البتہ انڈونیشیاء مشرقی ایشیاء کے ساتھ تجارتی معاملات میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن مزید ان معاملات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انڈونیشیاء آنے والے سالوں میں ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہو سکتا ہے، مزید کہا کہ انڈونیشیاء کی آبادی 270 ملین ہے اور دنیا کا چوتھا اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا اسلامی ملک ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کے پاس تجارتی مواقع موجود ہیں اور ایران اس ملک کے تجارتی معاملات میں شریک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انڈونیشیاء معاشی حوالے سے دنیا کے مضبوط ممالک میں سے ایک شمار ہوتا ہے اور اس وقت دنیا کی 16ویں بڑی معیشت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، کورونا وائرس کے دوران بھی انڈونیشیاء کی معیشت ترقی کی طرف گامزن تھی اور بتایا جاتا ہے کہ انڈونیشیاء آئندہ 10 سالوں میں دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کو ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کیا جا سکتا ہے۔
دلیری نے انڈونیشیاء میں ایران کے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیاء نے 2022ء میں مختلف ممالک سے تقریباً 230 بلین ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ ایران نے تقریباً 800 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ دوسری طرف دنیا سے ہماری درآمدات 59 بلین ڈالر تھیں جس میں انڈونیشیاء کا حصہ 100 ملین ڈالر تھا، لہٰذا انڈونیشیاء کا ایران کے ساتھ تجارتی معاملات میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے اور اسے مضبوط کیا جانا چاہیئے۔
مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ دوسری طرف، انڈونیشیاء کی مختلف ممالک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور پروڈکٹ گروپوں میں بھی ایران کا کوئی اہم رول نہیں ہے، جبکہ ایران کے اندر انڈونیشیاء کو درکار پروڈکٹس کافی مقدار میں موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر انڈونیشیاء کے دارالحکومت کی جکارتہ سے نوسنتارا منتقلی میں ایران کو تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات، خام مال، تعمیراتی مصنوعات، بجلی اور سڑک کی تعمیر کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرنے کیلئے دسیوں ارب ڈالر کا تجارتی موقع فراہم ہو سکتا ہے۔
دلیری نے آخر میں ایرانی صدر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے دورے کے دوران کسٹم، لاجسٹکس، کلیئرنگ، انجینئرنگ تکنیکی خدمات اور سب سے اہم ترجیحی تجارتی معاہدے کے شعبوں میں کئی دستاویزات پر دستخط ہوئے، جو کہ خوش آئند بات ہے۔