غزہ کی جنگ نے غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اور چھ ماہ تک فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود صیہونی رژیم کو نہ تو اس جنگ میں کامیابی کی کم ترین امید ہے اور نہ ہی صیہونی فوج اور معیشت اس سے پہلے کسی ایسی جنگ میں مبتلا ہوئی ہے جو چند دن یا چند ہفتے سے زیادہ طول پکڑ چکی ہو۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اس جعلی رژیم کی ابتر صورتحال کی بہترین عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں:
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
تحریر: علی احمدی