انفجار نور ولایت

Rate this item
(0 votes)

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایک انفجار نور تھا اور امام کا یہ عزم تھا کہ وہ انقلاب سے حاصل کردہ تجربات کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے، امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ’’مسلمہ طور پر ان تجربات کا ماحاصل مشکلات میں پھنسی ہوئی قوموں کے لیے بجز فتح و کامرانی، استقلال و آزادی اور اسلامی احکام کے نفاذ کے کچھ نہیں ہوگا۔ میں اطمینان سے کہتا ہوں کہ اسلام سپر طاقتوں کو ذلت کی خاک پر بٹھا دے گا۔ اسلام اپنی بڑی داخلی اور خارجی رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے دور کرکے دنیا کے کلیدی مورچوں کو فتح کر لے گا۔‘‘

 

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

دہہ فجر یکم فروری سے دس فروری تک انقلاب اسلامی کی کامیابی اور لاکھوں شہداء کی پاکیزہ ارواح کو سلام پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے کہ جب ایرانی مسلمانوں نے اللہ کی نصرت اور امام زمانہ (عج) کی تائید کے ساتھ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ظالم شاہی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہ ایام دراصل ایرانی غیور عوام کی استبدادی شہنشاہیت اور امریکہ اور اسرائیل جیسی عالمی غاصب طاقتوں سے آزادی کی خاطر لازوال قربانیوں کی عظیم داستان کی یاد دلاتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر سب سے زہادہ اہمیت کی حامل چیز شہداء کی یاد آوری اور ان کی عظمت کے مطابق ان کو بلند تر مقام دینا ہے۔ یہ شہداء کا مقدس خون ہے کہ جس کی وجہ سے انقلاب کو کامیابی نصیب ہوئی اور ملت ایران کو سربلندی اور دنیا بھر میں سرفرازی نصیب ہوئی۔ یہ شہداء تاریخ کی وہ با عظمت ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہا اور میدان میں نہ صرف حاضر رہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنی زندگیاں مرد قلندر امام خمینی (رہ) کے قدموں میں نچھاور کر دیں اور اپنے وطن کو طاغوت سے نجات دلائی اور دین مبین اسلام کو اپنی زندگی کی سرنوشت قرار دیا اور اقوام عالم اور بالخصوص مسلمانان جہاں کو یہ درس دیا کہ اللہ کی نصرت پر بھروسہ کرکے اپنی سرزمین اور ملک و قوم کو ہر ناپاکی اور برائی سے آزادی دلوانا ممکن ہے۔

 

شہداء کی قربانیاں اور ایرانی مسلمان عوام کا ایک قیادت کے پرچم تلے اکٹھا ہوکر طاغوتی طاقتوں کے خلاف یکجان ہو کر ڈٹ جانا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے عوامل میں سے اہم عامل تھا۔ پوری ایرانی قوم بغیر کسی تفریق کے امام خمینی (رہ) کی آواز پر ظالم شاہی حکومت کے خلاف باہر آگئی اور ایرانی قوم کا یہ اتحاد و اتفاق آج تک سالم ہے۔ دشمن قوتیں باوجود ہزار کوشش کے ملت ایران کو انتشار اور نفاق پیدا کرنے والے حیلوں کے ذریعے ان کی قیادت اور عوام کے درمیان فاصلے ایجاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ امام خمینی (رہ) کا قیام حقیقی اسلامی اور عوامی قیام تھا، یہی چیز انقلاب کی کامیابی اور اور اس کے دوام اور استمرار کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈہ اور وسوسوں کے باجود فقط اتحاد اور اسلام اور وطن کی راہ میں فداکاری ہی واحد راستہ ہے، اور ایران کے گلی کوچوں سے اٹھنے والی فداکاری اور راہ خدا میں شہادت دینے والے شہداء کے مقدس پیغام کی خوشبو فقط اسلامی جمہوری ایران کی سرحدوں تک محدود نہ رہی، بلکہ پوری دنیا اس سے معطر ہوئی۔ چاہے مسلمان چاہے، غیر مسلمان ممالک، ہر جگہ امام خمینی (رہ) کا آزادی، حریت پر مبنی لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ گونجنے لگا۔

 

امام خمینی (رہ) خود اس نکتے سے آگاہ تھے اور انہیں اس پر یقین تھا، اسی انہوں نے فرمایا ’’ایران کے عظیم انقلاب کی صدائے بازگشت اسلامی اور دوسرے ممالک میں گونج رہی ہے، جو موجب افتخار ہے۔‘‘ (۱) ایک صحافی نے اسی حوالے سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کے حالات کا سلسلہ ترکی میں بھی در آئے گا؟‘‘ امام خمینی (رہ) نے جواب میں فرمایا کہ ’’ایران کی مقدس تحریک اسلامی ہے اور ظاہر ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس کے زیر اثر قرار پائیں گے۔‘‘ (۲)پاکستانی صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ ’’کوئی باور نہیں کرتا تھا کہ عصر حاضر میں اسلام کے اصول قابل عمل ہوں گے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی فکر میں نئی روح پھونک دی اور ثابت کر دیا اسلام آج بھی قابل عمل ہے اور معاشروں کے لیے بہترین بنیاد بھی ہے۔‘‘ (۳) اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ’’امام خمینی کا عظیم اثر یہ ہے کہ اسلام میں ڈکٹیٹر شپ جائز نہیں۔ لوگوں کو انتخاب کا حق حاصل ہے اور ان کے حقوق کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (۴)

 

انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رہ) کے افکار پر ریسرچ کرنے والے پاکستانی اسکالر جناب رمیز الحسن موسوی کے مطابق انقلاب اسلامی کے اہداف کو اختصار کے ساتھ ذیل کے نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

1۔ بیرونی تسلط اور استعمار کی نفی۔

2۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کی حمایت۔

3۔ پوری دنیا میں اسلامی ثقافت و افکار اور اعتقادات کی نشرواشاعت اور مسلمانوں کی تقویت۔

4۔ عالمی سطح پر امت اسلامی کی یکجہتی اور اتحاد کی بنیادوں کو تقویت بخشنے کے لیے جدوجہد۔

5۔ پوری دنیا میں مستضعفین کے اتحاد اور ان کو بیدار کرنے کے لیے جدوجہد۔

6۔ بین الاقوامی سطح پر انسانوں کے حقوق کے خلاف جارحیت کرنے والوں کو تنبیہ اور خبردار کرنا۔

7۔ دنیا پر مسلط غیر عادلانہ نظام کو بدلنے اور اس ظالمانہ نظام پر مبنی بین الاقوامی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا۔

 

سید رمیز الحسن موسوی صدور انقلاب اسلامی کے اصول بیان کرتے ہوئے انقلاب اسلامی کو دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے کی شرعی بنیادیوں کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ذیل کے 12 نکات بیان کیے ہیں، جن کی روشنی میں پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنے خطوں میں اسلام کے احیاء کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے:

1۔ انقلاب کو برآمد کرنے کے لیے اقدام کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔

2۔ ایران کی سرحدوں تک انقلاب کے محدود ہوجانے کی وجہ سے انقلاب کی شکست یقینی ہے۔

3۔ اسلامی انقلاب کی ماہیت کا تقاضا ہے کہ انقلاب کے حامی اور ذمہ دار دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کریں۔

4۔ انقلاب ملک کے اندر ہی محدود ہوجائے تو اسے شکست دینے کے بارے میں عالمی طاقتوں کا عزم و ارادہ پورا ہو جائے گا۔

5۔ عالمی طاقتوں کے تسلط سے قوموں کو آزادی دلانا ایک مقدس فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔

6۔ اسلامی انقلاب نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے تمام مستضعفین کے لیے ایک تحریک ہے۔

 

7۔ مستضعفین کے قیام کرنے سے بڑی طاقتوں کا زوال شروع ہوجائے گا اور یہ مسئلہ فقط انقلاب کو برآمد کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔

8۔ مستضعفین کے قیام اور اسلامی انقلاب کے بارے میں ان کے گہرے ادراک سے عالمی خونخوار طاقتوں کے مقابلے میں ایک تحریک شروع ہو جائے گی۔

9۔ اسلامی انقلاب ایک جانب سے اللہ تعالٰی کی قدرت لایزال کی حمایت اور مدد سے بہرہ مند ہے اور دوسری جانب تمام اقوام خصوصاً مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

10۔ اسلامی انقلاب نقطہ آغاز ہے اور اس کا تسلسل جغرافیائی سرحدوں کے ماورا جاری ہے۔

11۔ انقلاب کو برآمد کرنے کا تعلق، تبلیغ، آگاہ سازی اور معنویت و روحانیت کو منتقل کرنے سے ہے، نہ کہ یہ اسلحے اور فوجی ساز و سامان کا محتاج ہے۔

12۔ اسلام کے مدنظر اسلامی حکومت کی تعلیمات سے مستضعفین کی آگاہی اور اقدار کا صادر ہونا انقلاب کو برآمد کرنے پر مبنی افکار کا اہم ترین پہلو ہے۔

 

ان اہداف اور اصولوں کے پیش نظر رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ’’امت اسلامی، مسلمان معاشروں اور اقوام عالم کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم پیغام، اسلامی تشخص کے احیاء، اسلام کی طرف بازگشت، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی جانب واپسی سے عبارت ہے۔‘‘ (۵) انقلاب اسلامی ایک انفجار نور تھا اور امام کا یہ عزم تھا کہ وہ انقلاب سے حاصل کردہ تجربات کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے، امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ’’مسلمہ طور پر ان تجربات کا ماحاصل مشکلات میں پھنسی ہوئی قوموں کے لیے بجز فتح و کامرانی، استقلال و آزادی اور اسلامی احکام کے نفاذ کے کچھ نہیں ہوگا۔ میں اطمینان سے کہتا ہوں کہ اسلام سپر طاقتوں کو ذلت کی خاک پر بٹھا دے گا۔ اسلام اپنی بڑی داخلی اور خارجی رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے دور کرکے دنیا کے کلیدی مورچوں کو فتح کر لے گا۔‘‘ (۶)

حوالہ جات:

۱۔ امام خمینی ۱۔۹۔۵۷

۲۔صحیفہ نور،۴۔۱۱۴

۳۔مجلہ حضور،ش۳۴،ص۱۵

۴۔ایضاّّ ص۱۳

۵۔پیغام آشنا، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۱

۶۔صحیفہ نور ،۲۰۔۱۱۸

Read 2700 times