7 اکتوبر 2024ء طوفان الاقصی آپریشن کی سالگرہ کا دن ہے۔ آج ایک سال مکمل ہونے پر ہم اس عظیم تاریخی کامیابی کے بارے میں فخر اور عزت کا احساس کر رہے ہیں جو صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کا تاریخی موڑ ثابت ہوا ہے۔ یہ آپریشن فلسطین کی مزاحمت کے پس منظر میں محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ اپنی سرزمین اور اپنے دفاع پر مبنی مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حق کی تجلی تھی۔ طوفان الاقصی آپریشن ایسے دشمن کو منہ توڑ جواب تھا جو جنگی جرائم، نسل کشی اور دہشت گردی سمیت ملت فلسطین کے خلاف کسی قسم کے مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتا تھا اور اس کے یہ تمام تر اقدامات عالمی طاقتوں کی واضح حمایت سے انجام پاتے تھے۔
طوفان الاقصی کے اسباب
طوفان الاقصی آپریشن ہماری قوم کی تاریخ کے حساس مرحلے میں انجام پایا تھا۔
جب صہیونی دشمن امریکہ کی بے دریغ اور بھرپور حمایت سے ایسے استعماری منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے درپے تھا جس کا مقصد فلسطین کاز کا خاتمہ اور اسرائیل کو خطے کی واحد برتر طاقت میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کا نشانہ صرف فلسطینی عوام نہیں تھے بلکہ اصل مقصد خطے میں تمام امریکہ اور صہیونزم مخالف قوتوں کا خاتمہ کر کے پوری امت مسلمہ کو غاصب صہیونی رژیم کے زیر تسلط لانا تھا۔ طوفان الاقصی آپریشن اس منحوس سازش کے خلاف انجام پایا تھا اور اس نے اس استعماری منصوبے کے حامیوں کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی مزاحمت اور خطے کی حریت پسند قوتیں ہر گز اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائے جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔ طوفان الاقصی آپریشن دشمن اور صہیونی امریکی اتحاد پر کاری ضرب تھی۔ وہ خطے میں نئے استعماری زمینی حقائق ایجاد کرنے کے درپے تھے لیکن طوفان الاقصی آپریشن نے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔
طوفان الاقصی کے اثرات
طوفان الاقصی آپریشن نہ صرف ایک فوجی ضرب تھی بلکہ اس نے غاصب صہیونی رژیم کی پیش کردہ تصویر بھی نابود کر کے رکھ دی۔ صہیونی رژیم ہمیشہ سے دنیا والوں پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ یہ جھوٹی تصویر اس طرح سے نابود ہوئی ہے کہ اب اس کی دوبارہ تعمیر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں صہیونی رژیم کی کمزوری کھل کر سامنے آئی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی رژیم نے زیادہ شدت سے انسانیت سوز مظالم انجام دیے ہیں اور یوں اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہے جبکہ اسے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے جو بدستور اس رژیم کی سیاسی، فوجی، سفارتی، مالی اور اخلاقی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ انسانیت سوز جرائم دنیا والوں کو خاموش رہنے پر مجبور نہیں کر سکے۔
غزہ میں غاصب صہیونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت، بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام اور باقاعدہ منصوبے سے غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنا کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور عالمی رپورٹس نے ان حقائق کو عیاں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی رائے عامہ تیزی سے مسئلہ فلسطین کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں آواز اٹھ رہی ہے اور وہ ملت فلسطین کے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصی کے بعد
آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور خطرناک مرحلے میں ہیں۔ ہم ایک تاریخی ذمہ داری سے روبرو ہیں جو تمام محاذوں پر پوری طاقت سے صہیونی امریکی سازش کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر مبنی ہے۔ ہمیں دشمن پر زیادہ طاقت سے ضرب لگانی ہو گی۔ نہ صرف فوجی محاذ پر بلکہ میڈیا، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ صہیونی رژیم کا جھوٹا چہرہ دنیا والوں کے سامنے عیاں کر سکیں۔
شہید سید حسن نصراللہ مزاحمت کی علامت
آج ہم انتہائی غم کے عالم میں مجاہد کمانڈر، سید حسن نصراللہ کی شہادت کا سوگ بھی منا رہے ہیں۔ ایسی شخصیت جو اسلامی مزاحمت کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئی اور ان کا شمار اسلامی جدوجہد کی موثر ترین اور کامیاب ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی کامیابیوں کے ذریعے سرحدوں سے ماوراء عمل کیا اور صہیونی اور امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔ وہ نہ صرف لبنان بلکہ پوری عرب اور اسلامی دنیا میں مزاحمت کی علامت ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے لیکن ساتھ ہی اسلامی مزاحمت جاری رکھنے پر تاکید بھی ہے جسے استحکام عطا کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ شہید سید حسن نصراللہ نے عرب دنیا کی موثر ترین شخصیت کے طور پر اسلامی مزاحمت کو تاریخی کامیابیوں سے ہمکنار کیا اور غاصب صہیونی رژیم کو کمزور کیا۔
شہید سید حسن نصراللہ کی میراث، ان کے تمام حامیوں اور محبین نیز دنیا بھر کے حریت پسند انسانوں کے دل و دماغ میں ان کی روح اور الفاظ کی صورت میں زندہ رہے گی۔ ان کی تقریریں اور الفاظ ہمیشہ سے دوسروں کی رہنما رہیں اور جن اقوام نے ان سے استقامت اور مزاحمت کا سبق سیکھا ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ یہ عظیم میراث ایک روشن چراغ کی مانند سب کیلئے آزادی اور مزاحمت کا راستہ روشن کرتی رہے گی۔ آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور حساس مرحلے میں ہیں۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ یہ اسلامی مزاحمت جس کا نمائندہ سید حسن نصراللہ تھے، ہمیشہ جاری رہے گی۔ شہداء خاص طور پر سید حسن نصراللہ کا خون ہر گز بے ثمر نہیں ہو گا۔ ان کی روحانی اور جہادی میراث روشنی کی مانند مزاحمت کے راستے پر چمکتی رہے گی۔ آخر میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ سید حسن نصراللہ کا راستہ جاری رہے گا اور فتح قریب ہے، باذن اللہ۔
تحریر: ناصر ابوشریف (ایران میں اسلامک جہاد فلسطین کے نمائندے)