تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی
آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے سرزمین عراق پر کربلا کے مقام پر نواسہ رسول، فرزند مولائے کائنات، جگر گوشہ بتول ؑ حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اہل و عیال، اصحاب و انصار کے ہمراہ ایک عظیم الشان قربانی پیش کی، راہ حق میں بہتر مقدس اور قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے انسانیت اور اسلام کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔ جہالت و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم شدہ انسانیت کو ہدایت کا چراغ دکھایا۔ اپنے مقدس لہو سے حق و باطل کے درمیان نجات کی لکیر کھینچ لی اور روئے زمین پر ”ھیہات من الذلہ“ کا نعرہ بلند کرکے خفتہ ملت اور مردہ ضمیروں کے اندر تازہ روح پھونک دی۔ گویا عالم انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔
سنہ 61 ھجری کا روز عاشورا طول تاریخ کا تابناک باب اور عالم انسانیت کی ایک عظیم درسگاہ ہے۔ روز عاشور کے ایک ایک لمحے میں انسانیت کی بقاء کا راز مضمر ہے، عاشورا لمحہ فکریہ ہے، ہماری نا فہمی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ ہم نے عاشورا کو ایک حادثہ کے طور پر پیش کیا، جاہل اور ناخوانندہ ذاکرین نے اس کو افسانہ کا لباس پہنایا، ملت مرحومہ نے امام عالی مقام کو کمزور، لاچار اور خوفزدہ سمجھا ہے۔ ہماری یہ کج فہمی و کج نظری ہی اصل باعث بن رہی ہے کہ دور حاضر میں بین الاقوامی سطح پر تحریک کربلا کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور عالمی سطح پر دشمنان اسلام عاشورا کے اصل ہدف کو نام نہاد مسلمانوں بلکہ مفاد پرست، دین فروش، کرائے کے ملاوں اور مصنفوں کے ہاتھوں ہائی جیک کروا کر عاشورا کو فقط حادثہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے والد گرامی مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالبؑ اور نانا رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صابر، دلیر اور شجاع تھے کہ آپ نے میدان کربلا میں دلیری اور شجاعت کے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ ڈرپوک یزیدی افواج کے خلاف ایسا موقف اختیار کیا کہ دسیوں ہزار پر مشتمل یزیدی فوج پر ہیبت طاری ہوئی، اشقیاء میں ہلچل مچ گئی۔ ہزاروں لعینوں کی موجودگی میں تیروں، تلواروں اور نیزوں کے بیچ امام عالی مقام کا نماز جماعت قائم کرنا اور اس نماز کو انتہائی سکون، خضوع و خشوع بلا کسی خوف و ڈر کے ادا کرنا امام حسین ؑ کی شجاعت، جوانمردی اور دلیری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ تاریخ بشریت میں شجاعت اور بہادری کی ہوبہو مثال ماضی، حال اور مستقبل میں ملنا مشکل ہی نہیں محال ہے۔
نامور شیعہ و سنی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یزید ابن معاویہ لہو و لعب، فسق و فجور، ہوس پرست، شراب خور اور ڈھیر ساری برائیوں کا مظہر تھا۔ مشہور مورخ مسعودی نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ ”یزید کے دور حکومت میں مکے اور مدینے میں اس (یزید) کے کارندوں کے ذریعے سر عام فسق و فجور اور شراب خوری رواج پا چکی تھی۔“(مسعودی، ج 3 ص 68)۔ یزید لعین کے متعلق عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ”میں اسکی بیعت کروں جو بندروں اور کتوں سے کھیلتا ہے، شراب پیتا ہے اور کھلم کھلا فسق کرتا ہے؟ خدا کے نزدیک ہمارا کیا بہانہ ہے۔؟“ (یعقوبی ج 2 ص 160)۔ عبداللہ بن عباس نے مکہ میں کہا: تم انکے پاس جا رہے ہو، جنہوں نے آپ کے والد کو قتل کیا اور آپ کے بھائی کو زخمی کیا۔ یقیناً وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے، لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔"(الاخبار الطوال ص244)
اپنے دور میں یزید پلید نے عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی، فسق و فجور، عیاشی، بدمعاشی، بدعنوانی، فساد، شراب خوری، زنا، لہو و لعب، جھوٹ، لوٹ اور دیگر برائیوں کو عروج بخشا۔ انسانی اقدار کو پامال کیا، اسلامی اصول و قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑا کر حق و باطل کی آمیزش کی۔ دین محمدی میں رسومات بد اور بدعات کو جنم دے کر اس کا چہرہ مسخ کر دیا تھا۔ مسلمان ان تمام برائیوں اور بدیوں کا اپنی بدنصیب آنکھوں سے نظارہ کرتے رہے۔ دین نبوی یزید کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے پامال ہو رہا تھا، لیکن رسول اسلام سے محبت کے دعویدار بڑے بڑے علماء، محدثین، مورخین، نام نہاد شجاع اور دلیر مسلمان چپ سادھ لئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ حق چھپانے اور خالص دین میں باطل کی آمیزش کے خاطر بنو امیہ نے بیت المال سے کثیر تعداد میں مال خرچ کیا۔ مال و زر، درہم و دینار اور منصب کا لالچ دے کر حق چھپوایا۔ حریص اور مفاد پرست لوگوں نے نفسانی خواہشات کے خاطر دین و ایمان کا سودا کرکے یزید پلید کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ حق پر پردہ پوشی کرکے اپنی ذلت اور مردہ ضمیری کا ثبوت پیش کرکے رسول اسلام کو دھوکہ دیا۔
ایسی حالت میں منحرف معاشرے کو صحیح ڈگر پر واپس لانے کی ضرورت تھی، حالات قربانیوں کا تقاضا کر رہے تھے، قربانیاں پیش کرنے کے خاطر کوئی آمادہ نہیں تھا، ڈر اور خوف کا ماحول تھا، تیروں اور تلواروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اسلام کے ٹھیکہ داروں نے سر پر چادر اوڑھ کر خراٹیں لینے شروع کر دیئے تو امام عالی مقام اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے باوفا رفقاء، اہل و عیال کے ہمراہ، جس نے یزید پلید کے ان مذموم اقدامات کے خلاف بڑی بہادری اور دلیری سے قیام کا اعلان کیا۔ قیام حسین ؑکوئی حادثاتی یا اتفاقی قیام نہیں تھا، یہ قیام خالص الٰہی قیام تھا، جب سے یزید ابن معاویہ غاصبانہ جابرانہ اور ظالمانہ طریقے سے تخت اسلامی پر براجمان ہوا۔ بالکل اسی وقت، اسی لمحہ امام عالی مقام نے اس ظلم و جبر اور غاصبیت کے خلاف آواز اٹھائی، احیائے دین اور بقائے دین کے خاطر یزید سے لڑنا بہتر سمجھا۔
مستحکم و مصمم ارادہ کے ساتھ مدینہ سے باضابطہ یزیدیت کے منحوس نظام کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ مدینہ سے نکلتے وقت جب لوگ (جو امام عالی مقام کی معرفت سے بے بہرہ تھے) امام کو یزید کے خلاف قیام نہ کرنے کی تجویزیں دے رہے تھے۔ روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسینؑ کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام عالی مقام سے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، کہاں جانے کا ارادہ ہے۔؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا مکے کا تو اس نے کہا کہ آپ اس سفر پہ مت جائیں۔ (ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین، ص1) یہاں تک کہ محمد ابن حنفیہ نے امام عالی مقامؑ کو کچھ مشورے دیئے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ مکہ میں پناہ لیں، اگر مکہ محفوظ نہیں تو یمن چلے جائیں، (یعنی اپنی جان بچائیں) لیکن قیام امام حسین ؑ ایک شجاعانہ، مستحکم اور مصمم ارادہ والا قیام تھا۔ امام عالی مقام نے اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ کو فرمایا کہ اگرچہ آپ کے مشورے برادرانہ مشورے اور آپ کی تجاویز مخلصانہ تجاویز ہیں، لیکن حسین ؑ پناہ گاہ نہیں چاہتا ہے بلکہ حسینؑ دین محمدی کو پناہ دینے جا رہا ہے۔
قافلہ حسینی ؑ کا ایک ایک فرد شہادت کے لیے آمادہ تھا۔ اتنا آمادہ تھے کہ شہادت کو شہد سے شیرین سمجھنے لگے۔ میدان کربلا میں 13 سالہ شہزادے حضرت قاسم ابن حسنؑ نے اپنے چچا امام عالی مقام سے پوچھا ”چچا جان کیا میں بھی شہید ہوں گا۔؟" امام حسین ؑ نے پوچھا: تم موت کو کیسے دیکھتے ہو؟ شہزادہ قاسم ؑ نے جواب دیا ”چچا جان، موت میرے لیے شہد سے میٹھی ہے۔“ وہاب کلبی(جو صرف 17 دنوں کا دولہا تھا)، جب عصر عاشور شہید ہوا تو اشقیاء نے ان کا سر مبارک وہاب کلبی کی مادر گرامی کی طرف پھینکا تو انہوں نے واپس پھینک کر کہا کہ ہم راہ خدا میں قربان کرنے والے کو واپس نہیں لے رہے ہیں۔ شب عاشور امام حسین نے چراغ بجھا کر اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہو چلے جاو، تمہاری جانیں قیمتی ہیں، آپ چلے جاو، اگر کوئی جانا چاہتا ہے، ہمیں کل اسلام پر قربان ہونا ہے۔ لیکن ساتھیوں نے جانے سے انکار کر دیا اور امام عالی مقام کے رقاب میں شہادت کی خواہش کی۔
خیمہ حسینی ؑ میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی اذن جہاد کے لیے تڑپ رہا تھا۔ دین محمدی کے احیاء کے لیے اور اپنے آقا پر جان قربان کرنے کے خاطر ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ تحریک کربلا کا جائزہ لیتے ہوئے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ کربلا باطل کے خلاف جنگ کا مصمم اور محکم ارادہ تھا۔ بعض ایمان فروش، ناداں و جاہل ملا، کرائے کے مصنفین اور مورخین قیام حسینی ؑ کو دو شہزادوں کی جنگ، کرسی کی جنگ، قبیلہ کی جنگ، حکومت سے ٹکراو اور حادثہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام عالی مقام ؑنے محمد حنفیہ کے نام اپنی وصیت میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ میں ”طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا (حضرت محمد مصطفیٰ) کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب ؑکی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔
کربلا کے تپتے ریگزار میں امام عالی مقام نے بلا تفریق مذہب و مسلک انسانی اقدار اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔ جابر و فاسق یزید پلید کی بیعت کا دوٹوک الفاظ میں انکار کرکے کلمہ حق کو سربلند کیا۔ امام عالی مقام نے ظلم و زیادتی کے اس ماحول میں بلا کسی خوف و ڈر کے اطمینان قلب سے فرمایا کہ ”میں موت کو سعادت کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذلت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔“ امام عالی مقام نے محکم و مصمم ارادہ، ہمت و شجاعت، عزم و استقلال کے ساتھ میدان کارزار میں قدم رکھا، اذیت ناک اور دلسوز مصائب و سختیوں کے آگے کبھی جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا۔ امام نے واضح کر دیا کہ اہل حق سر کٹا سکتے ہیں لیکن باطل کے آگے سر جھکا نہیں سکتے۔ اپنی لازوال قربانیوں کے ذریعے انسانیت کے پرچم کو بلند کیا اور امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کو عظیم الشان فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔
61 ہجری عاشور کے دن قیام امام حسین ؑکا اختتام نہیں ہوا بلکہ میدان کارزار میں امام عالی مقام ؑ نے اس تحریک کو اپنے خون مقدس سے سینچتے ہوئے بام عروج تک پہنچایا، جس کی شعائیں کائنات کے ذرے ذرے پر پڑ گئیں۔ یزید لعین، شمر ابن ذی الجوشن، عمر سعد، ابن زیاد،خولی اور دیگر دسیوں ہزار یزیدی افواج کی ہلاکت کے بعد بھی اس تحریک نے رکنے کا نام تک نہ لیا بلکہ اس تحریک نے گذشتہ چودہ صدیوں سے حسینی ؑ جوان، حسینی لیڈر، حسینی ؑ ملت پیدا کرکے یزیدیت، شمریت، عمریت اور خولیت کو ہر محاذ پر ناکام و نامراد کر دیا۔ عاشورا کی یہ تحریک امت اسلامیہ کے لیے کسوٹی بن گئی، جس نے وقتاً فوقتاً امت محمدی کے دعویداروں کو پرکھا۔ حسینیت ؑکی صحیح پہچان کروائی اور طاغوتیت، فرعونیت، نمرودیت اور یزیدیت کو ہر دور میں بے نقاب کر دیا۔ محمد علی جوہر نے اس کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے:
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا عالم بشریت کے لیے لازوال دانشگاہ بنا، عاشورا ملت ِخوددار اور بیدار کے لیے ہدف اور مقصد بنا، ظالم کی ہلاکت، ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کی سرفرازی کا باعث بنا۔ تاریخ بشریت میں سفر کربلا کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کے لیے در نایاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سامراجی اور طاغوتی قوتیں اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہیں تو وہ صرف اور صرف عزاداری اور پیروی امام حسین علیہ السلام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی عزاداروں نے سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کو بغیر کسی ساز و سامان کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ امام خمینی ؑ مقام معظم رہبری، سید حسن نصر اللہ، شیخ ابراہیم زکزکی، آیت اللہ باقر نمر النمر، شیخ عیسیٰ قاسم اور شہید قاسم سلیمانی جیسے عزاداران امام حسین ؑ نے امام عالی مقام کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر دنیا کے خطرناک سپر پاور طاقتوں کا غرور چکنا چور کر دیا، چوراہے پر سامراج کی ناک رگڑ کر اسلام و مسلمین کی فتح و نصرت کا جھنڈا گاڑ دیا۔
بدنصیبی یہ ہے کہ ملت اسلامیہ معرفت امام حسین ؑسے تاحال بے بہرہ ہے۔ عالم اسلام میں امام عالی مقام کو ایک مخصوص مکتب فکر کے ساتھ منصوب کیا گیا ہے۔ حد درجہ افسوس اس بات کا کہ چند مفاد پرست، جاہل و ناداں ملا نما افراد آج بھی اسلامی لبادہ اوڑھ کر یزید لعین کی وکالت کرکے اس ملعون کو بے گناہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری ملت مرحومہ نے بھی شہادت عظمیٰ کو مرثیہ خوانی اور نوحہ سرائی کے دائرے تک محدود رکھا ہے، جبکہ شہادت کے اصل اہداف و مقاصد سے روگردانی اختیار کی جا رہی ہے۔ اگرچہ عزاداری امام حسین ؑلازمی امر ہے، لیکن یہ عزاداری واقعی عزاداری ہونی چاہیئے۔ یہ عزاداری باعث بنے کہ مردہ ضمیر بیدار ہو جائیں۔ نہ فقط یزید ابن معاویہ بلکہ ہر دور کے یزید اور یزیدیت کے خلاف نفرت و بیزاری کا اعلان ہونا چاہیئے اور اس نفرت کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صرف عزاداری کافی نہیں بلکہ امام عالی مقام کی سیرت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا انتہائی ضروری ہے، اپنے اندر کردار حسینی ؑ اور افکار حسینی ؑکے جذبات کو جگانا ہے، تاکہ یزیدی کردار کا مقابلہ کیا جائے، یہی طریقہ امام حسین کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہے۔
اگر ملت اسلامیہ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑکی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے، ”ہیہات من الذلہ“ کو اپنا شعار بنائے، اپنے اندر شعور و بیداری کا جذبہ پیدا کرے تو شہادت امام حسینؑ کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل ہوگی اور ظلم و زیادتی کا بآسانی سے مقابلہ کیا جاسکتا۔ ورنہ روایتی عزاداری بے معنی اور لاحاصل عمل ہے۔ امام عالی مقامؑ بھی روایتی عزاداری اور روایتی عزاداروں سے خوشنود نہیں ہوں گے۔ الغرض کربلا عظیم الشان درسگاہ ہے، اس درسگاہ سے فیض حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔۔۔ بقول جوش ملیح آبادی:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
واقعہ کربلا حادثہ نہیں حق و باطل کا معرکہ ہے
Published in
نظریات و دینی مقالے