مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے لیے صرف زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے، مسلمان پچھلے ایک ہزار سال سے مسلسل مغربی یلغاروں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ صلیبی لشکر فرانس اور جرمنی سے چلتے تھے، قسطنطنیہ سے طاقت میں اضافہ کرتے، فلسطین پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ یہ مقدس جنگوں کے نام پر فلسطین پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ان کا مقصد یہاں سے مسلمانوں اور اسلام کو نست و نابود کرنا ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے دو وجہ سے فلسطین کھونے کا کوئی آپشن نہیں تھا، ایک تو یہ کہ فلسطین مسلمانوں کا گھر تھا اور وہ جاتے تو کہاں جاتے؟ دوسرا قبلہ اول عقیدے کا مسئلہ تھا، جہاں سے نبی اکرمﷺ معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یوں صدیوں یہ جنگیں چلتی رہیں اور آخر کار زیادہ تر مسلمانوں کا قبضہ ہی مستحکم رہا۔ آج مغرب نے بڑی چالاکی سے یہودیوں کو سامنے کر دیا ہے اور خود پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ یہودی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ تاریخ میں ان کے ساتھ بڑی بھلائی کی گئی ہے۔ حقیقت اس کے خلاف ہے، انہیں جلتی آگ پر لا کر بٹھا دیا گیا ہے، آج نہیں تو کل یہاں مسلمانوں کا اقتدار بحال ہونا ہے۔
یہودیت کا غالب حصہ اب صیہونیت میں تبدیل ہوچکا ہے، اس لیے وہ کسی صورت میں مسلمانوں یا مسلمانوں کی کسی یادگار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آپ دیکھیں یہ غزہ میں چھ سو سے زائد مساجد، ہسپتال اور پارلیمنٹ کی بلڈنگ کو گرا دیتے ہیں۔بہت سے مقامات سے انہیں کسی قسم کا کوئی فوجی خطرہ نہیں تھا، انہیں صرف اس لیے گرایا گیا کہ فلسطینی عظمت رفتہ کی یاد کرانے والی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ یہ جگہوں کے نام تبدیل کرتے ہیں، آپ گوگل پر بیت المقدس لکھیں، وہ اردو میں اس کا ترجمہ یروشلم کرے گا۔ یہ ہمہ جہتی لڑائی ہے، جو بارود برسانے سے لے کر ترجمہ تک کو شامل ہے۔ صیہونی اور ان کے اتحادی چاہتے ہیں کہ تھکا تھکا کر فلسطینیوں کو مارا جائے۔ ان کے دماغوں سے ہی فلسطین کا نام محو کر دیا جائے۔اتنی مشکلات ان پر مسلط کی جائیں کہ یہ مذہب کا نام بھی بھول جائیں۔ مگر یہ تو ان کے ارادے ہیں، ہر بیس سال بعد یہاں ایسی تحریک جنم لیتی ہے، جو اگلے بیس سالوں کے لیے ایک نسل کو پروان چڑھا جاتی ہے کہ فلسطین اور مذہب سے ان کا عشق برقرار رہتا ہے۔ یہ مرتے بھی ہیں تو فلسطین زندہ باد اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔
اب تازہ کارستانی ملاحظہ ہو، اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر Itamar Ben-Gvir نے اعلان کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے اندر ایک یہودی عبادت گاہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ اعلان جنگ کو مزید مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہے۔ شیخ الازہر نے کہا کہ ایک انتہاء پسند صہیونی اہلکار کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے اندر یہودیوں کی عبادت گاہ کے قیام کی بات اشتعال انگیز ہے، ایسے بیانات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ شیخ الازہر احمد طیب الازہر نے مزید کہا کہ یہ اشتعال انگیز بیانات صرف ان لوگوں کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں، جو انتہاء پسند ذہنیت رکھتے ہیں۔ جو مذاہب، دوسروں کے تقدس یا بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کا احترام نہیں کرتے اور جو صرف جنگل کا قانون جانتے ہیں۔ حماس نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے "خطرناک اضافہ" قرار دیا ہے اور خبردار ایسا کچھ بھی کیا، اس سے خطے میں مذہبی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی حصے پر شدید حملے کیے ہیں، جس میں کم از کم نو فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اس دراندازی میں سینکڑوں زمینی فوجی اہلکار شامل تھے، جن کی مدد لڑاکا طیاروں، ڈرونز اور بلڈوزروں نے کی، بیک وقت تین علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی اسرائیل جنگ کو وسعت دیتا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مغربی کنارے میں دو دہائیوں کے بعد ایسے شدید حملے کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی پر باقی ہے۔ اس نے شمالی غزہ میں اہل فلسطین کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ پوری اسرائیلی ٹیم ہی یہ چاہتی ہے کہ جنگ کے شعلے بھڑکتے رہیں۔ اسرائیلی پارلیمان کے ڈپٹی سپیکر نے ایکس پر لکھا "اب غزہ کو جلا دو، اس سے کم کچھ نہیں!" یعنی ہر صورت میں غزہ کی زمینیں فلسطینیوں کو جلا کر خالی کرا لی جائیں۔ یہ سوچی سمجھی پالیسی، جس پر اسرائیلی فوجیں عملدر آمد کر رہی ہیں۔
سنہ 2023ء کے اواخر میں ایک یوٹیوب ویڈیو میں اسرائیلی فورسز کو یہ نعرے لگاتے سنا جا سکتا ہے کہ "قبضہ کرو، نکالو، آباد کرو۔" یعنی غزہ پر قبضہ کرکے اہل فلسطین کو نکال دو اور صیہونیوں کو آباد کر دو۔ اسرائیلی فوجیوں کی مذہبی تربیت بھی اسی پر کی جاتی ہے۔ یہودی عالم مالی ایک ایسے یشیوا کے سربراہ ہیں، جو ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے، جسے اسرائیل کی وزارتِ دفاع سے فنڈنگ ملتی ہے۔ اس میں پڑھنے والے طلباء تورات کی پڑھائی کے ساتھ فوجی سروس بھی کرتے ہیں۔ مالی نے 12ویں صدی کے ایک یہودی عالم کے مذہبی جنگوں (متزوا وارز) کے بارے میں بیان کو بنیاد بنا کر کہا کہ "(اگر ایسا ہے) تو جو بنیادی اصول ہمارے سامنے ہے، جب ہم ایک مذہبی جنگ لڑ رہے ہوں، جیسا کہ غزہ، تو وہ مذہبی کتابوں کے مطابق یہ ہے کہ "تمھیں کسی روح کو زندہ نہیں رہنے دینا۔"
اس کا مطلب بہت واضح ہے، اگر تم کسی کو قتل نہیں کرو گے، وہ تمھیں قتل کر دے گا۔" یعنی غزہ وہ مقام ہے، جہاں یہ ہر انسان کو قتل کرسکتے ہیں۔ ان کے صیہونی ربائی ہاتھ میں تورات پکڑ کر ان کی اسی پر تربیت کرتے ہیں۔ آج جب ہم اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینیوں کی لاشوں پر سلفیاں لیتے اور ان کے مال و اسباب لوٹتے دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے نظریئے میں بہت واضح ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کافی لوگ بہت شوق سے شیئر کر رہے ہیں کہ سعودیہ دنیا کی نویں اور عرب امارات دسویں بڑی دفاعی قوت بن گیا ہے۔ سبحان اللہ، اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے، کہیں تو نعرہ بھی لگا دیتے ہیں۔اس نویں یا دسویں نمبر کا امت کو کیا فائدہ ہے؟ اہل فلسطین کو کیا فائدہ ہے؟اسلحے کے یہ ڈھیر ان کے سٹوروں میں ضرور ہیں، یاد رکھیے گا، یہ انہیں چلا بھی نہیں سکیں گے۔ جب وقت آئے گا یا ان کے پاس تربیت ہی نہیں ہوگی یا ان کا کنٹرول واشنگٹن، پیرس یا لندن میں ہوگا۔
مسجد اقصیٰ میں یہودی سینگال کا نعرہ اور امت مسلمہ
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے