ایران کے ایک آنلاین نشریہ "اخوہ ڈاٹ کام" نے"وقتی خون شیعه و سنی کرد مخلوط شد "( جب شیعہ اور سنی کا خون مخلوط ہو گیا) کے عنوان سے ایک مراسلہ شائع کیا ہے اسکے دلنشین اور قابل رشک ہونے کے پیش نظر قارئین کے لئے ترجمہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ مراسلے کی عین عبارت کا ترجمہ مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائيں:
محمد اللہ مرادی ، سپاہ سقز کا سابقہ کمانڈر اور شہید بروجردی کا ساتھی جنگجو کہ جو تنظیم پیشمرگان کا ایک بانی ہے اور کرد سنی مسلمان ہے کہ جو صرف ایک فوجی گروہ نہیں تھا بلکہ علاقے کے مذہبی اور غیر مذہبی انقلاب کے مخالفین کے ساتھ جنگ کرنے والا ایک ثقافتی اور عقیدتی گروہ تھا ۔وہ بذات خود کردستان کی ایک زندہ تاریخ شمار ہوتا ہے ،یہاں پر اس کا ایک یادگار واقعہ کہ جوایران عراق جنگ کے زمانے کا ہے نقل کرتے ہیں کہ جو پڑھنے کے لایق ہے ؛
شیعہ اور سنی کا خون مخلوط ہو گیا
شہید بہزاد ہمتی تحصیل دیواندرہ کا تحصیلدار اور شیعہ تھا ۔شہید محمدی کہ جو دیواندرہ کا میئر تھا وہ سنی تھا ،دونوں عوام اور انقلاب کے واقعی خدمت گذار تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو آسان زندگی مہیا کر سکیں ۔انقلاب کے دشمنوں نے دونوں کو پکڑا اور دونوں کا سر ایک ساتھ قلم کر دیا اور ان کا خون مخلوط ہو کر بہنے لگا ،ان کے ایصال ثواب کی مجلس میں ہم نے لوگوں سے کہ جو ان کو بہت دوست رکھتے تھے کہا :کون ان دونوں کے خون کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتا ہے اور یہ بتا سکتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں ؟کون مسلکی علمی اختلاف کو نفاق اور نفرت کی جڑ سمجھتا ہے ؟خدا جانتا ہے کہ یہ دونوں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے فرزند تھے اور امام کے حکم سے میدان میں آتے تھے ۔جو لوگ اس حالت کو برداشت نہیں کر سکتے وہ جھوٹ کے سہارے قومی اور مسلکی اختلافات پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔جو لوگ جو اس وقت غلط تصور میں مبتلا ہیں کہ پاسدار اب علاقے میں محبوبیت سے بہرہ مند نہیں ہیں لہذا ان کی جگہ ان چاپلوسوں کو دینی چاہیے جنہوں نے محاذ جنگ کا منہہ تک نہیں دیکھا وہ آئیں اور دیکھیں کہ جو لوگ مخلص ہیں اور لوگ جانتے ہیں کہ وہ خدا کی خاطر ان کی خدمت کرتے ہیں لوگ کس قدر ان کا احترام کرتے ہیں ۔اس طرح کے لوگ تھے اور اب بھی ہیں ۔ شہید پرویز کاک سوندی ، ابا حبیب ، شہید عثمان فرشتہ ،مرحوم حاج میکائیلی کہ میرے خیال میں ان کی موت بھی شہادت تھی انہوں نے ان دیہاتوں کو پاک کیا کہ جو انقلاب دشمنوں سے بھرے ہوئے تھے ۔شہید سعید ورمرز یار ، کاک جمیل ،شہید عبد اللہ رحیمی ، حاج ابراہیم ،بہزاد ہمتی ، اور شہید شہسواری کہ جو اس قدر خوبصورت تھے کہ ساتھی ان کو جمیل کہہ کر پکارتے تھے ۔امام جانتے تھے کہ ایک دن ان کو بھلا دیا جائے گا لہذا آپ نے یاد دلایا ؛ ایسا نہ ہونے دیں کہ شہادت وخون میں پیش قدمی کرنے والوں کو زندگی کے پیچ و خم میں فراموش کر دیا جائے !
شہید بروجردی کے اخلاص اور ان کی معنویت کا اثر
سقز کے علاقے میں ایک انقلاب دشمن دیہات کو ہم نے بڑی مشکل سے پاک کیا ہم نے لوگوں کو اطلاع دی کہ وہ سب ایک جگہ جمع ہوں ،میں نےایک دستی مائیک ہاتھ میں لیا اور ان سے گفتگو شروع کی میں نے ان سے کہا کہ انقلاب دشمن افراد کے دھوکے میں نہ آئیں اور میں نےانہیں جمہوری اسلامی کی خدمات کو یاد دلایا ۔ میں گفتگو کر ہی رہا تھا کہ ایک ہیلیکوپٹر دوسری جانب اترا ،ایک شخص بندوق کاندھے پر رکھے ہوئے ہماری جانب آیا ،لوگوں نے کہا کہ بروجردی ہے ۔ وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی وہ آئے اور میرے پاس کھڑے ہو گئے اونچا قد طاقتور بدن بھورے رنگ کی داڑھی والا وہ شخص بہت ہی با رونق تھا ۔جب میری بات ختم ہوئی تو انہوں نے کہا اے جوان تم بہت اچھی تقریر کرتے ہو ! ہم نے ایک دوسرے سے کچھ گپ شپ کی میں نے دیکھا کہ فوج تیار ہے اور توپوں کو بھی نصب کر دیا گیا ہے ،مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ گاوں والوں پر گولی باری نہ شروع کر دیں ! میں نے کہا :جناب آپ کا کیا ارادہ ہے ، گولی باری نہ شروع کر دینا یہ انسان ہیں ،انہوں نے کہامجھے معلوم ہے ،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ایسا کچھ کریں گے کہ سب درست ہو جائے گا ،کیا میں بھی لوگوں سے بات کروں اگر آپ کی اجازت ہو تو ! میں نے کہا ،بسم اللہ ! انہوں نے تقریر شروع کی کہ بھیڑ میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کردی زبان میں گالی دی اور کہا : ہم آپ مزدوروں کے دھوکے میں نہیں آئیں گے اور آخری دم تک جمہوری اسلامی کے خلاف لڑیں گے ،میں نے کہا ترجمہ کروں کیا ؟ اس نے کہا نہیں میں سمجھ گیا کہ اس نے کیا کہا ہے ۔اس نے توہین کی ہے ۔ اس کے بعداس نے نہایت اطمئنان کے ساتھ کہا ؛ آو آپس میں بات کرتے ہیں ! اس دیہاتی نے کوئی جواب نہیں دیا یعنی وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ،بروجردی نے کہا اگر تم نہ بھی چاہو تب بھی اپنی بات کہوں گا ،اور کہا : اچھا آو اور مجھے مارو ! میں نہیں ڈرتا ۔ شہید بروجردی اس کی طرف گئے اور راستے میں اپنی بندوق کو کھولا اور پیچھے کی طرف پھینکا جسے میں نے پکڑ لیا ،انہوں نے اس شخص کو سینے سے لگایا اس کے سینے کو چوما اور کہا : مجھے تمہاری بہادری اچھی لگی ۔کیا اب تم میرے ساتھ کشتی لڑو گے ؟! انہوں نے اس کے چہرے کا بوسہ لیا اور اس کے پیراہن کے بٹن باندھنا شروع کیے ۔اس شخص نے شرمندہ ہو کر کہا : تم پاسدار فرشتوں کی مانند ہو تمہاری باتیں قرآن سے بھری ہوتی ہیں لیکن مجھے نوکروں سے نفرت ہے میں حکومت کا مخالف ہوں ۔
بروجردی نے کہا : اگر ہم فرشتے ہیں تو کیوں ہماری بات نہیں مانتے ؟ اس کے بعد اس نے پوچھا : یہاں مسجد ہے ؟ لوگوں نے کہا ؛ہاں ! اس نے کہا : چلتے ہیں مسجد میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں لوگوں کی بھیڑ دیہات کی مسجد کی جانب روانہ ہوئی بروجردی بھی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے روانہ ہوے اور اس سے گفتگو کرتے رہے ۔خدا جانتا ہے کہ ابھی ہم مسجد تک نہیں پہنچے تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسووں کی بارش ہو رہی ہے ۔یہ صرف اس اخلاص اور روحانیت کا اثر تھا کہ جو اس جیسے لوگوں کے اندر موجود تھا ۔جب دل خدائی ہو جاتا ہے تو تم اپنے مخالف کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہو ۔