سلیمانی

سلیمانی

تین سال قبل 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اپنے ساتھی ابو مہدی المہندس اور ان کے کئی ساتھیوں کیساتھ امریکی ڈرون کے ذریعے بغداد کے ہوائی اڈے پر نشانہ بنے تھے۔  حملے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کی اس کارروائی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور اس حملے کا حکم دینے اور اس کی کمانڈ کرنے کا اعتراف کیا۔ اس رات جنرل سلیمانی کو کچھ عراقی حکام سے ملاقات اور خطے میں جاری واقعات کے بارے میں بات چیت کرنا تھی۔ اس وفد نے عراق کے وزیراعظم سے ملاقات کیلئے سرکاری دعوت پر عراق کا سفر کیا۔ جنرل سلیمانی کا قتل، نہ صرف فوج کے ایک اعلیٰ سرکاری فوجی عہدیدار کیخلاف ریاستی دہشتگردی کا ارتکاب تھا بلکہ ایک آزاد ملک کی افواج کیخلاف دہشتگردی، بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی اور جارحیت تھی۔ اس کے علاوہ، یہ ایک خطرناک چال تھی، جو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک کامیاب کمانڈر کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ دہشتگردی کے حملے سے پیدا ہونیوالے دیگر نتائج سے پورے خطے میں امن و سلامتی کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔

ایک اور نقطہ نظر میں، دہشتگردی کی یہ کارروائی عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کے دو  ارکان کیخلاف جارحانہ کارروائی کے مترادف تھی۔ اس سال اس بہادر ہیرو کے قتل کی تیسری برسی ہے۔ یہ صرف تین سال پہلے کی بات ہے، جب جنرل سلیمانی نے باضابطہ طور پر داعش کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا، جب اس وقت یہ دہشتگرد گروہ مکمل طور پر کمزور اور خاتمے کے دہانے پر تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جس بہادری کا مظاہرہ کیا، اس نے خطے میں داعش کا خاتمہ کر دیا بلکہ اس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے پہلے سے ہی جنگ زدہ علاقہ بلکہ تمام ممالک بشمول امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا کو امن و سلامتی عطا کی۔ سلیمانی نے داعش کے بحران پر ایسے حالات میں ردعمل کا اظہار کیا، جب پورا خطہ پہلے ہی داعش کے اس ظالم دہشتگرد گروہ کی لپیٹ میں آچکا تھا، جس کے نتیجے میں کچھ ممالک ٹوٹنے کے قریب تھے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف اقدام کو متحرک نہ کیا ہوتا تو خطے کا نقشہ آج مختلف ہوتا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں کی کمان سنبھالی، جب داعش نے اسلامی خلافت کا اعلان کیا اور شہریوں اور فوجوں کیخلاف انسانی تاریخ کے سب سے گھناؤنے اور بے مثال جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہاں ایک متضاد صورتحال سامنے آتی ہے، جہاں مختلف حالات میں داعش اور بعض دیگر دہشتگرد گروہوں کا پیدا ہونا امریکی ہتھکنڈوں کا پتہ دیتا ہے۔ ISIS کی اصلیت کے حوالے سے انتخابی کمپین میں دوسروں کے علاوہ ٹرمپ کے اعترافات اس کی واضح مثال ہیں۔ شہید سلیمانی دہشتگردی کیخلاف ایک معروف ہیرو تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی دہشت گردی اور جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ تو معاملہ کیا ہے؟ ٹرمپ: ہم نے داعش کو بنایا۔ اس کے بعد، اسی ٹرمپ نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر جنرل سلیمانی پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس کا جواب امریکہ کے دوہرے معیار کی سیاست میں مل سکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کا قتل بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مجرموں کو بین الاقوامی سطح پر اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیئے۔

بہت سے قانون دان، سفارتکار، سیاستدان اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین واضح کرتے ہیں کہ کسی ملک کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کا غیر قانونی قتل پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ کیونکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھنے والے قابل کمانڈروں کی عدم موجودگی کے باعث خطے میں داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی تشویق پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کیخلاف دہشتگردانہ حملہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور دوسرے ملک کی خودمختاری کیخلاف جارحیت اور ریاستی دہشتگردی کی واضح مثالوں میں سے ایک مثال سمجھی جاتی ہے، جس کا ارتکاب ایک ملک دوسرے کیخلاف کرتا ہے اور اسے باضابطہ طور پر ملک کے اعلیٰ عہدے داروں اور کیمروں کے سامنے مجرم کے اعتراف کے ذریعے قبول کیا جاتا ہے۔

تین سال گزر چکے ہیں اور اب بہت سے لوگ "سلیمانی سکول آف تھاٹ" کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ اس وقت ایک مقبول کمانڈر تھے اور اس وقت تاریخ سے ماورا ایک لیجنڈ شخصیت ہیں۔ ان کے حامی ان کے قتل کو اس کی کہانی کا عروج اور اس کی سرشار زندگی کا ایک ناگزیر انجام اور ہدف سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی شہادت ان لوگوں کیلئے زیادہ تباہ کن ہے، جن کیخلاف وہ لڑے اور ان لوگوں کیلئے جو ان سے محبت کرتے تھے، ان کی زندگی سے زیادہ متاثر کن ہے۔ ایک مخیر، سماجی اور شہری کارکن ہونے کے ناطے خاص طور پر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اور مختلف خطوں میں غربت، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے، وہ واقعی بہت سے لوگوں کے یہاں تک کہ ان کے ناقدین کی طرف سے بھی پسند کیے گئے۔ جنازے کی تقریبات میں لوگوں کا بے ساختہ امڈ آنا اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ انسانوں کیلئے کام کرنے کیلئے پُرعزم تھے۔

وہ نسل، مذہب، قومیت اور طرز زندگی سے بالاتر ہو کر انسانی وقار اور لوگوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں، وہ خواتین کی کوریج کے حوالے سے مختلف طرز زندگی کا سامنا کرنے والوں کو سختی سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اور ہمارے انسانی وسائل ہیں۔ تین سال قبل انہیں دوسرے ملک میں بے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ وقت اور تاریخ انسانی ذہن کی عدالت کے بہترین استاد اور بہترین گواہ ہیں۔ ایرانی حکام نے وعدہ کیا کہ اس جرم کے ذمہ داروں کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا اور اس غیر انسانی جرم کے مرتکب افراد اور معاونین نے کو انصاف کی منصفانہ عدالت میں لایا جائے گا۔ تاہم، اس وقت کے امریکی صدر کے اس گھناؤنے دہشت گردانہ اقدام کی سیاست دانوں، وکلا، ماہرین تعلیم اور رائے عامہ سمیت بہت سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان اور مجرموں کیخلاف منصفانہ کارروائی کرے گا۔

گذشتہ دہائیوں کے دوران دشمنی، دہشتگردی اور شہریوں کا قتل دو عظیم اقوام ایران اور پاکستان کا مشترکہ درد رہا ہے۔ دونوں ممالک اس دکھ سے دوچار ہوئے ہیں اور کئی خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران اور پاکستان کی طرح کوئی بھی قوم دہشتگردی کے طاعون کو نہیں سمجھتی۔ ان دونوں مسلم ممالک کے عوام دہشتگردی کی تباہ کاریوں اور تشویش کو محسوس کرتے ہیں اور اس راہ پر قوموں کے نوجوانوں کا بہت سا پاک خون بہا ہے۔ دونوں برادر ممالک ایران اور پاکستان میں اب تک بہت سے شہداء نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور امن و سلامتی کے مقدس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ موجودہ خطرے کی صورتحال جو ہم دیکھ رہے ہیں، اور اس تباہ کن امکان کیساتھ جو خطے میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے، عالم اسلام کو ایک متفقہ طرز عمل کیساتھ قدم اٹھانا چاہیئے اور اپنی غلط فہمیوں کو ایک طرف رکھ کر، جن میں زیادہ تر غیر ملکیوں کی طرف سے پھیلائیں ہوئی ہے، امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، اس خطے سے مقامی امن اور سلامتی کا آغاز کیا جائے۔

تحریر: سید محمد علی حسینی
(پاکستان میں ایران کے سفیر)

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جب پوری دنیا میں نئے سال کے آمد کی صدائیں گونج رہی تھیں اس وقت ایران، عراق‌ اور شام میں لاکھوں ایسے تھےجو خاموشی سے ایک ایسے شخص کی موت پر ماتم کر رہے تھے جس نے انہیں داعش کے خوف کے بغیر ایک نئی زندگی دی تھی۔
جنرل کا شکریہ ادا کرنے والی وہ 39 ہندوستانی نرسیں بھی ہوں گی جنہیں سفاک اور خوفناک داعش کے ہاتھوں یرغمال بنایا گیا تھا۔
دنیا کو نہ صرف الحاج قاسم سلیمانی کی موت پر سوگ منانے کی ضرورت ہے، بلکہ ان کی زندگی کا جشن بھی منانا چاہئے۔
جنرل سلیمانی کی غیر متزلزل کوششوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ داعش کا روئے زمین سے صفایا ہو جائے۔ جعلی 'اسلامک اسٹیٹ' کو قائم کرنے کے شیطانی منصوبوں کو جنرل سلیمانی کی مزاحمت اور حکمت عملی نے کبھی پایہ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا اور خطے کو ان کے ناپاک وجود سے نجات دلانے میں مدد کی۔
مغربی ایشیائی خطے پر ماہر ایک ہندوستانی کے مطابق، جس نے ایک سرکردہ ہندوستانی اخبار کو بتایا، "ہو سکتا ہے ہندوستانی حکام نے ان (جنرل سلیمانی) کے ساتھ وقتاً فوقتاً رابطے کیے ہوں تاکہ وسیع تر مغربی ایشیاء کے علاقوں میں سرحد پار دہشت گرد گروہوں کے مسئلے پر بات چیت کی جا سکے۔ سلیمانی، عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف مسلح مزاحمت کا نمایاں چہرہ تھے اور آئی ایس آئی ایس کو شکست دینے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔
جنرل سلیمانی نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے میں پاکستان کی ناکامی پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جنرل سلیمانی کی بہادری بے مثال اور بے مقابلہ ہے۔ اب بھی کچھ سوالات ہیں جن کا جواب دنیا کو درکار ہے۔
ان کے قتل سے کس کو فائدہ ہوا؟
اور کون چاہتا تھا کہ وہ چلا جائے؟
یہ صرف داعش ہی ہے جو انہیں جاتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔ تاہم، داعش کو اس قدر بے دردی سے نقصان پہنچایا گیا تھا کہ وہ ابھی تک خود کو دوبارہ منظم نہیں کر پائے ہیں۔
جنرل سلیمانی نے عراق کے فوجی سربراہ ابو مہدی مُہندِّس کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا۔
30 دسمبر سے یکم جنوری 2023 کے درمیان حسینی ہاؤس، تربھے، مسجد ایرانیان (مغل مسجد)،ممبئی، شیعہ قبرستان، میرا روڈ اور زیب پیلس، یاری روڈ میں تعزیتی پروگرام منعقد کئے گئے، اس موقع پر مولانا سید قاضی عسکری صاحب نے جنرل قاسم سلیمانی، ابومہدی مُہندس اور دیگر شہداء کی شہادت کی یاد میں تقاریر کی جنہوں نے نہ صرف انسانی جانوں کی حفاظت کی بلکہ دمشق میں پیغمبر اسلام (ص) کی نواسی بی بی زینب (س) کے مزار پر داعش کے حملوں کو روکنے کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔

رہبر انقلاب اسلامی سے علمی و سماجی میدانوں کی کچھ ممتاز خواتین اور نمونہ ماؤوں کی ملاقات

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، مردوں کے غلبے والا نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں، سرمایہ، انسانیت سے اوپر ہوتا ہے۔ انسانوں کی انسانیت کو، سرمائے کی خدمت میں صرف کیا جاتا ہے۔ جو انسان زیادہ سرمایہ حاصل کرے، زیادہ سرمایہ جمع کرے، اس کی قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ مغربی سرمایہ داری میں معاشی، تجارتی اور اسی طرح کے امور کے بڑے عہدے مردوں کے پاس ہوتے تھے بنابریں سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کو عورت پر ترجیح حاصل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بہت سے مغربی ملکوں میں اس وقت بھی ایک ہی کام کے لیے خواتین کی تنخواہ، مردوں کی نسبت کم ہے، یہ استحصال ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عورت کی آزادی کا مسئلہ اٹھانے کے بہانے، عورتوں کو گھر سے باہر کھینچ لیا گيا اور انھیں کارخانے میں لا کر انتہائي کم اجرت پر کام کرایا گيا۔

انھوں نے کہا کہ مغرب والوں کی حد درجے کی بے غیرتی یہ ہے کہ وہ جنسی مقاصد کے لیے عورتوں کی جنسی بردہ فروشی اور ان کی جنسی تجارت کرنے کے باوجود، خواتین کے حقوق کی علمبرداری کا دعوی کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کی آزادی سے مردوں کا دل اور آنکھیں سیر ہو جائيں گي اور پھر جنسی جرائم انجام نہیں پائيں گے۔ اب نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ عورتوں کے سلسلے میں بری نظر سیکڑوں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے اور یہ چیز طرح طرح کی جنسی برائيوں اور تمام اخلاقی اور انسانی حدود کی پامالی کا سبب بھی بنی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مغرب نے تمام اخلاقی اور انسانی حدود کو توڑ دیا ہے اور وہ ان گناہوں کو رائج کرنے اور قانونی جواز عطا کرنے کے درپے ہے جو تمام مذاہب میں حرام ہیں۔ ہم جنس پرستی وغیرہ صرف اسلام میں ہی حرام نہیں ہیں بلکہ تمام ادیان میں گناہان کبیرہ میں شامل ہیں۔ وہ انھیں قانونی درجہ دے رہے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندہ نہیں ہیں۔


2 جنوری 2016ء کے دن آل سعود رژیم نے کئی سال تک آیت اللہ شیخ باقر النمر کو قید اور ٹارچر کرنے کے بعد آخرکار شہید کر دیا۔ یوں سعودی عرب کی تاریخ میں یہ بدنما داغ ہمیشہ کیلئے باقی رہ گیا۔ شیخ باقر النمر پہلی بار 2006ء میں گرفتار ہوئے۔ انہیں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری کی وجہ ان کی سعودی حکومت سے قبرستان بقیع کی تعمیر نو کرنے اور شیعہ مذہب کو سرکاری طور پر قبول کرنے کی درخواست ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں بھی انہیں آل سعود رژیم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012ء میں جب شیخ باقر النمر نے ایک اعلی سطحی سعودی حکومتی عہدیدار کو تنقید کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور گرفتار بھی کر لیا۔
 
اس کے بعد وہ 2 جنوری 2016ء تک آل سعود کی قید میں رہے اور آخرکار ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ شیخ باقر النمر کی زندگی سیاسی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ انہوں نے آل سعود رژیم کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک چلائی اور خاص طور پر دو علاقوں الاحساء اور القطیف میں سرگرم عمل رہے۔ وہ واضح طور پر سلطنتی نظام حکومت اور آل سعود رژیم کی برطانیہ اور امریکہ کی غیر مشروط اطاعت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ آل سعود، آل خلیفہ اور دیگر خلیجی رژیموں کو امریکہ کی کٹھ پتلیاں قرار دیتے اور کہتے تھے: "تمام خلیجی ریاستیں امریکہ کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ امریکی نیوی کی ففتھ ڈویژن بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے خطے میں موجود ہے۔" شیخ باقر النمر کھلم کھلا آل سعود رژیم کی کرپشن، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ پر بھی اعتراض کرتے رہتے تھے۔
 
آیت اللہ باقر النمر سعودی حکومت کی جانب سے شہریوں خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کی تحقیر پر شدید احتجاج کرتے تھے۔ ان کی نظر میں آل سعود رژیم شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی تھی اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ شیخ باقر النمر نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے احترام اور حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے۔ شیخ باقر النمر ہمیشہ اپنی تقریروں میں سیاسی تبدیلیاں انجام پانے، شہریوں کی سماجی آزادی بحال ہونے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک ختم کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کیا تو سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک جیسے ایران، عراق، پاکستان، بحرین، یمن، لبنان وغیرہ میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آیا۔
 
دنیا کی متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا آل سعود رژیم کی جانب سے شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائے جانے کی مذمت کی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس پر عملدرآمد نہ کرے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کر دیا تو 12 عرب ممالک سے 114 تنظیموں نے اس کی شدید مذمت کی۔ آل سعود رژیم کے اس اقدام نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو بھی شدید کشیدہ کر دیا تھا۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی جنوبی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں مقیم ہے۔ آل سعود ہمیشہ سے انہیں اپنی حکومت کیلئے خطرہ تصور کرتی آئی ہے۔ سعودی تاریخ میں آل سعود رژیم کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی اکثریت بھی انہی علاقوں میں جنم لیتی رہی ہے۔ سعودی حکومت شدید مذہبی تعصب کا شکار ہے اور شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتی ہے۔
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران آل سعود رژیم نے اپنے شہریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اختیار کر رکھی ہے۔ یوں سعودی حکومت اپنے ہی شہریوں میں سے روشن خیال، قانون دان اور سیاسی طور پر سرگرم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال جمال خاشگی کا ہولناک قتل ہے۔ وہ سعودی شہری تھے اور موجودہ حکومت کے شدید مخالف ہونے کے ناطے جلاوطنی کی حالت میں ترکی میں رہتے تھے۔ "ریاستی دہشت گردی" کا مطلب ایک حکومت کی جانب سے خاص سیاسی اہداف کے حصول کیلئے اپنے ہی شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کو کہتے ہیں۔ معاشرے میں دہشت پھیلانے کا ایک معروف طریقہ اجتماعی سزائے موت دینا ہے۔ سعودی عرب میں ہر سال اس اقدام کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2016ء میں بھی شیخ باقر النمر کے ہمراہ 46 دیگر افراد کے سر قلم کئے گئے تھے۔
 
اپریل 2019ء میں بھی آل سعود رژیم نے 37 شیعہ شہریوں کو ایک ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ان پر 2011ء کے پرامن مظاہروں میں شرکت کا الزام تھا۔ ان میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ماضی میں بھی سعودی حکومت نے 1980ء میں ایک ہی دن 63 شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان افراد پر مسجد الحرام پر زبردستی قبضے کا الزام لگایا گیا تھا۔ حال ہی میں "سند" نامی انسانی حقوق کے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود رژیم کی فوجی عدالتوں نے 60 شہریوں کو سزائے موت کا حکم سنا رکھا ہے۔ ان افراد کو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد کو دو ماہ قبل ریاض کے قریب واقع "الحائر" جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف سمیت بعض میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ آل سعود رژیم نئے سال کی چھٹیوں میں ان افراد کے سر قلم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تحریر: علی احمدی

لبنان کی حزب اللہ کے اس باخبر ذریعے نے اتوار کی شب بیروت میں ارنا نیوز ایجنسی کے دفتر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ انفلوئنزا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد مکمل صحت مند ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔

اس ذریعے نے اس بات پر زور دیا کہ فلو اور ان کی آواز میں بعض مسائل کی وجہ سے ان کے لیے تقریر کرنا مشکل تھا، اس لیے جمعہ کی شام حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس باخبر ذریعے کے مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منگل کو پاسداران  اسلامی انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے اتحادیوں کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر خطاب کریں گے۔

یہ تقریب منگل کو مقامی وقت کے مطابق 18:00 بجے (تہران کے وقت کے مطابق 19:30) بیروت میں سید الشہداء اسمبلی میں منعقد ہوگی۔

انقلاب اسلامی ایران کے دوران وہ مشہد کے رضا کامیاب نامی عالم دین سے آشنا ہوئے جنہوں نے ان کو انقلابی سرگرمیوں میں شامل کیا۔ ان کے بھائی سہراب سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کے اہم منتظمین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔

 

جنرل قاسم سلیمانی نے 1980ءمیں سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی میںشمولیت اختیار کی۔ ایران عراق جنگ کے آغاز پرآپ کرمان کے دو فوجی بٹالینز کے کمانڈر تھے۔مختصر عرصے کے لئے آپ نے سپاہ قدس کے آذربایجان غربی برگیڈ کی کمان سنبھالی۔

شہید قاسم سلیمانی سنہ 1981ء کو سپاہ پاسداران کے اس وقت کے سپہ سالار، محسن رضایی کے حکم سے سپاہ قدس کے 41ویں برگیڈ ثاراللہ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

آپ ایران عراق جنگ کے دوران مختلف آپریشنز من جملہ والفجر 8، کربلا 4 اور کربلا 5 نامی آپریشن کے کمانڈر تھے۔

شہیدقاسم سلیمانی سنہ 1998ء میں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب کے قدس برگیڈ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

شہید قاسم سلیمانی کو سنہ2011ءمیں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

مدافع حرم اہل بیتؑ جنرل قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار کمانڈروں میں سے تھے۔آپ نے روضہ ہائے مقدس کا کامیابی سے دفاع کیا اور دشمنوں کی ناک رگڑدی۔21 ستمبر 2017 کو ایک مدافع حرم شہید کے چہلم سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ تین ماہ کے عرصے میں روئے زمین سے داعش کی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا اور دنیا نے اس بات کو سچ ہوتے دیکھا۔

 

10 مارچ سنہ 2019ء کو رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی کو ایران کے سب سے اعلی فوجی اعزاز نشان ذوالفقار سے نوازا گیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے فوجی اعزاز دینے سے مربوط قانون کے مطابق یہ نشان ان کمانڈروں کو اور فوجی آفیسروں کو دیا جاتا ہے جن کی حکمت عملی مختلف فوجی آپریشنز میں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نشان حاصل کیا ہ 

  •  
    جنوری 2019 کوبزدلوں اور دہشتگردوں کے سالار امریکہ نے بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے بغداد ایئر پورٹ پر ڈرون حملے میں آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے ساتھ حشد الشعبی کے مرکزی رہنما ابو مہدی مہندس اور دیگر رفقاء 
  •  بھی شہادت پائی۔
  • شیعہ نیوز

پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے نے پیر کے روز اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ مجرم امریکی حکومت کی ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف منافقانہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کا قتل ایک اسٹریٹجک غلطی اور عالمی امن اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اس بیان میں آیا ہے کہ اقوام متحدہ کےایک رکن ملک کے اعلیٰ فوجی کمانڈر کے خلاف دہشت گردانہ اقدام  بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ کارروائی ایک مجرمانہ اور جارحانہ اقدام تصور کیا جاتا ہے، اور  دنیا اور خطے کے امن و سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے اور تجربہ کار کمانڈر کے قتل کے ساتھ تکفیریوں اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے راستے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

تہران، ارنا – قائد اسلامی انقلاب نے مزاحمتی محاذ کی بحالی کو شہید جنرل سلیمانی کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جنرل سلیمانی نے مزاحمت کو مادی اور روحانی کے لحاظ سے مضبوط کرتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست، امریکہ اور دوسرے استکباری ممالک کے خلاف اس کو محفوظ، لیس اور بحال کردیا۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کے روز شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر ان کے اہل خانہ اور یادگاری ہیڈکوارٹر کے اراکین کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

قائد اسلامی انقلاب نے لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ جو ایک مثالی انسان ہیں، کی شہید جنرل سلیمانی کی جد و جہد کے بارے میں شہادت کو اس شہید کے مزاحمتی محاذ کی بحالی کے عظیم کارنامہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ایک بڑا باب قرار دے دیا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی ترقی اور عراق، شام اور یمن میں مزاحمت کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شہید جنرل سلیمانی نے دفاع مقدس کے دوران کے تجربات سے استعمال اور اپنے اتحادیوں کے مشوروں کے ساتھ ان ممالک کے اندرونی صلاحیتوں پر انحصار کے ذریعہ مزاحمت کو مضبوط کردیا۔
رہبر معظم انقلاب نے داعش دہشت گرد گروپ کا خاتمہ اور اس کی جڑوں کی تباہی کو شہید جنرل سلیمانی کے عظیم کاموں میں سے ایک قرار دے دیا اور فرمایا کہ یہ شہید اس مسئلے کے حل میں کامیاب ہوگئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل اسماعیل قاآنی کی اعلی کارکردگیوں کو سراہتے ہو‎ئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی مسائل میں شہید جنرل سلیمانی کی خالی جگہ پر ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ مزاحمتی محاذ اپنے خود کو اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹجک گہرائی اور اسلام کے بازوؤں کو سمجھتے ہیں اور یہ تحریک اسی سمت جاری رہے گی۔
قائد اسلامی انقلاب نے جنرل سلیمانی کی یادگاری تقریب میں عوام کی پرجوش شرکت کو اس جنرل کے خلوص کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ رواں سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح عوام کی موجودگی بہت ہی پرجوش ہے اور اللہ تعالی کی مدد سے شہید جنرل سلیمانی کی تعریف کی تقریبات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور کمی موجود نہیں ہے۔

جمعہ اشنویہ کے امام استاد سید مصطفی خاتمی نے تقریب خبررسان ایجنسی کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے امام صادق علیہ السلام کی موجودگی میں تعلیم حاصل کرنے والے عظیم سنیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امام ابو حنیفہ نے تعلیم حاصل کی۔  ان کے پیروکاروں ان سے پوچھا کہ "لو لا السنتان لهلک النعمان" کا جملہ صحیح ہے یا نہیں، تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: اگر میں دو سال تک امام صادق ع  کی شاگردہ میں نہیں ہوتا تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔

انہوں نے مزید کہا: میں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ زیادہ تر علوم جو شیعہ اور سنی تک پہنچے ہیں وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس سے حاصل کیا ہے۔

انہوں نے بیان کیا: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے امت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کی مسلسل سفارش کی۔

انہوں نے واضح کیا: جب وہ مدینہ منورہ میں موجود ہوتے تو دنیا بھر سے لوگ طالب علم کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان کی شہادت کے بعد مالکی مذہب کے پیشوا امام مالک مدینہ میں لوگوں کے امور کے انچارج تھے۔

آخر میں انہوں نے امام مالکی کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی: امام مالک کے پیروکاروں نے ان سے پوچھا کہ آپ امام جعفر صادق علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ما رأت عین ولا سمعت اذن ولا خطر على قلب بشر افضل من جعفر بن محمّد الصادق علماً وعبادة وورعاً زهداو عملا"علم و عرفان اور تقویٰ میں جعفر صادق سے بڑھ کر نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل کو نے پہچانا۔

انسانی حقوق کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں کی واضح مثالوں کے باوجود یمن میں جرائم کی جہتیں وسیع پیمانے پر شائع نہیں کی جاتیں۔ بحران کے تسلسل کے امریکی اور یورپی اتحادیوں کے تجارتی استعمال، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پیٹرو ڈالر ڈپلومیسی کے ساتھ، آٹھ سالہ تباہی کے کٹاؤ کے مرحلے میں داخل ہونے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

6 اپریل 2014 سے جو کہ عرب امریکی اتحاد کی تشکیل اور یمن پر آپریشن "فیصلہ سازی کے طوفان" کے نتیجے میں شروع ہوا، کے بعد سے خطے کا یہ غریب ملک آج تک دنیا میں انسانی حقوق کا بحران کا بدترین حالات میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے اعلان کیا ہے کہ فوجی جارحیت کے آغاز سے اب تک گیارہ ہزار سے زیادہ یمنی بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق یمن میں آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا: ہزاروں بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لاکھوں دوسرے بچے قابل علاج بیماریوں یا بھوک سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 2.2 ملین یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 25 فیصد کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔ یونیسیف کے اس اہلکار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر بچوں کو ہیضہ، خسرہ اور دیگر ایسی بیماریوں کا خطرہ ہے جن سے حفاظتی ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں۔

یمن میں انسانیت کے خلاف جرائم کے 8 سال

جیسا کہ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے اعلان کیا کہ "یمن میں آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے"، یہ ایک حقیقت ہے اور منظم اور سنگین خلاف ورزیوں کی مختلف مثالوں کے باوجود۔ بین الاقوامی قانون، یمن میں انسانی ہمدردی، اس تباہی کے طول و عرض کو وسیع پیمانے پر شائع نہیں کیا گیا ہے۔

یمن میں 2015 سے جاری جنگ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت یمن کو انسانی حقوق کے بنیادی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں سعودی عرب کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی اور قحط، سعودی اتحاد کے جنگجوؤں کے ہاتھوں صحت کے مراکز کی تباہی اور متعدی بیماریوں کا پھیلاؤ، سکولوں اور تعلیمی سہولیات کی تباہی اور محرومی شامل ہیں۔ طلباء کی تعلیم سے محروم، میڈیا کارکنوں کی حراست اور ان پر تشدد، متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ فورسز کی طرف سے ان پر تشدد، سیاسی کارکنوں کی من مانی گرفتاری اور سعودی اور اماراتی افواج کی زیر زمین جیلوں میں قید، سلفی گروہوں کی طرف سے بے گھر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک، گرفتاری افریقی تارکین وطن اور انسانی اسمگلروں اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ قوتوں کے ذریعہ عصمت دری اور اسے سامنا ہے۔

نیچے دیے گئے خاکے میں یمن میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی جہتیں اور مثالیں بیان کی جائیں گی۔ جن جرائم پر انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں اور ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر ان سانحات پر آنکھیں بند کر چکے ہیں۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ یمن میں بے گناہ لوگوں کے قتل اور بنیادی ڈھانچے اور عوامی مقامات کی تباہی کے علاوہ اس ملک کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس نے قحط کا ایک پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔

چند روز قبل یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے نائب وزیر خارجہ حسین العزی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس ملک کا محاصرہ ایک جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔انھوں نے یمن کی ناکہ بندی کو بند کر دیا، گویا یہ جنگی جرم ہے۔

واضح رہے کہ یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی وزارت صنعت اور کانوں کے غیر ملکی تجارت کے محکمے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ 2015 سے 2021 کے آخر تک ملک کی بیرونی تجارت کو ہونے والے مجموعی نقصانات تقریباً 64.7 بلین ڈالر ہے۔

کون سے ممالک امن کے قیام میں رکاوٹ ہیں؟

کئی سالوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ سے جو میزائل خریدتے ہیں وہ آئے روز یمنی عوام پر گر رہے ہیں اور یہ تباہی تباہی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

یہاں تک کہ رمضان المبارک کے موقع پر طے پانے والے دو ماہ کے جنگ بندی معاہدے کی بھی سعودی اتحاد کی جانب سے ہفتے میں ایک ہزار سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کی گئی ہے، تاکہ اسی دوران یمنی فوج کا میڈیا یونٹ اعلان کیا: "سعودی اتحاد کی افواج نے جنگ بندی کے نفاذ کے پہلے ہفتے میں 1,647" یمن میں قائم انسانی اور فوجی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔

یمنی "المسیرہ" نیٹ ورک کی چند روز قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق، جارح سعودی اتحاد کی افواج نے یمن کے شہر الحدیدہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 128 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جن میں سے 6 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔ مغربی ساحل پر ہیز کے علاقے پر جاسوس طیاروں کی پروازیں یمن اور اس کے علاوہ توپ خانے کے حملوں کے ذریعے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے 33 اور مختلف گولیوں سے خلاف ورزی کے 80 واقعات سامنے آئے ہیں۔

عربوں کو ہتھیاروں کی فروخت سے امریکہ کا بھرپور منافع یمن میں جرائم کے خاتمے کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ یمن کی تحریک انصاراللہ امریکہ، برطانیہ اور سعودی اتحاد کو یمن میں امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔

حال ہی میں یمن کی تحریک انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن "علی الخوم" نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا: "یہ امن کے لیے کھلا ہے، اور اس کے سامنے رکاوٹ پیدا کرنے والا امریکہ، انگلینڈ اور ان کے سعودی اور اماراتی نمائندے، جو جارحیت کو روک کر اور ناکہ بندی ہٹا کر ہوائی اڈے اور بندرگاہیں کھولنے اور عملے کی تنخواہیں تیل اور گیس کی آمدنی سے ادا کرنے جیسے انسانی مسائل کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: یمن میں امریکہ کا دوہرا معیار واضح ہے۔ اس طرح کہ یوکرین میں وہ امن اور مذاکرات کو بنیادی بنیاد کے طور پر سمجھنے کے لیے انخلاء کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن یمن میں امریکہ کا موقف مختلف ہے اور وہ جارحیت کو روکے بغیر جبر اور جارحانہ اقدامات جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔

یمن میں امن کے حصول کی راہ میں مغرب کی رکاوٹیں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ اگر یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ اگر جنگ 2030 تک جاری رہی تو یمن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 300 ہزار تک پہنچ جائے گی؛ ایک حقیقت جس پر یونیسیف اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے اداروں کو توجہ دینی چاہیے اور ان کا ردعمل صرف بیان اور شماریاتی رپورٹ شائع کرنے کی سطح پر نہیں ہونا چاہیے۔

.taghribnews