مسئلہ فلسطین کے بنیادی فقہی اصول امام خامنہ ای کی نگاہ میں

Rate this item
(0 votes)
مسئلہ فلسطین کے بنیادی فقہی اصول امام خامنہ ای کی نگاہ میں

مسئلۂ فلسطین بنی نوع انسان ـ بالخصوص مسلمین ـ کے لئے ایک المناک مسئلہ ہے، جو جرم یہودی ریاست نے اس ملک پر روا رکھا اس کے روحانی، نفسیاتی، فکری، معاشی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی اثرات برسوں تک ناقابل تلافی ہیں اور انسانیت کے ہمدردوں اور مسلمین کے حافظے سے کبھی محو نہ ہوسکیں گے۔ پہلوی شہنشاہیت کے زمانے میں [ایران میں] فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں کوئی خطبہ یا بیان وغیرہ نہیں دیا جاتا تھا اور اگر جب بھی کہیں کسی خطبے یا تقریر کا آغاز ہوتا تھا؛ خفیہ ایجنسی “ساواک” مجلس پر حملہ آور ہوجاتی تھی اور تقریر کا پروگرام منسوخ ہوجاتا تھا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (قدس سرہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان مسلسل زیر بحث اہم موضوع میں تبدیل کیا۔ چالیس سال سے مسئلۂ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور اس ملک کے عوام اور اہل فکر و دانش کے ساتھ ساتھ بیرونی مفکرین کے لئے بھی مسئلۂ فلسطین کے فلسفے کی کافی شافی تشریح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن اس اس یادداشت میں مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں “اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای کی نظر میں مسئلۂ فلسطین کے بنیادی فقہی اصولوں” کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں ایک نیا قدم اٹھایا جاسکے۔

سرزمین کا دفاع
فقہ میں جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔ زیادہ تر فقہاء نے ابتدائی جہاد کو معصوم کے لئے مختص کردیا ہے اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ ولی فقیہ بھی ابتدائی جہاد کا فرمان جاری کرسکتا ہے۔ جبکہ تمام شیعہ اور سنی فقہاء دفاعی جہاد کے وجود پر تاکید کرتے ہیں۔ دفاعی جہاد یعنی سرزمین کا دفاع اور مسلم ممالک کا دفاع، ایسے حال میں کہ اسلامی سرزمین اور اسلامی ممالک پر دشمنوں کی یلغار ہوئی ہو۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ * الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ۔۔۔؛
اجازت دی جاتی ہے انہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے، اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے * وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے”۔ (۱)
چنانچہ قرآن کریم کی آیات شریفہ کے مطابق ہی ہے کہ امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “ہمارے لئے مسئلۂ فلسطین ـ جیسا کہ میں نے کہا ـ ایک انسانی مسئلہ اور ایک اسلامی مسئلہ ہے”۔
اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم ان سرزمینوں کا دفا کریں جہاں مسلمان سکونت پذیر ہیں۔ اسلام نے ہم پر واجب کیا ہے کہ ہم مظلومین، ستمزہ لوگوں اور مستضعفین کے حقوق انہیں دلوا دیں؛ اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم اپنے مال سے بھی اور اپنی جان سے بھی ان لوگوں کی مدد کو لپکیں جو “یا للمسلمین” (۲) کی آواز اٹھاتے ہیں”۔ (۳)
امام خامنہ ای اس فقہی حکم کے بارے میں فرماتے ہیں:
“مسلمانوں میں سے کوئی بھی فلسطین پر منطبق [شرعی] حکم کے اطلاق میں تذبذب اور تردد کا شکار نہیں ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے جو تمام فقہی کتب میں ـ جہاں جہاد کی بحث پیش کی گئی ہے ـ آیا ہے۔ اگر کفار آ کر مسلم ممالک پر قبضہ کریں یا انہیں محاصرہ کرلیں، جدید اور قدیم مسلم فقہاء میں سے کوئی بھی اس سلسلے میں جہاد کے واجب عینی (یا فرض عین) ہونے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تمام اسلامی مذاہب اس سلسلے میں ہم فکر اور متفق القول ہیں۔ ابتدائی جہاد واجب کفائی (یا واجب بالکفایہ) ہے؛ لیکن یہ اس موضوع [مسئلۂ فلسطین] کے بغیر دوسرے مسائل میں ہے۔ دفاعی جہاد ـ جو دفاع کا آشکارترین مصداق بھی ہے ـ عینی واجب ہے”۔ (۴)

عقیدے کا مسئلہ نہ کہ ایک سیاسی مسئلہ
اسلامی جمہوریہ ہمیشہ سے کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کا علمبردار ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “قوم پرستوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہمارا ہدف غربت اور بھوک بھری دنیا میں اسلام کے عالمی قوانین کا نفاذ ہے؛ ہم کہتے ہیں کہ جب تک شرک اور کفر ہے، جہاد بھی ہے اور جب تک کہ جہاد ہے ہم بھی میدان میں ہیں”۔ (۵) لیکن انسانوں کی مظلومیت اور کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ، مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی اور ایمانی مسئلہ بھی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: “الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ” (۶) (جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں)؛ چنانچہ امام خامنہ ای مظلوم کے دفاع و تحفظ کو ایک سیاسی مسئلہ نہيں بلکہ اعتقادی اور ایمانی مسئلہ گردانتے ہیں اور فرماتے ہیں: “اسلامی جمہوریہ میں مسئلۂ فلسطین ہمارے لئے ایک تدبیری (Tactical) مسئلہ نہیں ہے، ایک سیاسی تزویر (Political Strategy) بھی نہیں ہے، عقیدے کا مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے، ایمان کا مسئلہ ہے”۔ (۷)

توحیدی تصورِ آفاق
فلسطین کی مدد کا ایک فقہی پہلو توحیدی تصورِ آفاق (Monotheistic worldview) ہے۔ توحید عربی لغت میں ” وَحَّدَ، یُوَحِّدُ” کا مصدر ہے اور اگر انسان اللہ کو ذات یکتا کے طور پر مانے اور اس کو ذات اور صفات میں ہر قسم کے شریک اور شبیہ سے منزہ جانے اس کو موحد اور یکتا پرست کہا جاتا ہے۔ (۸) امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “جتنی بھی بلائیں اور مصیبتیں آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر نازل ہورہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان توحید کے سائے میں زندگی کا راستہ کھو چکے ہیں”۔ (۹)
توحیدی تصورِ آفاق میں انسان سمجھتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی ہے اور وہ اللہ کی کامل بندی کا اہتمام کرتا ہے۔ دولت، طاقت، شہرت وغیرہ کی ایسے انسان کی نگاہ میں ـ جو توحیدی نظریۂ آفاق کا مالک ہے ـ کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ وہ ان ساری چیزوں کو اللہ کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی پورے عالم وجود کا مالک ہے اور تمام تر اشیاء اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ اس انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ پوری دنیا خدا کے قوانین اور اسی کی تدبیر و حکمت سے آگے بڑھ رہی ہے چنانچہ اسے اللہ کے سوا کسی غیر کی پرستش نہیں کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای فلسطین سے متعلق موقف کے سلسلے میں فرماتے ہیں: “اس موقف، اس تجزیئے اور اور اس نگاہ کا سرچشمہ کیا ہے؟ اگر یہ بندہ اور اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی جمہوریہ کے اندر فیصلہ ساز ادارے یہ موقف اپناتے اور ان کا اعلان کرتے ہیں، تو ان کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیا اس کا سرچشمہ ایک محض سیاسی تصور ہے؟ نہیں! اس رائے اور اس موقف کا سرچشمہ دین [اسلام] ہے۔ ایک بیّن اور روشن معرفت، ایمان سے جنم والی شادابی اور طراوت، معرفت سے جنم والی حرکت، عقلمندی کی روح کو بروئے کار لانا اور بالآخر دنیا کے تمام موجودات کے بارے میں واضح اور شفاف تصورِ آفاق، یہ دین کی بنیاد ہے۔ دین پہلے درجے میں ایک معرفت اور ایک شناخت ہے؛ عالم اور انسان کی معرفت، اپنے فرائض کی معرفت، اپنے راستے اور اپنے ہدف کی معرفت، ان سب معرفتوں کا مجموعہ دین ہے۔ دین، انسان کو کائنات کا محور، اور دنیا کو اللہ کی خلقت، لطف و عنایت اور رحمت کا مجموعہ اور مظہر سمجھتا ہے؛ [یعنی توحید]؛ اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی اساس اور عالم وجود کی عظیم نقشہ کشی میں اللہ کے دست قدرت و صُنع کا کردار ہے اور تمام امور کا فعالِ ما یشاء وہی ہے”۔ (۱۰)
نیز آپ قرآن کریم کو راہ نجات گردانتے ہوئے فرماتے ہیں: “ملت ایران جس قدر کے قرآن کے نزدیک پہنچی ہی اتنی ہی عزت کے قریب پہنچی ہے؛ نجات کے قریب پہنچی ہے؛ فلاح اور بہتری قریب پہنچی ہے؛ نصرت و کامیابی کے قریب پہنچی ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کی نجات کا راستہ اسلام اور قرآن کی قربت کا حصول ہے۔ فلسطین کی نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔ آپ دیکھ لیں؛ ایک غاصب ریاست مملکت فلسطین میں قائم ہوئی ہے۔ اس عرصے میں جدوجہد بھی ہوئی، لیکن کوئی جدوجہد آخر تک نہيں پہنچ سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس جدوجہد میں دین خدا، اسلامی ایمان اور قرآنی حکم کو معیار قرار نہيں دیا گیا تھا۔ آج فلسطینی قوم اسلام کے نام پر دشمن کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور اس جدوجہد نے دشمن کے بنیادی ستونوں پر لرزہ طاری کیا ہے”۔ (۱۱)

مستضعفین کی حمایت
مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا بھر کے مستضعفین سے منسلک ہے۔ جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کی مستضعف قوموں کے تمام طبقے متحد ہوجائیں۔ اس تحریک کو ـ جو کہ استکبار کے مد مقابل مستضعفین کی تحریک ہے ـ پوری دنیا میں پھیل جانا چاہئے؛ ایران کو تمام مستضعف اقوام کے لئے نقطۂ آغاز، نقطۂ اول اور نمونۂ عمل ہونا چاہئے۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۲) چنانچہ فلسطینیوں کی مدد و حمایت کا ایک فقہی اور قرآنی پہلو مستضعفین کی راہ میں جہاد سے عبارت ہے جس کا اعلان سورہ نساء کی آیت ۷۵ میں ہوا ہے۔
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امام خمینی (قدس سرہ) کی حیات مبارکہ سے آج تک اسلامی ایران کے ساتھ [دشمنان اسلام کی] دشمنی کا سبب یہ ہے کہ یہاں تمام تر پالیسیوں کو اسلامی معیاروں پر پرکھا جاتا ہے اور پھر اختیار یا مسترد کیا جاتا ہے۔ [اسلامی جمہوری نظام] فلسطینی، بوسنیائی، تاجک، افغان، کشمیری، چیچن، آذربائی جانی اقوام سمیت تمام مظلوم اقوام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ مستضعفین کی حمایت کو لازمی قرار دیا ہے؛ اور ارشاد فرمایا ہے:
“وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً؛
اور تم آخر کیوں نہیں جنگ کرتے اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی [نجات کی] راہ میں جو کہتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں اس بستی سے کہ جس کے باشندے ظالم ہیں، باہر نکال دے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی سرپرست قرار دے اور اپنی جانب سے کسی کو مدد گار بنا دے۔ (۱۳)
[ہماری] اس [پالیسی] کے بموجب، ہی استکباری محاذ کے سرغنے صہیونی سازشیوں کی دلالی اور خناسی سے، اسلامی ایران کو اپنا پہلے درجے کا دشمن سمجھتے ہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ دشمنی برتتے ہیں”۔ (۱۴)

شیطان کا منصوبہ کمزور ہے
چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ تمام دشمنیوں، بغاوتوں، خانہ جنگیوں، عراق کی نمائندگی میں بہت ساری بیرونی مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دھمکیوں، رنگین بغاوتوں، فتنوں، دہشت گردیوں وغیرہ کا سامنا کرنے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ حالیہ برسوں میں مصر کا انقلاب اور بعض دوسرے ممالک کے انقلابات بہت تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ چالیس برسوں سے پورے فخر و اعزاز کے ساتھ سربلند ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ شیطان صاحب ایمان افراد کے آگے کمزور ہے۔ امام خمینی (قدس سرہ) نے انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کی ان تمام کامیابیوں کا سبب ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: “۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۵) (۱۶)
امام خامنہ ای بھی ایران، لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی کامیابیوں کو شیاطین کی کمزوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: “مسلمین تعاون اور قرآن و سنت کے متعین کردہ مشترکہ اصولوں کے سہارے اتنی طاقت پا سکیں گے کہ اس کثیر جہتی اہرمن [بدی کی قوت] کے آگے ڈٹ جائیں اور اس کو اپنے عزم اور ایمان کے آگے مغلوب کردیں۔ اسلامی ایران امام خمینی کبیر (قدس سرہ) کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اس کامیاب مزاحمت و استقامت کی نمایاں مثال ہے۔ وہ اسلامی ایران میں شکست کھا چکے ہیں اور آیت کریمہ “إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛ [۱۷] (شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا کرتا ہے)”، ایک بار پھر ایرانیوں کی آنکھوں کے سامنے مجسّم ہوئی۔ ہر دوسرے مقام پر جب عزم و ایمان پر استوار استقامت نے اقوام کو گھَمَنڈی طاقتوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے وہاں فتح مؤمنوں کو ملی ہے اور شکست و رسوائی ظالموں اور جابروں کا حتمی مقدر ٹہری ہے۔ لبنان کی ۳۳ روزہ نمایاں فتح اور حالیہ تین برسوں میں غزہ کا سربلند اور فاتحانہ جہاد، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے”۔ (۱۸)

اللہ کی نصرت
اللہ نے مؤمنین کو مسلسل وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں خالصانہ جہاد کریں، تو اللہ کی نصرت سے، کامیابی ان کے قدم چومے گی اور اگر وہ کامیاب نہ ہوں تو انہیں اپنے ایمان میں شک کرنا چاہئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: “مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّهِ قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ؛ جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب کو تیز کر دیتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے”۔ (۱۹) نیز قرآن کریم میں خداوند حکیم ارشاد فرماتا ہے:
“وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ؛ اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتری رکھتے ہوا اگر تم ایمان رکھتے ہو”؛ (۲۰) چنانچہ صاحب ایمان ہونا جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی شرط ہے۔ امام خامنہ ای جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہيں: “ہم جو کچھ قضیۂ فلسطین میں دیکھ رہے ہیں ـ کہ یہ پیشرفت قابل انکار نہیں ہے ـ وہ استکبار اور کفر کے محاذ کے مد مقابل محاذ مزاحمت کی روزافزوں طاقت ہے جو ایک واضح اور مشہور امر ہے۔ جو کچھ اس سلسلے میں دکھائی دے رہا ہے، اس کا سرچشمہ خدا پر ایمان اور جدوجہد میں معنویت کے عنصر کا شمول ہے۔
اگر ایک جدوجہد ایمان کے ہمراہ نہ ہو، وہ زدپذیر ہوجاتی ہے۔ صرف اس وقت جدوجہد کامیاب ہوگی جب اس میں اللہ پر ایمان اور اللہ پر توکل شامل ہو۔ دین کے جذبے اور اللہ کے وعدوں پر حقیقی ایمان اور اللہ پر توکل کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچائیں؛ خداوند متعال اور اس کے وعدوں پر حسن ظن [اور اعتماد] کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچانا چاہئے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ؛ (اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس [کے دین] کی مدد کرے) (۲۱) وہ ہمیں یہ تلقین فرماتا ہے اور واضح فرماتا ہے، خداوند متعال سچا ہے۔ اگر ہم اس راہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھائیں، خدا کے لئے حرکت کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو اپنا نصب العین قرار دیں، تو بےشک کامیابی ہمارے قدم چومے گی”۔ (۲۲)
استقامت فتح و کامیابی کی شرط
قرآن کریم میں متعدد مرتبہ استقامت اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین ہوئی ہے۔ قرآنی مفہوم میں “استقامت” قرآنی مفہوم میں ایک اصطلاح ہے دین اور حق کے راستے میں کجیوں، بگاڑ اور ٹیڑھے پن اور انحراف کے مقابلے میں پامردی اور ثابت قدمی کے لئے۔ (۲۳) اہل عراف کے نزدیک “اہل استقامت” اور “منزل استقامت” جیسی عبارتیں بروئے کار لائی گئی ہیں جو سلوک الی اللہ کے مراحل میں شامل ہیں۔ (۲۴) مفسرین اور فقہاء نے استقامت کو فتح و کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی(رح) مجمع البیان میں سورہ شوری کی پندرہویں آیت (۲۵) کے ذیل میں استقامت کے بارے میں لکھتے ہیں: “اللہ کے فرمان کی تکمیل میں استقامت کرو، اور اس کو ترک نہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرو”۔ (۲۶)
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (رح) اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: “خداوند متعال نے جملہ انبیاء کے لئے ایک ہی دین قرار دیا، لیکن امتیں دو جماعتوں میں منقسم ہوئیں: آباء و اجداد جو علم بھی رکھتے تھے اور باخبر بھی تھے لیکن انھوں نے دین میں اختلاف ڈال دیا اور دوسری جماعت نسلوں کی تھی جو حیرت سے دوچار ہوئیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام امور کو تمہارے لئے قرار دیا جو وہ پچھلی امتوں کے لئے قرار دے چکا تھا؛ لہذا اے میرے پیغمبر(ص)! لوگوں کو دعوت دیجئے، اور چونکہ وہ دو جماعتوں میں منقسم ہوچکے ہیں ایک وہ جو حسد کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شک و تذبذب کا شکار ہے، چنانچہ آپ جمے رہئے اور جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ویسا ہی کرتے رہئے اور لوگوں کی خواہشوں کی پیروی مت کیجئے۔ “فلذلك” میں “لام” “لامِ تعلیل” ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ لام الی کے معنی میں آیا ہے اور جملے کے معنی کچھ یوں ہیں: “چنانچہ لوگوں کو اسی دین کی طرف بلایئے جو آپ کے لئے قرار دیا گیا ہے اور اپنے فریضے کی ادائیگی میں جم کر استقامت کیجئے”۔ اور “واستقم” فعل امر کا صیغہ ہے استقامت سے جس سے راغب اصفہانی کے بقول “سیدھے راستے پر گامزن رہنے پر مداومت مراد ہے”۔ (۲۷)

امام خامنہ ای بھی استقامت کے لازمی ہونے کے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں؛ لیکن یہ واقعہ بہرصورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی؛ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے؛ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورت حال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا؛ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے؛ راستے پر مداومت سے چلتے رہنے کی تمہیدات اور مقدمات میں سے آپ کے یہ اجتماعات ہیں، آپ کی یہ ہمآہنگیاں ہیں، آپ کی یہ تبلیغات ہیں، انھوں نے دنیا کی رائے عامہ میں زہر اگل دیا ہے”۔ (۲۹)

بقلم: سعید ابوالقاضی

حوالہ جات:
۱۔ سورہ حج، آیات ۳۹-۴۰۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِى يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو صبح کرے اور مسلمانوں کے معاملات کو اہمیت نہ دے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جو بھی سن لے کسی آدمی کو جو پکار رہا ہے کہ “اے مسلمانو! میری مدد کو آؤ” اور جواب نہ دے، وہ مسلمان نہيں ہے”۔ (الکلینی، الکافی، ج۲، ص۱۶۴)
۳۔ خطبۂ جمعہ ـ تہران، ۱۷/۵/۱۳۵۹ھ ش | ۸ اگست ۱۹۸۰ع‍۔
۴۔ خطاب ۱۳/۹/۱۳۶۹ھ ش | ۴ دسمبر ۱۹۹۰ع‍
۵۔ امام خمینی(قدس سرہ)، صحیفہ نور، ج۲۱، ص۸۸۔
۶۔ “الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۷۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۸۔ https://islamqa.info/fa/answers/49030 معنای توحید و انواع آن
۹۔ خطاب ۱۳۷۷/۰۴/۲۱ھ ش | ۱۲ جولائی ۱۹۹۸ع‍
۱۰۔ صوبہ اردبیل کے نوجوانوں سے خطاب ۵/۵/۱۳۷۹ھ ش | ۲۶ جولائی ۲۰۰۰ع‍
۱۱۔ بیانات در مراسم اختتامیه مسابقات حفظ و قرائت قرآن کریم‌، ۹/۸/۱۳۷۹ھ ش | ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ع‍
۱۲۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۳۔ سورہ نساء، آیت ۷۵۔
۱۴۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام، ۱۴/۲/۱۳۷۴ھ ش | ۴ مئی ۱۹۹۵ع‍
۱۵۔ “وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ؛
اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں مستضعف بنایا [دبایا اور پیسا] گیا ہے اور [ہمارا ارادہ ہے کہ] ان ہی کو امام و پیشوا بنا دیں، ان ہی کو آخر میں وارث [یا قابض و متصرف] بنائیں”۔ (سورہ قصص، آیت ۵)
۱۶۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۷۔ “الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۱۸۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام؛ ۵/۹/۱۳۸۸ھ ش | ۲۶ نومبر ۲۰۰۹ع‍
۱۹۔ امیرالمؤمنین(ع)، نہج البلاغہ، حکمت ۱۷۴۔
۲۰۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹۔
۲۱۔ “الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛
وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے سوا اس کے کہ ان کا قول یہ تھا کہ ہمارا مالک اللہ ہے اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا بعض کو بعض کے ساتھ تو گرا دیئے جاتے راہبوں کے ٹھکانے اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت کدے اور مسجدیں جن میں اللہ کے نام کا بہت ورد ہوتا ہے اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا (سورہ حج، آیت ۴۰)
۲۲۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۲۳۔ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، ج‌۱۱، ص‌۲۷۳٫
۲۴۔ محی الدین بن عربی، الفتوحات المکية، ج‌۲، ص‌۲۱۷؛ خواجه عبدالله انصاری، منازل السائرین، ص‌۴۲؛ ابن قيم الجوزية، مدارج السالکین، ج‌۲، ص‌۱۰۸٫
۲۵۔ “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ؛ تو بس اسی کے لئے آپ دعوت دیتے رہئے اور مضبوطی سے استقامت کرتے رہئے [اور جمے رہئے] جیسا کہ آپ کو حکم ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے”۔
۲۶۔ فضل بن حسن طبرسی، تقسیر مجمع البیان، ج۹، ص۴۳۔
۲۷۔ طباطبائی، تفسیر المیزان، ص۳۳۔
۲۸۔ سورہ شوری، آیت۱۵۔
۲۹۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍

Read 2223 times