آخر کار سید مقاومت حجۃ الاسلام سید حسن نصراللہ نے شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا، جس کی تلاش انہیں برسوں سے تھی۔ یقیناً حزب اللہ اور خطے میں متحرک مقاومتی محاذ کا یہ ناقابل تلافی نقصان ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس شہادت سے وہ کمزور ہو جائیں گے، کیونکہ شخصیتوں کے مرنے سے نظریات نہیں مرتے۔ شہید عباس موسوی اور شہید عماد مغنیہ کے بعد بھی دشمن نے یہ گمان کیا تھا کہ اس نے اسلامی مقاومت کی کمرتوڑ دی ہے، مگر سید حسن نصراللہ نے ہمیشہ ان کے عزائم کو آگے بڑھایا اور اسلامی مقاومتی محاذ کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ استعماری طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں۔۔۱۹۹۲ء میں انہیں عباس موسوی کی شہادت کے بعد ۳۲ سال کی عمر میں حزب اللہ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل مزاحمتی کاز کی تنظیم نو اور منتشر گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ ان کی سربراہی میں حزب اللہ نے نئے محاذ سر کئے اور خطے کی طاقتور تنظیم بن کر سامنے آئی۔ ۔۲۰۰۲ء میں انہوں نے جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کو انخلا پر مجبور کردیا، جس نے انہیں عالم اسلام میں بے پناہ مقبولیت عطا کی۔ ۔۲۰۰۴ء میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔۲۰۰۶ء میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی، جو ۳۳ دنوں تک جاری رہی۔ اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی اور حزب اللہ نے اس کو معاہدے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ نے حزب اللہ کو خطے میں مزید تقویت دی اور نوجوانوں کے درمیان اس کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء کے بعد نوجوان بڑی تعداد میں اس کے رکن بنے اور جذبۂ شہادت نے لبنان کی سرزمین پر نئے انداز میں سر اٹھایا۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت نہ پہلی ہے اور نہ آخری ثابت ہوگی۔ استعماری طاقتوں نے مزاحمتی کاز کو کمزور کرنے کے لئے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا ہے، جس میں خائنوں اور منافقوں نے اس کی بھرپور مدد کی۔عراق میں جنرل سلیمانی کی شہادت سے منافقانہ اور بزدلانہ کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر محسن فخری زادہ، اسماعیل ہنیہ، مزاحمتی کاز کے عظیم سپاہی اور اب سید حسن نصراللہ۔ سید کا قتل یقیناً دشمن کی بڑی حصول یابی ہے، مگر اس بزدلانہ حملے کو فتح مبین سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ یہ قتل بھی اسی طرح کیا گیا، جس طرح جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں شہید کیا گیا تھا۔ فتح مبین تو وہ ہے، جو حماس نے مزاحمتی محاذ کی مدد سے غزہ میں اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کو شکست دے کر حاصل کی ہے۔سید کی شہادت ہارے ہوئے دشمن کی ذہنی و نفسیاتی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔دشمن بھی اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے، اس لئے اسرائیل میں جشن کا ماحول نہیں بلکہ خوف و ہراس کی فضا ہے، کیونکہ اسرائیل کو یقین ہے کہ سید کا انتقام ضرور لیا جائے گا۔ اس انتقام کی نوعیت کیا ہوگی، یہ مزاحمتی محاذ طے کرے گا۔ وہ دن دور نہیں، جب ہم اسرائیل کو نابود ہوتے اور استعماری طاقتوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔سید حسن نصراللہ مقاومتی محاذ کی روح تھے۔ ان کی ذہانت و فطانت، شجاعت و بے باکی، مدبرانہ حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کے سبھی قائل تھے۔ وہ تنہا لبنان کے جوانوں کے لئے نمونۂ عمل نہیں تھے بلکہ وہ پوری دنیا کے مسلم نوجوانوں کے سینوں میں دل بن کر دھڑکتے تھے۔ خاص طور پر مسئلۂ فلسطین پر ان کی بے باک رائے اور واضح مؤقف نے انہیں ملت کا محبوب بنا دیا تھا۔ اب ان لوگوں کے دل بھی ان کی طرف جھکنے لگے تھے، جو ہمیشہ مسلکی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ انہوں نے زندہ ضمیروں کے لئے خود کو نمونۂ عمل کے طور پر ثابت کیا اور حریت پسندوں نے ان کے نقش قدم پر چل کر آزادی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا۔انہوں نے خطے میں مزاحمتی محاذ کی مضبوطی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر شام اور عراق میں داعش کی شکست کے بعد ایک نیا مقاومتی محاذ وجود میں آیا، جس میں ان کے مؤثر کردار کو ہرگز بھلایا نہیں جاسکے گا۔ حشدالشعبی، انصاراللہ، حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے جانبازوں کو انہوں نے بے حد متاثر کیا اور وہ ان کے فیصلوں اور شجاعانہ اقدامات کے گرویدہ رہے۔ ہزاروں نوجوان ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام دشمن طاقتوں سے لڑنے کے لئے سر پر کفن باندھ کر نکلے اور اب بھی نوجوان انہیں اپنے لئے اسوۂ حسنہ مانتے ہیں۔سید نے ہمیشہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کو اپنا قائد تسلیم کیا۔ وہ بغیر کسی تامل کے ان کے مشوروں اور فیصلوں پر عمل کرتے تھے۔ سید نے رہبر کے مشوروں کو ہمیشہ غیب کی باتوں سے تعبیر کیا، جس کے بارے میں انہوں نے متعدد بار اپنی گفتگو میں اشارہ بھی کیا۔ یقیناً ان کی شہادت رہبر معظم کے لئے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ۷ اکتوبر طوفان الاقصیٰ کے بعد حزب اللہ نے قدس کی آزادی کے لئے حماس کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں جنگ کا دائرہ غزہ تک محدود رہا۔ لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی رہی اور جھڑپیں ہوتی رہیں۔ رفتہ رفتہ یہ جنگ غزہ سے لبنان کی سرحدوں کی طرف منتقل ہوگئی، کیونکہ اسرائیل غزہ میں منہ کی کھا چکا تھا۔جس حماس کو چند دنوں میں ختم کرنے کے دعوے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کر رہے تھے، اس کو میدان جنگ میں شکست دینا ناممکن ہوچکا تھا۔ اس لئے کھسیانی بلّی کھمبا نوچے کی مثال، اسرائیلی فوجوں نے بے گناہ عوام، خاص طور پر عورتوں اور بچوں پر ظلم ڈھانا شروع کر دیئے۔ اس لئے اب جنگ لبنان کی سرحدوں کی طرف منتقل ہوگئی تھی، جہاں حزب اللہ نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کا سامنا کیا۔ سید حسن نصراللہ کا بار بار یہ کہنا کہ ہم عنقریب بیت المقدس میں نماز ادا کریں گے، دشمن کو خوف ناک کرب میں مبتلا کر دیتا تھا۔ دوسری طرف حوثیوں نے بحر احمر کی گذرگاہوں کو اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں پر تنگ کر دیا تھا۔ شام اور عراق میں موجود مزاحمتی محاذ بھی کھل کر میدان میں آچکے تھے۔ اس لئے جنگ براہ راست حزب اللہ کے ساتھ شروع ہوگئی۔گذشتہ چند ہفتوں میں اس جنگ کا دائرہ بڑھتا گیا اور پھر اسرائیل نے لبنان میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے سید حسن نصراللہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سید کی شہادت کے بعد لبنان اور غزہ کی جنگ نئے مرحلے میں داخل ہوگی۔اسرائیل کو بھی یقین ہے کہ اصل جنگ اب شروع ہوگی۔ اس لئے حسن نصراللہ کی شہادت سے ٹھیک پہلے دہشت گردی کے بانی امریکہ نے ۸ ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی فوجی امداد اسرائیل کے لئے منظور کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ گویا کہ امریکہ اس قتل میں براہ راست ملوث ہے، جس طرح وہ جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ نے سید کی شہادت سے ٹھیک پہلے اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کی فوجی کمک کو منظوری دی۔دوسرے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس وقت اسرائیلی فوجیں میدان جنگ میں نہیں لڑ رہی ہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں سے مقابلہ ہے۔ اگر یہ جنگ تنہا اسرائیل کے ساتھ لڑی جا رہی ہوتی تو ۷ اکتوبر طوفان الاقصیٰ کے چند ہفتوں بعد فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ پہلے دن سے امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک رہا ہے اور مسلسل ہتھیار بھیج رہا ہے۔ بعض سادہ لوح افراد جو بڑی آسانی سے بستر پر لیٹے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آخر حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے ایسا کیوں کر دیا، ویسا کیوں نہیں کیا، خود فریبی کا شکار ہیں۔ جو لوگ میدان جنگ میں سر پر کفن باندھ کر لڑ رہے ہیں، کیا وہ ان تمام اندازوں اور قیاسوں سے باخبر نہیں ہیں، جنکی بنیاد پر ہم بے جا تنقید کرکے اپنا دل جلاتے رہتے ہیں۔یقیناً حماس، حزب اللہ، حوثیوں اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل اور اس کے حلیفوں کو ایسی کاری ضرب لگائی ہے، جس نے انہیں بسمل کر دیا ہے۔ اسرائیل کا جتنا نقصان ہوا ہے، وہ کبھی سامنے نہیں آئے گا، کیونکہ تمام ذرائع ابلاغ پر اس کا قبضہ ہے۔ ہم تک وہی معلومات پہنچتی ہیں، جو وہ پہنچنے دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے مزاحمتی محاذ پر طنز و تنقید کے بجائے ان کی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہیئے۔ اگر کوسنا ہے تو ان مسلمان ملکوں کو کوسئیے جو عالم اسلام کی رہبری کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر رسمی بیان بازی اور مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھے۔ خاص طور پر ترکیہ اور سعودی عرب جیسے ملک، جو اب بھی اردن اور مصر کے راستے اسرائیل کو کمک پہنچا رہے ہیں۔سید کی شہادت میں مسلمانوں کے نفاق کا بھی بڑا کردار ہے، جس کو ہرگز فراموش نہیں کیا جائے گا۔ سید حسن نصراللہ اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملے۔ یقیناً ان کا غم ناقابل برداشت ہے، لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مزاحمتی محاذ کی مائیں بانجھ نہیں ہیں۔ ابھی ہزاروں نصراللہ، اسماعیل ہنیہ، ابو مہدی اور قاسم سلیمانی موجود ہیں، جو دشمن سے ٹکر لیتے رہیں گے۔ بقول علامہ اقبال؎جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے تحریر: عادل فراز This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.