حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے تحویلِ سال کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
فروردین کا مہینہ ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ یہ دعا انتہائی مبارک دعا ہے : «یا مُقلّب القلوب و الأبصار یا مدبّر اللیل و النهار یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا إلی أحسن الحال»؛ یہ دعا انتہائی سبق آموز ہے ۔ یہ دعا اس لیے ہے کہ ہم خود بالغ ہوں اور حرکت کریں ؛ یہ دعا ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ عمر کے سنّ و سال زیادہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگائے اور یہ شخص بالغ ہو جائے ؛ ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص بالغ ہے یا بیس سال کا ہے ؛ اس کا کیا مطلب ہے ؟ یعنی بیس مرتبہ زمین سورج کے گرد گھومی ہے اور زمین نے حرکت کی ہے ۔ لیکن در حقیقت اگر اس شخص نے بیس علمی اور اخلاقی قدم اٹھائے ہوں تو اسے بیس سالہ کہیں گے ؛ ورنہ یہ بیس سال کا بچہ ہے ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شمسِ حقیقت کے گرد گھومیں بعض افراد اسی سالہ اور ستر سالہ بچے ہیں ؛ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود ان کی سوچ بچوں والی ہے اور کھیل کود میں مصروف ہیں ۔ وہ کتے اور بلی کے مجسمے کا خواہاں ہے ؛ اس سے سوال کرنا چاہئیے کہ خود زندہ کتے اور بلی کے تمہاری زندگی میں کیا اثرات اور فوائد ہیں کہ اب تم کتّے اور بلّی کے مجسّمے کی طلب میں ہو ؟! ایسے اشخاص بیس سالہ اور ۔۔۔۔۔ بچے ہیں ؛ چونکہ اس نے بذات خود حرکت نہیں کی ہے ۔ یہ صفت موصوف کے متعلّق سے مربوط ہے ؛ زمین بیس مرتبہ گھومی ہے لہٰذا اس کا مذکورہ شخص سے کیا ربط اور واسطہ ہے ؟! اس دعا سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں خدا سے مانگنا چاہئیے کہ ہمیں حرکت کی توفیق دے ۔ سورہ مبارکہ فاطر میں فرمایا : «فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ»؛[1] اس مقام پر یہ روایت ہے کہ «یحومُ حومَ نفسه»[2]؛ یعنی خود محور ہے اور اپنی ذات کے گرد چکر لگا رہا ہے ؛ ایسا شخص بالغ نہیں ہوتا ۔ اس نے بیس یا تیس مرتبہ اپنی ہوس کے گرد چکر لگایا ہے ؛ وہ بیس سالہ یا تیس سالہ بچہ ہے ، اس بنا پر فروردین کی آمد کا معنی یہ ہے کہ ہم اپنے سنّ و سال میں اضافہ کریں اور بالغ ہوں ۔ پس یہ بلوغ طبیعی بلوغ کے علاوہ ایک اور چیز ہے ۔
وجود مبارک حضرت (ع) نے فرمایا : ایک دوسرے کی ملاقات کو جاؤ ، صلہ رحمی کرو ۔ تمہاری صلہ رحمی کا طریقہ بھی اس طرح سے ہو ۔ کیوں ؟ چونکہ تم ہمارے شیعہ ہو ؛ جب آپس میں بیٹھتے ہو تو ہماری احادیث نقل کرتے ہو ۔ ہمارا کلام تمہارے اندر عاطفہ ، عاجزی اور اتّحاد ایجاد کرتا ہے اور اختلاف کا قلع قمع کر دیتا ہے ۔ «تَزاوَروا فإنَّ فی زیارتِکم إحیاءً لِقلوبِکم و ذکراً لأحادیثِنا و أحادیثُنا تُعَطِّفُ بعضَکم علی بعضٍ.»[3] یہ ایک معروف ضرب المثل ہے :
«سنگ روی سنگ بند نمی شود» (یعنی پتھر پتھر کے اوپر نہیں ٹھہرتا )
یہ انتہائی سبق آموز ضرب المثل ہے ، پس ان برجوں کو کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے ؟ واقعا پتھر کے اوپر پتھر نہیں ٹھہرتا بلکہ سیمنٹ کی نرم و ملائم تہہ کا ان کے درمیان ہونا ضروری ہے تاکہ ان کو جوڑے ، عاطفہ اس نرم و ملائم مادے کی طرح ہے کہ جو مختلف افراد کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ۔ فرمایا : یہ عاطفہ اور محبّت ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کا باعث ہے ، یہ نرم و ملائم سیمنٹ کی تہہ ہے ورنہ ایک پتھر دوسرے پتھر کے اوپر نہیں ٹھہر سکتا ، اخلاق اور درگزر عاطفہ ہیں اور ان کا یہی کام ہے ۔
وہ لوگ جو اخلاقی مسائل کے حوالے سے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ، وہ درمیانے درجے پر ہیں ؛ جو لوگ برتر معارف کے حصول کی سوچ رکھتے ہیں ، وہ منزل مقصود سے نزدیک تر ہیں ۔ اخلاق اور عرفان کا فرق گزشتہ دروس میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ بعض فرق یہیں پر خلاصہ ہوتے ہیں ۔ کوئی شخص علم اور علمی کمال جمع کرنے کے درپے ہے اور علمی آثار فراہم کر رہا ہے اور کوئی شخص محاذ جنگ پر جا رہا ہے اور دین کی راہ میں جام شہادت نوش کرتا ہے ؛ ان دونوں کے درمیان کس قدر فرق ہے ؟ جو شخص حوزہ اور دانشگاہ میں ہے وہ بھی کامل ہو رہا ہے ؛ اس کا تکامل اس چیز کے ساتھ ہے کہ کچھ حاصل کرے ۔ جو شخص میدان جنگ کی طرف جا رہا ہے ، شہید ہو جاتا ہے اس کا تکامل اس بات میں ہے کہ کچھ فدا کرے ، وہ کس چیز کے حصول کی خاطر کسی شے کو گنوا رہا ہے ؟ دونوں حاصل کرتے ہیں ؛ لیکن شہید کیا لیتا ہے ؟ اور جو دانشگاہ یا حوزہ میں ہے ، وہ کیا حاصل کرتا ہے ؟ (تو سنیے ) جو حوزہ اور یونیورسٹی میں ہے ، علم اور اخلاق حاصل کرتا ہے اور بلند منزلیں حاصل کرتا ہے لیکن جو شہید ہوتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں جا رہا ہوں تاکہ دوسرا میری جگہ لے کہ میرا سروکار اس دوسرے کے ساتھ ہے ۔ اگر کہا گیا ہے کہ شہید «ینظرُ فی وجه الله»[4] یا خدائے سبحان نے سورہ انفال میں وجود مبارک پیغمبر (صلّی الله علیه و آله و سلّم) سے فرمایا : «وَ مَا رَمَیتَ إِذْ رَمَیتَ وَ لکنَّ اللّهَ رَمَی»،[5] شہداء اور راہ خدا کے مجاہدین سے فرماتا ہے فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ»؛[6] یہ شہید خود ایک طرف چلا گیا ہے ؛ اس کا شمار فصل سوم (وجه الله) میں ہوتا ہے ۔ پہلی فصل ممنوعہ علاقہ ہے اور ہماری بحث سے خارج ہے یعنی ذات اقدس الٰہی ۔ دوسری فصل صفات ذات کی حقیقت تک رسائی ہے ؛ یہ مطلب بھی ہماری بحث سے خارج ہے ۔ تیسری فصل "منطقۃ الفراغ " ہے کہ جس سے مراد وہی وجہ اللہ اور فیضِ خدا ہے ۔ یہ مقامِ امکان ہے نہ کہ مقام ذات ۔ شہید ایک طرف چلا جاتا ہے تاکہ یہ وجہ اللہ اس مقام پر ظہور کرے ۔ اس رو سے خدائے سبحان فرماتا ہے : تو جو رخت سفر باندھ چکا ہے ، تم نے کچھ نہیں کیا ؛ بلکہ میرا فیض ہی کارگر اور مؤثر تھا : «فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ.» اصطلاح میں اس مقام کو "مقامِ فنا" کہتے ہیں ؛ فنا فی اللہ اور بقا باللہ ۔ اگر کوئی اس مقام پر فائز ہو جائے وہ باقی ہے ۔ اگر وجود مبارک ولی عصر ارواحنا فداہ عالم امکان میں حقیقی "بقیة الله" ہیں اور ربّانی علماء بھی "بقیة الله" ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اپنی ذات کو نہیں دیکھتے ؛ اس بنا پر «العلماءُ باقونَ ما بَقِی الدهر.»[7] کہا گیا ہے ، شہید "عند اللہ " بھی حضور رکھتا ہے ۔ اگر کوئی عند اللہی ہو جائے تو وہ بقائے الٰہی کے ساتھ باقی ہے ۔ اس بنا پر اخلاق اور عرفان کا فرق یہ ہے کہ انسان اخلاق میں اپنی ذات کی حفاظت اور خود میں کمالات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ؛ لیکن عرفان میں کوشش کرتا ہے کہ خود ایک طرف چلا جائے اور دوسرا ظہور کرے ۔ وہ دوسرا اس کے سب کام انجام دیتا ہے اور فرماتا ہے : «فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ.» یہ مختصر بحث ہماری گفتگو کے پہلے حصے سے مربوط تھی ۔
حضرت استاد نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں نہج البلاغہ کے خط نمبر ۳۲ کی تشریح کے ضمن میں فرمایا :
نہج البلاغہ کی شرح کے حوالے سے سلسلہ کلام خط نمبر ۳۲ تک آن پہنچا ہے ۔ اس خط کو وجود مبارک حضرت امیر (ع) نے (معاویہ علیہ من الرّحمن ما یستحقّہ) کے لیے مرقوم فرمایا ہے اور یہ دو صفحات پر مشتمل ہے ۔ مرحوم سیّد رضی نے تقریباً ایک صفحہ نقل کیا ہے اور دوسرا صفحہ چھوڑ دیا ہے چونکہ آپ کو پتہ ہے کہ نہج البلاغہ حدیثی کتاب نہیں ہے بلکہ "نہج بلاغت" ہے نہ کہ "نہج حدیث" ۔ اس رو سے مرحوم سیّد رضیؒ بعض کلمات جو ان کی نگاہ میں متناسب و موزوں ، فصیح تر اور بلیغ تر تھے ؛ کا انتخاب عمل میں لائے ہیں اور باقی خط کو ذکر نہیں کیا ہے ؛ اس خط کا بقیہ حصہ جو ایک صفحہ ہے ، کتاب "تمام نہج البلاغہ" میں مذکور ہے [8] اس خط میں وجود مبارک حضرت امیر سلام اللہ علیہ نے معاویہ کے لیے اس طرح سے مرقوم فرمایا ہے : «وَ أَرْدَیتَ جِیلاً مِنَ النَّاسِ کثِیراً خَدَعْتَهُمْ بِغَیک وَ أَلْقَیتَهُمْ فِی مَوْجِ بَحْرِک»؛ تو نے ایک گروہ کو منفی پراپیگنڈے سے گمراہ کر دیا ۔ ان دنوں شامی عوام کو مدینے اور کوفے کے حالات سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں ۔ اموی پراپیگنڈے نے انہیں برین واش کر کے منحرف کر دیا تھا ۔ حضرتؑ نے فرمایا : تو نے ایک گروہ کو ہلاک کر ڈالا اور فتنے کی لہروں کو جنم دے کر انہیں ان طوفانی اور آشفتہ موجوں میں غرق کر دیا کہ «تَغْشَاهُمُ الظُّلُمَاتُ وَ تَتَلاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ»؛ ہر طرف سے اعتقادی اور اخلاقی شبہے اور اشکال انہیں تہ و بالا کر رہے ہیں اور تاریکی انہیں ڈھانپے ہوئے ہے ۔ سورہ مبارکہ نور میں ہے کہ بعض لوگ «أَعْمَالُهُمْ کسَرَابٍ بِقِیعَةٍ»؛[9] ، شب ہے ، تاریکی ہے ، چاند بھی غائب ہے ، بادل ہیں ، بے رحم موجیں ہیں اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے ؛ سیاہی اور تاریکی میں گرفتار شخص اس فضا میں «إِذَا أَخْرَجَ یدَهُ لَمْ یکدْ یراهَا»[10] اگر وہ اپنا ہاتھ باہر نکالے تو نہ صرف یہ کہ اپنا ہاتھ نہیں دیکھ پاتا بلکہ نگاہ سے نزدیک بھی نہیں ہوتا ۔ "کاد" یعنی "قَرُب"، «لَمْ یکدْ» یعنی «لم یقرب»؛ یعنی دیکھنے کے نزدیک بھی نہیں ہے ۔ «إِذَا أَخْرَجَ یدَهُ لَمْ یکدْ یراهَا» ہاتھ انسان کے اختیار میں ہے ، اس کا قبض و بسط ، اوپر نیچے کرنا ، اس کا شرق و غرب انسان کے اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہاتھ کو نہیں دیکھ سکتا ۔ در حقیقت ایسی تاریکی میں ہے کہ جس نے تمام امور گم کر دئیے ہیں ۔ فرمایا : «تَتَلاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ فَجَازُوا عَنْ وِجْهَتِهِمْ وَ نَکصُوا عَلَی أَعْقَابِهِمْ»؛ وہ بنیادی مقصد کہ جس کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے اس سے وہ الٹے پاؤں لوٹ گئے ہیں ۔ یہ بازگشت در اصل جاہلیت کی طرف ہے ۔ «وَ تَوَلّوْا عَلَی أَدْبَارِهِمْ»؛ وہی جاہلیت کے فخر و مباہات جس میں زمانہ جاہلیت کے اعراب مبتلا تھے ، شامی بھی اس سے دوچار ہو گئے تھے ؛ وہ لوگ جو اموی حکومت کے منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے تھے ۔ «وَ عَوَّلُوا عَلَی أَحْسَابِهِمْ»؛ انہوں نے اپنے رنگ و نسل ، تاریخ اور اسلاف پر بھروسہ کیا اور انہی بوسیدہ فخر و مباہات کا ایک مرتبہ پھر ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا «إِلاَّ مَن فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ»؛ سوائے اس شخص کے جو اہل بصیرت ہو اور واپس آ جائے ۔ «فاء» یعنی لوٹ گیا . "فیء" پلٹنے والے سائے کو کہا جاتا ہے ۔ صبح سے ظہر تک سایہ تازہ ہے ۔ ظہر کے بعد سایہ ضعیف ہے ۔ یہ سایہ ضعیف ہونے کے باوجود اگر بعد از ظہر میں شمار ہو اسے "فِیء کہتے ہیں یعنی بعد از طہر کا سایہ اور برگشتہ سایہ ۔ خود سائے کی کیا حیثیت ہے کہ اب برگشتہ سایہ کامل وجود حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ «إِلاَّ مَن فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ فَإِنَّهُمْ فَارَقُوک بَعْدَ مَعْرِفَتِک وَ هَرَبُوا إِلَی اللَّهِ مِنْ مُوَازَرَتِک»؛ جو لوگ اہل بصیرت ہیں انہوں نے تجھ سے دوری اختیار کر لی ہے ؛ جہالت سے علم کی طرف ، جہالت سے عقلانیت اور ظلم سے عدل کی طرف آ گئے ہیں اور تم سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن شام کے بہت سے لوگ تیرے منفی پراپیگنڈے کا شکار ہوئے «إِذْ حَمَلْتَهُمْ عَلَی الصَّعْبِ وَ عَدَلْتَ بِهِمْ عِنِ الْقَصْدِ»؛ جن لوگوں نے بھانپ لیا کہ تو ظلم کی راہ پر گامزن ہے ، انہوں نے واپسی کا راستہ اختیار کیا ۔ اور یہ سمجھ لیا کہ تو نے میانہ روی اور حد اعتدال سے دوری اختیار کر لی ہے ، وہ تم سے علیٰحدہ ہو گئے لیکن ابھی بھی شامیوں کی اکثریت تیرے ساتھ ہے ۔ «فَاتَّقِ اللَّهَ یا مُعَاوِیةُ فِی نَفْسِک وَ جَاذِبِ الشَّیطَانَ قِیادَک فَإِنَّ الدُّنْیا مُنْقَطِعَةٌ عَنْک وَ الْآخِرَةَ قَرِیبَةُ مِنْک و السَّلاَمُ.» فرمایا : معاویہ ! مختصر عمر باقی رہ گئی ہے ، جہاں تک تمہاری وسعت ہے ، اپنی باگیں شیطان سے چھین لو تاکہ خود آزاد ہو ۔ سورہ مبارکہ اسراء میں آپ نے پہلے بھی ملاحظہ فرمایا : کہ شیطان قسم کھا رہا ہے کہ «لَأَحْتَنِکنَّ ذُرِّیتَهُ»؛[11] احتناک باب افتعال سے ہے ۔ حنگ گلے کے نچلے حصے کو کہتے ہیں ۔ شیطان نے کہا : میں ان پر سوار ہوں گا اور ان کی حنک اور تحت الحنک تھاموں گا ۔ گھڑ سواروں کو آپ نے دیکھا ہے کہ اگر پوری قوت اور غلبے سے گھڑ سواری کرنا چاہیں تو گھوڑے کی حنک پکڑ لیتے ہیں یعنی میں ان سے سواری چاہتا ہوں اور ان کی حنک اور تحت الحنک میرے ہاتھ ہو گی اور انہیں ہانکوں گا ۔ وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے فرمایا : معاویہ ! جہاں تک تمہاری طاقت ہے اپنی باگیں شیطان کے ہاتھوں سے چھڑوا کر خود کو آزاد کر ! عمر ختم ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے اور موت کے بعد واپسی کی کوئی راہ نہیں ہے ۔ «وَ جَاذِبِ الشَّیطَانَ قِیادَک فَإِنَّ الدُّنْیا مُنْقَطِعَةٌ عَنْک وَ الْآخِرَةَ قَرِیبَةُ مِنْک»؛ اب تیرا بڑھاپا شروع ہو چکا ہے اور تم سے دنیا بھی رفتہ رفتہ منہ موڑ لے گی اور آخرت نزدیک ہو رہی ہے ۔ یہ وصیّت ہم سب کے لیے انتہائی نفع بخش ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ خدائے سبحان ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اخلاقی اعتبار سے بھی اپنے خالص عزم و ارادے کے مالک ہوں ، امیر المومنین (سلام اللہ علیہ) کے فرامین کی روشنی میں اپنی زمام غیر خدا ، غیر قرآن و غیر عترت کے ہاتھوں نہ دیں !
------------------------------
[1] . سورهٴ فاطر, آيهٴ 32.
[2] . معاني الأخبار, ص104.
[3] . الكافي, ج2, ص186.
[4] . ر.ك: تهذيب الأحكام, ج6, ص122.
[5] . سورهٴ انفال, آيهٴ 17.
[6] . همان.
[7] . نهجالبلاغه, حكمت 147.
[8] . تمام نهجالبلاغه, ج7, ص181 ـ 183.
[9] . سورهٴ نور, آيهٴ 39.
[10] . سورهٴ نور, آيهٴ 40.
[11] . سورهٴ اسراء, آيهٴ 62