سعودی عرب کے وزیر خارجہ آج ہفتے کے روز تہران میں ایرانی حکام کے مہمان ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا یہ پہلا دورہ ایران ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی دعوت کے جواب میں انجام پا رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایران اور سعودی عرب قریبی سیاسی اور سکیورٹی تعلقات کی طرف بڑھے ہیں اور کئی بالمشافہ ملاقاتوں کے بعد دوطرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ "رائے الیوم" اخبار نے لبنان کے بعض سیاسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "فیصل بن فرحان شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے صدر ابراہیم رئیسی کے لیے خصوصی پیغام لائے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی و فروغ پر تاکید ہے۔" اس ذریعے نے مزید کہا ہے کہ بن فرحان اس سفر کے دوران ایران کے صدر اور کئی دیگر حکام سے ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ایران ریاض اور تہران کے درمیان 7 سال کے وقفے اور اختلاف کے بعد تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اور قدم ہے۔
خلیج فارس کی نئی تشکیل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سیاسی معاہدہ ان بڑی تبدیلیوں کا حصہ ہے، جو ہم ان دنوں خلیج فارس میں دیکھ رہے ہیں۔ خلیج فارس کے تمام ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہے ہیں اور چین اب خطے کے ممالک کی توانائی کی سب سے بڑی منڈی بن رہا ہے۔ 2001ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت صرف 4 بلین ڈالر تھی، جو کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ سعودی عرب کی تجارت کا دسواں حصہ تھی، لیکن 2021ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت تقریباً 87 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ سعودی عرب کی امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارت سے دوگنی ہے۔ 2022ء اور 2023ء سے اقتصادی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں بلکہ بیجنگ بیک وقت متحدہ عرب امارات میں بھی ایک بڑی فوجی تنصیب بنا رہا ہے۔
سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک امریکہ سے مکمل طلاق و علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ صرف واشنگٹن پر انحصار کرنے کے بجائے خارجہ پالیسی میں آزادی اور اپنے غیر ملکی شراکت داروں میں تنوع چاہتے ہیں۔ خلیج فارس کے عرب ایک طرف چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ امریکہ کے ساتھ ایران سمیت کسی بھی سیاسی کشیدگی میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی خواہشات کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کی توسیع کا خیرمقدم کیا ہے۔ تہران کی طرف ریاض کے اس اقدام کا اندازہ بیجنگ اور ماسکو کے تہران کے ساتھ قریبی روابط کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ریاض، چین و روس اور ایران کے ساتھ اتحاد کے ساتھ مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، البتہ وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ سعودی عرب سے پہلے پچھلے چند سالوں میں متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر کے بھی تہران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ لہذا ریاض کا تہران سے دور رہنے کا مطلب علاقائی ترقی سے دور رہنا تھا۔ ایسے حالات میں جب متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور حتیٰ کہ کویت تہران کے ساتھ سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، سعودی عرب کے لیے خطے میں اس سفارتی نقل و حرکت سے دور رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسی لیے ریاض بھی تہران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس میں وسعت دینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
کم تناؤ، زیادہ متحرک معیشت
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی سعودی معیشت کی ترقی اور توسیع کے لیے محمد بن سلمان کے اقتصادی تسلسل اور ویژن 2030ء کو مکمل کرتی ہے۔ ریاض کے رہنماء اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ملک میں اقتصادی ترقی علاقائی امن اور جنگ سے دور رہنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ریاض اپنے جنوبی پڑوسی ملک یمن کی افواج کے میزائلوں کے مسلسل خطرے میں نہیں رہ سکتا، اسی لئے ریاض کے رہنماء یمن میں جنگ کے معاملے کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں کو اس بات کا علم ہے کہ یمن سے جنگ بندی کا راستہ تہران سے ہوکر جاتا ہے۔ تہران کے ساتھ اختلافات کو دور کرکے ہی وہ اس مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ سعودی عرب یمن کے حالات کو پرسکون کرکے اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
یمن کی جنگ سے ریاض کی دستبرداری سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی معیشت میں نئی جان ڈالے گی اور سعودی عرب کو 2030ء کے لیے محمد بن سلمان کے بلند و بالا اقتصادی اہداف کے قریب لے آئے گی۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شام، لبنان، یمن اور عراق میں تہران کے ساتھ ریاض کی علاقائی کشیدگی کا نہ صرف سعودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بعض صورتوں میں سعودی اثر و رسوخ میں کمی اور لبنان جیسے ممالک میں اس کی پسپائی کا باعث بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کے حکام تہران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شام اور یمن سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی تعلقات کو کشیدگی اور تنازعات سے پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی