چند بیدار فکر اور باایمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت کی زندگی بسر کر رھے تھے ،انھوں نے اپنے عقیدے کی حفاظت اور اپنے زمانے کے طاغوت سے مقابلے کے لئے ان سب نعمتوں کو ٹھوکر ماردی پھاڑ کے ایک میں جا پناہ لی ،وہ جس میں کچھ بھی نہ تھا ،یہ اقدام کر کے انھوں نے راہ ایمان میں اپنی استقامت اور پا مردی ثابت کردی ۔
یہ بات لائق توجہ ھے کہ اس مقام پر قرآن فن فصاحت و بلاغت کے ایک اصول سے کام لیتے هوئے پھلے ان افراد کی سر گزشت کو اجمالی طورپر بیان کرتا ھے تاکہ سننے والوں کا ذہن مائل هو جائے، اس سلسلے میں چار آیات میں واقعہ بیان کیا گیا ھے اور اس کے بعد میں تفصیل بیان کی گئی ھے ۔
پھلے فرمایا گیا ھے :”کیا تم سمجھتے هو کہ اصحاب کہف و رقیم ھماری عجیب آیات میں سے تھے “۔[1]
زمین و آسمان میں ھماری بہت سی عجیب آیا ت ھیں کہ جن میں سے ھر ایک عظمت تخلیق کا ایک نمونہ ھے ،خود تمھاری زندگی میں عجیب اسرار موجود ھیں کہ جن میں سے ھر ایک تمھاری دعوت کی حقانیت کی نشانی ھے اور اصحاب کہف کی داستان مسلما ً ان سے عجیب تر نھیں ھے ۔
”اصحاب ِکہف“(اصحاب )کو یہ نام اس لئے دیا گیا ھے کیونکہ انھوں نے اپنے جان بچانے کے لئے میں پناہ لی تھی جس کی تفصیل انکی زندگی کے حالات بیان کرتے هوئے آئے گی ۔
لیکن ”رقیم “دراصل ”رقم “کے مادہ سے” لکھنے “کے معنی میں ھے ،زیادہ تر مفسرین کا نظریہ ھے کہ یہ اصحاب کہف کا دوسرا نام ھے کیونکہ آخر کا ر اس کا نام ایک تختی پر لکھا گیا اور اسے کے دروزاے پر نصب کیا گیا ۔
بعض اسے اس پھاڑ کا نام سمجھتے ھیںکہ جس میں یہ تھی اور بعض اس زمین کانام سمجھتے ھیں کہ جس میں وہ پھاڑ تھا بعض کا خیال ھے کہ یہ اس شھر کانام ھے جس سے اصحاب کہف نکلے تھے لیکن پھلا معنی زیادہ صحیح معلوم هوتا ھے ۔[2]
اس کے بعد فرمایا گیا ھے :
”اس وقت کا سوچو جب چند جوانوں نے ایک میں جاپناہ لی“۔[3][4]
جب وہ ھر طرف سے مایوس تھے،انهوں نے بارگاہ خدا کا رخ کیا اور عرض کی: ”پروردگارا!ھمیں اپنی رحمت سے بھرہ ور کر“۔[5]
اور ھمارے لئے راہ نجات پیدا کردے۔
ایسی راہ کہ جس سے ھمیں اس تاریک مقام سے چھٹکارا مل جائے اور تیری رضا کے قریب کردے۔ ایسی راہ کہ جس میں خیر و سعادت هو اور ذمہ داری ادا هوجائے۔
ھم نے ان کی دعا قبو ل کی”ان کے کانوں پر خواب کے پردے ڈال دیئے اور وہ سالھا سال تک میں سوئے رھے“۔
”پھر ھم نے انھیں اٹھایا اور بیدار کیا تا کہ ھم دیکھیں کا ان میں سے کون لوگ اپنی نیند کی مدت کا بہتر حساب لگاتے ھیں“۔[6]
جیسا کہ ھم نے کھا ھے اجمالی طور پر واقعہ بیا ن کرنے کے بعد میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ھے۔ گفتگو کا آغازیوں کیا گیاھے: ”ان کی داستان،جیسا کہ ھے،ھم تجھ سے بیان کرتے ھیں“۔[7]
ھم اس طرح سے واقعہ بیان کرتے ھیں کہ وہ ھر قسم کی فضول بات بے بنیاد چیزوں اور غلط باتو ں سے پاک هوگا۔
”وہ چند جوانمرد تھے کہ جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ھم نے ان کی ہدایت اور بڑھا دی تھی“۔[8]
قرآن سے اجمالی طور پر اور تاریخ سے تفصیلی طور پر یہ حقیقت معلوم هوتی ھے کہ اصحاب کہف جس دور اور ماحول میں رہتے تھے اس میں کفر و بت پرستی کا دوردورہ تھا۔ایک ظالم حکومت کہ جو عام طور پر شرک،کفر،جھالت،ت گری اور ظلم کی محافظ تھی لوگوں کے سروں پر مسلط تھی۔
لیکن یہ جوانمرد کہ جو هوش و صداقت کے حامل تھے آخر کار اس دین کی خرابی کو جان گئے۔ انهوں نے اس کی خلاف قیام کامصصم ارادہ کرلیا اور فیصلہ کیا کہ اگر اس دین کے خاتمے کی طاقت نہ هوئی تو ہجرت کرجائیں گے۔اسی لئے گزشتہ بحث کے بعد قرآن کہتا ھے:”جب انهوں نے قیام کیا اور کھا کہ ھمارا رب آسمان و زمین کا پروردگار ھے،ھم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔انهوں نے کھا کہ ھم اس کے علاوہ کسی معبود کی ھرگز پرستش نھیں کریں گے“۔[9]
”اگر ھم ایسی بات کریں اور اس کے علاوہ کسی کو معبود سمجھیں تو ھم نے بے هودہ اور حق سے دور بات نھیں کھی“۔[10]
ان با ایمان جوانمردوں نے واقعاً توحید کے اثبات اور ”الھہ“ کی نفی کے لئے واضح دلیل کا سھارا لیا اوروہ یہ کہ ھم واضح طور پر دیکھ رھے ھیں کہ آسمان و زمین کا کوئی مالک اور پروردگار بھی وھی آسمانوں اورزمین کا پروردگار ھے۔
اس کے بعد وہ ایک اور دلیل سے متوسل هو ئے اور وہ یہ کہ”ھماری اس قوم نے خدا کے علاوہ معبود بنارکھے ھیں“[11]
تو کیا دلیل وبرھان کے بغیر بھی اعتقاد رکھا جاسکتا ھے”وہ ان کی الوھیت کے بارے میں کوئی واضح دلیل پیش کیوں نھیں کرے“۔[12]
کیا تصور،خیال یااندھی تقلےد کی بناء پر ایسیا عقیدہ اختیار کیا جاسکتا ھے؟یہ کیسا کھلم کھلا ظلم اور عظیم انحراف ھے؟
ان توحید پرست جواں مردوں نے بہت کوشش کی کہ لوگوں کے دلوں سے شرک کا زنگ اتر جائے اور ان کے دلوں میں توحید کی کونپل پھوٹ پڑے لیکن وھاں تو بتوں اور بت پرستی کاایسا شور تھا اور ظالم بادشاہ کے ظلم بے داد کا ایسا خوف تھا کہ گویا سانس مخلوق خدا کے سینے میں گھٹ کے رہ گئی تھی اور نغمہٴ توحید ان کے حلق میں ھی اٹک کررہ گیا تھا۔
لہٰذا انھوں نے مجبوراًاپنی نجات کے لئے اور بہتر ماحول کی تلاش کے لئے ہجرت کا عزم کیا۔لہٰذا باھمی مشورے هونے لگے کہ کھاں جائیں،کس طرف کوکوچ کریں۔ آپس میں کہنے لگے:”جب اس بت پرست قوم سے کنارہ کشی اختیار کرلو خدا کو چھوڑ کر جنھیں یہ پوجتے ھیں ان سے الگ هوجاؤ اور اپنا حساب کتاب ان سے جدا کرلو تو میں جاپناہ لو۔“
تا کہ تمھارا پروردگار تم پر اپنی رحمت کا سایہ کردے اور اس مشکل سے نکال کر تمھیں نجات کی راہ پر لگا دے۔
” گاہ
”کہف“ایک معنی خیز لفظ ھے،اس سے انسان کی بالکل ابتدائی طرز زندگی کی طرف ذہن چلا جاتا ھے،وہ ماحول کہ جب راتیں تاریک اور سرد تھیں۔ روشنی سے محروم انسان جانکاہ دروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ زندگی جس میں مادی آسائشوں کا کوئی پتہ نہ تھا۔ جب نہ نرم بستر تھے نہ خوشحالی۔
اب جب اس طرف توجہ کہ جیسا تاریخ میں منقول ھے اصحاب کہف اس دور میں بادشاہ کے وزیر اور بہت بڑے اھل منصب تھے۔ انهوں نے بادشاہ اور اس کے مذھب کے خلاف قیام کیا۔ اس سے واضح هو تا ھے کہ ناز و نعمت سے بھری اس زندگی کو چھوڑنا اور اس پر نشینی کو ترجیح دینا کس قدر عزم،حوصلہ دلیری اور جانثاری کا غماز ھے،اس سے ظاھر هوتا ھے کہ ان کی روح کتنی عظیم تھی۔
یہتاریک غار،سرد اور خاموش ضرور تھی اور اس میں موذی جانوروں کا خطرہ بھی تھا لیکن یھاں نور و صفا اور توحید و معنویت کی ایک دنیا آباد تھی۔
رحمت الٰھی کے نور کی لکیروں نے اس کی دیواروں پر گویا نقش و نگار کردیا تھا اور لطف الٰھی کے آثار اس میں موجزن تھے۔ اس میں طرح طرح کے مضحکہ خیز بت نھیں تھے اورظالم بادشاہ کا ھاتھ وھاں نھیں پہنچ سکتا تھا۔ اس کی فضا نے جھل و جرم کے دم گھٹنے والے ماحول سے نجات عطا کردی تھی اور یھاں انسانی فکر پر کوئی پابندی نہ تھی،فکر وآزادی اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ موجود تھی۔
جی ھاں!ان خدا پرست جوانمردوں نے اس دنیا کو ترک کردیا کہ جو اپنی وسعت کے باوجود ایک تکلیف دہ قید خانہ کی مانند تھی اور اس کو انتخاب کرلیا کہ جو اپنی تنگی و تاریکی کے باوجود وسیع تھی۔
باکل پاکباز یوسف علیہ السلام کی طرح کہ جنهوں نے عزیز مصر کی خوبصورت بیوی کے شدید اصرار کے باوجودد اس کی سرکش هوس کے سامنے سر نہ جھکایا اور تاریک وخوف ناک قید خانے میں جانا قبول کرلیا۔اللہ نے ان کی استقامت و پامردی میںاضافہ کردیا اور آخر کار انهوں نے بارگاہ خداوندی میں یہ حیران کن جملہ کھا: ”پروردگارا!یہ قید خانہ اپنی جانکاہ تنگی و تاریکی کے باوجود مجھے اس گناہ سے زیادہ محبوب ھے کہ جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دیتی ھیں اور اگر تو ان کے وسوسوں کو مجھ سے دفع نہ کرے تو میں ان کے دام میںگرفتار هوجاؤں گا“۔[13]
قرآن اصحاب کہف کی عجیب و غریب زندگی کی کچھ تفصیلات بیان کررھا ھے۔ان کی زندگی کی ایسی منظر کشی کی گئی ھے کہ گویا کوئی شخص کے سامنے بیٹھا ھے اور میں سوئے هوئے افراد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ھے۔
سورہٴ کہف میں چھ نشانیاں اور خصوصیات بیان کی گئی ھیں:
۱۔ کا دھانہ شمال کی طرف ھے اور چونکہ زمین کے شمالی نصف کرہ میں واقع تھی لہٰذا سورج کی روشنی مستقیم اس میں نھیں پڑتی تھی۔جیسا کہ قرآن کہتا ھے:”اگر تو وقت طلوع سورج کو دیکھتا تو وہ کی دائیں جانب جھک کے گزرتا ھے اور غروب کے وقت بائیں جانب“۔[14]
کا دھانہ شمال کی طرف هونے کی وجہ سے اس میں اچھی هوائیں آتی تھیں کیونکہ یہ هوائیں عموماً شمال کی جانب سے چلتی ھیں۔ لہٰذا تازہ هوا آسانی سے میں داخل هوجاتی اور ایک تازگی قائم رکھتی۔
۲۔”وہ کی ایک وسیع جگہ میں تھے“۔[15]
یہ اس طرف اشارہ ھے کہ وہ کے دھانے پر موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو عموماً تنگ هوتا ھے۔ وہ کے وسطی حصے میں تھے تا کہ دیکھنے والوں کی نظروں سے بھی اوجھل رھیں اور سورج کی براہ راست چمک سے بھی۔
۳۔”ان کی نیند عام نیند کی سی نہ تھی۔”اگر تو انھیں دیکھتا تو خیال کرتا کہ وہ بیدار ھیں حالانکہ وہ گھری نیند میں سوئے هوئے تھے“۔[16]
یہ بات ظاھر کرتی ھے کہ ان کی آنکھیں بالکل ایک بیدار شخص کی طرح پوری طرح کھلی تھیں۔ یہ استثنائی حالت شاید اس بناء پر تھی کہ موذی جانور قریب نہ آئیں کیونکہ وہ بیدار آدمی سے ڈرتے ھیں۔یا اس کی وجہ یہ تھی کہ ماحول رعب انگیز رھے تا کہ کوئی انسان ان کے پاس جانے کی جراٴت نہ کرے اور یہ
۔
۴۔”اس بناء پر کہ سالھا سال سوئے رہنے کی وجہ سے ان کے جسم بوسیدہ نہ هوجائیں“۔ھم انھیں دائی بائیں کروٹیںبدلواتے رہتے تھے۔[17]
تا کہ ان کے بدن کا خون ایک ھی جگہ نہ ٹھھر جائے اور طویل عرصہ تک ایک طرف ٹھھرنے کی وجہ سے ان کے اعصاب خراب نہ هوجائیں۔
۵۔”اس دوران میں ان کا کتا کہ جو ان کے ھمراہ تھا کے دھانے پر اپنے اگلے پاؤں پھیلائے هوئے تھا اور پھرہ دے رھا تھا“۔[18]
اس سے پھلے ابھی تک قرآنی آیات میں اصحاب کہف کے کتے کے بارے میںکوئی بات نھیں هوئی تھی لیکن قرآن واقعات کے دوران بعض اوقات ایسی باتیں کرجاتا ھے کہ جن سے دوسرے مسائل بھی واضح هوجاتے ھیں۔اسی طرح یھاں اصحاب کہف کے کتے کا ذکر آیا ھے،یھاں سے ظاھر هوا کہ ان کے ھمراہ ایک کتابھی تھا جو ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اور ان کی حفاظت کرتا تھا۔
یہ کہ یہ کتا ان کے ساتھ کھاں سے شامل هوا تھا،کیا ان کا شکاری کتا تھا یا اس چرواھے کا کتاتھا کہ جس سے ان کی راستے میں ملاقات هوئی تھی اور جب چرواھے نے انھیں پہچان لیا تھا تو اس نے اپنے جانور آبادی کی طرف روانہ کردیئے تھے اور خود ان پاکباز لوگوں کے ساتھ هولیاتھا کیونکہ وہ ایک حق تلاش اور دیدار الٰھی کا طالب انسان تھا۔اس وقت کتا ان سے جدا نہ هوا اور ان کے ساتھ هولیا۔
کیا اس بات کا یہ مفهوم نھیں ھے کہ تمام عاشقان حق اس تک رسائی کے لئے اس کے راستے میں قدم رکھ سکتے ھیںاور کوئے یار کے دروازے کسی کے لئے بند نھیں ھیں۔ظالم بادشاہ کے تائب هونے والے وزیروں سے لے کر چرواھے تک بلکہ اس کے کتے تک کے لئے بارگاہ الٰھی کے دروازے کھلے ھیں۔
کیا ایسا نھیں ھے؟!، قرآن کہتا ھے :
”زمین و آسمان کے تمام ذرے،سارے درخت اور سب چلنے پھرنے والے ذکر الٰھی میں مگن ھیں،سب کے سر میں اس کے عشق کا سودا سمایا ھے اور سب کے دلوں میں اس کی محبت جلوہ گر ھے“۔[19]
۶۔ غار میں اصحاب کہف کا منظر ایسا رعب دار تھا کہ اگر تو انھیں جھانک کے دیکھ لیتا تو بھاگ کھڑا هوتا اور تیرا وجود سرتا پاخوفزدہ هوجاتا“۔[20]
”یہ ایک ھی موقع نھیں کہ خدامتعال نے رعب اور خوف کو اپنے باایمان بندوں کے لئے ڈھال بنایاتھا۔ بلکہ دوسری جگہ بھی اس طرح کا خطاب هوا ھے۔ ”ھم جلد ھی کافروں کے دلوں پر رعب ڈال دیں گے۔“[21]
دعائے ندبہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بارے میں منقول ھے:
”خداوندا!پھر تونے اپنے پیغمبر کی مدد اس طرح کی کہ اس کے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا“۔
لیکن یہ رعب کہ جو اصحاب کہف کو دیکھنے والے کو سرتاپا لرزا دیتا،ان کی جسمانی حالت کے باعث تھا یا یہ کہ پراسرار روحانی طاقت تھی کہ جو اس سلسلے میں کام کررھی تھی۔اس سلسلے میں آیات قرآنی میں کوئی وضاحت نھیں ھے“۔
ایک طویل نیند کے بعد بیداری
اصحاب کہف کی نیند اتنی لمبی هوگئی کہ وہ تین سو نو سال تک سوئے رھے اور ان کی نیند موت سے بالکل ملتی جلتی تھی اور ان کی بیداری بھی قیامت کی مانند تھی۔ لہٰذا قرآن کہتا ھے:”اور ھم نے انھیں اسی طرح اٹھا کھڑا کیا“۔[22]
یعنی اسی طرح کہ جیسے ھم اس پر قادر تھے کہ انھیںلمبی مدت تک سلائے رکھتے اورانھیں پھر سے بیدار کرنے پربھی قادر تھے۔
ھم نے انھیں نیند سے بیدار کردیا، تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک نے پوچھا۔ تمھارا خیال ھے کتنی مدت سوئے هو؟انهوں نے کھا:”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“۔[23]
اس میں تردد شایدانھیں اس لے هوا کہ جیسے مفسرین نے کھا ھے کہ وہ جب میں آئے تھے تو دن کاابتدائی حصہ تھا اور آکر وہ سوگئے تھے اور جب اٹھے تو دن کا آخری حصہ تھا۔ یھی وجہ ھے کہ پھلے انهوں نے سوچا کہ شاید ایک دن سوگئے اور جب انهوں نے سورج کی طرف دیکھا تو انھیںخیال آیا کہ شاید دن کا کچھ حصہ سوئے ھیں۔
لیکن آخرکار چونکہ انھیں صحیح طرح سے معلوم نہ هو سکا کہ کتنی دیر سوئے ھیں لہٰذا کہنے لگے:تمھارا رب بہتر جانتا ھے کہ کتنی دیر سوئے هو۔[24]
بعض کا کہنا ھے کہ یہ بات ان میں سے بڑے نے کھی جس کا نام ”تملیخا“ تھا اور یھاںپر ”قالوا“ کا لفظ استعمال کیا گیاھے کہ جو جمع کا صیغہ ھے اس کا استعمال ایک معمول کی سی بات ھے۔
یہ بات انهوں نے شاید اس لئے کھی کہ ان کے چھرے سے،ناخنوں سے،بالوںسے اور لباس سے بالکل شک نھیں پڑتا تھا کہ وہ کوئی غیر معمولی طور پر نیند میں رھے ھیں۔
بھر حال انھیں بھوک اور پیاس کا احساس هوا کیونکہ ان کے بدن میں جو غذا تھی وہ توتمام هوچکی تھی،لہٰذاپھلے انهوں نے یھی تجویز کی کہ”تمھارے پاس چاندی کا جو سکہ ھے اپنے میں سے ایک کو دو تا کہ وہ جائے اور دیکھے کہ کس کے پاس اچھی پاکیزہ غذا ھے اور جتنی تمھیں چاہئے تمھارے لئے لے آئے“۔[25]
”لیکن بہت احتیاط سے جائے،کھیں ایسا نہ هو کہ کسی کو تمھارے بارے میں کچھ بتا بیٹھے“۔[26]
”کیونکہ اگر انھیں تمھارے بارے میں پتہ چل گیا اور انهوں نے تمھیں آلیا تو سنگسار کردیں گے یا پھر تمھیں اپنے دین(بت پرستی)کی طرف موڑ لے جائیں گے،”اور اگر ایسا هوگیا تو تم نجات اور فلاح کا منہ نہ دیکھ پاؤگے“۔(۱)
یہ بات بہت جاذب نظر ھے کہ اس داستان میں ھم نے پڑھا ھے کہ اصحاب کہف جب بیدار هوئے تو ظاھر ھے انھیں بہت بھوک لگ رھی تھی اور اس طویل مدت کے دوران ان کے جسم میں جو غذا تھی ،وہ ختم هو چکی تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے جسے کھانا لانے کے لئے بھیجا اسے نصیحت کی کہ ھر غذا نہ خرید لائے بلکہ دیکھ بھال کر کھانا بیچنے والوں کے پاس سے جو سب سے زیادہ پاکیزہ هواسی کولے کر آئے۔
بعض مفسرین کا کہنا ھے کہ اس سے ذبح شدہ جانور کی طرف اشارہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس شھر میں ایسے لوگ رہتے ھیں کہ جو نجس و ناپاک اور کبھی مردہ کا گوشت بیچتے ھیں یا بعض لوگوں کا کام ھی حرام کا تھا لہٰذا انهوں نے نصیحت کی ایسے لوگوں سے کھانا نہ خریدنا۔
لیکن ظاھراًاس جملے کا وسیع مفهوم ھے کہ جس میں ھر قسم کی ظاھری اور باطنی پاکیزگی شامل ھے۔
بھرحال جلدھی لوگو ں میں ان عظیم جوانمردوں کی ہجرت کی داستان پھیل گئی۔ظالم بادشاہ سیخ پا هوگیاکہ کھیں ایسا نہ هوکہ ان کی ہجرت یا بھاگ نکلنالوگوں کی بیداری اور آگاھی کا سبب بن جائے، اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ کھیں وہ دور یا نزدیک کے علاقے میں جاکر لوگوں کو دین توحید کی تبلیغ نہ کرنے لگیں اور شرک و بت پرستی کے خلاف جدوجہد شروع کردیں۔ لہٰذا اس نے خاص افراد کو مامور کیا کہ انھیں ھر جگہ تلاش کیا جائے اور ان کا کچھ اتہ پتہ معلوم هو تو گرفتار کے لئے تعاقب کیا جائے اور انھیں سزادی جائے۔
لیکن انهوں نے جتنی بھی کوشش کی کچھ نہ پایا اور یہ امر خود علاقے کے لوگوں کے لئے ایک معمہ او ران کے دل و دماغ کے لئے ایک خاص نقطہ بن گیا۔ نیز یہ امر کہ حکومت کے نھایت اھم چند اراکین نے ھر چیز کو ٹھوکر ماردی اور طرح طرح کے خطرات مول لے لئے شاید بعض لوگوں کی بیداری اور آگاھی کا سرچشمہ بن گیا۔
بھر حال ان افراد کی یہ حیران کن داستان ان کی تاریخ میں ثبت هوگئی اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل هونے لگی۔اور اسی طرح اس مسئلے کو صدیاں گزرگئیں۔
آئیے اب دیکھتے ھیں کہ اس پر کیا گزری جو غذا لینے کے لئے آیا ۔وہ شھر میں داخل هوا تو اس کا منہ تعجب سے کھلے کا کھلا رہ گیا، شھر کی عمارتوں کی شکل و صورت تمام تبدیل هوچکی تھی،سب چھرے ناشناس تھے،لباس نئے انداز کے تھے اور جھاں پھلے محل تھے وھاں ویرانے تھے۔
شاید تھوڑی دیر کے لئے اس نے سوچا هوکہ ابھی میں نیند میںهوں اور یہ جو کچھ دیکھ رھا هوں سب خواب ھے۔اس نے اپنی آنکھوں کو ملا۔وہ سب چیزوں کو پھٹی پھٹی نگاهوں سے دیکھ رھا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ کیسی حقیقت ھے کہ جس پریقین نھیں کیا جاسکتا۔
اب وہ سوچنے لگا کہ وہ میں ایک یا آدھا دن سوئے ھیں تو پھر یہ اتنی تبدیلیاں اتنی مدت میں کیسے ممکن ھیں؟
دوسری طرف اس کا چھرہ مھرہ اور حالت لوگوں کے لئے بھی عجیب اور غیر مانوس تھی۔ اس کا لباس،اس کی گفتار اور اس کا چھرہ سب نیا معلوم هوتا تھا شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ اسکی طرف متوجہ هوئے اور اس کے پیچھے چل پڑے۔
اس وقت لوگوں کا تعجب انتھاء کو پہنچ گیا جب اس نے جیب میں ھاتھ ڈالا تا کہ اس کھانے کی قیمت ادا کرے جو اس نے خریدا تھا،دکاندار کی نگاہ سکتے پر پڑی وہ تین سو سال سے زیادہ پرانے دور کا تھا اور شاید اس زمانے کے ظالم بادشاہ دقیانوس کا نام بھی اس پر کنندہ تھا۔ جب اس نے وضاحت چاھی تو خریدار نے جواب میں کھا:میرے ھاتھ میں تو یہ سکہ ابھی تازہ ھی آیا ھے۔
قرائن اور احوال سے لوگو ںکو آہستہ آہستہ یقین هوگیا کہ یہ شخص تو انھی افراد میں سے ھے جن کا ذکر ھم نے تین سو سال پھلے کی تاریخ میں پڑھا ھے اور بہت سی محفلوں میں ھم نے جن کی پر اسرار داستان سنی ھے۔
خود اسے بھی احساس هوا کہ وہ اور اس کے ساتھی گھری اور طولانی نیند میں مستغرق رھے ھیں۔ اس بات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے شھر میں آن کی آن میں پھیل گئی۔
موٴرخین لکھتے ھیں کہ اس زمانے میں ایک نیک اور خدا پرست بادشاہ حکومت کرتا تھا لیکن معاد جسمانی اور موت کے بعد مردوں کے جی اٹھنے کے مسئلہ پر یقین کرنا وھاں کے لوگوں کے لئے مشکل تھا۔ان میں سے ایک گروہ کو اس بات پر یقین نھیں آتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد پھر جی اٹھے گا لیکن اصحاب کہف کی نیند کا واقعہ معاد جسمانی کے طرفداروں کے لئے ایک دندان شکن دلیل بن گیا۔
اسی لئے قرآن کہتا ھے:”جیسے ھم نے انھیں سلادیا تھا اسی طرح انھیں اس گھری اور طویل نیند سے بیدار کیا اور لوگوں کو ان کے حال کی طرف متوجہ کیا تا کہ وہ جان لیں کہ قیامت کے بارے میں خدا کا وعدہ حق ھے۔اور دنیا کے خاتمے اور قیام قیامت میں کوئی شک نھیں“۔[27]
کیونکہ صدیوں پر محیط یہ لمبی نیند موت سے غیر مشابہ نھیں ھے اور ان کا بیدار هونا قبروں سے اٹھنے کی مانند ھے بلکہ کھا جاسکتا ھے کہ یہ سونا اور جاگنا کئی حوالوںسے مرنے اور پھر جی اٹھنے سے عجیب تر ھے کیونکہ وہ صدیوں سوئے رھے لیکن ان کا بدن بوسیدہ نہ هوا جبکہ انهوں نے کچھ کھایا نہ پیا،تو پھروہ اتنی لمبی مدت زندہ کس طرح رھے۔
کیا یہ اس بات کی دلیل نھیں کہ خدا ھرچیز اور ھر کام پر قادر ھے ۔ایسے منظر کی طرف نظر کی جائے تو موت کے بعد زندگی کا مسئلہ کوئی عجیب معلوم نھیں هوتا بلکہ یقینی طور پر ممکن دکھائی دیتا ھے۔
جو شخص غذا لینے شھر میں آیا تھا اس نے یہ صورت دیکھی تو جلدی سے کی طرف پلٹا اور اپنے دوستوں کو سارا حال سنایا،وہ سب کے سب گھرے تعجب میں ڈوب گئے۔اب انھیں احساس هوا کہ ان کے تمام بچے،بھائی اوردوست کوئی بھی باقی نھیں رھا اور ان کے احباب و انصار میں سے کوئی نھیں رھا۔ ایسے میں ان کو یہ زندگی بہت سخت اور ناگوار لگی۔لہٰذا انهوں نے اللہ سے دعا کی کہ اس جھان سے ھماری آنکھیں بند هوجائیں اور ھم جوار رحمت حق میں منتقل هوجائیں۔
ایسا ھی هوا،اس دنیا سے انهوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ ان کے جسم میں پڑے تھے کہ لوگ ان کی تلا ش کو نکلے۔[28]
اس مقام پر معاد جسمانی کے طرفداروں اور مخالفوں کے درمیان کشمکش شروع هوگئی۔
مخالفین کی کوشش تھی کہ لوگ اصحاب کہف کے سونے اور جاگنے کے مسئلہ کو جلد بھول جائیں ”لہٰذا انهوں نے تجویز پیش کی کہ کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ وہ ھمیشہ کے لئے لوگوں کی نگاهوں سے اوجھل هوجائیں“۔[29]
وہ لوگوں کو خاموش هونے کے لئے کہتے تھے کہ ان کے بارے میں زیادہ باتیں نہ کرو،ان کی داستان اسرار آمیز ھے”ان کا پروردگار ان کی کیفیت سے زیادہ آگاہ ھے“۔[30]
لہٰذا ان کا قصہ ان تک رہنے دو اورانھیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔
جبکہ حقیقی مومن کہ جنھیں اس واقعے کی خبر هوئی اور جو اسے قیامت کے حقیقی مفهوم کے اثبات کے لئے ایک زندہ دلیل سمجھتے تھے،ان کی کوشش تھی کہ یہ واقعہ ھر گز فراموش نہ هونے پائے۔ لہٰذا انهوں نے کھا: ”ھم ان کے مدفن کے پاس مسجد بناتے ھیں“۔[31]
تا کہ لوگ انھیں اپنے دلوں سے ھر گز فراموش نہ کریں علاوہ ازیں ان کی ارواح پاک سے لوگ استمداد کریں۔
قرآن میں ان چند اختلافات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے،کہ جو اصحاب کہف کے بارے میں لوگوں میں پائے جاتے ھیں،ان میں سے ایک ان کی تعداد کے بارے میں ھے۔ ارشاد هوتا ھے:”بعض لوگ کہتے ھیں کہ وہ تین تھے اورچوتھا ان کا کتا تھا“۔
بعض کہتے ھیں کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔
یہ سب بلادلیل باتیں ھیں اور اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ھیں۔
اور بعض کہتے ھیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔
کہہ دے:میرا رب ان کی تعداد بہتر جانتا ھے۔
صرف تھوڑے سے لوگ ان کی تعداد جانتے ھیں۔[32]
قرآن نے ان جملوں میں اگر چہ صراحت سے ان کی تعداد بیان نھیں کی لیکن آیت میں موجود بعض اشاروں سے سمجھا جاسکتا ھے کہ تیسرا قول صحیح اور مطابق حقیقت ھے کیونکہ پھلے اور دوسرے قول کے بعد (اندھیرے میں تیر مارنا) آیا ھے کہ جو ان اقوال کے لئے بے بنیاد هونے کی طرف اشارہ ھے لیکن تیسرے قول کے بارے میں نہ صرف ایسی کوئی تعبیر نھیں بلکہ اس کے ساتھ ھی فرمایا گیا ھے:کہہ دے:”میرا رب ان کی تعداد سے بہتر طور پر آگاہ ھے“۔اور یہ بھی فرمایا گیا ھے”ان کی تعداد کو تھوڑے سے لوگ جانتے ھیں “۔یہ جملے بھی اس تیسرے قول کی صداقت پر دلالت کرتے ھیں۔
بھر حال آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ھے:”استدلالی اور منطقی گفتگو کے علاوہ ان کے بارے میں بحث نہ کر“۔[33]
بھر حال اس گفتگو کا مفهوم یہ ھے کہ وحی خدا پر بھروسہ کرتے هوئے۔ تو ان کے ساتھ بات کر کیونکہ اس سلسلے میں محکم ترین دلیل یھی ھے۔” لہٰذا جو لوگ بغیر دلیل کے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں بات کرتے ھیں ان سے اس بارے میں سوال نہ کر“۔[34]
قرآن میں موجودہ قرائن سے اجمالاً معلوم هوتا ھے کہ اصحاب کہف کی نیند بہت لمبی تھی۔یہ بات ھر شخص کی حس جستجو کو ابھارتی ھے۔ ھر شخص جاننا چاہتا ھے کہ وہ کتنے برس سوئے رھے۔
قرآن اس داستان کے متعلق تردد کو ختم کرتے هوئے آخر میں اس سوال کا جوا ب دیتا ھے۔
ارشاد هوتا ھے:”وہ اپنی میں تین سو سے نو برس زیادہ سوتے رھے“۔[35]
اس لحاظ سے وہ کل تین سو نو سال میں سوئے رھے۔
بعض لوگوں کا خیال ھے کہ تین سو نو سال کہنے کی بجائے یہ جو کھا۳۰۰/سال ،نوسال اس سے زیادہ،یہ شمسی اور قمری سالوں کے فرق کی طرف اشارہ ھے کیونکہ شمسی حساب سے وہ تین سو سال رھے جو قمری حساب سے تین سو نو سال هوئے اور یہ تعبیر کاا یک لطیف پھلو ھے کہ ایک جزوی تعبیر کے ذریعے عبارت میں ایک اور وضاحت طلب حقیقت بیان کردی جائے۔
اس کے بعد اس بارے میں لوگوں کے اختلاف آراء کو ختم کرنے کے لئے فرمایا گیا ھے:”کہہ دیجئے:خدا ان کے قیام کی مدت کو بہتر جانتا ھے۔ کیونکہ آسمانو ں اور زمین کے غیب کے احوال اس کے سامنے ھیں “[36]اور وہ ھر کسی کی نسبت انھیں زیادہ جانتا ھے۔
اور جو کل کائنات ہستی سے باخبر ھے کیونکر ممکن ھے کہ وہ اصحاب کہف کے میں قیام کی مدت سے آگاہ نہ هو۔
یہ کہ اصحاب کہف کس علاقے میں رہتے تھے اور یہ غار کھاں تھی؟اس سلسلے میں علماء اور مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ھے،البتہ اس واقعے کے مقام کو صحیح طور پر جاننے کا اصل داستان،اس کے تربیتی پھلوؤں اور تاریخی اھمیت پر کوئی خاص اثر نھیں پڑتا، یہ کوئی واحد واقعہ نھیں کہ جس کی اصل داستان تو ھمیں معلوم ھے لیکن اس کی زیادہ تفصیلات معلوم نھیںھیں، لیکن مسلم ھے کہ اس واقعے کا مقام جاننے سے اس کی خصوصیات کو مزید سمجھنے کے لئے مفید هوسکتا ھے۔
بھر حال اس سلسلے میں جو احتمالات ذکر کیے گئے اور جو اقوال نظرسے گزرے ھیںان میں سے دو زیادہ صحیح معلوم هوتے ھیں۔
پھلا یہ کہ یہ واقعہ شھر”افسوس“میں هوا اور یہ اس شھر کے قریب واقع تھی۔ترکی میں اب بھی اس شھر کے کھنڈرات ”ازمیر“ کے قریب نظر آتے ھیں۔ وھاں قریب ایک قصبہ ھے جس کا نام”ایاصولوک“ھے اس کے پاس ایک پھاڑ ھے”ینایرداغ“۔ اب بھی اس میں ایک نظر آتی ھے جو افسوس شھر سے کوئی زیادہ فاصلہ پر نھیں ھے،یہ ایک وسیع ھے،کہتے ھیں اس میں سینکڑوں قبروں کے آثار نظر آتے ھیں، بہت سے لوگوں کا خیال ھے کہ اصحاب کہف کی یھی ھے۔
جیساکہ جاننے والوں نے بیان کیا ھے کہ اس کا شمال مشرق کی جانب ھے۔اس وجہ سے بعض بزرگ مفسرین نے اس بارے میں شک کیا ھے کہ یہ وھی غارھے، حالانکہ اس کی یھی کیفیت اس کے اصلی هونے کی موٴید ھے کیونکہ طلوع کے وقت سورج کا دائیں طرف اور غروب کے وقت بائیں طرف هونے کا مفهوم یہ ھے کہ کا دھانہ شمال یا کچھ شمال مشرق کی جانب هو۔
اس وقت وھاں کسی مسجد یا عبادت خانہ کا نہ هونابھی ا سکے وھی هونے کی نفی نھیں کرتا کیونکہ تقریباًسترہ صدیاں گزرنے کے بعد ممکن ھے اس کے آثار مٹ گئے هوں۔
دوسرا قول یہ ھے کہ یہ وہ ھے کہ جو” اردن“ کے دارالحکومت” عمان“ میں واقع ھے۔یہ ”رجیب“نامی ایک بستی کے قریب ھے اس کے اوپر گرجے کے آثار نظر آتے ھیں۔بعض قرائن کے مطابق ان کا تعلق پانچویں صدی عیسوی سے ھے ۔جب اس علاقے پر مسلمانو ںکا غلبہ هوا تو اسے مسجد میں تبدیل کرلیا گیا تھا اور وھاں محراب بنائی گئی تھی اور اذان کی جگہ کا اضافہ کیا گیا تھا۔یہ دونوں اس وقت موجود ھیں۔
یہ بات مسلم ھے کہ اصحاب کہف کا واقعہ کسی گزشتہ آسمانی کتاب میں نھیں تھا(چاھے وہ اصلی هو یا موجودہ تحریف شدہ)اور نہ اسے کتابوں میں هونا ھی چاہئیے تھا کیونکہ تاریخ کے مطابق یہ واقعہ ظهور مسیح علیہ السلام کے صدیوں بعد کا ھے۔
یہ واقعہ”دکیوس“کے دور کا ھے،جسے عرب”دقیانوس“کہتے ھیں۔ اس کے زمانے میں عیسائیوں پر سخت ظلم هوتا تھا۔
یورپی موٴرخین کے مطابق یہ واقعہ۴۹ تا ۱۵۲۔عیسوی کے درمیان کا ھے۔ان موٴرخین کے خیال میں اصحاب کہف کی نیند کی مدت ۱۵۷۔سال ھے۔یورپی موٴرخین انھیں”افسوس کے ۷۔ سونے والے “کہتے ھیں۔ جبکہ ھمارے ھاں انھیں”اصحاب کہف“کھا جاتا ھے۔
اب دیکھتے ھیں کہ”افسوس“شھر کھاںھے؟سب سے پھلے کن علماء نے ان سونے والوں کے بارے میں کتاب لکھی اور وہ کس صدی کے تھے؟
”افسوس“یا”اُفْسُسْ“ایشیائے کوچک کا ایک شھر تھا (موجودہ ترکی جو قدیم مشرقی روم کا ایک حصہ تھا)یہ ”دریائے کاستر “کے پاس”ازمیر“شھر کے تقریباًچالیس میل جنوب مشرق میں واقع تھا۔یہ”الونی“ بادشاہ کا پایہٴ تخت شمار هوتا تھا۔
افسوس اپنے مشهور بت خانے اور ”طامیس“ کی وجہ سے بھی عالمی شھرت رکھتا تھا۔یہ دنیا کے سات عجائبات میںسے تھا۔
کہتے ھیں کہ اصحاب کہف کی داستان پھلی مرتبہ پانچویں صدی عیسوی میں ایک عیسائی عالم نے لکھی۔اس کا نام”ژاک“تھا۔وہ شام کے ایک گرجے کا متولی تھا۔ اس نے سریانی زبان کے ایک رسالے میں اس کے بارے میں لکھا تھا۔اس کے بعد ایک اور شخص نے اس کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔اس کا نام ”گوگویوس“تھا ترجمے کا نام اس نے”جلال شہداء“کا ھم معنی رکھا تھا۔
اس سے ظاھر هوتا ھے کہ ظهور اسلام سے ایک دوصدیاں پھلے یہ واقعہ عیسائیوں میں مشهور تھا اور گرجوں کی مجالس میں اس کا تذکرہ هوتا تھا۔
البتہ جیسا کہ اشارہ کیا گیا ھے،اسلامی مصادر میں اس کی جو تفصیلات آئی ھیں وہ مذکورہ عیسائیوںکے بیانات سے کچھ مختلف ھیں۔جیسے ان کے سونے کی مدت کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ یہ مدت ۳۰۹۔سال بیان کی ھے۔
”یاقوت حمومی“ نے اپنی کتاب”معجم البلدان ج۲۔ص۸۰۶۔پر” خرداد “بہ نے اپنی کتاب ”المسالک والممالک“ص۱۰۶تا۱۱۰میں اور ”ابوریحان بیرونی“ نے اپنی کتاب”الآثار الباقیہ“ص۲۹۰۔پر نقل کیاھے کہ قدیم سیاحوں کی ایک جماعت نے شھر”آبس“میں ایک دیکھی ھے جس میں چند انسانی ڈھانچے پڑے ھیں۔ ان کا خیال ھے کہ هوسکتا ھے یہ بات اسی داستان سے مربوط هو۔
سورہٴ کہف میں قرآن کے لب و لہجہ سے اور اس سلسلے میں اسلامی کتب میں منقول شانھائے نزو ل سے معلوم هوتا ھے کہ یہ داستان یهودی علماء میں بھی ایک تاریخی واقعے کے طور پر مشهور تھی،اس سے یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ طولانی نیند کا یہ واقعہ مختلف قوموں کی تاریخی ماخذ میں موجود رھا ھے۔[37]
________________________________________
[1] سورہ کہف آیت ۹۔
[2] رھا بعض کا یہ احتمال کہ اصحاب کہف اور تھے اور اصحاب رقیم اور تھے بعض روایت میںان کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی گئی ھے ،یہ ظاھر آیت سے ھم اہنگ نھیں ھے کیونکہ زیر قرآن کا ظاھری مفهوم یہ ھے کہ اصحاب کہف و رقیم ایک ھی گروہ کا نام ھے یھی وجہ ھے کہ ان دو الفاظ کے استعمال کے بعد صرف ”اصحاب کہف“ کہہ کر داستان شروع کی گئی ھے اور انکے علاوہ ھر گز کسی دوسرے گروہ کا ذکر نھیں کیا گیا ،یہ صورت حال خود ایک ھی گروہ هونے کی دلیل ھے ۔
[3] سورہٴ کہف آیت۱۰۔
[4] جیسا کہ قرآن میں موجود ھے: ”اذآ وی الفتیة الی الکھف“۔
(فتیة) فتیٰ کی جمع ھے۔در اصل یہ نوخیز و سرشار جوان کے معنی میں ھے البتہ کبھی کبھار بڑی عمر والے ان افراد کے لئے بھی بولاجاتا ھے کہ جن کے جذبے جوان اور سرشار هوں۔اس لفظ میں عام طورپر جوانمردی حق کے لئے ڈٹ جانے اور حق کے حضور سر تسلیم خم کرنے کا مفهوم بھی هوتا ھے۔
اس امر کی شاہد وہ حدیث ھے جو امام صادق علیہ السلام سے نقل هوئی ھے۔
امام(ع) نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا:”فتیٰ“کس شخص کو کہتے ھیں؟
اس نے جواباً عرض کیا:”فتیٰ“ نوجوان کو کہتے ھیں۔
امام(ع) نے فرمایا: کیا تجھے نھیں پتہ کہ اصحاب کہف پکی عمر کے آدمی تھے لیکن اللہ نے انھیں”فتیة“کھا ھے اس لئے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔
اس کے بعد مزید فرمایا: جو اللہ پرایمان رکھتا هو اور تقویٰ اختیار کیے هو وہ”فتیٰ“(جوانمرد) ھے۔
[5] سورہٴ کہف آیت ۱۰۔
[6] سورہٴ کہف آیت۱۱تا۱۲۔
[7] سورہٴ کہف آیت۱۳۔
[8] سورہٴ کہف آیت۱۳۔
[9] سورہٴ کہف آیت۱۴۔
[10] سورہٴ کہف آیت۱۵۔
[11] سورہٴ کہف آیت ۱۵۔
[12] سورہٴ کہف آیت۱۵۔
[13] سورہٴ یوسف آیت۳۳۔
[14] سورہٴ کہف آیت۱۷۔
[15] سورہٴ کہف آیت۱۷۔
[16] سورہٴ کہف آیت ۱۸۔
[17] سورہٴ کہف آیت ۱۸۔
[18] سورہٴ کہف آیت ۱۸۔
[19] بنی اسرائیل ۴۴۔
[20] سورہٴ کہف آیت۱۸۔
[21] سورہٴ آل عمران آیت ۱۵۱۔
[22] سورہٴ کہف آیت ۱۹۔
[23] سورہٴ کہف آیت ۱۹۔
[24] سورہٴ کہف آیت ۱۹۔
[25] سورہٴ کہف آیت ۱۹۔
[26] سورہٴ کہف آیت۱۹۔
[27] سورہٴ کہف آیت۲۱۔
[28] سورہٴ کہف آیت۲۱۔
[29] سورہٴ کہف آیت ۲۱۔
[30] سورہٴ کہف آیت۲۱۔
[31] سورہٴ کہف آیت۲۱۔
[32] سورہٴ کہف آیت ۲۲۔
[33] سورہٴ کہف آیت۲۲۔
[34] سورہٴ کہف آیت۲۲۔
[35] سورہٴ کہف آیت ۲۵۔
[36] سورہٴ کہف آیت۲۶۔
[37] اصحاب کہف کا واقعہ کیا سائنس کے لحاظ سے قابل قبول ھے؟ رجوع کریں تفسیر نمونہ جلد۷ ص۸۶۔