اسلام میں نظریہ مھدویت

Rate this item
(0 votes)
اسلام میں نظریہ مھدویت

مھدی موعود (عج) کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پھلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گاو جو آپ کا ھم نام ھوگا اور اس کا لقب مھدی ھوگا اور جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔{یملاء الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورا} “آپ (عج) زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ھوچکی ھوگی۔”

شیعہ امامیہ عقائد کے مطابق مہدی موعود (عج) ان کے بارھویں امام ہیں، جو 15 شعبان 255 ھ ق کو سامراء میں پیدا ھوئے۔ آپ (عج) نے پانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ زندگی بسر کی اور 260 ھ ق میں اپنے والد بزرگوار کی شھادت کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ھوگئے اور سال 329 ھ ق تک آپ (عج) کی طرف سے چار وکیل اور نائب شیعوں کے مسائل حل کرتے رھے۔ اس عرصے کو غیبت صغریٰ کھا جاتا ہے۔
اس کے بعد غیبت کبریٰ کا مرحلہ شروع ھوا اور اس عرصے میں شیعوں کے مسائل کے حل و فصل کی ذمہ داری آپ (عج) کی طرف سے شیعہ عادل فقھاء کے سپرد ھوگئی۔ پس آپ (عج) کی ولادت باسعادت ھوئی، آپ (عج) اس دنیا میں تشریف لائے اور آج تک زندہ ہیں، لیکن آپ (عج) لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں۔
امام مھدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف اھل تشیع حضرات ھی نھیں رکھتے بلکہ اھل سنت کے بھت سے مشھور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ھیثمی (الصواعق المحرقہ)، سید جمال الدین (روضۃ الاحباب)، ابن صباغ مالکی (الفصول المھمۃ)،سبط ابن جوزی (تذکرۃ الخواص)، عبدالرحمن جامی حنفی (شواھد النبوۃ)، حافظ ابو عبداللہ گنجی شافعی (البیان فی اخبار صاحب الزمان) اور (کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین{ع})، ابوبکر بیھقی (شعب الایمان)، کمال الدین محمد بن طلحۃ شافعی (مطالب السووٴل فی مناقب آل الرسول)، حافظ ابو محمد البلاذری (الحدیث المتسلسل) ابو محمد عبداللہ بن الخشاب (تاریخ موالید الائمۃ و و فیاتھم)، شیخ محی الدین بن عربی (الفتوحات المکیۃ)، شیخ عبدالوھاب شعرانی (الیواقیت و الجواھر)، حافظ محمد بخاری حنفی (فصل الخطاب)، حافظ ابو الفتح محمد بن ابی الفوارس (الاربعین)، عبد الحق دھلوی (مناقب و احوال الائمۃ)، حافظ سلیمان قندوزی حنفی (ینابیع المودۃ)، عبداللہ بن محمد المطیری (الریاض الزاھرۃ)، ابوالمعالی سراج الدین الرفاعی (صاح الاخبار فی نسب السادۃ الفاطمیۃ الاخیار)، محمد بن خاوند شاہ (روضۃ الصفا) وغیرہ۔ علاوہ ازیں کتاب منتخب الاثر میں بھت سارے علماء کا نام، جن کی تعداد ساٹھ سے بھی زیادہ ہے ذکر ھوا ہے۔
البتہ اھلسنت کے نزدیک مشھور قول یہ ہے کہ آپ (عج) کی ولادت ابھی تک نھیں ھوئی ہے۔ آپ (عج) کی ولادت آخر الزمان میں ھوگی اور آپ (عج) اس وقت قیام فرمائیں گے، لیکن اھل تشیع نے آپ (عج) کی ولادت باسعادت اور آپ (عج) کی حیات پر عقلی و نقلی دلائل پیش کئے ہیں۔
بعض محققین کی تحقیق کے مطابق مھدی موعود (عج) کے بارے میں اھل سنت کے 60 سے زیادہ معتبر منابع، جن میں صحاح ستۃ بھی شامل ہیں، نیز اھل تشیع کی کتب اربعہ سمیت 90 سے زیادہ معتبر منابع میں احادیث بیان ھوئی ہیں۔ مسلمانوں نے اس مسئلے کی اھمیت کے پیش نظر اسے نہ فقط حدیثی اور کلامی کتابوں میں ذکر کیا ہے، بلکہ اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہے۔
محمد بن اسحاق بن ابراھیم کوفی (متوفی 275ھ)، پھلا شخص ہے، جس نے پھلی مرتبہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب (صاحب الزمان) کے عنوان سے لکھی۔ مھدی موعود (عج) کےبارے میں موجود احادیث اس حد تک قطعی ہیں کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار بھی (جو عام طور پر اھل تشیع کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں) ان احادیث کے صحیح ھونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ نے مسند احمد، صحیح ترمذی اور سنن ابو داوو سے استناد کرتے ھوئے مھدی موعود (عج) کے بارے میں نقل شدہ احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابن خلدون ان احادیث کے بارے میں اعتراض کرتے ھوئے لکھتے ہیں: ان میں سے بعض احادیث کے علاوہ تمام احادیث قابل مناقشہ ہیں۔
اسلامی محققین (شیعہ و سنی) نے ابن خلدون کے کلام پر اعتراض کرتے ھوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اھل سنت کے محقق ڈاکٹر عبد الباقی لکھتے ہیں: مھدی موعود (عج) کے بارے میں تقریباً اسی (۸۰) روایتوں پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ موجود ہے، جن کے راویوں کی تعداد ھزاروں تک پھنچ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں صحاح و مسانید کے مصنفین نے بھی ان احادیث کو ذکر کیا ہے۔ بنابریں کیا اس عظیم مجموعے کو باطل قرار دے سکتے ہیں؟ اگر ان احادیث کے بارے میں شک کرنا صحیح ھو تو تمام روایات شک کے دائرے میں ھوں گی، جس کے نتیجے میں سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حرف آجائے گا، جبکہ علمائے سلف کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلے پر خدشہ وارد نھیں کیا، بلکہ گذشہ علماء اس مسئلہ کی تفسیر اور تحلیل کیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ابن خلدون نے بھت سارے اعتراضات کرنے کے بعد ان احادیث میں سے بعض کے صحیح ھونے کا اقرار بھی کیا ہے۔ واضح ہے کہ اس عقیدے کے بارے میں اگر ایک حدیث بھی موجود ھو، تب بھی اسے چھوڑ نھیں سکتے، بلکہ اسے قبول کرتے ھوئے دوسری متواتر احادیث کو اس کے لئے موٴید قرار دینا چاھیے، اگرچہ یہ احادیث سند کے اعتبار سے کامل نہ بھی ھوں۔
ابن خلدون کے کلام سے بھی زیادہ مضحکہ خیز احمد امین کا کلام ہے، جو نہ فقط مھدی موعود (عج) سے مربوط احادیث کی نفی کرتا ہے، بلکہ کھتا ہے کہ شیعوں نے گھڑا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق شیعوں نے بنی امیہ کے عکس العمل میں (کیونکہ انھوں نے عثمان اور دوسرے اصحاب کے فضائل میں احادیث گھڑ لی تھیں) بھت ساری احادیث حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور مھدی موعود کے بارے میں گھڑ لی ہیں، لیکن چونکہ یہ روایات علمائے اسلام کے نزدیک مورد قبول تھیں، اس لئے انھوں نے بھی ان جعلی احادیث کو قبول کر لیا ہے۔ (احمد امین کے اس من گھڑت کلام کا جواب)، پھلی بات یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل صرف اھل تشیع کی کتابوں میں موجود نھیں ہیں، بلکہ آپ کے وہ تمام فضائل جو شیعہ کتب میں موجود ہیں، اھل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
بنابریں اھل تشیع کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں احادیث جعل کریں۔ دوسری بات یہ کہ شیعہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں بدترین اجتماعی و سیاسی شرائط کے حامل تھے، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے مسلم فضائل کو بھی نقل نھیں کرسکتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شیعہ کس طرح بنی امیہ کے ردعمل میں احادیث جعل کرسکتے ہیں۔۔ تیسری بات یہ کہ اھل سنت کے محدثین اور مولفین نے کس طرح شیعوں سے مھدی موعود (عج) کے بارے میں جعلی احادیث قبول کیں، حالانکہ ان کے نزدیک کسی روایت کے ضعیف ھونے کے لئے کافی ہے کہ اس کا روای شیعہ ھو۔
مھدی موعود (عج) کے نسب کے بارے میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں، جن میں حسب ذیل نکات کی تاکید ھوئی ہے:
1۔ مھدی موعود امت اسلامی سے ہیں، یہ مطلب بعض روایات میں خاص طریقے سے بیان ھوا ہے۔ علاوہ ازیں آپ (عج) کے نسب کے بارے میں موجود احادیث سے بھی یہ مطلب ثابت ھو جاتا ہے۔ بنابریں مھدی موعود (عج) کے امت اسلامی سے ھونے میں کوئی شک و تردید نھیں ہے۔ البتہ صرف ایک روایت اس طرح سے نقل ھوئی ہے (لا مهدی الا عیسی بن مریم) عیسٰی بن مریم کے علاوہ کوئی اور مھدی نھیں ہے۔ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو یا جعلی قرار دیا ہے یا دوسری متواتر روایات کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اسے غیر معتبر قرار دیا ہے یا اس حدیث کی تاویل کی ہے۔
2۔ مھدی موعود (عج) اھلبیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں۔ اس سلسلے میں 389 احادیث موجود ہیں۔
3۔ مھدی موعود (عج) حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 214 احادیث موجود ہیں۔
4۔ مھدی موعود (عج) حضرت فاطمہ علیھا السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 192 احادیث موجود ہیں۔
5۔ مھدی موعود (عج) امام حسین علیہ السلام کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔ اس سلسلے میں 148 احادیث موجود ہیں۔
6۔ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہین، اس سلسلے میں 146 احادیث موجود ہیں۔
مھدی موعود (عج) کے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی اولاد ھونے میں شیعہ اور اھل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ہے، لیکن آپ (عج) کے امام حسن علیہ السلام کی اولاد ھونے یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد ھونے کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں۔
اھل تشیع اس بات پر متفق ہیں کہ آپ (عج) امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نظریہ اھلسنت کے یھاں بھی مشھور ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آپ (عج) امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (عج) امام حسن اور امام حسین علیھم السلام دونوں کے فرزند ہیں۔ مھدی موعود (عج) کے امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی طرف نسبت قابل توجیہ ہے، یعنی آپ (عج) کا نسب باپ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ماں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام پر ختم ھوتا ہے، کیونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
بنابریں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے بعد امام زمانہ (عج) تک تمام ائمہ اھلبیت علیھم السلام امام حسن علیہ السلام کی نسل سے بھی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے بھی۔
لھذا امام مھدی (عج) حسینی بھی ہیں اور حسنی بھی۔ لیکن جن روایات میں آپ (عج) کے نسب کو صرف حسنی قرار دیا گیا ہے، وہ قابل استناد نھیں ہیں، کیونکہ ابو داود سے جو روایت نقل ھوئی ہے، اس میں آپ (عج) کو امام حسن علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، جبکہ ترمذی، نسائی اور بیھقی سے جو روایت نقل ھوئی ہیں، اس میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔
بنابریں ابو داود کی نقل میں سھواً کلمہ (حسین) کی جگہ پر (حسن) لکھے جانے کا احتمال موجود ہے، کیونکہ ان روایتوں کی تعداد جن میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، بھت ھی زیادہ ہیں اور سند کے لحاظ سے بھی یہ روایات دوسری روایات کی نسبت صحیح تر ہیں۔
بنابریں ان تمام روایات کو چھوڑ کر مذکورہ حدیث {جس میں جناب عیسٰی (ع) کو مھدی موعود قرار دیا گیا ہے} پر استناد نھیں کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی

Read 841 times