پندرہ دن آسمانی، عید قربان تا عید مباہلہ

Rate this item
(0 votes)
پندرہ دن آسمانی، عید قربان تا عید مباہلہ

ایام غدیر
ہر ایک انسان کا ہر دور میں کوئی شخص رول ماڈل ہوتا ہے، ہر دور میں ہر انسان کا ہر دن سے گہرا تعلق ہوتا ہے، انسان زندگی کے ہر پہلو میں اپنے پسندیدہ شخص کو دیکھ کر زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتا ہے، تاکہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے معیار کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔ اسی طرح انسان کا ہر دن بھی اس کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو دن جس مناسبت سے مخصوص کیا جائے، اس دن کے آنے پر انسان خاص انداز میں وہ دن مناتا ہے، تاکہ اس دن کی اہمیت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ آجکل کے معاشرے میں کچھ ایام ملکی طور پر منائے جاتے ہیں، جیسا کہ ماں کا دن، استاد کا دن، مزدور کا دن وغیرہ۔ ہم جن ایام اور شخصیات کی بات کرنے لگے ہیں، وہ کوئی عام ایام اور کوئی عام انسان نہیں ہیں، جن دنوں کی بات ہم کرنے جا رہے ہیں، ان دنوں کو عالم اسلام میں منانے کا حکم خداوند متعال نے خود دیا ہے۔١ جن ہستیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے، ان کے بارے میں قرآن پاک میں بہت واضح کئی بار ذکر کیا گیا ہے، ان عظیم ہستیوں کو انسان اگر زندگی کے ہر پہلو میں دیکھے تو اس کے لیے باعث فخر ہوگا، ان ہستیوں کی گفتار میں ہمیشہ سچائی ملے گی۔

دس ذوالحجہ (١)
عید قربان
مسلمانوں کی بڑی عید ہے، اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم پر اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے آمادہ کیا اور ان کے گلے پر چھری چلائی، تاکہ خداوند عالم کے حکم کی تعمیل ہوسکے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ آسمان سے نازل ہوا اور ان کی جگہ ذبح ہوا۔ وحی نازل ہوئی، اے ابراہیم علیہ السلام، آپ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اسی وجہ سے سے مسلمان اللہ کے نبی کی سنت کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔1

دس ذوالحجہ (٢)
حضرت ابو طالب علیہ السلام کی عظیم دعوت
تاریخ میں دس ذوالحجہ کے روز ایک اور واقعہ رونما ہوا، بہت کم لوگ اس واقعے سے آشنا ہیں۔ اس دن بہت بڑی قربانی کا اہتمام کیا گیا، اس عظیم انسان کی خاطر جس کا مقام پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خدا کے نزدیک بلند ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام 13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو کچھ سالوں کے بعد حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے فرزند کے عقیقے کا اہتمام کیا، جس کے بارے میں اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ملتا ہے کہ اس سے بڑھ کر نہ کسی کا عقیقہ کیا، نہ ہی قربانی کی گئی۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے عقیقے کے لیے جو جانور ذبح کئے تھے، ان کی تعداد کچھ یوں ہے، 300 اونٹ 1000 گائے اور بکرے، تاکہ خداوند عالم کی بارگاہ میں اس بابرکت فرزند جو وصی رسول علیہ السلام ہے، حقیقی ولایت اور امامت کے حقدار ہیں، خدا کا شکرانہ ادا کیا جا سکے۔ اس سارے اہتمام کی یہ شرط تھی کہ طواف کعبہ کرنے والے حجاج کو دعوت دی جائے، جو کہ خدا کے خاص مہمان تھے، اس لحاظ سے یہ دعوت بہت عظیم تھی۔2

دس ذوالحجہ (٣)
مشرکین سے برائت کا اعلان
فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھجری سورہ برائت کی آیات نازل ہوئیں (مشرکین سے بیزاری)۔ مشرکین کو دو کاموں کا حکم دیا گیا۔ اسلام لے آئیں یا مکہ سے اور حج بیت اللہ کے مراسم سے خارج ہو جائیں۔ یہ پیغام توحیدی تھا اور مکہ مکرمہ میں کفار اور مشرکین کے درمیان جا کر بیان کرنا تھا۔ لوگوں نے رائے دی کہ حضرت ابو بکر کو بھیجا جائے، تاکہ مکہ والوں کے سامنے ان آیات کو بیان کیا جائے، چونکہ جنگوں میں کوئی بھی مشرک ابوبکر کے ہاتھوں زخمی نہیں ہوا تھا، اسی لیے مشرکین مکہ ان سے کینہ نہیں رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو بلایا اور سورہ برائت کی آیات ان کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ ان آیات کو حج بیت اللہ ادا کرنے والوں کے سامنے بیان کرو، لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ جبرائیل رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے محمد! اس کام کو خود انجام دیں یا کسی ایسے شخص کے ذمے لگائیں، جو آپ جیسا انجام دے سکے۔3

یہ کام کسی دوسرے سے صحیح انجام نہیں دیا جائے گا، یعنی لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ حکومت اسلامی کی بنیاد اور مشرکین و کفار سے برائت کا اعلان ہر کسی کا کام نہیں۔ بلا فاصلہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو سورہ برائت کی آیات کا اعلان کرنے کے لیے مکہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت علی نے رسول اکرم کے حکم کے مطابق آیات کو ابوبکر سے لیا اور خود حج بیت اللہ کے مراسم میں شرکت کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شجاعت اور دلیری کے ساتھ مشرکین کے درمیان کھڑے ہو کر کئی بار ان آیات کو بلند آواز کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ ابوبکر راستے سے مدینہ روانہ ہوگئے اور یہ واقعہ دس ذوالحجہ کو پیش آیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام 11، 12، اور 13 ذوالحجہ کو اسی طرح ان آیات کو معانی کے ساتھ بیان فرماتے رہے۔

حضرت علی علیہ السلام اس سارے واقعے کو اس طرح بیان فرماتے ہیں، جس وقت مکہ میں آیا، تاکہ سورہ برائت کی آیات کو مشرکین کے سامنے پڑھوں، کوئی بھی مکہ میں نہیں تھا۔4 و 5 وہ سب جو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، حتی کہ میرا جسم اگر کہیں تھوڑی سی خطا کرتا تو مجھے سزا دینے کے لئے آمادہ تھے، اس حد تک کہ جان و مال اور خاندان کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ مجھے تکلیف دے سکیں۔ اس خطرناک حالت میں آیات قرآن کو ابلاغ کیا۔ میرے آیات سنانے کے بعد سب نے مجھے سخت جواب دیئے اور مردوں اور عورتوں نے میرے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا، لیکن میں نے بہترین انداز میں ان سوالوں کے جواب دیئے۔6

دس ذوالحجہ (٤)
حدیث ثقلین کا اجمالی تعارف
پیامبر اکرم مختلف جگہوں اور اوقات میں بیان فرماتے رہے ہیں، حدیث ثقلین کو جگہ جگہ واضح فرمایا، ان میں سے آپ کا سفر حج اور روز عید قربان اور 11 ذوالحجہ وغیرہ اور غدیر خم 10 ھجری یعنی حجۃ الوداع ہے۔ کافی اصحاب نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کا راویان اور سند کے اعتبار سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ سب مسلمان اس کو نقل کرتے ہیں۔ متن حدیث مبارکہ ..إِنِّی تَارِک فِیکمْ أَمْرَینِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا- کتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ أَهْلَ بَیتِی عِتْرَتِی أَیهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَ قَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِی الثَّقَلَینِ وَ الثَّقَلَانِ کتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکرُهُ وَ أَهْلُ بَیتِی‏..
(٣بصائر الدرجات، ج ١، ص ٤١٣)
(٤ تقویم غدیر، ص ٢٢،٢٣)
(فضائل صحابہ، ص ٤٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ (خصال، ج ١، ص ٤٣٣)
2۔ (امالی طوسی، ص ٧٠٩)
3۔ (سنن ترمذی، ج ٢، ص ١٨٣)
4۔ (خصال ٢، ص ١٢٨)
5۔ تقویم غدیر ٢٠
6۔ (خصال ٢ ص ١٢٨)
7۔ (٣بصائر الدرجات ج ١ ص ٤١٣)
 (فضائل صحابہ ص ٤٥)

تحریر: ظہیر عباس
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read 862 times