غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کو نو ماہ مکمل ہوگئے ہیں ۔ان نومہینوں میں غزہ نے ہر طرح کے ظلم اور دہشت کا ننگاناچ دیکھاہے ۔بچوں اور عورتوں کا بہیمانہ قتل ،جوانوں کی شہادت،شہر میں جا بجا بکھری لاشیں،غذائی قلت سے تڑپتے لوگ ،مسلم حکمرانوں کی بے حسی،عالمی رائے عامہ کانفاق اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی بے بسی۔اس کے علاوہ غزہ کے لوگوں نے کیا کچھ دیکھا اور بھگتا اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اقوام متحدہ کو ایسالاچار اور تہی اختیار اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔آخر ان عالمی اداروں کے وجود کا فائدہ کیاہے اگر وہ اپنے قیام کا مقصد پوراکرنے میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں؟کتنی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی اور ہربار امریکہ نے اسے ویٹو کردیا۔اس کے بعد جب جنگ بندی پر اتفاق ہواتو اسرائیل نے اس عالمی رائے کو ٹھکرادیا۔اسرائیل کا یہ آمرانہ رویہ مغرب نے بھی دیکھا اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے بھی مشاہدہ کیا۔اگر کوئی دوسرا ملک عالمی رائے کی اس طرح اَن دیکھی کرتاتو اس کا کیاحشر ہوتا یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔لیکن اسرائیل جس کے ہر ظلم میں امریکہ برابر کا شریک ہے ،اس نے عالمی رائے کی نہ صرف اَن دیکھی کی بلکہ اس کی تحقیر بھی کی ۔اگر امریکہ اس کی پشت پر نہ ہوتا تو اب تک اسرائیل کا خاتمہ بالخیر ہوچکاہوتا مگر ظالم نے ظالم کی پشت پناہی کی اور آج اسرائیل کھلی ہوئی شکست کے باوجود غزہ سے نکلنے کو تیار نہیں ہے ۔
طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل نے یہ دعویٰ کیاتھاکہ وہ حماس کو ختم کرکے دم لے گا۔حماس تو آج بھی موجود ہے جس کے ساتھ اسرائیل جنگ بندی پر مسلسل مذاکرات کررہاہے ،توپھر گذشتہ نو ماہ میں اسرائیلی فوج نے کس کے خلاف جنگ لڑی؟جب جب اسرائیلی فو ج نے زعم ناقص میں یہ باورکیاکہ حماس ختم ہوچکاہے تبھی اس نے صہیونیوں فوجیوں پر سخت حملے کئے ۔نوماہ کی مسلسل جنگ کے بعد بھی حماس کے مختلف جنگجو دستے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔القسام بریگیڈ نے موقع بہ موقع صہیونی فوجیوں پر حملے کرکے اس کو پسپائی کا مزہ چکھایا۔اگر یہ حماس کے جنگجو نہیںکررہے ہیں توپھر غزہ میں صیہونی فوج کا مقابلہ کون کررہاہے ؟اگر نوماہ کی مسلسل جنگ کے باوجود اسرائیلی فوج حماس کا خاتمہ نہیں کرسکی توپھر اس جنگ کا فائدہ کیاہے؟یاپھر اسرائیل کامقصد غزہ کو تباہ کرکے شہر کو خالی کرانا تھا۔کیا صہیونی فوج بے گناہوں کا قتل عام کرکے فلسطینیوں کو خوف زدہ کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ غزہ واپسی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں ۔غزہ تو خالی کردیاگیاتھا۔اسکے بعد پناہ گزین کیمپوں پر فضائی حملے شروع ہوئے ۔رفح کیمپ کو تباہ کردیاگیا۔اگر اسرائیلی فوج کا مقصد حماس کو ختم کرنا ہوتا تو اس کے فوجیوں کو تلاش کرکرکے ماراجاتامگر یہ جنگ غزہ کے عوام کے خلاف تھی ۔اس لئے جنگ کا دائرہ بھی عوام کے آس پاس سمٹ کر رہ گیا۔ورنہ اب تک اس دعوے پر کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیاکہ حماس نے پناہ گزین کیمپوں کو ٹھکانہ بنایاہو۔اسپتالوں اور عبادت گاہوں میں اس کے فوجیوں کا مرکز رہاہو۔توپھر ان عمارتوں پر حملے کیوں کئے گئے ؟ طبی ڈھانچے کو برباد کیوں کیا گیا؟اس کی وجہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔اسرائیل کا مقصد غزہ کے عوام کی نسل کشی تھی ،اس لئے وہ نہیں چاہتاتھاکہ زخموں سے تڑپتےاور بلکتے عوام کو بروقت علاج ملے ۔اسی لئے رفاہی اور عوامی عمارتوں کو زیادہ نشانہ بنایاگیامگر افسوس دنیاکو اسرائیل کا یہ جنگی جرم نظر نہیں آتا۔ورنہ اب تک دنیا اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک رائے ہوچکی ہوتی ۔اس سے زیادہ عالمی رائے کا اتحاد تو روس اور یوکرین جنگ میں دیکھاگیا۔کیا غزہ کا انسانی بحران یوکرین کے مقابلے کم ہے ؟اگر نہیں !توپھر دنیا اس ظلم پر خاموش کیوں رہی ؟امریکی سیاست مدار اوراس کے اتحادی غزہ جنگ اور انسانوں کے بہیمانہ قتل پر خواستہ ناخواستہ بیانات دے رہے ہیں تاکہ عالمی سطح پر ’فیس سیونگ ‘کی جاسکے ۔ورنہ اس جنگ میں سب سے زیادہ ہتھیار امریکہ نے اسرائیل کو بھجوائے ہیں ۔اگر امریکی مدد نہ ہوتی تو یہ جنگ کب کی فیصل ہوچکی ہوتی۔طوفان الاقصیٰ کے بعد امریکہ نے اسرائیل کی فوج امداد میں اضافہ کردیاتھا اور مسلسل اس کو ہتھیار بھیجے گئے ۔اسٹاک ہوم کے تحقیقاتی ادارے انٹر نیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکہ نے ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۳ء کے دوران اسرائیل کو اس کی ضرورت کا۶۹ فیصد اسلحہ فراہم کیاہے ۔۷ اکتوبر کے بعد اس فیصد میں مزید اضافہ ہواہے جس کے صحیح اعدادوشمار ابھی تک جاری نہیں ہوئے ۔اس سے امریکی نفاق کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔
صہیونی فوج اگر اپنے عزائم میں کامیاب ہوتی تواسرائیلی شہری کبھی یرغمالوں کی رہائی کے لئے احتجاجی مظاہرے نہیں کرتے ۔ان کا مسلسل احتجاج یہ بتلارہاہے کہ صہیونی فوج ہر محاذ پر شکست سے دوچارہے ۔اسرائیل کے بعض وزرااور سابق فوجی بھی اقرارکرچکے ہیں کہ اسرائیل جنگ ہارچکاہے ۔ابھی تو غزہ کا محاز سرنہیں ہوسکاجس کے لئے نتین یاہو نے یہ دعویٰ کیاتھاکہ چند روز میں ہم غزہ کو فتح کرکے حماس کو ختم کردیں گے،اس پر حزب اللہ اسکے لئے درد سربناہواہے ۔حوثی بحر احمر کی آبی گذرگاہوں کو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لئے مسدود کرچکے ہیں ۔جس قدر نقصان اسرائیل نے غزہ میں اٹھایا اس سےکم مالی نقصان بحر احمر میں بھی نہیں ہواہے ۔حزب اللہ نے اسرائیل کے اندر ایسےاہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایاہے جس کے بارے میں صہیونی حکمران کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔اس لئے اب جنگ لبنان کی سرحد وں کی طرف بڑھ رہی ہے ۔حزب اللہ نے گذشتہ چار ماہ میں سیکڑوں افراد کی قربانی دی ہے اور اب بھی مسلسل اس کے افراد کو نشانہ بنایاجارہاہے ۔کیونکہ جتنا خوف صہیونیوں کو حزب اللہ سے ہے شاید کسی اور مزاحمتی تنظیم سے ہوگا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ مسلسل یہ کوشش کررہاہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ پنجہ آزمائی نہ کرے ۔کیونکہ اس کے نقصانات کا صحیح اندازہ امریکہ کوبھی ہے اور اسرائیل کو بھی ۔
۷اکتوبر کے بعد غزہ کے لوگ مسلسل جلاوطنی کی زندگی گذاررہے ہیں ۔ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں سفر کررہے ہیں ۔وہ جہاں پناہ لیتے ہیں وہیں صہیونی فوج بم برسانے لگتی ہے ۔اس دوران نامعلوم کتنے مظلوم بے گھرہوئے اور کتنے لوگ غزہ کو چھوڑ کر چلے گئے ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کوآرڈینیٹر سیگرڈ کاگ نے تقریر کے دوران کہاتھاکہ’’ غزہ میں ۱۹ لاکھ لوگ جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ان کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے ۔‘‘ان حالات میں رفح کراسنگ کے دوبارہ کھولے جانے کی ضرورت ہے ۔اگر ایسانہیں ہواتو ایک بڑی آبادی غذائی قلت کی بنیاد پر جاں بحق ہوسکتی ہے ۔اگر بہت جلد انسانی امداد کی بڑی کھیپ غزہ نہیں پہونچائی گئی تو دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی زندگیاں خطے میں پڑجائیں گی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسلسل کہاہے کہ ’اسرائیل بھوک کو غزہ کےخلاف ہتھیار کے طورپر استعمال کررہاہے ‘۔اگر فلسطینی قوم میں جذبۂ شہادت موجود نہ ہوتا تو یہ قوم کب کی صہیونی فوج کے سامنے خودسپردگی کرچکی ہوتی ۔مگر ان کا جذبۂ شہادت مسلسل استقامت اورمقاومت کی دعوت دے رہاہے اور وہ اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ان کی یہی مقاومت صہیونی فوج کی شکست کا اصل سبب ہے۔ورنہ اگر غزہ کےعوام حماس کے خلاف کھڑے ہوجاتے تو آج یہ جنگ نویں مہینے میں داخل نہیں ہوتی ۔اس لئے غزہ کے عوام کی مقاومت اور جذبۂ شہادت کو بھی سلام کرناچاہیے ۔
تحریر: عادل فراز