ہم نے گذشتہ چند پروگرامو ں ميں پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت علیھم السلام کے نقطہ ہائے نگاہ میں تربیتی امور سے متعلق رہنمائیوں اور ان بزرگواروں کے ارشادات سے استفادہ کیا اور اس مسئلے کا جائزہ ہم نے کنبے کے افراد کے درمیان باہمی روابط سے مربوط مسائل کے تناظر میں لیا تھا ۔ البتہ اس سلسلے میں جو کچھ بھی ہم نے بیان کیا وہ ان عظیم ذوات مقدسہ کے بیکراں علوم ومعارف کا ایک قطرہ ہے ۔ بلا شبہ اس سلسلے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے تاہم وقت محدود ہونے کی بناء پر ان عظیم معارف کا ایک گوشہ ہی بیان کرنے پر مجبور ہیں ۔ لیکن اس ہفتے کے پروگرام میں ہم قرآن اور اہل بیت پیغمبر (ع) کے درمیان رابطے کے بارے میں عرائض پیش کرنے جارہے ہيں
قرآن ، خداوند عالم اور حقیقت توحید کی شناخت کے سلسلے میں ، پیغمبران الہی کی خصوصیات ، عالم غیب کے اسرارو رموز ، انسانی معاشروں پر حکفرما روایتوں ، انسان کی شناخت اور اس کے انجام سے متعلق، اعلی ترین مفاہیم پر مشتمل ہے ۔ قرآن اسی طرح ایسے سماجی ، قانونی اور اقتصادی و سیاسی نظاموں سے متعلق نکات پر مشتمل ہے جو انسان کی سعادت و خوشبختی کے لئے ضروری ہیں ۔ یہ کتاب الہی، ایسی راہ کی نشاندہی کرتی ہے جس کے فرامین پر عمل کرنے سے انسانوں کو ستمگروں کی غلامی سے نجات ملتی اور جہل و نادانی کی زنجیر سے رہائی حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن ، باطل سے حق کی شناخت کےلئے جاودانہ معیارات کی حامل کتاب ہے ۔ ان خصوصیات کی شناخت کے ذریعے قرآن کی عظمت اور برتری واضح ہوجاتی ہے ۔ اس لحاظ سے کہ اس کتاب الہی سے استفادہ اور اس کی شناخت انسانوں کی استعداد کے اعتبار سے مختلف ہے اس لئے قرآن کی عظمت کا ادراک بھی مختلف ہوگا ۔ اس بناء پر قرآن کریم کی حقیقت کی شناخت اور اس کے تمام پہلوؤں پر مکمل احاطہ صرف ان ہی لوگوں کو حاصل ہو گا جن کے قلوب پاکیزہ اور نور قرآن کی تجلی گاہ ہیں ۔ اس بناء پر قرآن کی گونا گوں عظمت و فضیلت کے پہلوؤں کی شناخت کے لئے ہمیں حاملان علوم الہی اور اس کتاب عظیم کے اسرار و رموز سے واقف انسانوں یعنی پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کے اہل بیت کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ اور ان کی تعلیمات کی روشنی ميں کتاب خدا کو سمجھنا چاہئے اور اس کی عظمت کو درک کرنا چاہئے ۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی بابرکت زندگي کے آخری ایام ميں مسلمانوں کو دو گرانبھا یادگاروں کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ ميں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ( بحارالانوار – ج 23 – ص 144 )
بلاشبہ پیغمبر کی یہ دو اہم یادگاریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گي ۔ قرآن کریم انسانوں کی ہدایت اور نجات کی کتاب ہے اور آنحضرت (ص) کے بعد ان کے اہل بیت پیغمبر علیھم السلام قرآن کے حقیقی معارف کو درک کرنے کا واحد وسیلہ ہیں ۔ درحقیقت قرآن سے تمسک ، اہل بیت پیغمبر علیھم السلام کی رہنمائیوں اور ان کے ارشادات کے تناظر میں ہونا چاہئے ۔ اس بناء پر دین اسلام خاص طور پر مذہب تشیع کے اصول و معارف میں ایک انتہائی اہم بحث ، اہل بیت کی پیروی ، قرآن کی پیروی کے ساتھ ہے ۔ پیغمبر اکرم (ص) ، قرآن اور اہل بیت کو گمراہی سے بچانے اور ہدایت حاصل کرنے کا واحد راستہ قرار دیتےہیں ۔ آنحضرت (ص) نے ایک حدیث ميں اپنے اہل بیت کو کشتی نجات امت قرار دیا ہے ۔
رسول خدا (ص) کی یہ تاکید قرآن کے معارف کی تفسیر و توضیح ميں اہل بیت اطہار کے کردار اور ان کے بحر بیکراں علوم سے استفادے کی ضرورت کی آئینہ دار ہے ۔ جو افراد دنیا و آخرت ميں ہدایت و سعادت کے خواہاں ہيں بلا شبہ انہیں قرآن و عترت میں اپنی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا چاہئے وہ بھی ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں ۔ اگر پیغمبر (ص) اپنی زندگي کے آخری ایام ميں کتاب خدا اور اپنی عترت کو ایک زمرے میں قرار دے رہے ہیں اور سب کو ان دونوں سے باہم تمسک کی دعوت دے رہے ہيں تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسانوں کی ہدایت میں ان دونوں کا کردار مساوی ہے اور دونوں سے تمسک کے ساتھ ہی انسان سعادت سے ہمکنار ہوسکتا ہے ۔
قرآن کریم کی ابتدائی آیات کے نزول کے وقت ہی زمانۂ پیغمبر میں وحی کے گہرے مفاہیم کو درک کرنے کی ضرورت ، اور ساتھ ہی قرآن کے گہرے مفاہیم سے حاصل ہونے والے پیغام کے حصول کی اہمیت پر توجہ دی گئي ۔ پیغمبراسلام (ص) وہ پہلے مفسر قرآن ہیں جنہوں نے کلام الہی میں پوشیدہ اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا اور اس کی اہمیت کو اپنی عملی سیرت کے پیرائے میں پیش کیا ۔
آنحضرت کے بعد اہل بیت پیغمبر علیھم السلام قرآن کے حقیقی اور سچے مفسر ہیں ۔ بہت سی روایات کی بنیاد پر جو تاریخی منابع میں موجود ہیں سورۂ آل عمران کی آیت 7 میں راسخون فی العلم سے مراد اہل بیت پیغمبر ہیں جو قرآن کی تاویل وتفسیر کے عالم ہیں ۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں خدا نے ہر قسم کے رجس اور نجاست سے پاک ، اور باطل سے دور رکھا ہے ۔ اس حقیقت کو سورۂ احزاب کی آیت 33 ميں بیان کیا گيا ہے ۔
پیغمبر اور ان کے اہلبیت ایک جانب لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنا کرنے کے ساتھ اس بات میں کوشاں ہوتے تھے کہ قرآن کی عظمت انہيں سمجھائيں اور دوسری جانب سچے گواہوں کی حیثیت سے قرآن کی فضیلت کو بیان کرتے تھے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ سے قرآن کی جانب راغب ہوں ۔
درحقیقت قرآن کی عظمت کو پیغمبراور ان کے اہل بیت کے توسط سے بیان کیا جانے کا مقصد، قرآن کریم کے حیات بخش معارف اور قرآن پر توجہ دینے کے لئے عوام میں فکری اور روحانی حالات سازگار بنانا ہے ۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت کی عملی سیرت ، مخالفوں سے مقابلے اور مباحثے میں بخوبی آشکارا ہوجاتی ہے کہ یہ افراد قرآن کو محور ہدایت اور رسالت کا اصلی حامی جانتے تھے اور اسے علمی و فقہی اور دینی مرجع ، اور عملی سیرت کا مظہر قرار دیتے تھے ۔ یہ روایات مختلف جہتوں سے قابل توجہ ہے ۔ قرآن کی عظمت کےبارے ميں بہت سی روایات آئی ہیں اور ہم یہاں پیغمبر خدا اور آپ کے اہلبیت کے چند منتخب کلمات پر ہی اکتفا کریں گے ۔ یہ روایات قرآن کی فضیلت و عظمت سے مختص ہیں جو اس آسمانی کتاب کی شان و منزلت کو ظاہر کرتی ہيں ۔ مثال کے طور پر پیغمبر (ص) ایک مقام پر ارشاد فرماتےہیں قرآن واضح نور اور مضبوط رسی اور تمام درد و رنج کی دوا اور عظیم ترین منبع فضیلت و سعادت ہے ۔ ( بحارالانوار ج 89 ص 31 )
پیغمبراسلام (ص) انسانوں کی زندگي ميں قرآن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں " جب بھی تم فتنوں میں گھر جاؤ تو قرآن کو اپناؤ ۔
پیغمبر اسلام (ص) اس نورانی بیان ، میں قرآن کی اہم ترین ذمہ داری یعنی انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کی جانب اشارہ فرمارہے ہيں ۔ ایسی ذمہ داری ، کہ جسے تمام حالات میں اور انسانوں کی زندگي کے سخت ترین حالات ميں بھی انجام دے رہا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ جب انسان کو روشنی اور نور کے لئے کوئي روشندان نہیں ملتا اور کوئی امین و صادق راہنما کو وہ نہيں پہچانتا تو یہی قرآن ہے جو اس کی سعاد ت و کمال کی جانب رہنمائی کرتا ہے اور ایک روشن چراغ کی مانند راہ سعادت کی جانب ہدایت کرتا ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) اسی سخن گہر بار میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں " قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر حکم اور دستور ہے اور اس کا باطن علم و دانش ہے اس کا ظاہر خوبصورت اور اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے ۔
پیغمبراسلام (ص) اس حدیث میں ، الہی احکام و شریعت کوظاہر قرآن کے طور پر ، انسانوں کے رویے کی اصلاح کا نسخہ قرار دیتے ہيں اور اس کے باطن کو ایسے معارف میں شمار کرتے ہيں جو انسان کی باطنی اور فکری ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ حضرت علی (ع) بھی قرآن کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہيں قرآن ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے قرآن دلوں کی بہار اور علم کا سرچشمہ ہے ، دلوں اور فکروں کو جلا ، قرآن کے سوا کہیں اور سے نہں مل سکتی خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں بیدار دل اور متمدن افراد موجود نہ ہوں اور غافل و سرکش انسان باقی رہ گئے ہوں ۔ حضرت امام علی (ع) کی تلقین کے مطابق یہ کتاب الہی ، تربیت میں ایسی ہے جو دلوں کو جلا اور روشنی عطا کرتی ہے ۔
اہل بیت علیھم السلام نے نہ صرف قرآن کی لا فانیت اور اس کے ابدی ہونے پر تاکید کی ہے بلکہ قرآن کریم کو ایک گہرے سمندر سے تعبیر کیا ہے کہ جس کی گہرائی تک کوئي نہیں پہنچ نہں سکتا اور کہیں پر قرآن کو چاند اور سورج سے تشبیہ دی ہے کہ جو ہمیشہ روشن اور نور دینے والے ہیں ۔ فرزند رسول خدا حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ حضرت امام صادق (ع) سے یہ سوال کیا گيا کہ کیاوجہ ہے کہ قرآن کا جتنا مطالعہ کیا جائے ہمیشہ ایک نئی چیز معارف قرآن سے حاصل ہوتی ہے ؟ تو امام (ع) نے فرمایا کہ کیوں کہ خداوند عالم نے قرآن کو کسی خاص زمانے اور خاص افراد کے لئۓ نازل نہیں کیا ہے اس لئے قرآن قیامت تک اور ہر زمانے ميں اور ہر قوم کے لئے زندہ اور تازہ رہے گا یعنی اس پر ہر گز پرانا پن ظاہر نہیں ہوگا ۔