پيغمبر اور آپ کے باقيماندہ آثار سے تبرک حاصل کرنے کے جواز پر کيا دليل پائي جاتي ہے؟ کيا يہ عمل توحيد جو کہ دين اسلام کا اصلي شعار ہے، سے سازگاري رکھتا ہے؟
خداوند متعال کو اس کي خالقيت اور آفرينش ميں وحدہ لاشريک قرار دينا توحيد کے مراتب ميں سے ايک مرتبہ ہے،اس کا مطلب يہ ہے کہ کائنات کا خالق صرف ايک ہے اس کے علاوہ اور کوئي نہيں،کائنات اپنے تمام مختلف جلووں کے ساتھ اسي خدا کي خلق کردہ ہيں،تمام مخلوقات چاہے وہ مادي ہوں يا غير مادي ذاتي طور پر ہر قسم کے کمال سے فاقد اور بے بہرہ ہيں،اگر ظاہري طور پران ميں کمال پايا جاتا ہے تو بس اسي کي مشيت اور ارادہ کي مرہون منت ہيں، اور اس بارے ميں مشرک اور موحد ايک طرح ہيں،قرآن نے اسي چيز کو "يعني کائنات کي خلقت مشرک اور موحد کے اعتبار سے مساوي ہے"،قضيہ شرطيہ کے طور پر بيان کيا ہے،جيسا کہ ارشاد ہوا:
﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَکُونَ﴾ (۱)۔
ترجمہ: "اے رسول! اگر تم ان سے پوچھو کہ(بھلا)کس نے سارے آسمان وزمين کو پيدا کيا؟ اور چاندو سورج کو کام ميں لگايا،تو وہ ضرور يہي کہيں گے کہ الله نے،پھر وہ کہاں بہکے چلے جاتے ہيں۔" عصر رسالت کے مشرکين اور موحدين کے درميان تدبير عالم کا اختلاف تھا،موحدين کا کہنا تھا کہ صرف خداوندعالم ہي اس نظام ہستي کا مدبر ہے،يعني اس کائنات کو چلانے والا تنہا ذات وحدہ لاشريک ہے،ليکن وہ کہتے تھے کہ اس ميں ان جھوٹے خداوٴوں کا بھي حصہ ہے،يعني عالم کي تدبير ميں ہمارے ہاتھوں سے بنائے ہوئے خدا بھي شرکت رکھتے ہيں۔ جب ہم نے اس قاعدہ اور اصل کو قبول کرليا کہ اس عالم کا مدبر صرف خدا وندمتعال ہے،تو اس کا يہ مطلب نہيں کہ مخلوقات ايک دوسرے کيلئے موٴثر نہيں،يعني مذکورہ قاعدہ اس بات کو نہيں کہتا کہ موجودات عالم ايک دوسرے کيلئے تاثير نہيں رکھتے،کيونکہ قرآني،علمي اور فلسفي دلائل سے يہ بات ثابت ہو چکي ہے کہ موجودات عالم با ہم علت و معلول کا رشتہ رکھتے ہيں،خدا وند متعال نے اس عالم کو علت اور معلول کے نظام پر سنوارا ہے،يعني يہ کائنات اسباب و مسببات کے نظام پر قائم ہے،ہر سابق وجود؛ اپنے مابعد کے وجود ميں(خاص شرائط کے اعتبار سے) تاثير رکھتا ہے، ليکن تمام موجودات عالم اپنے موٴثر اور اثر سے خدا کي مشيت اور ارادہ کے سايہ ميں تاثير پذير ہوتے ہيں، جيسے سورج کي چمک، چاند کي روشني، آگ کي حرارت، اور درختوں کي(پاني وغيرہ کے ذريعہ) پرورش، يہ تمام چيزيں خدا کي مشيت کے بعد ہي انجام پاتي ہيں،اگر ايک لحظہ بھي خدا کي مشيت نہ ہو تو يہ عالم درہم برہم ہوجائے،اور کچھ کائنات ميں باقي نہ بچے ۔ المختصر يہ کہ اس کائنات ميں صرف ايک ہي واقعي اور حقيقي سبب ہے،اور وہ صرف خدا ہے، ليکن اس کے باوجود اس عالم ميں ايک فرعي اور تبعي(عارضي)اسباب و علل کا رشتہ بھي کار فرما ہے جو خدا کي مشيت اور اس کے اذن سے اس عالم کے محرِّک ہيں،مثلاً درختوں اور انسانوں کي زندگي کي پرورش عادي اور طبيعي چند عناصر پر موقوف ہے،اگر يہ عناصرو عوامل (جيسے پاني،ہوا اور روشني) اٹھالئے جائيں تو انسان کي زندگي خطرہ ميں پڑ جائےگي،البتہ خدا کي مشيت ان عوامل سے پہلے موٴثر ہے،يعني ان تمام اسباب وعوامل کي حاکم؛ اس کي مشيت اور ارادہ ہے،گويا يہ ظاہري علل و اسباب ارادہ خدا کے لشکري ہيں،اور وہ يعني خدا کا ارادہ کل ظاہري علل و اسباب کا کمانڈر ہے، سب اسي کے فرمانبردار ہيں۔ قرآن کريم سورہ بقرہ ميں ان عادي عوامل کي تاثير۔جسے فلسفي اصطلاح ميں ظلي تاثير کہتے ہيں۔ کي تصريح ان الفاظ ميں کرتا ہے:
﴿الَّذِي جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (٢)۔
ترجمہ: "جس نے تمہارے لئے زمين کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنايا اور آسمان سے پاني برسايا، پھر اسي نے تمہارے کھانے کيلئے بعض پھل پيدا کئے،پس کسي کو خدا کا ہم سر نہ بناؤ،حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔" آيت ميں لفظ "به" ميں "ب" سببيت کے معني کو بتاتا ہے،يعني خدا وند متعال پاني کو پھلوں کي پرورش ميں ايک موٴثر عامل ہونے کي تصريح کر رہا ہے ۔ درحقيقت (اس) علم کا کام دنيا ميں يہي ہے کہ وہ مخلوقات کے درميان پائے جانے والے روابط کي تحقيق کرے تاکہ ان کے مابين پائے جانے والے مادي اور طبيعي (عادي) اسباب وعلل معلوم ہو سکيں، اور اس کے وجود کو اس طرح پہچانے، تاکہ ان کے منافع سے فائدہ اٹھائے اور ان کے ضرر سے دور رہے۔ مادي دنيا کي غلط فہمي يہي ہے کہ وہ صرف اس ظاہري عالم کو ديکھتي ہے،اور اس کے عارضي اسباب کو مستقل سمجھ ليتي ہے،جبکہ درحقيقت اس نظام کے پس پشت ايک واقعي سبب کارفرما ہے جو حقيقت ميں حقيقي اس کائنات کا حقيقي مدبر ہے،اور تمام موجودات زمين و آسمان،کي تاثير گزاري اسي کي مشيت کي بنا پر ہے،عالم اسي کے نظام کے تحت چل رہا ہے،اور آگے بڑھ رہا ہے۔ مولوي نے اس حقيقت کو چند اشعار کے ضمن ميں بيان کيا ہے: دست پنہان و، قلم بين خط گذار اسب در جولان و، نا پيدا سوار "گويا حرکت دينے والے ہاتھ پنہاں ہيں، اور قلم بين السطور لکھ رہا ہے،گھوڑا حرکت ميں ہے ليکن اس کا سوار پوشيدہ ہے۔" گہ بلندش مي کند، گاھيش پست گہ درستش مي کند، گاھي شکست "کبھي اسے بلند کرتا ہے، اور کبھي نيچے، کبھي صحيح کرتا ہے تو کبھي توڑتا ہے۔" گہ يمينش مي برد، گاھي يسار گہ گلستانش کند، گاھيش خار "کبھي دائيں ليجاتا ہے تو کبھي بائيں، کبھي گلستان کرتا ہے تو کبھي کانٹے۔" تير پران بين، وناپيدا کمان جانھا پيدا و پنھان جان جان "گويا تير حرکت کرتے دکھائي دے رہا ہے،اور اس کي کمان پوشيدہ ہے،يعني جانيں سامنے ہيں ليکن ان کا خالق پنہاں ہے۔" تير را مشکن کہ اين تير شھي است نيست پرتابي زشصت آگھي است "تير کو مت توڑو کہ يہ بادشاہ کا تير ہے، يہ نہيں چھوڑا گيا ہے مگر باخبر ہاتھوں سے چھوڑا گيا ہے۔" ما رميت اذ رميت گفت حق کارحق بر تارھا دارد سبق "
﴿وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ﴾
کہ جسے خدا نے ارشاد فرمايا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا کام کمان کي اس ڈوري سے بھي پہلے کار گر ہوتا ہے کہ جس کي مدد سے تير چھوڑا جاتا ہے"(۳)۔ پروين اعتصامي کہتي ہيں: ما بہ دريا حکم طوفان مي دھيم ما بہ سيل و موج فرمان مي دھيم "ہم ہي دريا کو طوفان پيدا کرنے کا حکم ديتے ہيں، ہم ہي سيلاب و امواج کو فرمان صادر کرتے ہيں۔" نقش ہستي، نقشي از ايوان ما است خاک و باد و آب، سرگردان ما است "يہ کائنات ہمارے ہي تيار کردہ محل کا برآمدہ ہے، يہ مٹي دھول، ہوا، اور پاني سب ہمارے ہي حکم سے سرگرداں اور حرکت ميں ہيں۔" قطرہ اي کز جويباري مي رود از پي انجام کاري مي رود "پاني کا وہ قطرہ جو ايک ندي سے باہر نکلتا ہے وہ بھي کسي مقصد کے تحت باہر جارہا ہے"(۴)۔ خدا سبب ساز اور سبب سوز ہے: جيسے خدا کي مشيت سببيت اور سبب سازي سے متعلق ہوتي ہے اسي طرح کبھي اس کي مشيت اس بات سے متعلق ہوتي ہے کہ عادي اسباب سے ان کي سببيت کو سلب کرلے، مثلاً آگ کي طبيعي(عادي) سببيت يہ ہے کہ وہ جلائے ليکن خدا اس کي سببيت کو ختم کرديتا ہے،اور اس کو حکم ديتا ہے کہ وہ حضرت ابراہيم کو نہ جلائے،دريا کو حکم ديتا ہے کہ وہ موسي اور ان کي قوم کو غرق نہ کرے،اس طرح خدا کبھي سبب ساز(يعني سببيت پيدا کرتا ہے) ہے تو کبھي سبب سوز ہوتا ہے يعني اس کي سببيت کو سلب کرليتا ہے، مولوي نے اس حقيقت کو اپنے اشعار ميں اس طرح بيان کيا ہے:در خرابي، گنج ھا، پنھان کند خار را گل، جسم ھا را جان کند "خدا کي ذات وہ ہے جو خرابے اور بيابان ميں خزانے پنہاں رکھتي ہے،وہ کانٹوں کو پھول اور بے جان جسموں کو جاندار بناديتي ہے۔" آن گمان انگيز را سازد يقين مہرھا انگيزد از اسباب کين "خدا وہ ہے جو خواب و خيال کو محکم يقين ميں تبديل کرديتا ہے، اور اسباب بغض وعناد سے محبتيں پيدا کر ديتا ہے۔" پرورد در آتش ابراھيم را ايمن روح سازد، بيم را "وہ ابراہيم کو آتش نمرود ميں پرورش کرتا ہے، وہ ڈر کو چين و سکون ميں تبديل کرديتا ہے۔" از سبب سازيش من سودائيم وز سبب سوزيش سوفسطائيم "اس کي سبب سازي کا ميں عاشق ہوں،ليکن اس کي سبب سوزي سے متعجب ہوں۔" در سبب سازيش سرگردان شدم در سبب سوزيش ھم حيران شدم(۵) "اس کي سبب سازي کے عشق ميں،ميں سرگرداں اور پريشان ہوں،ليکن اس کي سبب سوزي سے دنگ و حيران ہوں۔" جب حضرت موسي کو ان کي ماں نے دريائے نيل ميں ڈالا ليکن ان کے اسباب موت ان کيلئے اسباب حيات بن گئے، اس بارے ميں پروين اعتصامي کہتي ہيں: سطح آب از گاھوارش خوشتر است دايہ اش سيلاب و موجش مادر است "(جس دريا ميں حضرت موسي(عليہ السلام)کا صندوق تير رہا ہے)اس کے پاني کي سطح گہوارے سے اچھي ہے،کيونکہ اس کي جنباني کرنے والي دايہ دريا کے سيلاب ہيں،اور اس کي موجيں ماں ہيں۔" بحر را گفتم، دگر طوفان مکن اين بناي شوق را ويران مکن "ميں(خدا) نے دريا کو حکم دے ديا ہے کہ طوفان پيدا نہ کرے، اور عشق و محبت کي عمارت کو ويران نہ کرے۔" صخرہ را گفتم، مکن با او ستيز قطرہ را گفتيم، بدان جانب مريز "پتھر سے کہہ ديا ہے کہ وہ اس صندوق سے نہ ٹکرائے،دريائي قطروں کو حکم دے ديا ہے کہ وہ اس کي جانب قدم نہ بڑھائيں۔" امر دادم باد را، کان شير خوار گيرد از دريا، گزارد در کنار "ہواؤں کو حکم دے ديا گيا ہے کہ وہ اسے شير خوار بچے کي طرح دريا سے اٹھا کر ايک کنارے پيار سے رکھ دے۔" سنگ را گفتم بزيرش نرم شو برف را گفتم کہ آب گرم شو "سنگريزوں سے ميں نے کہہ ديا ہے کہ وہ اس کے نيچے نرم ہوجائيں، اور برف سے کہہ ديا ہے کہ وہ اس کيلئے آب گرم کي مانند ہوجائے۔" خار را گفتم کہ خلخالش مکن مار را گفتم کہ طفلک را مزن "کانٹوں سے کہہ ديا ہے کہ اس کے نہ چبھيں، اور سانپ کو آڈر دے ديا ہے کہ وہ اس بچے کو ڈنگ نہ مارے"(۶) خدا کي سبب سازي کا دوسرا جلوہ: خدا کي مشيت اس بات سے متعلق ہوتي ہے کہ کائنات کي ہر موجود شئے اپنے خاص طبيعي (عادي) سبب کے تحت وجود ميں آئے،ليکن کبھي بعض مصالح کي بناپر کچھ موجودات اپنے غير عادي اسباب کے ذريعہ وجود ميں آتے ہيں،اور يہ اس لئے ہے کہ تا کہ الله کے انبياء اس کے ذريعہ يہ ثابت کر سکيں کہ ان کا رابطہ اس کائنات سے برتر و افضل ذات سے مرتبط ہے،اس خاص عمل کو معجزہ کہا جاتا ہے،انبيائے کرام کے معجزات بغير کسي استثناء کے اسي راستہ سے عالم وجود ميں قدم رکھتے ہيں،يقيني طور پر خشک لکڑي کا اژدہا ہونا، عصائے موسي کے ذريعہ پاني کا ايک طرف ہوجانا، نابينا لوگوں کا بينا ہونا، اور لا علاج مريضوں کا صحت ياب ہونا، يہ سب وہ چيزيں ہيں جو اپنے غير عادي راستے سے وجود ميں آئے ہيں،لہٰذا يہاں سے نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ اکثر اوقات فيوض الٰہيہ ہم تک طبيعي اور عادي اسباب کے ذريعہ پہنچتے ہيں،ليکن خاص مواقع پر خدا کا وہي فيض طبيعي اور عادي راستے سے ہٹ کر پہنچتا ہے،اسي کو اصطلاح ميں معجزہ کہا جاتا ہے،البتہ اس صورت ميں کہ معجزہ کو انجام دينے والا اثبات نبوت کے مقام ميں ہو،اور اس کا ارتباط عالم غيب سے ہو،ليکن اگر يہ کام دعوي نبوت کے ساتھ نہ ہو تو کرامت کہلاتا ہے۔ جناب مريم کي دو کرامتيں: قرآن کريم جناب مريم کي دو کرامتوں کا تذکرہ کرتا ہے: ۱۔ وہ ہميشہ محراب عبادت ميں اپنے سامنے اپني روزي کو پاتي تھيں،جب حضرت ذکريا (عليہ السلام)ان سے سوال کرتے تو مريم کہتي:
﴿هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (۷)۔
"يہ الله کي جانب سے ہے بيشک الله جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق ديتا ہے۔" ٢۔ جب حضرت عيسي کي ولادت کا وقت قريب ہوا تو جناب مريم شدت درد کي وجہ سے ايک خشک کھجور کے درخت کے نيچے چلي جاتي ہيں،اور اس سے ٹيک لگا کر بيٹھ گئيں،خطاب ہوا: اس خشک درخت کو ہلاوٴ تاکہ اس سے تازہ رطب گريں:
﴿وَهُزِّي إِلَيْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْکِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾ (۸)۔
ترجمہ: "(اے مريم!) اور خرمے کي جڑ پکڑ کر اپني طرف ہلاوٴ تم پر پکے پکے تازے خرمے جھڑ پڑيں گے۔" مذکورہ مقامات پر جناب مريم کے مقام و منزلت اور ان کے پاکيزہ نفس ہونے کي بناپر خدا نے يہ چيزيں (تازہ کھجور اور جنتي کھانا) غيرعادي راستے سے بھيجيں، بغير اس کے کہ وہ اپنے مقام و منزلت کا دعوي کرتيں ۔ جب آپ کرامت اور معجزہ کي خصوصيات سے آشنا ہوگئے،تو اب ہم مفہوم تبرک پر قدرے روشني ڈالتے ہيں۔ تبرک کيا ہے؟ تبرک؛ لفظ "برکت" سے اخذ کيا گيا ہے جس کے معني زيادتي نعمت کے ہيں،يعني نعمت ميں اضافہ ہونا۔ اصطلاح ميں تبرک کے معني يہ ہيں کہ کوئي مسلمان کسي ذات سے يا انبياء اور صالحين بندوں کے باقيماندہ آثار کے ذريعہ خير و برکت (اور زيادتي نعمت) طلب کرے ۔ کسي ذات يا انبياء اور صالحين بندوں کے باقيماندہ آثار کے ذريعہ خير و برکت طلب کرنے کا مطلب يہ نہيں کہ تبرک طلب کرنے والے نے اس اقدام سے امور متحقق ہونے کے طبيعي اور عادي راستوں کو بند کرديا،بلکہ اس کا مطلب يہ ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ عادي اسباب سے متوسل ہے،اس نے اپنے لئے باب تبرک بھي باز کيا ہے،اور وہ اس طريقہ سے بھي خدا کے فيض کا طلب گار ہوا ہے ۔ يقينا انبياء اور خدا کے صالح بندوں کے باقي رہے آثار اور وہ خير و برکت جسے بشر اس راستہ سے حاصل کرتا ہے، ان کے درميان کوئي مادي رابطہ نہيں ہے،ليکن جيسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا کہ کبھي خدا کا فيض غير طبيعي راستوں سے انسان تک پہنچتا ہے،اور خدا کي مشيت اس سے متعلق ہوتي ہے کہ يہ شخص اس پاک ذات اور اس سے باقي ماندہ آثار سے توسل کرے،اور اس راستے سے اس کي حاجتيں پوري ہوں،يہ ايک ايسي حقيقت ہے جس کي قرآن نے بھي تصديق فرمائي ہے،اور اس بارے ميں متواتر روايات بھي نقل ہوئي ہيں،اور نہ کوئي عقلي طور پر مانع پيش آتا ہے کہ وہ آثار جو صالحين بندوں سے منسوب ہيں وہ موٴثر نہيں ہو سکتے ۔ اب ہم ان آيات کي وضاحت کرتے ہيں جو اس بارے ميں پائي جاتي ہيں: ۱۔ مقام ابراہيم سے تبرک حاصل کرنا: خداوند متعال نے زمين کے بعض ان حصوں کو جائے عبادت قرار ديا ہے جہاں کي زمين توحيد کي علمبرداروں کے جسموں سے متمسک اور وابستہ رہي، جيسے حکم ہوا کہ مقام ابراہيم ميں نماز پڑھو:
﴿وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاکِفِينَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ﴾ (۹)۔
ترجمہ:"(اے رسول! وہ وقت بھي ياد دلاوٴ) جب ہم نے خانہٴ کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور پناہ کي جگہ قرار دي اور (حکم ديا کہ) ابراہيم کي (اس) جگہ کو نماز کي جگہ بناوٴ، اور ابراہيم و اسماعيل سے عہد و پيمان ليا کہ ميرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کيلئے صاف ستھرا رکھو ۔" مسجد الحرام کے اس مقام پر نماز ادا کرنا اس کے دوسرے مقامات سے کوئي فرق نہيں رکھتا سوائے اس کے کہ يہ جگہ حضرت ابراہيم کے مقام کي بنا پر زيادہ متبرک ہے،لہٰذا نمازي حضرات يہاں نماز ادا کرکے زيادہ برکت حاصل کرنا چاہتے ہيں۔ دوسري جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ مسعي (وہ جگہ جو کوہ صفا اور مروہ کے درميان پڑتي ہے) کو جائے عبادت قرار دو، کيونکہ ايک موحد اور جانثار عورت کے مبارک قدم سات دفعہ اس زمين سے متمسک اور وابستہ رہے اس لئے حکم ہوتا ہے کہ زائرين سات مرتبہ ان دونوں پہاڑوں کي درميان رفت و آمد کريں،يہ کام اس کے علاوہ کچھ نہيں علت رکھتا کہ اس جگہ سے برکت کا حاصل کرنا ہے۔ ٢۔ حضرت يوسف کي قميص اور جناب يعقوب کي بينائي کا پلٹنا: حضرت يعقوب يوسف کے فراق ميں سالہا سال روتے رہے، يہاں تک ان کي بينائي ختم ہوگئي، تو خدا اب چاہتا ہے کہ ان کي بينائي کو واپس کرے، يوسف کي قميص کو جيسے ہي اپنے چہرے پر رکھتے ہيں تو ان کي بينائي پلٹ آتي ہے، چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا﴾ (۱۰)۔
"ميري اس قميص کو ليجاوٴ اور اسے ان کي آنکھوں پر ڈال دو تاکہ ان کي بينائي آجائے۔" واضح رہے کہ جناب يوسف کي قميص کي بينائي ديگر قميصوں سے کوئي جدا نہيں تھي،يہ قميص بھي اسي شہر مصر کي روئي سے بني سلي ہوئي تھي، جس سے دوسري قميصيں سلي جاتي تھيں،ليکن خدا کي مشيت اس سے متعلق ہوئي کہ اپنے بندے پر فيض اس راستہ سے پہنچائے،لہٰذا يعقوب نے جيسے ہي اس قميص کو اپني آنکھوں پر ڈالا ان کي بينائي آگئي، چنانچہ قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا﴾ (۱۱)۔
"جب خوشخبري دينے والا آيا اور ان کے چہرے پر اس قميص کو ڈالا تو ان کي بينائي آگئي۔" ۳۔ صندوق عہد يعني سکون و کاميابي کا وسيلہ: حضرت موسي(عليہ السلام)نے اپني عمر کے آخري حصہ ميں ان الواح کو جن پر خدا کے احکام لکھے ہوئے تھے اور اپني زرہ اور دوسري يادگار ايک صندوق ميں رکھ ديں اور اپنے وصي يوشع بن نون کے سپرد کرديا، اس لئے بني اسرائيل کي نظر ميں اس صندوق کي اہميت بہت زيادہ ہوگئي، چنانچہ جب ان کے دشمنوں کے درميان کوئي جنگ واقع ہوتي تو اس کو اپنے ساتھ حمل کرکے ليجاتے، اور اس طرح اپنے دشمنوں پر کاميابي حاصل کرتے، جب تک انہوں نے اپنے ديني تقدسات کو محفوظ رکھا يہ صندوق ان کے پاس رہا، اور وہ کامياب ہوتے رہے،اور ہر جگہ سر اٹھا کر زندگي کرتے رہے، ليکن جب ديني اعتبار سے يہ لوگ انحطاط ميں آئے تو دشمنوں نے ان کے اوپر غلبہ پاليا اور وہ صندوق بھي ان سے چھين ليا۔ ايک مدت کے بعد خدا کے حکم سے طالوت کو بني اسرائيل کے لشکر کا سردار بنايا گيا، اور ان کے موجودہ پيغمبر نے ان سے بتايا کہ اس کي سرداري خدا کي جانب سے ہے، اور اس کي نشاني يہ ہے کہ وہ صندوق جو تمہارے سکون اور کاميابي کي دليل تھا وہ جنگ کي صورت ميں تمہارے پاس آجائے گا:
﴿وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْکِهِ أَن يَأْتِيَکُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَکِينَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِکَةُ إِنَّ فِي ذَلِکَ لآيَةً لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ (۱٢)۔
ترجمہ:"اور ان کے نبي نے ان سے (يہ بھي)کہا کہ اس (طالوت) کے (منجانب الله) بادشاہ ہونے کي ہونے کي يہ پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا، جس ميں تمہارے پروردگار کي طرف سے تسکين دہ چيزيں اور ان تبرکات ميں سے بچا کچھا ہوگا جو موسي اور ہارون کي اولاد يادگار چھوڑ گئي ہے،اور صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے،اگر تم ايمان رکھتے ہو تو بيشک اس ميں تمہارے واسطے پوري نشاني ہے۔" قرآن کريم نے اس جگہ بني اسرائيل کي جانب سے صندوق کے ذريعہ برکت طلب کرنے کے واقعہ کو ايک نبي کي زباني نقل کيا ہے، اور اس کي عظمت کيلئے يہي کافي ہے کہ قرآن کريم نے اس صندوق کے اٹھانے والوں کو فرشتے بتايا ہے،لہٰذا اگر يہ کام اصول توحيد کے خلاف ہوتا تو ان کا نبي ان کے اس کام کو ايک خوش خبري کے طور پر نہ سناتا۔ ۴۔ اصحاب کہف کي جائے خواب سے برکت حاصل کرنا: اصحاب کہف کے مدفن کي خبر پانے کے بعد تمام توحيد پرست نمازيوں نے اس بات پر اتفاق نظر کيا ہے کہ ان کے سامنے مسجد بنائيں، اور ان کے اجساد کے کنارے عبادت کرکے برکت حاصل کريں، چنانچہ قرآن اس حقيقت کو اس طرح نقل کرتا ہے:
﴿قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾ (۱۳)۔
ترجمہ: "ان کے بارے ميں جن (مومنين) کي رائے غالب رہي انہوں نے کہا کہ ہم تو ان (کي غار) پر ايک مسجد بنائيں گے۔" مفسرين کہتے ہيں کہ نمازيوں کي طرف سے اس جگہ مسجد بنانے کا مقصد اصحاب کہف کے جسموں سے برکت حاصل کرنا ہے۔ بہر کيف تبرک کے بارے ميں انہيں چند آيات کے بيان پر اکتفا کرتے ہيں، کيونکہ انہيں آيات ميں توجہ کرنے سے ايک علمي اور قرآني اصل کا پتہ چلتا ہے، وہ يہ کہ خدا کي مشيت اگرچہ اسي بات سے متعلق ہوتي ہے کہ وہ اپني مادي اور معنوي نعمتوں کو طبيعي اور عادي اسباب کے ذريعہ انسان تک پہنچائے، اور اس مسئلہ ميں مادي اور معنوي امور ميں فرق نہيں پايا جاتا ہے، مثلاً خدا لوگوں کي ہدايت ميں عادي اسباب سے استفادہ کرتا ہے، اور رسولوں کو ان کي ہدايت کيلئے بھيجتا ہے، ليکن اس کے باوجود کبھي خدا کي مشيت اس چيز سے متعلق ہوتي ہے کہ اس کا فيض غير طبيعي(عادي)راستوں سے بشر تک پہنچے،اور تبرک حاصل کرنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہيں کہ انسان غير طبيعي سبب کے ذريعہ فيض الٰہي کو طلب کرے۔ تبرک کا محرک: تبرک کي محرک اور باعث دو چيزيں ہيں: ۱۔ معنوي آثار اور فيوض الٰہي کي اميد، يہ دونوں چيزيں کبھي غير طبيعي راستہ سے انسانوں سے تک پہنچتي ہيں، جيسا کہ اس کي مثالوں کو ہم نے آپ کے سامنے بيان کيا۔ ٢۔ رسول اسلام(ص)، آپ کي آل اور سچے ناصرين سے محبت اور موٴدت کرنا ايک قرآني دستور ہے ليکن محبت اور موٴدت کے اظہار کيلئے ايک مظہر کا ہونا لازمي ہے، يعني وہ چيز جس کے ذريعہ انسان اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتا ہے، ان حضرات کي حيات ميں ان کي محبت کي مظہر وہي چيزيں تھيں جن کو ان کے سچے چاہنے والے انجام ديتے تھے، ليکن ان حضرات کي موت واقع ہونے کے بعد ان سے اظہار محبت کيلئے ايسي چيزوں کو انجام دينا ضروري ہوگا جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ ہم ان سے محبت کرتے ہيں،اور يہ چيزيں ان حضرات کي محبت کا مظہر ہيں ،اور ان مظاہر محبت ميں سے سب سے اہم مظہر محبت يہ ہے کہ ان کي ولادت پر خوشي اور مسرت کا اظہار کرے، اور ايام وفات ميں غم و اندوہ کو ظاہر کرے، اور جب ان کے مقبروں ميں حاضر ہوئے تو ان کا بوسہ لے، گويا ان کي ضريح، درو ديوار کا چومنا يہ تمام چيزيں ان کي محبت اور موٴدت کا مظہر ہيں، کيونکہ انہيں امور کے انجام دينے سے اس بات کا اندازہ لگتا ہے کہ يہ شخص ان حضرات سے محبت کرتا ہے، اور يہ چيز مسلمين کے دلوں ميں قديم زمانہ سے ايک سنت کے طور پر چلي آرہي ہے،در حقيقت در و ديوار کا چومنا اور ضريح کا بوسہ دينا يہ اس تختہ اور در و ديوار سے عشق نہيں،بلکہ آنحضرت اور آپ کے سچے ناصرين سے عشق ہونے کا نتيجہ ہے،چونکہ ہاتھ معشوق تک نہيں پہنچ سکتے،تو وہ آثار جو اس کي طرف منسوب ہيں انہيں کے ذريعہ اپني عشق و محبت کا اظہار کرتے ہيں،بقول مجنون (عامري) کہ جب وہ کہتا ہے: امر علي الديار ديار ليلي اقبل ذا الجدار و ذا الجدارا "جب ميں (اپني معشوقہ) ليلي کي گلي سے گزرتا ہوں تو اس ديوار اس ديوار کے بوسے ليتا ہوں۔" وما حب الديار شغفن قلبي ولکن حب من سکن الديارا "ايسا نہيں ہے کہ معشوقہ کي گلي اور کوچہ نے ميرے دل کو فريفتہ اور مجنون کرديا ہو،بلکہ اس کے عشق نے ميرے دل کو پاگل بنا ديا ہے جو اس گلي ميں رہتي ہے۔" يہ زيارتي مقامات اگرچہ ظاہري طور پر پتھر، لکڑي، درو ديوار اور ضريح وغيرہ ہيں، ليکن ان سے محبت کا اظہار کرنا ہمارے اس باطني عشق و محبت کا پتہ ديتے ہيں جو ہم انبياء اور ائمہ اطہار سے رکھتے ہيں، ان پتھروں اور لکڑيوں نے ان ذوات کي طرف نسبت پانے سے قداست حاصل کرلي ہے، اور جب کسي کا دل کسي کي محبت کا گھر بن جائے تو اس محبوب کا نام و ياد، لباس، جوتے، کپڑے، گلي و کوچہ اور شہر وغيرہ سب اچھے محسوس ہونے لگتے ہيں، محبوب کي ان چيزوں سے انسان لذت حاصل کرتا ہے، گويا يہ تمام چيزيں رخِ محبوب کي تصوير کشي کيلئے ايک آئينہ بن جاتي ہيں۔ مسلمان رسول خدا(ص)سے اس قدر محبت رکھتے ہيں کہ اگر انہيں پتہ چل جائے کہ فلاں جگہ آنحضرت کے قدموں کي نشاني ہے،تو وہ بڑے شوق وولولہ سے اس کي زيارت کرنے جاتے ہيں۔ اس بارے ميں عصر رسالت کے مسلمانوں کي سيرت اس قدر وسيع ہے کہ ان کا نقل کرنا مقدور نہيں يعني دور رسالت کي مسلمانوں کے واقعات ہماري مذکورہ بحث سے متعلق اس قدر زيادہ ہيں کہ ان سب کا نقل کرنا مشکل ہے،ليکن اگر ہم تمام نقل نہيں کرسکتے تو کم از کم کچھ نقل کرسکتے ہيں بقول اس شعر کے: آب دريا را گر نتواں کشيد ھم بقدر تشنگي بايد چشيد "اگر دريا کا مکمل پاني نہيں لا سکتے، تو کم ازکم اپني تشنگي بجھانے کي مقدار بھر پاني تو لا ہي سکتے ہيں۔" لہٰذا چند واقعات اس کے نقل کرتے ہيں: ۱۔ اصحاب کے بچوں کي تالو برداري: حضرت رسالت مآب کے دور ميں جب بھي کوئي بچہ مدينہ ميں پيدا ہوتا تھا تو لوگ اس کو فورا ً رسول کے حضور ميں ليجاتے تھے، آنحضرت اس کے تالو کو خرما سے اٹھا ديتے تھے، اور اس کيلئے دعا کرتے، چنانچہ ابن حجر کہتے ہيں: "جو بچہ بھي ہجرت کے بعد مدينہ ميں پيدا ہوا ہے اس نے آنحضرت کو يقينا ديکھا ہے، کيونکہ رسول کے اصحاب کا طريقہٴکار تھا کہ جب ان کے يہاں بچہ پيدا ہوتا تو رسول سے اس کا تالو اٹھواتے، چنانچہ جناب عائشہ کہتي ہيں: بچے لائے جاتے تھے اور حضرت ان کو متبرک اور صاحب برکت قرار ديتے۔" عبد الرحمن بن عوف کہتے ہيں: "کوئي بچہ ايسا نہيں جو کسي کے يہاں پيدا ہوا ہو، اور وہ حضرت کي خدمت ميں نہ لايا گيا ہو، رسول اس کيلئے دعا کرتے"(۱۴)۔ جب عبد الله ابن عباس پيدا ہوئے تو رسول اور ان کے خاندان والے سب شعب ابي طالب ميں تھے، اس جگہ رسول نے ان کے تالو کو اپنے لعاب دہن سے اٹھايا۔ ٢۔ صحابہ کا آنحضرت کي نوازش سے برکت حاصل کرنا: يہ صرف بچے ہي نہيں تھے جو رسول سے تالو اٹھوانے کے ذريعہ متبرک قرار پاتے بلکہ بزرگ صحابہ ايسے تھے جو اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ رسول اپنا دست نوازش ان پر پھير ديں اور اس طرح ان کو متبرک قرار دے ديں، زياد بن عبد الله ان لوگوں ميں سے ہيں جن کے بارے ميں رسول نے دعا کي، اور اپنے ہاتھوں کو ان کے سر پر رکھا اور ان کي ناک تک کھينچا، شاعر زياد کے بچہ (علي نام) کي مدح ميں شعر پڑھتا ہے: ابن الذي مسح النبي براٴسه ودعا له بالخير عند المسجد "کيا کہنا اس بچہ کا جس کے سر پر نبي نے دست شفقت پھيرا اور اس کے لئے دعائے خير کي مسجد کے پاس۔" ۳۔ رسول کے وضو اور غسل کے پاني سے صحابہ کا تبرک حاصل کرنا: حيات رسول خدا(ص)ميں جو امور رائج تھے ان ميں سے ايک کام يہ تھا کہ آپ کے وضو اور غسل کے پاني کو اصحاب بعنوان تبرک اخذ کرتے،اور کسي کو اجازت نہيں ديتے کہ ايک قطرہ پاني زمين پر گر جائے،اور اگر پاني زيادہ ہوتا تو اسے پي جاتے تھے،ورنہ اپنے چہروں پر مل ليتے تھے ۔ عروہ بن مسعود ثقفي جو کفار قريش کي جانب سے صلح حديبيہ ميں نمائندگي کر رہا تھا، جب اس نے اس منظر کو ديکھا تو سرداران قريش سے اس طرح کہنے لگا: "محمد کے اصحاب وضو کا باقيماندہ پاني لينے کے لئے آپس ميں ايک دوسرے پر سبقت کرتے ہيں اور نہ صرف يہ کہ وہ وضو کے پاني کے بارے ميں ايسا کرتے ہيں بلکہ حضرت کے ہر باقي ماندہ پاني اور کھانا يہاں تک کہ وہ پيالہ جس ميں آپ نے پاني نوش کيا ہو يا وہ کنواں جس سے پاني پيا،اسے بھي رسول کے صحابہ متبرک سمجھتے ہيں"(۱۵)۔ ۴۔ قبر پيغمبر سے تبرک حاصل کرنا: الف) ايک مرتبہ مروان بن حکم مسجد ميں داخل ہوا ديکھا کہ ايک مرد ہے جو رسول کي قبر پر اپنے چہرے کو رکھے ہوئے ہے،مروان نے اس کي گردن کو پکڑا اور اس کو پيچھے ڈھکيل ديا،اور اس سے کہا: تو جانتا ہے کہ کيا کر رہا ہے؟ جب اس شخص نے اپنا سر اٹھايا تو ديکھا وہ کوئي اور نہ تھا بلکہ رسول کا ميزبان اور بزرگ صحابي حضرت ابو ايوب انصاري تھا، وہ مروان کے جواب ميں اس طرح کہنے لگے: "ميں پتھروں کي طرف نہيں آيا ہوں، بلکہ ميں نے پيغمبر کا قصد کيا ہے، اے مروان! ميں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جب دين کي قيادت صالح افراد کريں تو اس وقت گريہ نہ کرنا ليکن اس وقت گريہ کرنا جب نا اہل افراد دين کي رہبري کريں، يعني تو اور بني اميہ والے"۔ اس واقعہ کو تاريخ حاکم نيشاپوري سے نقل کيا ہے جسے انہوں نے"مستدرک الصحيحين" ميں نقل کيا ہے، اس سے اصحاب پيغمبر کے عمل کا پتہ چلتا ہے کہ وہ رسول کي قبر اطہر پر چہرے کو رکھ کر برکت حاصل کرتے ہيں، اور مروان بن حکم جيسے افراد (کہ جن کے دل ايمان سے خالي تھے) کي امر تبرک کے بارے ميں مخالفت کا پتہ چلتا ۔ ب) رسول اسلام کے دوسرے بزرگ صحابي حضرت بلال حبشي ہيں، جو رحلت رسالت مآب کے بعد مدينہ چھوڑ کر سرحدي علاقہ ميں گوشہ نشين ہوگئے، انہوں نے ايک شب رسول کو خواب ميں ديکھا،جو ان سے کہتے ہيں: اے بلال! آخر يہ جفا کب تک؟ بلال يہ سن کر بيدار ہوئے، اور رسول کي شکايت کے بارے ميں سوچنے لگے، خيال آيا کہ جب سے ميں نے مدينہ چھوڑا ہے قبر رسول کي زيارت کو نہيں گيا ہوں، لہٰذا دوسرے دن مدينہ کا رخ کيا، جب مدينہ پہنچے تو رسول کي قبر کے کنارے بيٹھ کر گريہ کرنے لگے، اور اپنے چہرے کو قبر سے ملنے لگے، اور جب امام حسن اور حسين کو ديکھا تو ان کو گلے سے چمٹا کر ان کے بوسے لئے، اور حسنين کي خواہش پر اس شب وہيں کھڑے ہوکر اذان دي جہاں ہميشہ کھڑے ہوکر اذان ديتے تھے(۱۶)۔ حضرت فاطمہ زہرا(ع) رسول کي وفات اور دفن کے بعد آپ کي قبر کي کنارے کھڑي ہوگئيں اور کچھ قبر کي خاک کو اپنے چہرے پر ڈالا، اور اشکبار ہوئيں اور کہنے لگيں: ماذا علي شم تربة احمدا ان لا يشم مدي الزمان غواليا صبت علي مصائب لو انھا صبت علي الايام صرن لياليا "کيا ہوگا اس شخص کا جو قبر احمد کي خاک کي خوشبو سونگھ رہا ہے اور جب تک زندہ رہے گراں قيمت مشک کي خوشبو نہ سونگھي ہو۔ ميرے اوپر ايسي ايسي مصيبتيں پڑي ہيں کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتيں تو وہ رات کي طرح تاريک ہوجاتے۔" اب ہم ان ہي چند واقعات کو ان دسيوں واقعات ميں سے نقل کرنے پر بحث کو تمام کرتے ہيں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کے صحابہ آثار پيغمبر سے طلب برکت کرتے تھے،اور کتب احاديث و تواريخ کے تتبع اور تحقيق سے پتہ چلتا ہے کہ پيغمبر اور صالحين کي آثار سے تبرک حاصل کرنا تواتر کي حد تک پہنچا ہوا ہے ۔ نتيجہ بحث: صدر اسلام کے مسلمانوں کي تاريخ کي تحقيق سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ باقيماندہ آثار يا وہ چيزيں جو رسول کي جانب منسوب ہيں ان سے تبرک حاصل کرنا ايک اسلامي ثقافت تھي، اور اس کي محرک دو باتوں ميں سے ايک چيز ہے: ۱۔ آثار سے تبرک حاصل کرنا،اس اميد ميں کہ فيض الٰہي اس راستہ سے ان تک پہنچے،جيسے خدا کا فيض حضرت يعقوب (عليہ السلام) کو حضرت يوسف (عليہ السلام) کي قميص کے ذريعہ پہنچا ۔ ٢۔ صدر اسلام کے مسلمانوں کي رسول اسلام سے عشق و محبت سبب ہوتي تھي کہ جو چيز ان کي طرف منسوب ہے اس کو محترم اور بابرکت سمجھتے، لہٰذا آپ کے تمام آثار جيسے زرہ، تلوار، خود، جوتے، بال، ناخن اور وہ پيالے جس ميں رسول پاني پيتے تھے، يہاں تک کہ وہ کوزے اور کنويں جن سے آپ نے پاني پيا، ان تمام چيزوں کو بڑي احتياط سے محفوظ رکھتے، اور آپ کے عصا اور کپڑوں سے تبرک حاصل کرتے، يہاں تک آپ کي انگوٹھي خلفاء کے ہاتھوں دست بدست گشت کرتي رہي۔ آخري قابل توجہ نکتہ: امام احمد بن حنبل جو فرقۂ حنبلي کے پيشوا ہيں، اہل سنت ميں تقوي اور تقدس کے اعتبار سے کافي اہميت رکھتے ہيں،حسن اتفاق سے آپ آثار رسول اسلام سے تبرک حاصل کرنے کے بارے ميں کافي وسيع نظر رکھتے ہيں، چنانچہ يہاں پر ہم آپ کے چند اقوال نقل کرتے ہيں: ۱۔ احمد بن حنبل کے بيٹے عبد الله کہتے ہيں: ميں نے اپنے باپ سے پوچھا: ايک شخص رسول خدا (ص) کے منبر پر ہاتھ رکھتا ہے، اور وہ اس طريقہ سے تبرک حاصل کرتا ہے، اس کو چومتا ہے، اور ثواب کي اميد ميں يہي کام قبر رسول کے ساتھ انجام ديتا ہے، ميرے باپ نے جواب ميں کہا: کوئي حرج نہيں(۱۷)۔ ٢۔ احمد بن محمد مقري مالکي (متوفي ۱۰۴۱) اپني کتاب "فتح المتعال" ميں ولي الدين عراقي سے ايک واقعہ نقل کرتے ہيں: وہ کہتے ہيں کہ ميرے استاد ابو سعيدنے ايک قديم کتاب سے جس ميں ابن ناصر کي تحرير تھي اس ميں اس طرح موجود تھا: "ميں نے امام احمد بن حنبل سے پيغمبر(ص) کي قبر کا بوسہ لينا اور اس سے تبرک حاصل کرنے کے بارے ميں سوال کيا۔ انہوں نے کہا: کوئي ممانعت نہيں ہے۔" ابن ناصر کہتے ہيں کہ ميں نے اس نسخہ کو ابن تيميہ کو دکھايا، وہ احمد کے اس قول کو ديکھ کر تعجب ميں پڑ گيا، ميں نے اس سے کہا اس مسئلہ ميں تعجب کي کوئي بات نہيں، کيونکہ امام احمد وہ شخص ہيں جو امام شافعي کے کپڑے دھوتے تھے، اور جس پاني سے کپڑے دھوتے تھے اسے پيتے بھي تھے۔ امام شافعي کے لباس سے تبرک حاصل کرنے کے واقعہ کو ابن کثير نے اپني تاريخ ميں (۱۰/ ۳۶۵) ۲۴۱ ھ کے حوادث کے ذيل ميں نقل کيا ہے ۔ جب امام احمد بن حنبل کي معرفت علماء کے بارے ميں اس قدر تھي تو لازمي طور پر جو ان سے افضل ہوں گے بالخصوص انبياء وصالحين کے بارے ميں کہيں زيادہ معرفت اور عقيدت و احترام کا مظاہرہ کرتے ہوں گے(۱۸)،(۱۹)۔
********************
منابع اور مآخذ:
۱) سورہ عنکبوت،آيت ۶۱۔
٢) سورہ بقرہ،آيت ۲۲۔
۳) مثنوي: دفتر دوم، ص ۱۳۳، مطبوعہ علمي پريس ۔
۴) ديوان پروين اعتصامي: قطعہ ۱۸۲، تحت عنوان لطف حق ۔
۵) مثنوي: دفتر اول ص، ۱۴، مطبوعہ علمي پريس ۔
۶) پروين اعتصامي، ص ۲۳۷، قطعہ ۱۸۲۔
۷) سورہ آل عمران،آيت ۳۷۔
۸) سورہ مريم،آيت ۲۵۔
۹) سورہ بقرہ،آيت ۱۲۵۔
۱۰) سورہ يوسف،آيت ۹۳ ۔
۱۱) سورہ يوسف،آيت ۹۶ ۔
۱٢) سورہ بقرہ،آيت ۲۴۸۔
۱۳) سورہ کہف،آيت ۲۱۔
۱۴) اصابہ ج ۱، ص ۵، استيعاب (اصابہ کي حاشيہ ميں) ج ۳، ص ۶۳۱۔
۱۵) کنز العمال ج ۱۶،ص ۲۴۹۔ سيرہ دحلان،ج ۲،ص ۲۴۶۔ صحيح مسلم ج ۴،ص۱۹۴۳ باب فضائل ابي موسي ۔
۱۶) تاريخ ابن عساکر، دبيان حالات ابراہيم بن محمد: ۷ / ۱۳۷ نمبر ۴۹۳۔
۱۷) اقتصاد الصراط المستقيم، موٴلفہ ابن تيميہ ۔
۱۸) فتح المجيد، ص ۳۲۹۔ ۱۹) وہابيت، مباني فکري و کارنامہ عملي؛ جعفر سبحاني تبريزي، صص ۳۲۴،۳۴۱۔