روایتوں میں جن موضو عات کے بارے میں فراوان تاکید کی گئی ہے، ان میں مومن کا طولانی آرزووٴں سے فرار کرنا بھی ہے،طولانی آرزوئیں اس امر کا سبب بنتی ہیں کہ انسان الہٰی فرائض اور معنوی مقاصد میں پیچھے رہے
حدیث مبارک کے اس حصہ میں رسول خدا دوسری نصیحتوں کے ضمن میں، خدائے متعال سے شرم و حیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
یا اباذر؛ اتحب ان تدخل الجنة ؟
”اے ابوذر! پسند کرتے ہو کہ تم بہشت میں داخل ہو؟“
جناب ابوذرۻ جواب میں عرض کرتے ہیں:
نعم فداک ابی ․․ ”جی ہاں، میرے باپ آپ پر قربان ہوں۔“
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذرسے بہشت اور ابدی سعادت کے بارے میں تین بنیادی شرائط بیان فرماتے ہیں:
۱۔ فاقصر من الامل، دورودراز آرزؤں کو اپنے دماغ سے نکال دو
۲۔ واجعل الموت نصب عینیک، موت کو ہمیشہ اپنے نزدیک تصور کرو
۳۔ واستح من اللّٰہ حق الحیاء۔ خدا سے اسی طرح شرم و حیا کرو جس کا وہ مستحق ہے
طولانی آرزوں کی مذمت اورامید سے اس کا فرق:
روایتوں میں جن موضو عات کے بارے میں فراوان تاکید کی گئی ہے، ان میں مومن کا طولانی آرزووٴں سے فرار کرنا بھی ہے،طولانی آرزوئیں اس امر کا سبب بنتی ہیں کہ انسان الہٰی فرائض اور معنوی مقاصد میں پیچھے رہے اور ان آرزوؤں تک پہنچنے کے لئے فرائض الہٰی سے پہلو تہی کرے، ہمیشہ اپنے حال پر نظر نہ رکھے اور فرصتوں سے استفادہ نہ کرے اور کل کی فکر میں قابل قدر فرصتوں کو کھودے، انسان کو کمال اور آخرت کی ابدی سعادت سے محروم کرنے کے لئے ناشائستہ طولانی آرزوؤں کو شیطان ایک کار آمد سہارے کے طورپر استعمال کرتا ہے تاکہ بندگانِ خدا کو گمراہ کرے:
جب خدائے متعال نے شیطان کو اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا‘ شیطان نے کہا:
<․․․لاٴتخذن من عبادک نصیباً مفروضاً ولاٴضلنھم ولاٴمنینھم․․․> (نساء/ ۱۱۸و ۱۱۹)
”میں تیرے بندوں میں سے ایک گروہ کو اپنے ماتحت قرار دوں گا اور انہیں گمراہ کروں گا۔ امیدیں دلاؤں گا۔“
طولانی آرزوؤں کے خطرات کے بارے میں ان کے ذریعہ انسان کے شبہات سے دوچار ہونے پھر چھوٹے گناہ انجام دینے اور اس کے بعد بڑے گناہوں اور گوناگوں کلمہ کے مرتکب ہونے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام احساس خطر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ایھا الناس ان اخوف مااخاف علیکم اثنان: اتباع الھویٰ وطول الامل فاما اتباع الھویٰ فیصد عن الحق و اما طول الامل فینسی الآخرة․․․“۱
اے لوگو! مجھے تم لوگوں کے بارے میں سب سے زیادہ خوف دو چیزوں سے ہے:ایک ہوائے نفس کی پیروی اور دوسرے طولانی خواہشات،لیکن نفسانی خواہشات کی پیروی انسان کو حق کے راستہ سے روکتی ہے اور طولانی آرزوئیں انسانکے دل سے و آخرت کی یاد کو فراموش کرا دیتی ہے ۔
امید اور طولانی آرزوؤں میں فرق کو سمجھنے کے لئے، طولانی آرزو کے مفہوم کی وضاحت ضروری ہے ، خاص کر اس کے پیش نظر کہ آرزو کے مفہوم سے امید کے معنی بھی نکلتے ہیں، اور حیات اور کوشش کا سرمایہ، خواہ مادی امور میں یا معنوی امور میںامید ہے، اگر کوئی شخص اپنی حالت کی بہتری اور نیک عمال سے نکلنے والے بہتر نتائج کی امید نہ رکھتا ہو، تو وہ نہ دنیا کے لئے کوئی کام بجالائے گا اور نہ آخرت کے لئے قرآن مجید کے فرمان کے مطابق:
<من کان یظن ان لن ینصرہ اللہ فی الدنیا والآخرة فلیمدد بسبب الی السماء ثم لیقطع فلینظر ھل یذھبن کیدہ ما یغیظ> (حج / ۱۵)
”جس شخص کا خیال یہ ہے کہ اللہ دنیا اور آخرتمیں اس کی مددنہیں کرے گا اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان کی طرف بڑھے اور پھر اس رسی کو کاٹ دے پھر دیکھے کہ اس کی ترکیب اس چیز کو دور کر سکتی ہے یا نہیں جس کے غصہ میں وہ مبتلا تھا۔“
اس تشریح کے پیش نظر، اگر انسان خدا کی مدد کے لئے کوئی امید نہ
---------------------------------------------
۱۔ نہج البلاغة (ترجمة فیض الاسلام )خطبہ/۴۲،ص/ ۱۲۷
رکھتا ہو، تو وہ ہمیشہ خشم، غضب، تزلزل اور نا اُمیدی کے دام میں گرفتار رہے گا اور ہمیشہ پریشان اور مضطرب ہوگا اور فرط نااُمیدی کی وجہ سے اپنی یا دوسروں کی سعادت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا ،پس امید طولانی آرزو سے متفاوت ہے اور امید انسان کو حرکت میں لانے والا انجن ہے۔ خدا سے امید، اخروی ثواب اور عنایات الہٰی کی امید کا شمار فضائل اخلاقی میں ہوتا ہے۔ اسی روایت میں پیغمبر اسلام ﷺ جناب ابوذرۻ سے فرماتے ہیں: کیا بہشت میں جانا پسند کرتے ہو؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امید پسندیدہ اور شائستہ چیز ہے۔ جونا پسند اور ناشائستہ ہے وہ طولانی آرزوئیں اور دنیوی خیال اورتمنائیں ہیں جو مطلوب نہیں ہیں۔ پس مومن ایسا نہیں ہے کہ نا امید ہو بلکہ وہ دنیوی پست اور حقیر آرزوؤں کو اپنے دماغ میں جگہ نہیں دیتا، کیونکہ اس کا دماغ اس سے زیادہ محترم ہے کہ دنیا کی حقیر اور پست آرزوؤں کے بارے میں سوچے، لیکن وہ مکمل طور پر خدا اور اس کے تقرب کی امید میں ہوتا ہے۔
دنیا، وسیلہ یا ہدف ومقصد-:
دنیا ذاتی طورپر مطلوب نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلوب ہونا وسیلہ کی حدتک ہے۔ یعنی انسان کو دنیا کے لئے کوشش کرنی چاہیے نہ یہ کہ اس کا مقصد دنیا ہو، دنیا کی تلاش اخروی سعادت کا وسیلہ ہونا چاہیے ورنہ تو جیہ نہیں کی جاسکتی ہے انسان کی طولانی آرزوؤں کے لئے کوشش کی بات ہی نہیں!
دنیا میں انسان کی کوشش فریضہ کو انجام دینے کے لئے ہونی چاہیے اور اس کی فعالیت، خواہ انفرادی مسائل کے بارے میںہو یا اجتماعی مسائل کے بارے میںخدا کی خوشنودی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے لئے ہونی چاہیے، ورنہ اسلام کی نظر میں، اس کی تلاش و کوشش مطلوب نہیں ہوگی بلکہ قابل مذمت ہوگی،دنیا سے اُمید باندھنا آخرت کے لئے ہونا چاہیے۔
اگر انسان چاہتا ہو کہ اس کے دنیوی امور اور فعالیتیں آخرت کے لئے وسیلہ قرار پائیں، تو اسے توجہ کرنی چاہیے کہ وہ دنیوی فعالیتیں جو آخرت تک پہنچنے کے لئے وسیلہ ہیںوہ معنوی امور کے لئے رکاوٹ کا سبب نہ بنیں کیونکہ انسان کی فکر،اس کا ذہن اور قدرت تخیل کی ظرفیت محدود ہے، جب انسان کسی موضوع کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے، تو وہ دوسرے مسائل سے باز رہتا ہے۔ جب اس کی توجہ ایک چیز پر متمرکز ہوتی ہے تو وہ دوسرے مسائل میں پیچھے رہتا ہے۔ اگر انسان شب روز اکثر دنیوی امور کی فکر میں ہو گھر، بیوی، خوراک، لباس اور اپنی اجتماعی حیثیت کے بارے میں خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ دنیا کے بارے میں ہو، اس کی فکر میں اپنے ذہن کو مشغول کرے تو آخرت کے بارے میں فکر کرنے کی اسے فرصت نہیں ہوتی حتی وہ خواب میں بھی ان امور کو دیکھتا ہے۔
اگر انسان اہل کسب ومعاش ہوتو، خواب میں چیک اور بینک ڈرافٹ دیکھتا ہے۔ یا اگر معمارہے تو خواب میں تعمیراتی وسائل اور مسائل کے بارے میں سوچتا اور غور کرتا ہے جس نے شادی نہیں کی ہو وہ خواب میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کی فکر میں ہوتا ہے یا اگر شادی کی ہے اور صاحب اولاد نہیں ہوا ہے تو خواب میں صاحب اولاد ہونے کی فکر میں ہوتا ہے ، انسان ان فکری مشغلوں اور مصروفیتوں کی وجہ سے، آخرت، معنویات، اپنی خلقت کے مقصد کے بارے میں اور اپنے دور و داراز مستقبل کے بارے میں غور و فکر نہیں کرپاتا ہے۔
یہی روزمرہ کے امور انسان کے ذہن کو ایسا مشغول کرلیتے ہیں کہ وہ واجب فرائض کو انجام نہیں دے سکتااور اگر وہ اپنے روزانہ کے مسائل سے فارغ ہوتا ہے تو آئندہ کے سوسال کی فکر میں پڑجاتا ہے کہ اس کے نواسوں اور آئندہ نسل کا کیا ہو گا؟ اس کی اولاد کس طرح کے وسائل حیات فراہم کریں گی؟ ان کے لئے کس طرح بیوی کا انتخاب کرے اور بیٹیوں کے لئے کیسے شوہر کا انتظام کرے یقینا ایسا ذہن اور ایسا دل خوشنودی خدا کےلئے معنوی مسائل، اخروی درد، روحی و معنوی بیماریوں اور اجتماعی مصلحتوں کی طرف توجہ نہیں کرسکتا ۔
بصدا فسوس کہ بعض اوقات حتی معنوی امور بھی دنیا کے لئے آلہ کاربن جاتے ہیں! یہ انسان کے لئے سب سے بڑا انقصان اور بدبختی ہے۔ اگر کسی اہل کسب و معاش نے اپنے کسب ومعاش کو دنیوی خواہشات پورا کرنے کے لئے وسیلہ قرار دیا، تو کوئی تعجب نہیں ہے، تعجب اس بات پر ہے کہ دین کو دنیا کے لئے وسیلہ قرار دیا جاتاہے۔ دین کو دینوی مقاصد کے حصول کے لئے دوکان قرار دےتا ہے ،ایسا شخص دین فروش ہے اور روایت کی تعبیر میں، دین کی راستہ سے رزق کھاتا ہے۔ زہے افسوس ! کیا بدبختی ہے انسان کو کتنا بدبخت ہونا چاہئے کہ دینی امور کو دنیا اور دینوی آرزؤں کو پورا کرنے کے لئے وسیلہ قرار دےتا ہے۔ چنانچہ معصوم ﷼نے فرمایا ہے، ایسے شخص کے دین کی جزا، وہی آمدنی ہے جو دین کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور وہی رزق ہے جسے دین کے وسیلہ سے کھا تا ہے، وہ دین سے اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ حاصل نہیں کرتا ہے:
”المستاکل بدینہ حظہ من دینہ مایا کلہ“ ۱
غنی مطلق کی طرف توجہ، غیر خدا سے بے نیازی کا سبب:
اگر مومن معرفت الہٰی اور فرائض الہٰی پر عمل کرنے کی راہ میںگامزن ہو، تو وہ پھر اپنے دنیوی امور
-------------------------------------------
۱۔ بحار الانوار :ج/۷۸،ص/۶۳
کے بارے میں نہیں سوچتا، کیونکہ خدا اس کی کفالت کرنے والا ہے اور اس کی دنیوی ضروریات کو پورا کرتا ہے، البتہ نہ اس معنی میں کہ وہ کوئی کام انجام نہ دے، بلکہ وہ اپنے ذہن کو دنیوی امور میں مشغول نہیں کرتا ہے، حتی تاجر، کسان اور صنعت کار، جو اپنے کسب معاش کے لئے کوشش کرتے ہیں، ان کا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا اور اپنا فرض نبھانا ہوتا ہے، نہ صرف دنیوی ضروریات کو پورا کرنا۔
مبارک ہو اس تاجر کے لئے جو دنیا کو آخرت کے لئے وسیلہ قرار دیتا ہے اور افسوس ہو اس شخص کے حال پرجو آخرت کو دنیا کے لئے وسیلہ قرار دیتا ہے،یقینا ایسا شخص زندگی میں ناکام رہتا ہے اور ہمیشہ اس کا دل مضطرب اور بیقرار رہے گا، کیونکہ باوجود اس کے کہ خود کو دین سے وابستہ اور اس سے آشنا جانتا ہے، دینی اور الہٰی اقدار کو باور نہیں کرتا اور اپنے علم کو عمل کے مطابق قرار نہیں دیتا اور جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان نہیں رکھتا ہے، ایسا انسان خدا کے غیظ و غضب کا مستحق قرارپا تا ہے اور خدائے متعال اس کی دنیا کو پانے والے وسائل کو اس کے سامنے سے ہٹالیتا ہے، اس لحاظ سے مشاہدہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنی زندگی میں ہمیشہ شکست اور ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں، نہ دنیا ان کے ہاتھ آتی ہے اور نہ ہی آخرت سے بہرہ مند ہوتے ہیں، لیکن اس کے برعکس جب شخص مومن ،ایمان ، اعتقاد معرفت الہٰی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے، تو خدائے متعال اس کی دنیوی زندگی کے بارے میں بھی اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور اس کی زندگی کے مسائل کو ایسے حل کرتا ہے کہ وہ دنیا کی طرف فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا اور اس سلسلہ میں تھوڑی سی بھی پریشانی نہیں رکھتا ہے، چنانچہ شب معراج خدائے متعال نے پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا:
”․․․وانہ لیتقرب الی بالنافلة حتی اُحبّہ فاذااحببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرھ الذی یبصربہ ولسانہ الذی ینطق بہ ویدہ التی یبطش بھا․․․“۱
”بندہ نماز نافلہ ( مستحبات انجام دیکر) کے وسیلہ سے مجھ سے تقرب پیدا کرتا ہے تاکہ میں اس سے محبت کروں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاؤں گا جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتا ہون گا جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاؤں کا جس سے وہ حملہ اور دفاع کرتا ہے۔“
---------------------------------------------
۱۔ اصول کافی (باترجمہ )ج/۴،ص/۵۴
اس روایت کی سند معتبر ہے، کافی جیسی کتابوں میں درج ہوئی ہے، اس کے مضامین دوسری روایتوں میں بھی آئے ہیں۔ اس روایت میں بیان کی گئی تعبیروں کے بارے میں من جملہ یہ کہ خدائے متعال فرماتا ہے: میں اس کے کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتا ہوں بعض بزرگوں، جیسے شیخ بہائی ۺ نے اپنی
کتاب اربعین میں نیز امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی کئی تفسیر یںبیان کی ہیں۔
امام خمینی کے بیان کا مضمون کتاب چہل حدیث میںیوں ہے: جس قدر دل غیر حق کی طرف متوجہ ہوجائے اور دنیوی امور کی طرف توجہ کرے اس کی ضرورتیں اور احتیاجات روز بروز بڑھتی جائیں گی۔ لیکن معنوی اور قلبی حاجتیں واضح اور روشن ہیں، کیونکہ دنیا سے اس کی وابستگی اور دلبستگی نے اسکے دل کے تمام زاویے پُر کئے ہیں۔ لیکن خارجی ضرورتیں بھی فطری ہیں جو پھیلتی ہیں، کیونکہ کوئی شخص تنہا اپنے تمام امور کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا،اگر چہ دولت مندافراد ظاہر میں بے نیاز دکھائی دیتے ہیں، لیکن وقت گزرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دولت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ضرورتیں بڑھتی جاتی ہیں، پس دولتمند حقیقت میں امیروں کے روپ میں فقیر اور بے نیازوں کے لباس میں حاجتمند ہیں۔
جس قدر انسان کے دل کی توجہ دنیاوی اور دنیا کو آباد کرنے کے امور کی تدبیر کی طرف زیادہ ہوتی جائے گی اتنی ہی زیادہ ذلت و خواری کی گرداس کے اوپر بیٹھتی جائے گی اور رسوائی کی تاریکی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیگی۔ اس کے برعکس اگر کوئی دنیا کی طرف پشت کرے اور اپنے قلب کو غنی مطلق کی طرف متوجہ کرے اور تمام مخلوقات کے ذاتی فقیر ہونے پر ایمان لائے اور جان لے کہ کوئی مخلوق اپنی طرف سے کسی چیز کی مالک نہیںہے اور کوئی بھی طاقت، عزت و سلطنت خدا کے علا وہ کسی کے لئے نہیں ہے، تو وہ دونوں جہانوں سے بے نیاز ہے اور دل میں ایسی بے نیازی کا احساس کرتا ہے کہ اس کی نظر میں ملک سلیمان کی قدر و قیمت ایک ذرہ کے برابر نہیں ہوتی۔ اگر زمین کے تمام خزانوں کی کنجی بھی اسے دے دی جائے، اعتنا نہیں کرتا، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ جبرئیل ﷼امین خدا کی طرف سے خزانوں کی کنجی حضرت خاتم الانبیاء کے لئے لے آئے تو آنحضرت نے تواضع میں اسے قبول نہیں کیا اور فقر کو اپنے لئے فخر جانا ۱ ۔
---------------------------------------------
۱۔ ”․․․وھبط مع جبریل ملک لم یطاء الارض قط‘ معہ مفاتیح خزائن الارض۔ فقال: یامحمد‘ ان ربک یقرئک السلام و یقول ھذہ مفاتیح خزائن الارض: فان شئت فکن نبیا عبداً وان شئت فکن نبیا ملکا فاشار الیہ جبریل (ع): ان تواضع یا محمد‘ فقال: بل اکون نبیا اور حضرت علی علیہ السلام نے ابن عباس سے فرمایا: یہ تمھاری دنیا میری نظروں میں اس پیوندلگی جوتی سے پست تر ہے۔ ۱
وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے خزانوں اور اس کے مال و دولت کی طرف توجہ کرنا اور اہل دنیا و اور اہل ثروت کی ہم نشینی دل میں کدورت اور تاریکی پیدا کرتی ہے اور انسان کے ارادہ کو سست کر دیتی ہے اور دل کو محتاج اور نیاز مند بنا کر خد کی طرف توجہ کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ لیکن جب دل کو صاحب دل اور گھر کو گھر کے مالک کے حوالہ کر دیا ا ور غاصب کے ہاتھ میں جانے نہیں دیا تو اس دل میں خود اس کا مالک ظہور پیدا کرتا ہے۔ البتہ غنی مطلق کا ظہور بے نیازی مطلق کو لے کر آتا ہے اور دل کو عزت و بے نیازی کے پر تلاطم دریا میں غرق کردیتا ہے:
<وللّٰہ العزة ولرسولہ وللموٴمنین> (منافقون/۸)
”ساری عزت اللہ، اس کے رسول اور صاحبان ایمان کے لئے ہے۔“
فطری بات ہے جب دل کے امور کو دل کا مالک انجام دے گا، تو انسان کو یوں ہی نہیں چھوڑتا دےگا
---------------------------------------------
۱۔عبداً ثم صعد الی السماء․․․“
”خدا کا ایک فرشتہ ، جو کبھی زمین پر نہیں آیا تھا، جبرئیل کے ہمراہ زمین پر آیا اور اس کے ہاتھ میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں تھیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پرور دگار نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا: یہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں ہیں، اگر چاہتے ہیںتو ایک بندہ کی حیثیت سے پیغمبر رہیں یا ملک سلطنت کی حیثیت سے پیغمبر رہیں۔ اس کے بعد جبرئیل نے اشارہ کیا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! انکساری سے کام لینا۔ پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بندہ کی حیثیت سے پیغمبر رہوں گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ آسمان کی طرف واپس ہو گیا“
۱۔ ”․․․قال عبداللّٰہ ابن العباس: دخلت علی امیر المومنین (ع) بذی قار وھو یخصف نعلہ: فقال لی: ماقیمة ھذہ النعل؟ فقلت: لا قیمہ لھا‘ فقال (ع) واللّٰہ لھی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقاً اوادفع باطلاً․․․“ (امالی صدوق‘ مجلس/ ۹‘ ص /۳:ح/ ۰۲)
”ابن عباس نے کہا: میں ذی قار کے مقام پر امیر المئومنین علیہ اسلام سے ملا، وہ اپنے جوتیوں کے ٹانکنے میں مشغول تھے، انھوں نےمجھ سے کہا: اس جوتی کی قیمت کتنی ہوگی؟ میں نے کہا: اس کی قیمت نہیں ہے! فرمایا: خدا کی قسم یہ جوتی میرے لئے آپ لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ غریز ہے: مگر یہ کہ حق کو قائم کروں اور باطل کو دور کروں“ (نہج البلدغہ (ترجمہ فیض الاسلام) خ ۳۳‘ص۱۱۱)
اور بندہ کے تمام امور میں خود دخل دیگا بلکہ خود اس کےلئے کان، آنکھ اور ہاتھ پاؤں بن جائےگا․․․․ اس صورت میں بندہ کی محتاجی اوراس کا فقر مکمل طور سے بر طرف ہوجائےگا اور وہ دونوں جہاں سے بے نیاز ہوجائے گا۔
البتہ حق کے اس ظہور میں تمام مخلوقات کا خوف اس سے دور ہو کر اس کی جگہ پر خدائے متعال کا خوف جانشین ہوگااور حق کی عظمت و حشمت پورے دل پر سایہ فگن۔ غیر حق کے لئے کسی قسم کی عظمت، حشمت نیز تصرف کی گنجائش نہیں ہوگی اور ” لَا مُوٴَ ثِرفی الوجود اِلَا اللّٰہ “ ۱ کی حقیقت کو پالے گا۔
روایت ”… وانّہ لیتقر ب الیّ…“ کے لئے جو سادہ ترین تفسیر کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ خدائے متعال فرماتا ہے: جو کام انسان کے لئے اس کی آنکھ اور کان انجام دیتے ہیں، میں انجام دیتا ہوں۔ جو کام اس کے ہاتھ اس کے لئے انجام دیتے ہیں، میں انجام دیتا ہوں۔ اسے اپنی مادی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے تاکہ اپنی حاجتوں کو برطرف کرسکے، لیکن میں کام کو ایسے مرتب کرتا ہوں کہ کام خود بخود انجام پاتے رہیں تاکہ اسے ذہن پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے کہ کل کیا کروں!، جب وہ گھر سے باہر آتا ہے، خدائے متعال کے ارادہ سے اور اس کے فراہم کردہ اسباب سے، شاید بندگان خدا میں سے کسی بندہ کے توسط سے اس کا کام انجام پاجائے اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور خدائے متعال اسے غیبی طور پر مدد پہنچاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عالم غیب سے براہ راست اور بلا واسطہ اس کے کام انجام پاتے ہیں بلکہ مفہوم یہ ہے کہ تمام امور کی تدبیر اور تمام کاموں کی مہارت اس کے ہاتھ میں ہے، وہ عوامل اور وسائل کو ایسے منظم کرتا ہے کہ کام بخوبی آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ بغیر اس کے کہ انسان زیادہ فکر کرنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس کرے۔
مومن کو اپنے امور اورکی ترقیکے لئے شیطانی منصوبے اور خاکے کھینچنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ جب وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی مختصر ضرورتوں کو خدائے متعال پورا کرے گا، تو وہ طولانی آرزؤں کو اپنے ذہن میں پلنے نہیں دیتا اس کا کام صرف فریضہ انجام دینے کے لئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان صرف مال و دولت کو جمع کرنے اور کسب معاش اور آمدنی کو اضافہ کرنے کی فکر میں پڑے تاکہ دنیا کی رونق اور اس کی چمک دمک میں اضافہ کرے۔ مسلسل گھر کے ڈیکوریشن کو تبدیل کرتا رہے اور نئے ماڈل کی گاڑی خریدے چونکہ یہ سلسلہ طولانی ہے، کسی جگہ پر ختم نہیں ہوتا ہے اور امام خمینی کی فرمائش کے مطابق اگرتمام کرئہ
--------------------------------------------
۱۔ امام خمینی ” چہل حدیث“ ص/۴۴۴۔۴۴۵
ارض کو بھی اس کے اختیار میں دید یا جائے، وہ مطمئن نہیں ہوگا بلکہ وہ اس فکر میں ہوگا کہ کسی اور کرہ کو بھی اس کے اختیار میں دیا جائے!
موت کی یاد اور حیائے الٰہی کے جلوے:
جو کچھ بیان ہوا اور جس کے بارے میں ہم نے پہلے بھی یاد دہانی کی، اس کے پیش نظر، پیغمبراسلام ﷺ نے بہشت میں داخل ہونے کے لئے تین شرطیں ذکر فرمائی ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اپنی آرزوؤں کو مختصر کرے، دنیا سے دلبستگی نہ رکھے، آئندہ کے بارے میں فکر مندنہ رہے، صرف آخرت کی فکر میں رہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ہمیشہ موت کی یاد میں رہے۔ پہلی شرط کے بعد اس شرط کا ذکر ان دونوں کے درمیان قریبی رابطہ کی دلیل ہے، کیونکہ اگر انسان اپنی طولانی آرزؤں کو اپنی فکر کے دائرہ سے دور کرنا چاہے، تو اسے مسلسل موت کی فکر میں رہنا چاہیے، چونکہ جب انسان موت کو مد نظر رکھتا ہے تو دنیوی آرزوؤں کا انجام اور ان کا لغو و بیہودہ ہونا بھی اس کی نظروں کے سامنے مجسم ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے طولانی آرزوؤں اور موت کے بارے میں سوچنے کے درمیان قریبی رابطہ ہے۔
آرزو کرنا اور آرزو رکھنا مکمل طور پر انسان کے اختیار میں نہیں ہے، جب انسان ایک ایسے ماحول میں تربیت پائے جس پر مادیات کی تہذیب حاکم ہو، تو دیکھنے اور سننے کی چیزیں اس پر اثر ڈالتی ہیں اور اس کی آنکھیں اور کان کو دنیا کی طرف متوجہ کر کے خواہ نخواہ اس کے دل میں دنیوی آرزوئیں پیدا کرتی ہیں۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ دنیا کی چمک دمک ہمیں فریب نہ دے اور ہم طولانی آرزوؤں کو اپنے ذہن میں نہ پالیں، اسی اہمیت کے پیش نظر پیغمبر اسلام ﷺ جناب ابوذرۻ سے تاٴکید فرماتے ہیں کہ موت کو ہمیشہ اپنے سامنے مجسم تصویر کرو، اگر کوئی ہمیشہ توجہ رکھے کہ اس کی زندگی کا انجام موت ہے تو وہ اس حقیقت کو درک کرلے گا کہ اس دنیا سے دلبستگی کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے، وہ چیز دلبستگی کے لئے لائق و سزاوار ہے کہ جو ختم ہونے والی نہ ہو، اس سے کوئی چیز کم نہ ہو اور وہ آخرت کی حیات طیبہ ہے۔
اگر انسان مسلسل موت کی فکر میںر ہے، تو وہ طولانی آرزوؤں،حرص و طمع اور بہت سی دوسری بری عادتوں میں مبتلا نہیں ہوگا۔ پس موت کی یاد آفتوں اور معنوی و روحانی بیماریوں کے لئے ایک موثر دوا ہے۔ فطری طور پر موت کی طرف توجہ پیدا کرنا بہت آسان ہے، انسان اپنے گردو نواح میں موت کی طرف توجہ کے لئے کچھ مظاہر کا اضافہ کر سکتا ہے، اپنے کمرے یاآفس میں موت کے بارے میں کچھ مطالب لکھ کرسائن بورڈ کے عنوان سے آویزاں کر دے، حتی کتاب کے اندر موت کے بارے میں کچھ کلمات تحریر کردے تاکہ اس کو دیکھ کر اسے موت کی یاد آتی رہے ۔
پیغمبر اسلام ﷺ ایک روایت میں فرماتے ہیں:
”اکیس الناس من کان اشدّ ذکراً للموت“ ۱
”لوگوں میں چالاک ترین شخص وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے۔“
یقینا چالاک انسان دھوکہ نہیں کھاتا اور دنیا و آخرت میں سے بہترین کو منتخب کرتا ہے۔ جب چالاک انسان جان لے کہ دنیا ختم اور نابود ہونے والی ہے تو اس کے لئے اہمیت اور قدر و قیمت کا قائل نہیں ہوتا ہے۔ بہ ہر صورت موت کو یاد رکھنے کی مشق، دنیا پرستی اور طولانی آرزؤں میں مبتلا ہونے سے بچنے کی ایک موٴثر دوا ہے۔
بہشت میں داخل ہونے کی تیسری شرط خدا سے حیا ہے اس کے بارے میں گزشتہ جلسہ میں بھی دوسرے انداز سے اس کی طرف اشارہ ہواتھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے حیا کرنے کی ضرورت کے بارے میں دوبارہ یاد دہانی کراتے ہیں جس کی وجہ سے ، جناب ابوذرۻ یہ محسوس کرتے ہیں کہ حیا کا مسئلہ خاص اہمیت کا حامل ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوڑی ہی دیر بعد پھر سے اس پر تاکید فرمائی جس کی وجہ سے ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مسئلہ پر اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں اور اس کے بارے میںتاکید کیوں کررہے ہیں۔ اور یہ احتمال دے رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی خاص مقصد رکھتے ہیں، اس لئے پوچھتے ہیں:
”یا رسول اللّٰہ کلنا نستحیی من اللہ “
”اے رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم سب خدائے متعال سے حیا کرتے ہیں “
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حیا کی اس حد کو کافی نہ جانتے ہوئے، خدا کی حیاکے تین جلوے بیان فرماتے ہیں۔
--------------------------------------------
۱۔ بحار الانوار :ج/۶،ص/۱۳۰
”لیس ذٰلک الحیاء ولکن الحیاء من اللّٰہ ان لا تنسی المقابر والبلی“
”خدا سے حیا ایسی نہیں ہے جو دکھائی دے بلکہ خدا سے حیا یہ ہے کہ قبروں اور ویرانوں کو فراموش نہ کرو“
حیائے الہٰی کا پہلا عکس اور الہٰی جلوہ یہ ہے کہ انسان قبرستانوں اور ویرانوں میں تبدیل ہوئی عمارتوں کو فراموش نہ کرے۔ البتہ وہ قبریںجو شاہی محلوں کے مانند مزین کی گئی ہوں اور ان کو دیکھنا انسان کو آخرت کی یاد نہیں دلاتا، بلکہ مرادوہ قبر یں ہیں جو ویران ہوگئی ہوں اور ان کی طرف لوگ توجہ کم دےتے ہو۔
اس سے پہلے بھی ہم نے یاد دہانی کرائی کہ انسا ن کا ذہن محدود ہے، اور اگر انسان مسائل کے ایک سلسلہ کی طرف توجہ دے تو دوسرے مسائل سے باز رہ جاتا ہے اور ان کی طرف جانے کے لئے اس کے ذہن میں ظرفیت باقی نہیں رہتی ۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ بعض مطلوب حالات اور مطلوب نفسانی تاٴثرات جیسے: حیا، خوف، شوق الہٰی کہ جو اسلام کی قدر و منزلت کے نظام میں شناختہ شدہ ہیں اور اخلاق میں ان کی تاکید کی گئی ہے، اپنے اندر پیدا کرے، تو اسے ان کے لئے مقدمات فراہم کرنا چاہیے، اگر انسان چاہتا ہو کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان شدہ مطلوب حیا کے مرتبہ کو اپنے اندر پیدا کرے، تو اسے دنیا کی رعنائیوں اور آشائیسوں کو ترک کرنا ہوگا۔ اسے پرانی اور ویران شدہ عمارتوں سے انس پیدا کرنا ہوگا۔ جب انسان کی توجہ ہمیشہ بڑی بڑی اورمجلل عمارتوں پر رہے گی، اس کا دھیان زیبا اور قابل توجہ کاشانوں پر ہوگا، ہر روز اس کی نظر نئے نئے ڈیکوریشنوں ، رنگار نگ پردوں پر پڑے گی تو دنیا اس کی نظر میں بیشتر جلوہ پیدا کرے گی۔ اگر وہ ان فریب دینے والے دنیوی مظاہر سے اپنی توجہ کو ہٹانا چاہے تو اسے قبرستان کارخ کرنا چاہئے اور انسانوں اور زیر خاک سوئے ہوئے مردوں کے انجام پرغور کرنا چاہئے! ویران جگہوں اور کھنڈرات میں جا کر سوچنا ہئے یہ پتھر، لوہا اور سیمنٹ جو استعمال ہوئے ہیں، ان کا انجام کیا ہے؟!
غلط فہمی نہ ہو، مقصود یہ نہیںہے کہ ہم اپنے گھروں کو خام اینٹوں اور ایسی کمزور بنیادوں پر تعمیر کریں کہ بارش سے خراب ہوجائیں۔ بلکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ انسان ہر کام کو صحیح انجام دے، اگر گھر تعمیر کررہا ہے تو اسے مضبوط اور پائدار صورت میں تعمیر کرے۔ بات یہ ہے دنیاوی زرق وبرق انسان کے دل پر اثر نہ کرے اور وہ دنیا کا شیدائی نہہو نہ یہ کہ کام کو صحیح طور پر انجام نہ دے۔ انسان کا فرض ہے اپنے کام میں سنجیدہ ہو لیکن دنیا سے وابستہ نہ ہوجائے۔ جب انسان دنیا کی عیاشیوں کو دیکھتا ہے، فطری بات ہے کہ اس کا دل ان کی طرف مجذوب ہوجاتا ہے، یہ حالت اختیاری نہیں ہے، جب دیکھتا ہے کہ اس کے ہمسایہ کے پاس گاڑی ہے اور وہ چند مدت کے بعد اس گاڑی کو ایک نئی اور اعلی قسم کی گاڑی میں تبدیل کرتا ہے، اس کے دل میںبھی ہوس پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ سے کہتا ہے: کیوں فلاں شخص مسلسل اپنی گاڑی بدلتا رہتاہے اور ہم ایک فرسودہ گاڑی کے بھی مالک نہیں ہیں؟ جب وہ گاڑی خریدتا ہے تو دوسرے دن بہتر گاڑی کی آرزو کرتا ہے اور اسی طرح روز بروز، لہذا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید یہ ہے انسان کبھی کبھی قبرستانوں ویرانوں اور کھنڈرات کی طرف بھی جاکر جھانکے۔ علمائے اخلاق بھی اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے تھے کہ ہر روز قبرستان جائیں، کم از کم ہفتہ میں ایک بار مستحب ہے قبرستان جائیں تاکہ ان کے دل دنیا کی محبت اور مادی توجہات سے صاف اور فلٹر ہوجائیںکم از کم دنیا و آخرت کے درمیان ایک توازن پیدا ہوجائے۔
ایسا نہیں ہے کہ انسان دنیوی امور کا شیدائی ہو اور دنیا کی محبت اس کے دل پر سایہ کئے ہو اور اسی حالت میں چاہتا ہو کہ خدائے متعال کا خوف بھی رکھے، سحرخیز بھی ہو اور جب امام حُسین علیہ السلام کا نام سنے تو آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوجائیں،یاجب بہشت کا نام اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے، تو اس کے دل میں ان کے بارے میں ولولہ پیدا ہوتا ہے، فطری بات ہے دنیا اور اس کی طرف توجہ نے اس کے دل میں ان امور کے لئے جگہ ہی نہیں چھوڑڑ ہے، جو دل دنیا کی محبت سے لبریز ہو، اس میںامام حُسین علیہ السلام اور حضرت زہر اسلام اللہ علیہا کی محبت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی، البتہ یہ معصومین﷼ اس قدر نورانی ہیں کہ جب ہمارے مردہ دلوں میں بھی ان کی یاد آتی ہے تو، اثر کرتی ہے، لیکن ان کی یاد آلودہ دلوں پرشائستہ و کما حقہ اثر نہیں کرتی۔
”والجوف و ماوعی“ ”اور یہ کہ شکم اور جو کچھ اس میں ہے، اسے نہ بھولو “
دوسرا ردعمل اور حیائے الہٰی کا جلوہ، یہ ہے کہ انسان دیکھ لے کہ وہ کیاکہتا ہے۔ اگر انسان نے جو کچھ اسے ہاتھ آیا اس سے استفادہ کیا اور لقمہ حرام کھانے میں کوئی دریغ نہیں کی تووہ رفتہ رفتہ قساوت سے دو چار ہوتا ہے اور اس کا دل نور الہٰی سے خالی ہوجاتا ہے۔ انسان کو اپنی غذا دیکھنی چاہئے اور اسے توجہ رکھنی چاہیے کہ شبہ والی غذائیں یا خدا نخواستہ حرام غذائیں، شقاوت قلب کا سبب بنتی ہیں اور اس کے بعد انسان کے دل میں عبادت کی رغبت، خوف خدا، شوق بہشت اور لقاء اللہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، پس خدا کی حیا کو پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے شکم اور اس میں موجودہ غذا کے بارے میں توجہ کرے۔
قرآن مجید انسان کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنی غذا کے بارے میں ہوشیار رہو:
<فلینظر الا نسان الیٰ طعامہ > (عبس/ ۲۴)
”ذرا انسان اپنے کھانے کی طرف تونگاہ کرے“
انسان کو تمام جوانب کی رعایت کرنی چاہیے اور اپنی غذا کو تمام پہلووٴںسے جانچ لینا چاہیے اسے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس کی غذا سالم، حفظان صحت کے مطابق، حلال اور پاکیزہ ہو۔ اصحاب کہف جنہوں نے برترین بندگان خدا کی حیثیت سے شرک و بت پرستی کے نظام کو چھوڑ کر عہد دقیانوسی کے کفر آمیز اعتقادات کے دام سے اپنے آپ کو آزاد کیا، قرآن مجید کی فرمائش کے مطابق غذاؤں میں سے پاکیزہ ترین اور حلال ترین غذاؤں کو منتخب کرتے تھے، قرآن مجید اصحاب کہف کے غار میں سونے کے بعد نیند سے بیدار ہونے کی روداد کو بیان کرنے کے بعد ان کی گفتگو کے بارے میں فرماتا ہے:
<فابعثوا احد کم بورقکم ھٰذہ الی المدینة فلینظر ایّھا ازکیٰ طعاماً فلیاٴتکم برزقٍ منہ > (کہف/۱۹)
”اب تم اپنے سکّے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ دیکھیں کہ کون سا کھانا بہتر اور پاکیزہ تر ہے اور اس سے تمہارے لئے رزق فراہم کرے۔“
انسان کے انحراف، حق سے کنارہ گیری اور خدا و اولیائے الہٰی کے سامنے گناہ کے مرتکب ہونے میں مال حرام کے اثرات کے پیش نظر امام حسین﷼ کے کلام کا اثر لشکر اہل کفر پر نہ ہوا تو فرمایا:
”وکلکم عاص لامری غیر مستمع قولی فقد ملئت بطونکم من الحرام وطبع علی قلوبکم “ ۱
”تم سب گناہگار ہو اور بغاوت کر رہے ہو اور میرے حکم کی نافرمانی کر رہے ہو، میری بات پر کان نہیں دھرتے ہو، بیشک تمارے شکم حرام غذا سے بھرگئے ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگی ہے“
بیشک حرام لقمہ انسان کو اس قدر قساوت اورسنگ دل بناتا ہے، کہ یہاں تک وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسہ پر تلوارکھینچنے میں بھی پرواہ نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا
----------------------------------
۱۔ بحار الانوار ج/۴۵ص/۸
سے شرم کرنے کے لئے یہ شرط ضروری سمجھتے ہیں کہ انسان توجہ کرے کہ وہ کونسی غذا کھاتا ہے۔
”والراٴس ومن حوی “ ۱
یہ کہ سر اور جوکچھ اس احاطہ میں ہے، یعنی آنکھ، کان اور زبان کو کنڑول کرو۔ تیسرا عکس العمل اور حیائے الہٰی کا جلوہ یہ ہے کہ انسان دیکھ لے کہ وہ اپنے سر میں کن فکروں اور خیالات کی پرورش کرتا ہے اور کونسی آرزوئیں اور خواہشیں رکھتا ہے۔ اگر وہ اپنے خیالات کا تصفیہ کرے، باطل افکار کو اپنے سر سے نکال باہر کرے، اور اپنااندرونی تصیفہ کرے تو مطلوب حیا کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے۔
تزئین و آرائش، اولیاء دین کی سیرت:
حدیث مبارک کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”ومن اراد کرامة الاخرة فلیدع زینة الدنیا فاذاکنت کذٰلک اصبت ولایة اللّٰہ“
”جو بھی آخرت کی عظمت و بزر گی چاہتا ہے، وہ دنیا کی زینت کو چھوڑدے، جب ایسا کرو گے تو خدائے متعال کی دوستی کے مقام تک پہنچے ہو۔“
جب انسان دنیا سے کٹ کر اس کی نسبت بے اعتنائی برتتا ہے تو وہ آخرت، اس کی پائدار نعمتوں اور قرب الہٰی پیدا کرتا ہے اور آخرت میں عزیز، محترم اور با عظمت بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان کی نظر میں دنیا بڑی دکھائی دے تو اس کی نظر میں آخرت چھوٹی ہوتی ہے۔ البتہ آخرت اور موت کے بارے میںفکر کرنا اور قبرستان میں جانا موٴثر ہے، لیکن انسان کو اپنے عمل کے بارے میں بھی نئے سرے سے سوچنا چاہیے۔ دنیا کے پھندے میں نہ پھنسنے کے لئے اسے دنیوی زینتوں اور آرائشوں سے پرہیز کرنا چاہئے، اس صورت میں وہ آخرت میں عزیز اور باعظمت ہوگا۔
یہاں پر یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بعض تزئین و آرائش مستحب ہیں، اب اگر انسان انہیں استحباب اور شرعی مطلوبیت کی نیت سے انجام دے، تو نہ صرف وہ دنیا طلب نہیں ہے، بلکہ وہ آخرت طلب ہے، مستحب ہے کہ عورت اپنے شوہر کے لئے اور شوہر اپنی بیوی کے لئے زینت اور آرائش کرے ، یا مستحب
-------------------------------------
۱۔ دوسرے نسخہ میں ”وماحوی“ ہے اور شاید یہی صحیح ہو۔
ہے کہ موٴمن جب ایک اجتماع میں جائے، تو پاک و صاف لباس پہنے اور عطر لگائے اس کے علاوہ مسواک کرنا، بالوں کی کنگھی کرنا اور بالوں میں تیل لگانا بھی مستحب ہے موٴمن ایسا صاف و شفاف ہونا چاہئے کہ لوگ اس سے ملنے کے لئے رغبت پیدا کریں اور اس سے انس پیدا کریں۔ یقینا اگر یہ امور قصدقربت کے طور پر انجام دئے جائیں تو عبادت ہیں اور دنیوی زینت شمار نہیں ہوتے ہیں۔ دنیوی زینت اس جگہ پر ہے کہ انسان نفسانی خواہشات اور لذت پانے کے لئے زینت کرے نہ کہ خدا اور آخرت کے لئے۔ انسان کا دل چاہتا ہے کہ صاف ستھرا اور نفیسلباس پہنے، لذیذ اور متنوع کھانا کھائے اور خوشنما اور شاندار گھر کا مالک ہو،لیکن اگر زینت آخرت اور حکم خدا کی تعمیل کے لئے ہو تو مطلوب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ بھی ہمیشہ اپنے آپ کو صاف ستھرا اور معطّر رکھتے تھے:
مکارم اخلاق میں، پیغمبر خدا ﷺ کی توصیف میں آیا ہے کہ:
”کان ینظر فی المراة ویرجل جمتہ ویتمشط وربما نظر فی الماء وسوّی جمّتہ فیہ ولقد کان یتجمّل لاٴصحابہ فضلاً علی تجملہ لاٴھلہ وقال صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ان اللّٰہ یحب من عبدہ اذاخرج الیٰ اخوانہ ان یتھیا لھم ویتجمل“ ۱
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ آپ آئینہ دیکھتے تھے اور اپنے سر اور داڑھی میں کنگھی کرتے تھے، بعض اوقات یہ کام پانی میں دیکھ کر انجام دیتے تھے، اہل خانہ کے علاوہ اپنے اصحاب کے لئے بھی زینت کرتے تھے اور فرماتے تھے: خدائے متعال اس بندے کو دوست رکھتا ہے جواپنے بھائیوں کو دیکھنے کے لئے گھر سے باہر جاتے وقت اپنے کوآراستہ کرے۔“
مومن کو ہمیشہ آراستہ اور ظاہراً صاف ستھرا ہونا چاہئے نہ یہ کہ بکھرے بال اور عجیب و غریب صورت بنائے ہو کہ جو دوسروں کی نفرت کا سبب بنے۔ گزشتہ زمانے میں بعض مسجدوں کے فرش میلے اور گندے ہوا کرتا تھا اور بعض لوگ گندے کپڑے اور بد بودار بدن کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتے تھے اس کے مقابل میں فاسقوں کی جگہیں صاف ستھری ہوتی تھیں، لہٰذا مومنوں کی مجلسیں، بہترین، صاف ستھری اور
-----------------------------------------
۱۔المیزان ،ج/۶ص/۳۳۰
معطر ہونی چاہئے۔ ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت کو نمونہ بنانا چاہئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ عطر پر خرچ ہوتا تھا۔ ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے اور جانتا چاہئے کہ یہ زینتیں آرائشیں نا مطلوب نہیں ہیں، کیونکہ شرع مقدس کا حکم ہے کہ اگر قصد قربت کی نیت سے انجام دی جائیں تو یہ بذات خود عبادت شمار ہوتی ہیں اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ مومنین آپس میں مانوس ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مصاحبت سے لذت
حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے نور سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔