ستائیس جون اسلام و قرآن کا پرچم بلند کرنے والے ایک ایسے جلیل القدر " معمار انقلاب " شہید مظلوم حضرت آیت اللہ بہشتی اور ان کے بہتر رفقاء کی شہادت کا دن ہے کہ جنہوں نے سید الشہداء امام حسین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بہتر ساتھیوں کے ہمراہ خون کا نذرانہ پیش کرکے سرزمین ایران پر اسلام وانقلاب کی جڑیں ہمیشہ کے لئے محکم و استوار کردی ہیں
شہید ڈاکٹر بہشتی
شہید ڈاکٹر بہشتی کو ان کی بے پناہ صلاحیتوں اور ناقابل فراموش خدمتوں کے سبب ایران کے مجاہد علماء اور فقہا کے درمیان ایک ممتاز مقام حاصل ہے شہید آیت اللہ بہشتی بیک وقت مجتہد، فقیہ، فلسفی، مکتب شناس، سیاستدان، سخن دان و سخن راں، صاحب قلم، مصنف و محقق۔ منتظم و مدبر، دنیا کی کئی زندہ زبانوں پر مسلط عربی، فارسی، انگریزی اور جرمنی کے قادر الکلام خطیب اور مقرر ایک ایسی جامع و کامل شخصیت کے حامل مومن و مخلص انسان تھے کہ جن پر تاریخ اسلام و انقلاب جتنا بھی افتخار کرے کم ہے ۔ ایک ایسی احسن و اکمل ذات کہ جس کے لئے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے بجا طور پر فرمایاہے :
" شہيد بہشتي اپني جگہ تنہا ايک امت تھے "
پيدائش اور ابتدائي تعليم
شہید محمد حسین بہشتی، سن 1928 ء میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اصفہان میں حاصل کی اور اسلامی علوم میں اپنی بے پناہ دلچسپی کے سبب ہائرسیکنڈری کے بعد حوزۂ علمیہ اصفہان میں داخلہ لے لیا اور 1946ء تک اسی حوزہ میں سطوح عالیہ کے دروس تمام کئے اور پھر شہید مطہری کی مانند اپنے چند دوستوں کے ساتھ حوزۂ علمیہ قم تشریف لائے اور جیسا کہ خود کہتے ہیں : میں نے قم آکر مدرسۂ حجتیہ میں قیام کیا اور سن 1947 ء تک مکاسب اور کفایہ کی تکمیل میں مصروف رہا۔ اس کے بعد آیت اللہ داماد اور آیت اللہ العظمی بروجردی اور امام خمینی (رح) کے درس خارج میں بھی شریک ہوا البتہ اسی کے ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ یونیورسٹی کی تعلیم بھی حاصل کروں ۔
اعلي تعليم
1951 ء میں اسلامی معارف میں دانشکدۂ الہیات سے بی اے اور پھر ایم اے کے بعد سن انیس سو انسٹھ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ شہید بہشتی نے اپنے مباحثین میں شہید مطہری، موسی شبیری زنجانی، موسی صدر، آیت اللہ مکارم شیرازی، ڈاکٹر مفتح آذری قمی، آیت اللہ مشکینی اور ربانی شیرازی کا ذکر کیا ہے۔
تعليمي سرگرمياں
انہوں نے 1954 ء میں " دبیرستان دین و دانش "" کے نام سے قم ہیں ایک ہائر سیکنڈری اسکول کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیۂ قم کے طلبہ کے درمیان مروجہ علوم و زبان سیکھنے کا شوق پیدا کیا اور گرانقدر ثقافتی خدمات انجام دیں ۔ 1963 ء میں آپ نے قم میں ہی چند احباب کے ساتھ مل کر ایک بڑے اور وسیع مدرسۂ حقانی کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیہ کے فاضل طالبہ کا ایک گروہ، اسلامی حکومت کے موضوع پر تحقیقات کے لئے تشکیل دیا ۔
یہی وہ زمانہ ہے جب شاہی حکومت کی خفیہ مشنری " ساواک " نے آپ کو قم چھوڑدینے پر مجبور کیا اور آپ کو تہران منتقل ہونا پڑا لیکن آپ نے اپنا رابطہ حوزۂ علمیہ سے قطع نہیں کیا 1964 ء میں مدارس میں دینی تعلیمات کے لئے ایک مکمل نصاب تعلیم مرتب کیا جس کے بارے میں حوزہ اور یونیورسٹی کے ایک مسلم الثبوت استاد اور پروفیسر آقائے حقانی کا کہنا ہے کہ : یہ نصاب نہایت ہی جامع اور بڑی خوبیوں کا حامل تھا جس کے مطابق ایک طالب علم پندرہ سال میں اجتہاد کی منزلیں طے کرسکتا تھا، اور اجتہاد کے مراحل میں ایک امتحان کے علاوہ ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھنا پڑتا اور ان کی روشنی میں مسائل کے استنباط کی صلاحیت دیکھتے ہوئے اجتہاد کی سند ارکان مدرسہ کی طرف سے دی جاتی ۔
یہ نصاب پہلی مرتبہ مدرسۂ حقانی میں جاری کیا گیا اور شہید بہشتی کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا ۔ در اصل شہید بہشتی چاہتے تھے کہ حوزہ علمیہ اپنی قدیم روایتی حد بندیوں سے باہر نکلے اور عصری تقاضوں کے مطابق اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو انجام دے سکے اور حوزۂ علمیۂ قم نہ صرف ایران اور مخصوص اسلامی ملکوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کے مسائل کا جواب دے سکے اور بین الاقوامی برادری کی سطح پر ایک موثر کردار ادا کرسکے ۔
تبليغ دين کے لئے کوششيں
سن 1965 ء میں آیت اللہ العظمی بروجردی علیہ الرحمہ کی فرمائش پر پانچ برسوں کے لئے شہید بہشتی کو اسلامی تبلیغی مہم کے لئے جرمنی کے شہر ہمبرگ کا سفر کرنا پڑا آپ نے وہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان اسلامی انجمنیں قائم کرکے فارسی زبان کی ترویج کے ضمن میں ہی صحیح اسلامی افکار و نظریات سے مغربی دنیا کو آشنا بنانے کے لئے یونیورسٹیوں اور کلیساؤں میں جا کر خود ان کی جرمن زبان میں تقریریں کیں جو بےحد موثر ثابت ہوئیں ۔
وطن واپسي اور سياسي سرگرمياں
1970 ء میں تہران واپس آئے اور تفسیر قرآن کا درس دینا شروع کیا اور ڈاکٹر جواد باہنر اور ڈاکٹر عقودی کے ساتھ مل کر ایران کے مدرسوں میں رائج کتابوں کی تدوین، اصلاح میں مشغول ہوگئے ۔ اس طرح اپنی مسلسل فکری اور ثقافتی انقلابی جد و جہد کے بعد 1978 ء میں علی الاعلان سیاسی میدان میں اتر پڑے اور شہید مطہری، شہید مفتح، حجۃ الاسلام ملکی اور آیت اللہ امامی کاشانی کے ساتھ مل کر ایک ملک گیر سیاسی جماعت " روحانیت مبارز تہران " کی سنگ بنیاد رکھی جس میں دوسری اہم انقلابی شخصیتیں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای، آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ ربانی املشی، آیت اللہ طبسی اور شہید ہاشمی نژاد و غیرہ بھی شامل ہوگئے ۔ اور پھر امام خمینی (رح) کے حکم سے باقاعدہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل پائی جس میں آیت اللہ بہشتی سرفہرست تھے ۔
چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بقاء واستحکام میں شہید بہشتی کے کارنامہ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں : حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے رفقائے کار کے درمیان شہید بہشتی نے اسلامی انقلاب کی بنیادی ترین خدمات انجام دی ہیں ۔ شہید بہشتی کی شخصیت کی جامعیت اور اسلامی علوم و فنون پر کامل تسلط کے ساتھ ہی عصر حاضر کے تمام سیاسی و نظریاتی مکاتب اور آزموں سے گہری واقفیت نیز مختلف اسلامی اور یورپی زبانوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت نے آپ کو دوستوں حتی بزرگوں کے درمیان بھی ممتاز کردیاتھا ۔
سياسي مخالفين پر آپ کا رعب
کسی بھی سیاسی فکری محفل و مجلس میں آپ کی موجودگی لوگوں کو ہر ایک سے بے نیاز کردیتی تھی ۔جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تشکیل کے لئے " مجلس خبرگان " کے جلسوں میں شہید بہشتی اپنی زبان کھولتے تھے تو اسلام و قرآن کے تمام مخالفین و معاندین کی زبانیں گنگ رہ جاتی تھیں اور ان کو اپنی کمیوں کے سبب سبکی کا احساس ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے دو طرح کے لوگ آپ کے وجود سے گبھراتے اور مخالفت و کینہ توزی سے لبریز تھے، ایک تو منافقین اور مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کا وہ گروہ تھا جو اسلامی انقلاب کی بنیادوں کا ہی مخالف تھا ۔ اور دوسرا حکومت و اقتدار کا بھوکا تنگ نظر علماء اور مفاد پرست دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کی راب میں شہید بہشتی کو روڑا سمجھتا تھا اور سختی سے احساس کمتری کا شکار تھا ۔ چنانچہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام کی تاریخ اگر گہری نظروں سے مطالعہ کی جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ اسلامی انقلاب کے مخالف تمام گروہ، منافقین ہوں یا مشرقی سوشلسٹ اور مغربی لبرل عناصر ہر ایک کی دشمنی اور تہمتوں کا پہلا نشانہ شہید بہشتی کی ذات تھی ۔
سياسي مخالفين کي سازشيں
مخالفین کو معلوم تھا بہشتی تن تنہا ایک "معاشرہ " ایک ملت اور ایک امت ہیں لہذا پہلے انہوں نے ان کی شخصیت کو قتل اور بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن آیت اللہ بہشتی کو ان کی درایت، محکم گفتگو، خلوص خدا پر توکل اور نفس پر اعتماد نے دشمنوں کے مقابل پر میدان میں کامیابی عطا کی اور دشمنوں کے سامنے آپ کو قتل کردینے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا ۔ دشمنان اسلام کی طرف سے جبکہ طرح طرح کی سازشوں کی یلغار تھی وہ دوسرا گروہ کہ جن کی نظر میں شہید بہشتی کا وجود کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اور انہیں سیاسی میدان میں تنہا کردینے کے درپے تھا، دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگا اور خطرناک انداز میں ان لوگوں نے اس مرد مجاہد کے خلاف عوام کوفریب دینے والے پروپگنڈے شروع کردئے ۔ انقلاب کے بعد ابتدائی تین برسوں میں شہید بہشتی کو جن حالات سے مقابلہ کرنا پڑا ہے اس کی ترجمانی شہید کو، امام خمینی کی طرف سے دیا گیا " مظلوم " کا خطاب کرتا ہے جو آیت اللہ بہشتی کی شہادت کے بعد امام خمینی نے دیا تھا ۔
" آئين " کي تشکيل کا اہتمام
شہید بہشتی نے تمام مخالفتوں کے باوجود اسلامی انقلاب کی وہ قیمتی خدمات انجام دی ہیں کہ جنہیں اسلامی انقلاب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اوائل انقلاب ہی میں شہید بہشتی نے " آئین " کی تشکیل کا اہتمام نہ کیا ہوتا تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کا " آئین " کیا اور کیسا ہوتا ۔ ایک ایسا " آئین " وجود میں لانا کہ جس کو عالمی سطح پر مروجہ اصولوں کے برخلاف، پوری طرح مغرب کی تقلید سے آزاد رکھا جا سکے اور صرف و صرف اسلامی اصول و تعلیمات پر اس طرح استوار ہو کہ ذرہ برابر بھی شرع اسلامی سے مغائرت نہ رکھتا ہو بڑا ہی مشکل اور پیچیدہ کام تھا، خصوصا" اسلامی فقہا اور مجتہدین جامع الشرائط کی کونسل " مجلس خبرگان " میں اس کی منظوری اور ہر ایک کو اپنے محکم بیان اور استدلال سے قانع کردینا شہید بہشتی کی علمی اور فقہی منزلت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین راہ اسلام و قرآن میں شہید ہونے والے دسیوں ہزار افراد کے خون کا عطیہ ہے لیکن مجلس خبرگان کی کوششوں نیز اس کے ناظم کی حیثیت سے شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی کے تدبر اور دور اندیشیوں کا ہی نتیجہ ہے ۔ آئین کی منظوری میں آیت اللہ بہشتی کا فیصلہ کن کردار، دشمنوں کی مخالفت بڑھ جانے کا سبب بنا، بنی صدر اور بازرگان کی عبوری حکومت نے اسی لئے مجلس خبرگان کو منحل کرنے کی بھی کوشش کی مگر ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔
عدليہ کي سربراہي
انقلاب کے بعد، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور اہم ذمہ داری شہید بہشتی کو یہ سپرد کی کہ انہیں " عدلیہ" کا سربراہ "دیوان عالی" قرار دے دیا اور شہید نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے عدلیہ کو عزت و وقار عطا کردیا وہ کسی بھی عنوان سے آئین کی خلاف ورزی، چاہے وہ ملک کی کوئی بھی شخصیت کیوں نہ ہو، ہرگز قبول نہیں کرتے تھے شہید نے جس مقام اور جس حیثیت سے بھی انقلاب کی خدمت کی ہے پوری فرض شناسی کے ساتھ کام انجام دیا وہ کہا کرتے تھے کہ :
" ہم خدمت کے دلدادہ ہيں اقتدار کے پياسے نہيں ہيں"