حیات جاوید ہر ایک کی خواہش ہے۔ انسان اپنی ذات اور نظریئے کو جاویدان دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ مکاتب اور مذاہب جو اخروی اور موت کے بعد کی زندگی کا عقیدہ نہیں رکھتے، وہ بھی اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ رکھنے کے لئے مختلف اقدامات انجام دیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں ایسے فلاحی امور جن کی وجہ سے مرنے والے کا نام آئندہ نسلوں تک باقئ رہے، کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔ بڑی بڑی لائبریریاں، ہسپتال، یتیم خانے اور اس طرح کے دیگر فلاحی کام اس لئے انجام دیئے جاتے ہیں، تاکہ عطیات دینے والے کا نام مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔ انگریری میں میموریل اور اردو میں یادگار کی اصطلاح اسی طرح کے فلاحی امور میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ قصہ مختصر دنیا کا ہر انسان تاریخ میں زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے، البتہ وہ زندگی کیا ہے، یہ ایک مفصل بحث ہے۔ اسلام نے زندہ و جاوید رہنے کے لئے اخروی زندگی پر ایمان کے ساتھ اور بھی شرائط کی طرف رہنمائی کی یے۔
یہ بھئ ایک زندہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ مختلف قسم کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے، تاریخ کے پردے پر کتنے ہی تاریخ ساز واقعات و افراد نمودار ہوئے، لیکن گردش دوراں اور زمانے کے نشیب و فراز نے انہیں مٹا کر فراموشی کے سپرد کر دیا اور اگر کسی کا کردار کچھ زیادہ ہی موثر تھا بھی تو کچھ عرصے کے بعد سوائے کاغذ و قرطاس کے سینے کے، وہ کسی کو یاد نہ رہا۔ فقط اوراق تاریخ میں اس کا نام دیکنھے کو باقی رہا۔ لیکن ایسی ہستیاں اور شخصیات بہت کم ملتی ہیں، جن کو زماے گزرنے سے مزید شہرت ملی ہو اور گردش دوراں سے ان کی شخصیت کے قد اور اثر میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ہو، ان کی عظمت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا ہو اور ان کی شخصیت زمان اور مکان کی قید سے ماورا ہو کر امر بن گئی ہو۔ ہر قوم انہیں اپنا کہنے لگے، ان کو اپنا آئیڈیل ماننے لگے، ان کی مثالیں دینے لگے اور نئی نسل کو ان سے آشنا کرنے لگیں۔ ان تمام شخصیات میں سب سے نمایاں نام حسین ابن علی علیہ السلام کا نام اور واقعہ کربلا اس کی عملی مثال ہے۔
کہنے کو تو اس واقعہ کو چودہ صدیاں گزر چکیں ہیں، لیکن اگر ہم آج بھی اپنے گوش و کنار پر نظر ڈالیں اور لوگوں کی دلوں میں ان کی محبت کا متلاطم سمندر دیکھیں یا ان کو پیش کیا جانے والا خراج تحسین ملاحظہ کریں تو ایسا لگے گا کہ یہ واقعہ کل ہی پیش آیا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس واقعہ میں ایسا کیا کچھ ہے کہ یہ جاوید اور ماندگار بن گیا ہے، اس کی بقا کے کونسے راز ہیں۔؟ خلوص اور پاک نیتی واقعہ کربلا اور قیام امام حسین کا اہم عنصر ہے۔ خلوص، پاک نیتی اور تقرب الہیٰ کا جذبہ ایسی لازوال خصوصیت ہے، جو اسے کہنہ و قدیمی نہیں ہونے دیتی۔ آپ علیہ السلام نے فقط خدا کی رضا اور دین کو زندہ کرنے کیلئے قربانی دی۔ آپ کے قیام میں حکومتی عہدے یا دنیوی چیز کا کوئی لالچ نہ تھا۔ کربلا کی تاریخ کا ذرہ ذرہ اس کا گواہ ہے۔ امام حسین نے اپنی تحریک کی بنیاد خدائی ذمہ داری کو پورا کرنے پر رکھی اور پھر نتیجہ خدا پر چھوڑ دیا۔
انقلاب کربلا کی حقیقت کی عکاسی امام حسین کی سیرت، آنحضرت کی رفتار، گفتار، کلمات اور خطبات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب امام حسین مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کیلئے دعوت دیتے ہوے فرمایا: "جو بھی ہمارے لئے جان دے سکتا ہو اور اس نے اپنے آپ کو اللہ کی ملاقات کیلئے تیار کر لیا ہو، وہی ہمارے ساتھ چلے۔" کربلا کے قریب پہنچ کر فرمایا: "لعین ابن لعین نے مجھے تلوار اور ذلت کے درمیان لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں تلواروں کا استقبال کروں گا، لیکن کبھی بھی ذلت کو اختیار نہیں کرونگا، کیونکہ ذلت ہم سے دور ہے۔" سید الشہدا کے شجاع اور بہادر جوان بیٹے نے جب کربلا کے راستے میں آپ کو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے دیکھا تو استفسار کیا تو آپ نے اپنے فرزند کو بتایا کہ میں نے منادی کو ندا دیتے ہوئے سنا ہے کہ یہ قافلہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پھر جب امام نے بیٹے سے ان کی رائے اور خیال جاننا چاہا تو عرض کی: "اگر ہم حق پر ہیں تو موت کا کوئی ڈر نہیں ہے۔"
انہوں نے یہ کہہ کر اپنی حقانیت کا اعلان بھی کیا اور یہ بھی بتایا کہ ہمارا قیام فقط خدا کیلئے ہے، اگرچہ اس راستے میں شہید ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ امام حسین کی شیر دل خواہر جناب زینب جب اپنے بھائی کے لہولہاں جسد اطہر کے پاس آئیں تو اسے ہاتھوں پر بلند کرکے کہنی لگیں: "خدایا ہم اہلبیت رسول کی یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔" یہی عظیم الشان بی بی شام میں یزید سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتی ہیں: "اگرچہ گردش دوراں نے ہمیں تم سے بولنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن پھر بھی میں تمہیں حقیر اور خوار مانتی ہوں، جو کرنا ہے کر لو، لیکن تو کبھی بھی ہمارے نور کو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہماری نشانیوں کو مٹا سکتا ہے۔" کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں حجت خدا کا قتل اس حادثہ کی جاودانگی اور ماندگاری کا دوسرا راز ہے، اس میں نہ فقط ایک مومن اور حق طلب انسان بلکہ ایک معصوم امام، اصحاب کساء میں سے پانچویں ہستی کو شہید کیا گیا ہے، دختر رسول اللہ کے فرزند کو کلمہ گو مسلمانوں نے انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا۔
امام حسین ویسے ہی اس عظمت کے مالک تھے کہ زمانہ اسے بھلائے نہ بھلا سکتا تھا، لیکن آپ کی مظلومانہ شہادت نے آپ کو اور زیادہ نمایاں کر دیا، جسے تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اگرچہ ہر انسان کا خون محترم ہے اور اسے ناحق بہانا جرم ہے، لیکن حجت خدا، زمانہ کے امام کا ناحق خون بہانا بہت ہی بڑا گناہ ہے، امام بھی ایسا کہ جو دوسروں کو نجات دینے اور یزید کے پنجے سے چھڑانے کیلئے نکلا تھا۔ یقیناً ایسی ہستی کا ایسا سفاکانہ قتل کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے، جس کو آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہو۔ شیعہ سنی کتابوں میں شہادت کے بعد رونما ہونے والے حادثات مثلاً زمیں میں زلزلہ آنا، آسمان سے خون برسنا اور ملائکہ کا گریہ کرنا، امام حسین کی عظمت کے گواہ ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی