رسول خدا حضرت محمد بن عبداللہﷺ نےحجاز اور یمن کے درمیان نجران نامی علاقےمیں مقیم عیسائیوں کو24 ذیحجہ 9 ہجری قمری کواللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی دعوت دی جسے مباہلہ کہتے ہیں۔اور اس دن توحیدی عقیدے کا مشرکانہ عقیدے کا آمنا سامنا ہونا تھا ایکدوسرے کے عقیدے کے بارے میں خدا سے غضب کی دعا کرنی تھی اور توحیدی قافلے کو دیکھ کرہی مشرکوں نےدبے لفظوں میں اپنی شکست کا اعلان کیا ، اس طرح عقائد کا علمی اور عملی مناظرہ ہوا جس پر علم وعمل کا لا علمی وبی عملی پر غلبہ ہوا جسے اہل بصیرت عید مناتے ہیں۔کیونکہ اس کامیابی پر اللہ نے ایک آیت نازل فرمائی ہے۔
آیئے اس نورنی دن کے تاریخی منظر پر طائرانہ نظرکرکے اپنے اذہان اور عقیدے کو متبرک کرتے ہیں۔
نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت
ہجری کا نواں سال ہے، مکہ معظمہ اور طائف توفتح ہو چکا ہے ۔ یمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے دائرے میں آ چکے ہیں. حجاز اور یمن کے درمیان واقع نجران نامی ايک جگه ہے جہاں عیسائی مقیم ہیں اور شمالی افریقہ اور قیصر روم کی عیسائی حکومتیں ان نجرانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ، شاید اسی وجہ سے ان میں توحید کے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہیں آتا ہے لیکن ان پر رحمۃ للعالمین مہربان ہورہے ہیں ۔
حضرت رسول رحمتﷺنجرانی عیسائیوں کے بڑے پادری “ابو حارثہ” کے نام اپنا خط روانہ کرتے ہیں ،جس میں عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ رسول رحمت ﷺ کا خط سربمہر ایک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوتا ہے ۔
جب مدینہ سے آنحضرت کا نمایندہ خط لے کے نجران پہنچتا ہے جہاں وہ وہاں کےبڑے پادری ابو حارثہ کے ہاتھ آنحضرت کا خط تقدیم کرتا ہے ۔ ابوحارثہ خط کھول کر نہایت دقت کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور فکر کی گہرایوں میں کھوجاتا ہے ۔ اس دوران شرحبیل جو کہ درایت اور مہارت میں مشهور تھا اسکو بلاوا بھیجتا ہے اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو حاضر ہونے کو کہا جاتا ہے۔
سبھی اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے ہیں۔ اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک ہیئت حقیقت کو سمجھنے کے لئے مدینہ روانہ کیا جاتا ہے جن کی قیادت ابوحارثہ بن علقمہ اورعبدالمسیح بن شرحبیل معروف بہ عاقب(علاقائی پادری)اوراهتم یا اہم بن نعمان معروف بہ سید (نجران کے سب سے بڑے قابل احترام بزرگ شخصیت) کر رہے تھے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلامﷺکے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
نجران کا کارواں مسجد النبی میں داخل ہوتا ہے اور سبھوں کی نظر یں ان پر ٹک جاتی ہیں ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کي نسبت بے رخی ظاہر کرتے ہیں ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اور اب بے رخی دکھا رہے ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی7نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیو ں سے کہا کہ آپ فاخرانہ لباس، تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام ﷺان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے ہیں اورمیر کارواں ابوحارثہ سے گفتگو شروع ہوتی ہے :
ابوحارثہ: آپکا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر ﷺ: جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سبھوں سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خداے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین، اسلام کو قبول کریں ۔
ابوحارثہ: اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہیں تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
پیغمبر ﷺ: اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو عیسی7کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
ابوحارثہ: اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں؛ از جملہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
پیغمبر 6: آپ نے عیسی 7 کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خداے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی7کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری “ابوحارثہ”یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوران کاروان میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل(عاقب) نے اس خاموشی کو توڑا ۔
عاقب -عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی میں فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}
عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری “ابو حارثہ” کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر ﷺ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش اُڑ گئے جب انہوں نے سنا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عيسی کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہه دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کوبلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاو ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو۔ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
سچ اور جھوٹ کو اپنی حقانیت بیان کرنے کے لئے خطاب الہی ہوا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباہلہ کریں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔
حق ا و رباطل کی بے نظیر پرکھ قائم کرنی ہے۔ علم و عمل کا امتحان لینا ہے ۔ ظاہر اور باطن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دو آسمانی ادیان کے ماننے والوں کی حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ کس کا آسمان کے ساتھ ابھی رابطہ برقرار ہے اور کس نے یہ رابطہ منقطع کیا ہے ۔غرض طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پہیل گئ ۔
مباہلے کا اہتمام
24 ذیحجہ 9ہجری آ پہنچا۔مدینہ منورہ کے اطراف و اکناف میں رہنے والےلوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ ؛ اگر آج محمد ﷺاپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سبھوں کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ایک ہاتھ سے حسن بن علی 8 کا ہاتھ پکٹرے اور دوسرے ہاتھ سےحسین بن علی 8کو آغوش میں لئے بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی حضرت فاطمۃ زہرا 3 چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے امیر المومنین علی7ہیں۔
صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبرﷺ اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔
اس بیچ جب بڑے پادری ابو حارثہ کی نظریں پنجتن پاک : پر پڑی تو کہنے لگا : ہاے رے افسوس اگر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔دوسرے نے کہا؛تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟
جواب ملا اس(پیغمبر خداﷺ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی ۔
مباہلہ پیغمبر کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے ۔ مباہلہ پیغمبر خدا 6کےاہل بیت: کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی ، کبھی امام حسن کبھی امام حسین بن علی ، کبھی امام علی بن ، کبھی امام محمد ، کبھی امام جعفر صادق ، کبھی امام موسی کاظم، کبھی امام علی بن موسی رضا ، کبھی امام محمد تقی، کبھی امام علی نقی ، کبھی امام حسن عسکری: کی شہادت اور کبھی امام مھدی 7 کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ جس سے غدیر خم میں کافروں کی اسلام کی نسبت نا امیدی کی نوید کو سنتے ہیں ۔
( الیوم ییس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوہم واخشون)[ مائدہ/1]۔
جی ہاں مباہلہ اور غدیر ہمیں اسلامی قیادت کی نشاندہی کررہے ہیں۔جسے امامت و لایت کہتے ہیں۔ اور یہی ولایت ہےجو کہاسلام کی بقا کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسلام پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں ۔
آج امامت اورولایت کی آخری کڑی پردہ غیب میں ہیں اور انکی نیابت حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای مدظلہ العالی کررہے ہیں جن کی اتباع سے ہی حقیقی اسلام کی ترجمانی ممکن ہے ۔ جس طرح لبنان کے روحانی سنی عالم دین شیخ احمد الزین نے تقریب مذاہب اسلامی کی خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ:” شریعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رهبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں” ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں جھوٹوں کا پردہ فاش ہوسکے اور اسلام میں فوج ، فوج داخل ہونے کا سلسلہ وسیع تر ہوجائے اور مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی عجل اللہ تعالی فرج الشریف کو خداوند اذن فرج عنایت کرکے ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے ۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر خداﷺکی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین: کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین