اس بارے میں آیتالله سیدمصطفی محققداماد فرماتے ہیں:
پہلا ستون توحید ہے. توحید کا آغاز ابراهیم(ع) سے ہوا اور رسول گرامی کی تخلیق نہی، اب جب کہ ہمارے خدا نے اپنے نام کو «سلام» اور «صلح» رکھا ہے اور دشمنی کو شیطان کا پیدا کردہ قرار دیا ہے «إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ»(سوره مائده/ 5: آیه 91)، اس خدا نے ہمیں دستی اور محبت کی دعوت دی ہے۔
قرآن اس مسلے کو آیت ۱۰۳ سوره آل عمران میں یوں بیان فرماتا ہے: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.» (آل عمران/3: 103)
توحید پر ایمان رکھتے ہوئے وحدت حاصل ہوسکتی ہے. اس آیت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہم امن و صلح کی نعمت کو بھائی چارگی کے لیے استفادہ کریں۔
تیسرا ستون عهد و پیمان ہے. معاهده اور پیمان پرسکون اجتماعی زندگی کی اساس ہے۔
قرآن نے پیمان کے نام کو میثاق رکھا ہے: «وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا»، پیمان سے خاندان تشکیل پاتا ہے۔ حکومت تشکیل پاتی ہے اور پیمان سے اقوام ایکدوسرے کے ساتھ یکجا زندگی بسر کرسکتی ہیں۔
ایک ستون کرامت انسانی ہے. انسانی کرامت آسمانی کتابوں میں پہلی بار قرآن میں آیا ہے: «وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا» (اسرا/ 17: 70). یہ قرآن کی واضح ایات میں سے ایک ہے. قرآن کہتا ہے کہ تم ہر قسم کے جھگڑوں سے پرہیز کرو؛ «وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ» (انفال/8: 46)، اگر تم نزع کرو تو تمھاری کرامت پر حرف آئے گا.
پانچواں ستون عفو و درگزر ہے: «أَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى» (بقره/1: 237). چھٹا ستون «صفح» ہے. عفو یعنی دوسرے کے گناہ کو قبول کرکے معاف کرنا لیکن صفح ایک قدم اوپر ہے یعنی یہ کہ دوسروں کی غلطیوں کو بالکل بھول جانا: «فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا» (بقره/1: 109).
..