شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ولد سید امیر حسین نقوی کے خاندان کا سلسلہ امام حضرت علی نقی سے ملتا ہے۔ یہ خاندان سادات تبلیغ پیغام کربلا میں مصروف رہا اور تقریباً تقریباً آج سے ڈیڑھ سو سال قبل شہید ڈاکٹر کے پردادا مدد علی شاہ شرقپور سے وطنہ آکر آباد ہوئے۔ یہ خاندان اپنے تقوٰی اور کردار کی بناء پر عوام الناس میں مقبول ہوا ور پھر ڈاکٹر صاحب کے دادا نے اپنی زندگی کا آغاز علاقہ نواب صاحب میں جہاں آپ کی قبر ہے۔ جبکہ آپ کے والد بزرگوار نے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم دین کے حصول کے لیے نجف کا رخ کیا۔ مختصر یہ کہ سید امیر حسین نقوی نے اپنی زندگی کے آٹھ سال نجف میں حصول علم کے لیے وقف کیے اور باقی زندگی فروغ تعلیمات محمد و آل محمد میں صرَف کئے اور تقریباً پوری زندگی افریقہ، کینیڈا اور کینیا وغیرہ میں گذاری جبکہ خداوند کریم نے آپ کو دو فرزند اور چھ صاحب زادیاں عطا کیں جو تمام کے تمام اپنی مثال آپ ہیں اور ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تو کمال ہی کیا خاندان تو خاندان، قوم کی لاج بھی رکھ لی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی پیدائش: شہی28دستمبر 1952ء کو لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں ایک ایسے فرزند زہرہ نے آنکھ کھولی جو بعد میں بانی بن کر سامنے آیا۔ اس فرزند زہرہ کا نام ملت جعفریہ کے مسیحا علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے محمد علی تجویز کیا اور فخریہ انداز میں فرمایاکہمیری زندگی میں اس نام کے ہر شخص نے ستاروں پہ کمند ڈالے ہیں۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ کے والد نجف اشرف میں مقیم تھے۔ اسی سال واپس آئے اور واپسی پر اہل خانہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف و کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا تو بولنا کربلا میں شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا۔ جینا علی کی صورت مرنا حسین بن کر تقریباً چھ سال تک نجف و کربلا کی فضاﺅں میں پروان چڑھے یوں خوب کربلا والوں کی محبت خون میں رچ بس گئی۔
شہید کی تعلیمی سرگرمیاں: اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی بعد ازاں والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا اور اپنے سینیئر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے کمپالہ میں پاس کیا ۔ بعد از انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج سے کیا اور بعد میں بھی کیا۔
اسی دوران اپنی تنظیمی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جبکہ اپنی ابتدائی سرکاری سوس ہسپتال میں کی۔ جبکہ میں بھی کی اور دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
تحصیلِ علم کے دوران چند سرگرمیاں: سینیئر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں اپنے اسکاﺅٹ کی تعلیم حاصل کی اور اس دوران میں اپنے آپ کو بہترین اسکاﺅٹ ثابت کیا۔ دوران تعلیم سینیئر کیمبرج میں آپ ایک اچھے طالب علم تھے اور نوبت یہاں تک آئی کہ آپ کو کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ آ پ نے ایک کی حیثیت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔
شہید اور کھیل: آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈو کراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی کے قول پر عمل بھی کیا۔ تیراکی بھی سیکھی اور کا اعزاز حاصل کیا اور گھڑسواری اور نشانہ بازی بھی سیکھی۔ آپ کو بچپن ہی سے کا شوق تھا۔ جو آپ نے جمع کیے وہ آج تک محفوظ ہیں۔ جبکہ کتاب پڑھنا بھی آپ کا بہترین مشغلہ تھا۔ جس کا اندازہ اس لائبریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے۔ جہاں ہزارہا کتابیں انگلش، اردو، فارسی اور عربی میں موجود ہیں۔ ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں کہ ان تمام کتابوں کو ڈاکٹر صاحب نے بغور مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شھید کو کس قدر لائبریریز میں دلچسپی تھی اوریہ انہیں بزرگان کی کوششوں کاثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کانیٹ ورک نظر آتا ہے۔
شھید اور تنظیم : ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے شعور انسانی کو بیدار کرنے کے لیے ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے۔ اسی دوران آپ کی پڑھائی بھی نظر انداز ہوئی اور نوبت یہاں آن پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش بھی کی۔ شہید کی محنت اور انعام : پس اس فرزند نے والد کی اطاعت کی خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی۔ جن واقعات کو آپ کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر کو 18 گھنٹے بھی پڑھتے دیکھا اور حد یہاں تک کہ رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے اگر نیند غالب آنے لگتی تو پانی سے اپنے آپ کو بیدار کرتے۔ آخر کار محنت رنگ لائی اور اپنے 70% نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ پس ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔ بانی ہونے کا انداز: تنظیمی دور میں فعالیت، میڈیکل کی پڑھائی کے دوران آئی ایس او تنظیم کا باقاعدہ پہلا اجلاس ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اسی دوران تنظیم کا نام آغا علی موسوی کے دست شفقت سے تجویز پایا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب اکثر اوقات دوستوں کو کا مفہوم یوں بیان کرتے علم کیمیاءمیں آئی ایس او پاکستان کا مطلب ایک جیسا ہونا ہے اور شھید کے کزن انکا ایک جملہ یوں نقل کرتے ہیں کہ وہ اکژ کو یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ آئی سو"یعنی مجھے دیکھو ،میرا کردار ، میرے افکار اور میرا اخلاق اہلیبیت کے ماننے والو جیسا ہونا چاہیے اسی دوران کی پہلی کابینہ کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر صاحب کو آفس سیکریٹری منتخب کیا گیا جو کہ آپ کی پسندیدہ شعبہ تھا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تنظیم کا مرکزی آفس جس قدر مستحکم اوریونٹس سے مربوط ہوگا وہ تنظیم اسی قدر ترقی کرے گی۔ کا کامنظر عام پر آنا کاکا تعارف یونیورسٹی میں یوم حسین کے پروگرام سے ہوا۔ جس کا انعقاد پہلی بار پنجاب یونیورسٹی کے سیمینار ہال میں ہوا۔ جس میں تاریخی خطاب جناب مفتی جعفر حسین نے کیا اورجو پروگرام یومِ حسین آج بھی پاکستان کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں جاری وساری ہیں آج یہ پروگرامات کی پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ پہلا تنظیمی پروگرام تھا جس کی بناءپر پہلی بار کو عوامی سطح پر بھر پور کامیابی ملی۔ یوں ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں متعارف ہوئی۔ ک کی نشرواشاعت اور ڈاکٹر صاحب اسی دوران ڈاکٹر صاحب کی سوچ کی بناءپر اور پختہ جذبہ کی بدولت ایک کیلنڈر کی اشاعت ممکن ہوئی۔ جس پر امام حسین کے روضہ کی تصویر تھی اور اس تنظیم کے نصب العین اور مقاصد لوگوں پر واضح کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے جذبات صرف اشاعت کی حد تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ آپ نے اس کی مارکیٹنگ اور فروخت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس کو چشم دید گواہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے کالج کے سائیکل اسٹینڈ پر کھڑے ہو کر کیلنڈر فروخت کرتے تھے۔ اس کیلنڈر کی بناءپر کی خوشبو ملک کی فضاﺅں میں پھیل گئی۔ کا یک ملک گیر تنظیم 1975ءسے 1976 ءمیں ملک بھر میں پھیلی اور اس کا چوتھا سالانہ کنونشن دفتر سے نکل کر پنڈال کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ کا پہلا کنونشن تھا جو جامعة المنتظر لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے کنونشن کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور تمام آنے والے برادران کا والہانہ استقبال کیا اور ان کے سینوں کو کے بیجز سے منور کرتے۔ یہاں تک کہ اس دوران مٰں مختلف برادران سے ملتے اوردوران پروگرام دشواریوں کے بارے میں دریافت کرتے اور ان کے تاثرات کو تحریر کرتے اور مشکلات پر ان سے معذرت چاہتے۔ دن بھر اگر تنظیمی امور میں مصروف رہتے تو رات بھر برادران کے ساتھ خوردونوش کے انتظامات میں مصروف رہتے۔ یہاں تک کہ اگر موقع ملتا تو برتن صاف کرنے میں بھی برادران کا ساتھ دیتے۔ جس کو شھید ڈاکٹر محمدعلی سے منصوب کیا گیا۔ اور نام سفیر انقلاب تجویز پایا۔
شہید کے بطور مر کز ی صدر: یہ تنظیمی سفر مختلف نشیب و فراز سے گزرتا رہا اور آخر حالات و واقعات اور تنظیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1976 ءسے 1977 ءمیں ڈاکٹر صاحب کو کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔ جب آپ کو بطور مرکزی صدر اسٹیج پر لایا گیا تو آپ اشکبار تھے۔ جس کی وجہ آپ کے اس قول سے واضح ہوتی ہے کہ ” دوستو حلف صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ حلف کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے “ آپ حقیقتاً ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے حلف کو صرف صدارتی مدت کے لیے نہیں بلکہ تمام عمر حلف پر قائم رہے۔ ( میں خدا و رسول اور امام زمانہ۴ کے روبرو اقرار کرتا ہوں ....) اس دوران خاص طور پر اپنے دوستوں کی توجہ خود سازی کی طرف دلائی۔ شہید اپنی موٹر سائیکل پر علماءکرام کو لے کر شہر کے کونے کونے میں درس کے پروگرام میں لے جاتے اور خود بھی بغور درس سنتے اور اھم نکات کو نوٹ کرتے۔ نوجوانوں میں اسلامی فکر پیدا کرتے۔ اپنی صدارت کے دوران اپنے ” امامیہ نیوز بلٹن “ شائع کرنے کی بھی کوشش کی۔
شادی اور تنظیم: مارچ 1971 ئمیں آپ کا نکاح آپ کے تایا سید شبیر حسین نقوی کی صاحبزادی سیدہ کنیز بتول نقوی سے ہوا۔ جو اس دور کے مانے ہوئے باعمل روحانی شخصیت تھے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی زوجہ نیک اخترکی اور ان کی پرورش میں ان کی پھوپھی کا بڑا کردار تھا اور آپ کا نام بھی انہوں نے تجویز کیا جن کی قبر مبارک وادی السلام نجف میں ہے۔ نکاح سے ایک روز قبل آپ کو تاکید کی گئی کہ آپ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم رہیں ورنہ وقت نکاح انہیں لاہور شہر میں ڈھونڈنامشکل ھو جائے گا۔ شہید کے تنظیمی کاموں میں ڈوبے ہونے کا یہ عالم تھا کہ بارات کی روانگی سے تھوڑی دیر پہلے آپ کو پریس سے لایا گیا۔ جہاں آپ تنظیمی پوسٹر چھپوانے میں مصروف تھے۔ تنظیم سے مخلص ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ نے اپنی زوجہ سے پہلی ملاقات کی تو یہ بات واضح کردی کہ ” یہ میری دوسری شادی ہے “ جب زوجہ کافی پریشان ہوئیں تو آپ نے کہا کہ میں پہلی شادی تنظیم سے کر چکا ہوں لہٰذا گھر کوزیادہ وقت نہ دینے کا شکوہ مت کرنا۔ اپنی دونوں شادیوں کو انہوں نے خوب احسن طریقے سے نبھایا۔ فکری ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب بانی ہیں تو زوجہ بانی شعبہ طالبات ہیں۔ اسی بناءپر طالبات کا پہلا مرکزی دفتر ڈاکٹر صاحب کا گھر منتخب ہوا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ آپ کی زوجہ نے یوں سوچا ہوگا! ” اگر آپ سفیر کربلا ہیں تو میں سفیر شام ہوں، آپ حسین کی صدا پر لبیک کہیں اور ورد بنائیں تو میں زینب کی صدا پر لبیک کہتی ہوں اور زینبی خطیبوں کو ورد بناتی ہوں “ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان طلباءو طالبات آپ کے گھر میں پروان چڑھے اور آپ ان کے روحانی والدین ہیں۔ یہیں پر انکی تربیت ہوئی اور یہیں پر منزل کا تعین اور یقینِ محکم ملا اور یہیں سے سفر کا آغازھوا۔
انقلاب ایران اور شہید: سرزمین ایران پر اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہو چکا تھا جبکہ آپ کی ذات انقلابی سرگرمیوں کا محور تھی درحقیقت انقلاب ایران ولایت فقیہ اور خط امام رح کو پا کستان میں متعارف کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ملک کے کونے کونے میں میں جا کر اسلامی لو گوں کو انقلاب کا پیغام پہنچایا پاکستان کو ولایت فقیہ سے منسلک کیا یوں پاکستان میں شھید کے اقدامات کی بدولت انقلاب کی پاسبان بنی یہ ایک بہت بڑا شرف تھا جو اس عظیم شھید کو حاصل ہوا اس ہی وجہ سے انکا نام سفیر انقلاب پڑا ۔ اس لیے آپ تمام حساس اداروں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔ انہی وجوہات کی بناءپر آپ کے پے در پے تبادلے ہوئے۔ آخر کار لاہور کے سرکاری ہسپتال کی ملازمت چھوڑنا پڑی۔اسی دوران پاکستان میں پہلا یوم مردہ باد امریکہ 16 مئی کو شہید عارف الحسینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے منایا گیا۔ یہ جلوس شہید عارف الحسینی کی قیادت میں برآمد ہوا اور ڈاکٹر صاحب آپ کے دست راست ٹھہرے۔ اس جلوس کے دوران شہید نے اپنے دوستوں کی مدد سے ایک طویل بینر جس پر لکھا گیا تھا لاہور کے معروف کاروباری مرکز الفلاح بلڈنگ کے اوپر لگایا۔ یہی وہ واقعہ تھا کہ جس
کی بناءپر بعد از شہادت نعرہ لگا کہ ” ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے “ اسی دوران قائد انقلاب اسلامی امام خمینی بت شکن نے صدائے" ھل من ناصر ینصرنا بلند کی ک " جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہو وہ محاذ پر جائے“۔ پس اس فرزند زہرا نے آخری امام کے حقیقی نائب کی صدا پر پاکستان سے لبیک یا امام کا نعرہ بلند کیا ور محاذ جنگ میں ڈاکٹری کے فرائض انجام دینے کے لیے روانہ ہوگئے۔ آپ دوران محاذ غازیان ایران کی تیمارداری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے دوران جنگ ایران کے شہر شلمچے اور اھواز میں طبی خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران میں کچھ احباب جب آپ کو آرام کو کہتے تو آپ جواباً کہتے کہ: ” دوستو میں یہاں آرام کرنے نہیں بلکہ فرزندان اسلام کی خدمت کے لیے آیا ہوں “۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے دوستوں نے آپ کو ڈاکٹر پریشان کا لقب دیا اور بعد میں ایک برادر نے ڈاکٹر صاحب کو ایک کارڈ اسرسال کیا جس پر ڈاکٹر شہید مصطفیٰ چمران کی تصویر بنی ہوئی تھی اور لکھا تھا ” چمران ثانی کے لیے“۔ جب برادران برسی ِ امام خمینی کے موقع پر ایران گئے اور شھید مصطفی چمران کی مقتل گاہ پر حاضری دی تو ایک بسیجی نے چمران ثانی کے بارے میں یوں کہا جو کہ امام خمینی کا قول ہے” جیو چمران کی طرح اور مروچمران کی طرح“۔
ڈاکٹر صاحب اور اصول پسندی: ڈاکٹر صاحب کے اصول پسند ہونے اور عاشق انقلاب ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران جنگ ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے ادویات کے ٹرک بھی ایران روانہ کیے گئے جن کے ساتھ خود ڈاکٹر صاحب ایران گئے۔ اس دوران جب باڈر پر پہنچے تو عملے نے بتایا کہ آپکے پاسپورٹ پر ایک مہر نہیں لگی ہوئی ہے تو آپ اسی پاﺅں واپس کوئٹہ لوٹے اور اس غلطی کو درست کروایا۔ جب آپ لگاتار سفر کے بعد بارڈر پر پہنچے تو اس افسر نے سوالیہ انداز میں آپ سے کہا: ” ہو کس فولاد کے بنے ہوئے “
شھادت کی خواہش: جب ڈاکٹر صاحب محاذ جنگ سے ایک غازی کی حیثیت سے وطن واپس لوٹ رہے تھے
تو آخری الوداع قبرستان شھداء( بہشت زہرا ) کو کیا۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ اتنا خوبصورت ہے کہ دل چاہتا ہے زندہ قبر میں لیٹ جاﺅں۔ یہاں پر شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی تربت بھی ہے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب نے خوب گریہ کیا اور شہادت کی دعائیں مانگیں۔ ایک ساتھی اس واقعہ کو یاد کر کے آج بھی کہتے ہیں کہ ہم جیسوں نے کہا ڈاکٹر صاحب ہمارے بچے اور خاندان والے پیچھے وطن میں انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آیت اللہ طاہری کے درس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے اور برادران کو آگاہ کرتے: ” نمائندہ امام خمینی کے دروس انقلاب پرور ہیں بلکہ مجھے تو ان سے امام خمینی رح کی خوشبو آتی ہے “ شہید کا انقلاب ایران سے لگاﺅ تین بنیادوں پر تھا جس کا اظہار انہوں نے 11 فروری 1990 ءمیں روزنامہ جنگ لاہور کے خصوصی ایڈیشن برائے انقلاب اسلامی ایران میں یوں فرمایا کہ ( انقلاب اسلامی ایران ) قیادت، نظریہ اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ جب تک وہاں کے عوام ان بنیادی اصولوں پر قائم ہیں ہم اس وقت تک ان کا ساتھ دیتے رہیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انقلاب کی بقاءان اصولوں میں مضمر ہے۔
شہید عارف حسینی سے ڈاکٹر شہید کا عشق اور لگا و : اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب شہید قائد نے ” قرآن و سنت کانفرنس “ مینار پاکستان پر منعقد کرنے کو کہا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب حالات کے پیش نظر اس تجویز کے مخالف تھے مگر پھر بھی اپنے محبوب قائد کی آواز پر لبیک کہا اور اپنے قریبی دوستوں سے کہا: اس شخص کی بات ہم پر تین طرح سے حجت ہے: ۱۔ اول عارف حسینی ہمارے قائد ہیں۔ ۲۔ دوم یہ کہ ہمیشہ ان کی ہر بات کے پیچھے کوئی طاقت گویا ہوتی ہے۔ ۳۔ سوم یہ کہ یہ امام خمینی کے نمائندہ ہیں۔ لہٰذا ان کی کسی بات کے آگے چوں چراں گناہ کرنے کے مترادف ہے۔
شھید اور استقبال رھبرمعظم : یہ آپ کی امام خمینی رح سے محبت کا نتیجہ تھا کہ دنیا بھر میں امام کے نمائندگان سے آپ کے روابط تھے اور آپ ان کے ہر امر کی تعمیل بھی لازم سمجھتے تھے۔ 1986 ءمیں جب امام سید علی خامنہ ای صدر اسلامی جمہویہ ایران کی حیثیت سے پہلی بار سرکاری دورے پر پاکستان تشریف لائے تو لاہور میں استقبال کے تمام انتظامی امور آپ کے ہاتھ میں تھے۔ جب تمام تر تیاری کے باوجود صدر اسلامی جمہوریہ ایران ایک دن تاخیر سے آئے تو ڈاکٹر شہید نے استقبالی ہجوم کو فرمایا! ” ہمارے معزز مہمان کل تشریف لائیں گے۔ لہٰذا دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو گھروں کو واپس نہیں لوٹنا چاھئے۔ یہ صدر ایران کا استقبال نہیں ہے بلکہ امام خمینی رح کے نمائندہ کا استقبال ہے۔ لاہور والے افراد کو چاہیے کہ باہر سے آئے ہوئے برادران کو اپنے گھروں میں لے جائیں اور ان کی مہمان نوازی کریں۔ دوسرے روز جونہی نمائندہ امام خمینی رح لاہور ایئرپورٹ پر آئے تو ڈاکٹر صاحب اور آپ کے احباب نے پاکستان کی تاریخ کا مثالی استقبال کیا۔ آسمان اس موقع پر مرگ بر امریکہ اور یار امام خوش آمد سے گونج اٹھا۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یقیناً امام خمینی رح خوش ہوں گے کہ اسلامیان پاکستان نے ان کے نمائندہ کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا ہے۔
ڈاکٹر شہید کی ذات کا امام خمینی رح سے عشق: آپ امام کے سچے اور حقیقی عاشق تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ آپ نے پہلی بار پاکستان میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا اور ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو للکارا۔ جب دوران حج ایرانی باشندوں کو شہید کیا گیا تو اگلے سال ایران سے کوئی حاجی حج بیت اللہ کو نہیں گیا۔ اسی سال ڈاکٹر صاحب نے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک ٹیم تیار کی جو دنیا کے مختلف کونوں سے حج کے دوران جمع ہوئے تھے جس کا بڑا مقصد تھا کہ حجاج کرام کو شیطان دوراں سے واقف کرانا تھا۔ چنانچہ آپ لوگوں نے حجاج پر واضح کیا: ” اے مسلمانوں تم جس شیطان سے نفرت کا اظہار کر رہے ہو آج وہ امریکہ کی شکل میں موجود ہے لہٰذا آج کے شیطان بزرگ سے برآت کا اعلان کرو، قرآن مجید کے حکم کی تعمیل کرو۔ اس موقع پر ان افراد نے اپنے احرام جن پر مرگ بر امریکہ لکھا ہوا تھا ہوا میں لہرائے اور صدائے احتجاج بلند کی
خدا گواہ رہنا کہ ہم نے تیرے دین رسول اور کتاب اور ان کے پیروکاروں کے دشمنوں کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق اعلان نفرت کردیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۰۱ ذی الحجہ کی شام ایرانی نشریات سے یہ خبر نشر کر دی گئی کہ آج سعودی عرب میں عالمی سامراج امریکہ کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ بعد ازں آپ کو آپ کے دوستوں کو سعودی جیل کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ جب کسی دوست نے آپ سے دوران جیل سزاﺅں کی تکلیف کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا: ” اگر ہماری اس کوشش سے امام خمینی رح کو چند سانس بھی سکون کے میسر آجائیں تو یہ اذیتیں کوئی معنے نہیں رکھتیں “ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ برادران کے ایک سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ : دوستو جو کام ذات کے لیے ہوتے ہیں وہ تھکا دیتے ہیں اور جو کام خدا کے لیے قوم کے لیے اور قربت الہیٰ کے لیے ہوتے ہیں وہ انسان کو خستہ نہیں ہونے دیتے۔
ڈاکٹر شہید نقوی کو امام خمینی رح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جس کو خود شہید یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ” مجھے امام کی دست بوسی کی لذت کا سرور تا زیست نہیں بھولے گا۔ جب بھی تصور میں وہ لمحات آتے ہیں لذت حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر وہ محفل جس میں امام خمینی (رح) کا ذکر ہوتا آپ کی پسندیدہ محفل ہوتی تھی اور وہ افراد جو امام اور ان کی فکر کا تذکرہ کرتے تھے آپ کو محبوب لگتے تھے۔ جوں ہی ڈاکٹر صاحب کو امام کی رحلت کی خبر ملی تو آپ دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں نے آپ کو اتنا غمگین دیکھا۔ جبکہ اپنے والدین کی وفات پر صرف اشکبار ہوئے۔ یہ نہیں کہ انہیں اپنے والدین کی فرقت کا غم نہیں تھا بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ
میرے والدین کی رحلت نے مجھے یتیم کیا تھا جبکہ امام خمینی رح کی رحلت نے مسلمانان عالم کو یتیم کر دیا ہے۔ اس لیے یہ صدمہ ذاتی صدمات سے بڑھ کر ہے“۔
ڈاکٹر صاحب کی شہادت :
آپ کو اپنی موت کا یقین تھا ور آخر ایام میں دوستوں کو کہتے تھے کہ ” میں نہیں چاہتا کہ ضعیفی میں کھانس کھانس کر مروں، خدا میری زندگی کو میری متحرک زندگی سے متصل کر دے “ برس بیت گئے اور ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی لگتا ہے کہ میرا کوئی عمل خدا کو پسند نہیں آیا“۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آپ کو یقین تھا کہ آپ کو شہید کیا جائے گا ۔جس کا اندازا اس فقرے سے لگایا جاسکتا ہے جو اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا " میری لاش کا پوسٹ ماٹم نہ کیا جائے اور نہ ہی میرے جنازے پر تنظیمی اجتماع و احتجاج کیا جاے۔ آخر یہ عبد خدا جس کا متمنی تھا۔ اس ہدف تک پہنچ گیا اور طاغوتی طاقتوں اور شیطان بزرگ امریکہ کے حامی اور ایجنٹ جب آپ کی فکر کا مقابلہ نہ کر سکے تو 7 مارچ 1995 ءکو آپ کے ایک رفیق باوفا تقی حیدر کے ہمراہ صبح ساڑھے سات بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک یتیم خانہ چوک پہ کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بنایا اور آپ شہید ہوئے اور ایک ایسی سرخ موت سے ہمکنار ہوئے جسکی تمنا ہمیشہ کرتے رہے اور اپنے مولا امام علی علیہ اسلام کی طرح اسکی تلاش میں رہے اور بلآخر اسے پالیا۔