لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کیوں اور کیسے؟

Rate this item
(0 votes)
لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کیوں اور کیسے؟
لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اسرائیل عرصے سے غزہ اور لبنان کے باسیوں کو خون ناحق کے سمندر میں ڈبو کر دنیا میں فاتح بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل انسانی خون کا پیاسا ایسا سگ ہے، جو کبھی سیراب نہیں ہوتا۔ اس بے مہار انسانی دشمن کے ہاتھوں شھید حسن نصراللہ اور اسماعیل ھنیہ جیسی عظیم شخصیات کی قیمتی جانوں کا ضیاع امت مسلمہ، خاص طور پر جبھہ مقاومت کے لئے یقیناً ایسا نقصان ہے، جس کا ازالہ صدیاں گزرنے کے بعد ہوگا۔ ایسے میں ہر باشعور انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی امنیت، وقار اور خود مختاری کا دفاع کرے۔ اس وقت غزہ اور لبنان میں رہنے والے لوگ انسانی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان کا دفاع اور ان کے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حالت زار پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ غزہ کی سرزمین کا دفاع فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لبنان اور غزہ کا دفاع مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ علاقے غیر محفوظ رہیں گے تو اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا۔ استحکام کی عدم موجودگی کی صورت میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور دیگر مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ صرف سرزمین کی نہیں بلکہ ایک نظریئے، ثقافت اور شناخت کی جنگ ہے۔ ان کا دفاع کرکے مسلمانان عالم اپنے عقائد اور ثقافت کی بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ لبنان اور غزہ کے دفاع کا عمل مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتا ہے۔ جب ایک قوم یا علاقے کے لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایسا نمونہ بنتا ہے، جو انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لبنان اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم مختلف طریقوں سے ان کی فکری و عملی حمایت اور مدد کرسکتے ہیں، مثلاً ہم حزب اللہ اور حماس کے نظریات، تاریخ اور ان کی جدوجہد کا پرچار کرنے کے لئے مقالہ جات، مضامین، بلاگ یا سوشل میڈیا پر تحریریں لکھ سکتے ہیں۔ ہم مختلف اداروں کے ذریعے غزہ اور لبنان کے عوام کے لیے غذائی اشیاء، طبی امداد اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور حماس کی حمایت کے لیے تعلیمی پروگرامز کا انعقاد کرسکتے ہیں، جن میں حزب اللہ اور حماس کی تاریخ، ثقافت اور مقاصد کے بارے میں ورکشاپس اور سیمینارز شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور غزہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں۔ غرض حزب اللہ اور حماس کی مدد کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، یہ کسی ایک روش میں منحصر نہیں۔

دفاعی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، وطن اور عزت کی حفاظت کے لیے جنگ کریں۔ رہبر معظم کے مطابق یہ جہاد ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے مسلمان اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہیں۔ جہاد مسلمانوں کی عزت اور خود مختاری کا ذریعہ ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہو تو ان کا خاموش رہنا کسی صورت جائز نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنی بساط کے مطابق دفاع کریں۔ انہیں کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ بلاشبہ لبنان اور غزہ کا دفاع مسلمانوں کے درمیان اتحاد مضبوط کرنے کا سبب بنے گا۔ جب شیعہ سنی مسلمان ایک ہی مقصد کے لیے مل کر دفاعی جنگ کرتے ہیں تو ان میں بھائی چارے اور محبت کی ایک نئی لہر پیدا ہوہی جاتی ہے۔ لبنان اور غزہ کا دفاعی جہاد مسلمانوں کو اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔

یہ ایک بہترین موقع ہے کہ مسلمانان جہاں لبنان اور غزہ کی حمایت میں ملکر آواز بلند کرکے اپنی ایمانی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بات بھی قطعی ہے کہ دفاعی جہاد سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو وہ پوری خود اعتمادی سے اپنی عزت اور وقار کو بحال کرسکتے ہیں۔ اگر تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ دفاعی جہاد کا مسئلہ ہمارے فقہاء کے لئے انتہائی حساس مسئلہ تھا۔ مثلاً سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے ایران کے جنوب میں برطانوی جارحیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کیا: ان دنوں میں اٹلی جیسے یورپی ممالک نے مغرب میں طرابلس پر حملہ کیا ہے، دوسری طرف روسیوں نے ایران کے شمال پر قبضہ کیا ہے اور ایران کے جنوب میں بھی انگریزوں نے اپنی فوجیں تعینات کرکے اسلام کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے، ایسے میں تمام عرب اور ایرانی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے کافروں کو بھگانے کے لیے خود کو تیار کریں۔

اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے مغرب میں اطالوی افواج کو طرابلس سے نکالنے اور روسی اور برطانوی افواج کو ایران سے نکالنے کی راہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ عمل اسلامی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے۔ ان شاء اللہ خدا کی مدد سے دونوں اسلامی ممالک صلیبیوں کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ دیگر فقہا جیسے محمد حسین قمشی سید مصطفیٰ کاشانی، شیخ محمد آل شیخ صاحب جواہر، سید محمد سعید حوبوبی، محمد حسین حائری مازندرانی اور سید علی تبریزی ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے اس دور میں جارحین کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا۔ اسے مسلمانوں کا اہم فریضہ شمار کیا گیا اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کفر، ارتداد اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ ​​کرنے کا مترادف سمجھا گیا۔ ان میں شیخ الشریعہ اصفہانی کا 1330ھ میں بیان کردہ روشن بیان مثالی ہے۔اس بیان میں انہوں نے بڑے بڑے علماء،امیروں، عشائر کے مردوں، مختلف قبیلوں اور طبقوں کے لوگوں سے خطاب کیا۔

انہوں نے دشمنان اسلام کے ان منصوبوں اور سازشوں کا پردہ فاش کیا، جن کو انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کے نام سے مسلم معاشرے میں لانچ کیا، لیکن اس سے ان کا ہدف مسلمانوں کو فریب دے کر اپنے معاشی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کو وسعت دینا اور مسلمانوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان کا محتاج کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں اپنے خطاب کے آخری حصے میں مسلمانوں کو یوں خبردار کیا: آج وہ دن ہے، جس میں کفر اور اسلام آمنے سامنے ہیں۔ یہ وہ دن ہے، جس میں بے کس رہنے والے اسلام کی مدد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس دور میں آزادی اور اسلامی سرزمینوں کے دفاع کے لئے میدان میں حاضر رہنا شیعہ فقہاء سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ سنی علماء اور مفتیوں نے بھی فتوے اور بیانات جاری کرکے مسلمانوں کو جارحین کے خلاف اپنے دفاع کی ترغیب وتشویق دلائی گئی۔

جنگ عظیم کے آغاز میں سب سے پہلے متحدہ یورپی حکومتوں نے اسلامی ملک عثمانیہ پر حملہ کیا۔ چنانچہ ایران اور عراق کے شہری مقامات جارحیت پسندوں کے حملے کے زد میں آگئے۔ اس دور میں شیعہ فقہاء اور سنی علماء نے جارحین کے خلاف جہاد اور دفاع کے فتوے جاری کرکے لوگوں کو اپنی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مگر آج غزہ اور لبنان میں مسلمان اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں،دنیا بھر کی استکباری طاقتیں غزہ اور لبنان کے مسلمانوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہیں، مگر ایران یمن جیسے دو تین اسلامی ملکوں کے علاوہ اسلامی ممالک غزہ اور لبنان کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف حمایت اور مدد کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سب اسرائیل کو شتر بے مہار بنا کر غزہ اور لبنان میں انسانی خون کا دریا بہانے کی اجازت دینے پر متحد و متفق نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
 
تحریر: محمد حسن جمالی
 
Read 4 times