اسرائیلی فوج کے سابق میجر جنرل نے غزہ میں حماس کے ہاتھوں اپنی ناکامی کو تسلیم کر لیا ہے۔ سابق اسرائیلی میجر جنرل نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ سابق میجر جنرل یزہاک برک نے کہا ہے کہ ہم ایسی جگہ پھنس چکے ہیں جہاں ایک طرف حماس کیساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری جانب ایران کیساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ سابق میجر جنرل نے خبردار کیا کہ اگر غزہ جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو خطے میں نہ ختم ہونیوالی جنگ چھڑ سکتی ہے، اور اسرائیل ہر جانب سے شدید خطرات میں گھیر جائے گا۔ یزہاک برک نے مزید کہا کہ وزیر دفاع نے غزہ کے حوالے سے جو اہداف مقرر کیے تھے اُن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا، اگر یہی صورتحال رہی اور اسرائیلی وزیراعظم اور ان کے اتحادی تبدیل نہ ہوئے تو اسرائیل آئندہ ایک سال میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائیگا۔
اسرائیل کے حوالے سے یہ پیشگوئی صرف یزہاک برک کی نہیں، بلکہ اسرائیلی سیاستدان، مبصرین، سینیئر تجزیہ کار اور دفاعی ماہرین بھی ایسی متعدد پیش گوئیاں اور تجزیے پیش کر چکے ہیں، جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس گیا ہے، تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا، اس کے باوجود حماس کا نقصان نہیں کر سکا۔ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے سے ملک فتح نہیں ہوتے، مخالف کی دفاعی قوت کو زائل کرنا پہلی ترجیحی ہوا کرتی ہے، مگر اسرائیل اس میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل مکمل طور پر نرغے میں ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی حکام کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر میں اسرائیل کی لائف لائن پر پاوں رکھا ہوا ہے۔ ایران کا خوف صہییونیوں کو راتوں کو سونے نہیں دے رہا ہے۔ ایران اسمائیل ہانیہ کا بدلہ لینے میں جتنی تاخیر کر رہا ہے، صہیونی اتنی زیادہ ذہنی کوفت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ میں ایران نے اسرائیل پر فتح حاصل کر لی ہے۔
اسرائیل پر حملے کی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب مبصرین نے یہ دیتے ہیں کہ ایران اگر براہ راست اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔ چونکہ برطانیہ اور امریکہ کیساتھ ساتھ کچھ ’’غدارانِ امت‘‘ عرب حکمران بھی اسرائیل کا ساتھ دیں گے، جس کیلئے ایران اس ممکنہ شدید ردعمل سے نمٹنے کیلئے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے جنگی مشقیں کر رہا ہے۔ جس روز ایران کا دفاع مضبوط تر ہوگیا، ایران ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرے گا اور اسرائیل پر بھرپور حملہ ہوگا۔ اسرائیل کے سابق میجر جنرل یزہاک برک کی یہ پیشگوئی زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پہلی بار باقاعدہ اپنے فورسز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لیں۔ یہ بدلہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے بڑھ کر ہوگا کیونکہ اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہوئے تہران میں حملہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایران چاہتا ہے کہ جتنا بڑا حملہ ہو، اتنی زیادہ تیاری بھی ہو، یہی وجہ ہے کہ ایران حملے میں تاخیر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے روس کیساتھ بھی دفاع تعاون کے معاہدے ہوئے ہیں۔ روس سے بھی اسلحہ لیا جا رہا ہے جبکہ ایران کی اپنی ڈورن ٹیکنالوجی اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اس سے وہ کسی بھی ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ ڈرون کے ساتھ ساتھ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کی بھی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی رجیم نفسیاتی طور پر اتنی پریشان ہے کہ اسی پریشانی کے باعث وہ اپنا کوئی نقصان بھی کر بیٹھیں گے۔
اب خود اسرائیلی فوج کے اندر بھی کافی پریشانی پائی جا رہی ہے۔ اعلیٰ افسران مستعفی ہو رہے ہیں۔ جس سے حکومت کو ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہیلیوا نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس پر حملوں میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس نے اسرائیل پر جو 7 اکتوبر کو حملہ کیا تھا، اس میں ہماری ناکامی ہے کہ ہم اس حملے کا ادراک نہیں کر سکے۔ اہارون ہیلیوا کا کہنا تھا کہ حماس نے جب حملہ کیا اور جنوبی اسرائیلی آبادیوں، فوجی اڈوں اور ایک کلب میں ہونیوالی پارٹی پر حملہ کیا تو وہ میرے لئے ایک سیاہ دن تھا اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے کہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا، یہ ملامت مجھے سونے نہیں دیتی، میں قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ اس پر انہوں نے حماس کے اس حملے کو اپنی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اعلیٰ فوجی حکام تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور اسرائیل کے دفاع کا پول پوری دنیا میں کھل گیا۔ جو فرضی رعب و دبدبہ بنایا گیا تھا، وہ حماس نے تارِ عنکبوت کی طرح برباد کرکے رکھ دیا۔ حماس کے اس عبرتناک حملے پر ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن تیتن یاہو کی جانب سے حکومت اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی پر معافی نہیں مانگی گئی۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطاقب حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1199 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کر دی تھی۔ جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جبکہ خود اسرائیلی وزیراعظم بینکر میں چھپا ہوا ہے، اور اسرائیلی عوام کی زندگیاں اس نے داو پر لگائی ہوئی ہیں۔
اس جنگ میں امریکہ کا دوہرا معیار ہے، امریکہ ایک جانب اسرائیل کا اسلحہ بھی دے رہا ہے، اس کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے اور ساتھ ہی جنگ بندی کیلئے کوششیں کرنے کا ڈرامہ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے مختلف عرب حکمرانوں سے ملاقاتیں اور جنگ بندی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی بات کی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ امریکہ جو خود تو اسرائیل کا اسلحہ اور دیگر دفاع سامان دے کر جنگ کی آگ کو بڑھاوا دے رہا ہے، اس کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ یہ دوہرا معیار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے کہ امریکہ منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اب زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابق اسرائیلی میجر جنرل کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ اسی سال ہو جائے گا۔
تحریر: تصور حسین شہزاد