خطے کیلئے فیصلہ کن دن

Rate this item
(0 votes)
خطے کیلئے فیصلہ کن دن
لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ اس کی چند اعلی سطحی شخصیات کی شہادت کا اس کی فوجی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کا وجود شخصیات پر منحصر نہیں ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے دن فیصلہ کن اور تقدیر ساز ثابت ہوں گے، کیونکہ اگر حزب اللہ لبنان کی ایک کال پر خطے بھر سے ہزاروں مجاہدین میدان جنگ میں حاضر ہو جائیں گے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ کئی دنوں سے لبنان پر شدید فضائی جارحیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک بڑی تعداد میں عام شہری شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔ گذشتہ روز صیہونی رژیم نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی حصے میں بڑا ہوائی حملہ کیا، جس میں ایک ٹن کے دس بم گرائے گئے اور صیہونی حکمرانوں نے دعوی کیا کہ سید حسن نصراللہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

آج حزب اللہ لبنان نے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے جنون آمیز حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی لحاظ سے بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف کامیاب طوفان الاقصی فوجی آپریشن کو ایک سال مکمل ہونے کے قریب ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم غزہ پر ایک سال کی وحشیانہ بربریت اور 42 ہزار بے گناہ فلسطینی بچوں، خواتین اور عام شہریوں کا قتل عام کرنے کے بعد بھی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی طرح اس ایک سال کے دوران غاصب صیہونی رژیم کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ایک سال میں اسرائیلی فوج سے 15 ہزار فوجی سروس چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔

مختلف ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصوں خاص طور پر الجلیل خطے کے مقیم صہیونی آبادکاروں میں حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ جنگ کا طول پکڑتا اور جلاوطنی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونا ہے۔ جنگ طول پکڑ جانے کے باعث صیہونی فوج کے حوصلے بھی انتہائی پست ہوتے جا رہے ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے، جس کے باعث فوجی سربراہان اور صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو میں اختلافات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یوں صہیونی فوج نے مختصر مدت میں زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کیلئے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے اعلی سطحی رہنماوں اور کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ صیہونی حکمران سمجھتے ہیں کہ مرکزی رہنماوں کی شہادتیں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جہادی سرگرمیاں ختم ہو جانے کا باعث بنیں گی۔

غاصب صہیونی رژیم اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کے جدید ترین جنگی طیارے بروئے کار لا رہی ہے، جبکہ 1 ٹن والے انٹی بنکر امریکی بم بھی استعمال کئے جا رہے ہیں، جن سے وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔ بڑی تعداد میں عام شہریوں کی شہادت کے باوجود یہ صہیونی حکمت عملی جنگ کی صورتحال بدلنے میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگی اور یہ وہی حقیقت ہے، جس سے صہیونی حکمران غافل ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں صیہونی رژیم کے امریکی ساختہ ایف 35 جنگی طیاروں نے روزانہ کم از کم 15 بار جنوبی بیروت کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان فضائی حملوں کا ایک مقصد لبنانی عوام کو حزب اللہ لبنان سے دور کرنا ہے اور ان کے دل میں اسلامی مزاحمت کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور اسلامی مزاحمتی بلاک نے بھی صیہونی رژیم کے خلاف نئے فوجی حربے شروع کر رکھے ہیں۔

اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایک فوجی حربہ، چند محاذوں سے غاصب صیہونی رژیم کو حملوں کا نشانہ بنانا ہے۔ حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور حشد الشعبی عراق کی جانب سے حیفا بندرگاہ، مشرقی تل ابیب اور مقبوضہ گولان ہائٹس میں واقع حساس اسرائیلی تنصیبات کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنانا، اسی فوجی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تل ابیب کے بن گورین انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ان حملوں کا بدلہ لینے کیلئے صیہونی فوج نے بیروت پر حملہ کیا اور سید حسن نصراللہ سمیت چند دیگر اعلی سطحی کمانڈرز کو شہید کر دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کے اعلی سطحی رہنماوں کی شہادت کا اسلامی مزاحمتی بلاک کی فوجی حکمت عملی اور اسرائیل کے خلاف حملوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسلامی مزاحمتی گروہ درحقیقت ایک سوچ اور جذبہ ہے جو اقوام میں رسوخ کرچکا ہے اور افراد کی شہادت سے یہ سوچ اور جذبہ نہ صرف کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھتا ہے۔

1992ء میں اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کو شہید کیا اور ان کے ساتھ دسیوں اعلی سطحی فوجی کمانڈرز بھی شہید ہوئے، لیکن اس سے حزب اللہ لبنان نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ نئی نسل کے جوان کمانڈرز ابھر کر سامنے آئے، جن میں نئی سوچ اور نیا جذبہ پایا جاتا تھا۔ گذشتہ چالیس برس کے دوران حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ ایمان اور جذبہ شہادت ایسی دو طاقتیں ہیں، جو جدید ترین اور مہلک ترین جنگی ہتھیاروں پر بھی غالب آجاتی ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم اس وقت شدید مشکل حالات سے روبرو ہے اور غزہ جنگ کا نتیجہ خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو کیلئے بہت اہم ہے۔ آئندہ چند دنوں میں تمام اسلامی مزاحمتی قوتوں کی جانب سے اسرائیل پر بڑے حملے کا امکان پایا جاتا ہے، جو خطے کی تقدیر کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔
تحریر: حسن ہانی زادہ
 
 
 
Read 3 times