مصنف: محمد طاہرالقادري دعا اور زيارات زیارتِ قبور باعثِ اجر و ثواب عمل اور تذکیرِ آخرت کا اہم ذریعہ ہے۔ آئمہِ حدیث و تفسیر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک حسبِ استطاعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت واحب کے درجہ میں داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے اب تک اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے طبقات میں سے کسی نے درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کو اپنے لیے دنیوی و اخروی سعادت نہ سمجھا ہو۔ پوری تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی شخص متدین ہو، مبلغ ہو اور مسلم ہو لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جانے میں عار محسوس کرے۔ بلکہ ہر وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ بوجھ دی، اسے علم کی دولت سے نوازا، اسے عقلِ سلیم اور قلبِ منیر سے فیضیاب فرمایا ہو اور وہ محبوبِ کبریا کی بارگاہِ اقدس میں جانے سے ہچکچائے۔ تاہم گزشتہ چند دھائیوں سے بعض لوگوں نے دین کی خود ساختہ تشریح و تعبیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت کی قبورِ ، اولیاء وصالحین اور عامۃ الناس کی قبور کی زیارت کو بدعت، شرک اور ممنوع سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زیارتِ قبور کے بارے میں ایسا عقیدہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی رو سے صراحتاً غلط اور باطل ہے۔ اس ضمن میں بھی لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ زیارتِ قبور پر جانے والوں نے زیارت کے مقاصد بدل لیے اور عبرت کی بجائے سیر و تفریح کا ذریعہ بنا لیا تو مخالفین بھی اپنی حد سے ایک قدم آگے بڑھے اور انہوں نے جواز کو بوجوہ عدمِ جواز میں بدلا اور بعد ازاں اس عمل کو حرام اور شرک تک پہنچا دیا۔ دیگر مستحب اعمال کی طرح زیارتِ قبور کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا اور نتیجتاً اس پر بھی بحث و مناظروں کا سلسلہ چل نکلا۔ دونوں طرف سے دلائل کے انبار لگ گئے اور کتب مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ چنانچہ اس وقت ’’توحید اور ردِ شرک‘‘ کے اہم موضوعات میں سے زیارتِ قبور بھی ایک مستقل موضوع بن گیا ہے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر بھی قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال و توازن کی راہ پر چلتے ہوئے نفسِ مسئلہ کو سمجھا جائے۔ آئیے سب سے پہلے ہم زیارت کا معنی ومفہوم سمجھ لیں۔
1. زیارت کے لغوی معنی و مفہوم عربی لغت میں ہر لفظ کا مادہ کم از کم سہ حرفی ہوتا ہے جس سے باقی الفاظ مشتق اور اخذ ہوتے ہیں۔ عربی لغت کے اعتبار سے زیارت کا معنی دیکھیں تو یہ لفظزَارَ، يَزُوْرُ، زَورًا سے بنا ہے۔ جس کے اندر ملنے، دیکھنے، نمایاں ہونے، رغبت اور جھکاؤ کے معانی پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کی ملاقات کے لئے جائے تو اس میں اس شخص یا مقام کی طرف رغبت، رحجان اور جھکاؤ بھی پایا جاتا ہے اور بوقت ملاقات رؤیت بھی ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ آئمہِ لغت نے زَور کے درج ذیل معانی بیان کئے ہیں : 1. زَارَ، يَزُوْرُ، زَوْرًا، أي لَقِيَهُ بِزَوْرِهِ، أوْ قَصَدَ زَوْرَهُ أي وِجْهَتَهُ. ’’زَار َیزُوْرُ زَوْرًا کا معنی ہے : اس نے فلاں شخص سے ملاقات کی یا فلاں کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔‘‘ زبيدي، تاج العروس، 6 : 477 2. زَارَ يَزُوْرُ زِيَارَة وَ زَوْرًا وَ زُوَارًا و زُوَارَةً وَمَزَارًا أتاهُ بِقَصْدِ اللقاء وُهُو مأخوذ من الزَوْرِ للصدر أو المَيْل. ’’زیارت کا معنی ہے کسی سے ملنے کے لئے آنا۔ یہ لفظ زَور سے نکلا ہے جس کا معنی ہے سینہ کی ہڈیوں کی ملنے کی جگہ یا میلان، رحجان اور رغبت۔‘‘ بطرس بستانی، محيط المحيط : 384 3۔ ’’محیط المحیط (ص : 384)‘‘ میں زیارت کا معنی یوں بھی لکھا ہے : الزِّيارة مصدر و إسم بمعني الذهاب إلي مکان للاجتماع بأهله کزيارة الأحبة وللتبرّک بما فيه من الآثار کزيارة الأماکن. ’’لفظ زیارۃ مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ جس کا معنی کسی جگہ اہالیان سے ملنے کے لئے جانا جیسے دوست احباب کی ملاقات یا دوسرا معنی کسی جگہ موجود آثار سے حصول برکت کے لئے جانا جیسے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانا۔‘‘ 4. لغت کی معروف کتاب ’’المصباح المنیر‘‘ میں لکھا ہے : والزِّيارة في العرف قصد المزور! کرامًا له واستئناسا به. ’’عرفِ عام میں زیارت سے مراد کسی شخص کے ادب و احترام اور اس سے محبت کی بناء پر اس کی ملاقات کے لئے جانا۔‘‘ فيومي، المصباح المنير في غريب شرح الکبير للرافعي، 1 : 260 اسی سے مَزَار ہے۔ جس کا معنی ہے وہ جگہ جس کی زیارت کی جائے۔ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں : وَالمَزَارُ موضع الزيارة. ’’مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔‘‘ ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333 اسی سے زَائِر بھی ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔
زیارت کا شرعی معنی و مفہوم قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذواتِ عالیہ اور مقاماتِ مطہرہ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نعمت و رحمت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اماکنِ مقدسہ پر حاضری کیلئے جانا مشروع، مسنون، مندوب اور مستحب عمل ہے، عرفِ عام میں اسی کو ’’زیارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ |