
سلیمانی
جناب هاجر
گرم ہوا چل رہی تھی اور ہاجرہ کا معصوم فرزند اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا ادھر ماں اطراف خانہ کعبہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑرہی تھی۔ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سرگرداں و حیران ہاجرہ جب بھی دور سے بیایان کی طرف دیکھتیں تو انہیں پانی کا چشمہ نظر آتا تھا لیکن جب قریب پہنچتیں تو وہ سراب نکلتا ہاجرہ سات مرتبہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں مگر انہیں پانی میسر نہ ہوا لیکن پروردگارعالم نے ان کی سعی و کوشش کو ضائع نہیں کیا بلکہ اس کا اجر انہیں عظیم طریقے سے دیا ۔جب آپ تھک ہار کر اسماعیل کے قریب پہنچیں تاکہ انہیں بہلائیں تو اچانک ان کی نگاہ اس چشمے پر پڑی جو اسماعیل کے پیروں تلے جاری تھا آپ فورا سجدہ شکر بجا لائیں اور حضرت ابراہیم کی دعا کے بارے میں سوچنے لگیں کہ انہوں نے بیایان میں چھوڑ کر جاتے وقت انہیں اور اسماعیل کو خدا کے سپرد کیا تھا اور خداسے دعا کی تھی کہ خدایا لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ دے اور پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرلیا تھا اور پھر یہی چشمہ آب ” زمزم ” کے نام سے مشہور ہوگیا ۔
تاریخ انسانیت میں بہت سی ایسی خواتین گذری ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیتوں ، تقوی و ایمان ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی ہے۔انہیں عظیم و گرانقدر خواتین میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادر گرامی جناب ہاجرہ ہیں اگر چہ ابتدائی دور میں وہ قصر میں ایک کنیز کے عنوان سے زندگی بسر کررہی تھیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی کی خواہشمند نہ تھیں کیونکہ ان کا دل معنوی اور الہی جلوؤں سے سرشار تھا اسی لئے آپ دنیاکی زرق و برق سے بیزار تھیں وہ دنیا کی فریبی اور فانی چمک دمک کو معنوی درجات کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتی تھیں گویا اس مادی زندگی سے نکلنے کے لئے لمحات شمار کررہی تھیں اور ایک دن ان کی امیدوں میں بہار آگئی اور ان کے نصیب جاگ اٹھے اور انہیں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھروالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اور پھر انہیں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم کی شریک حیات بننے کا موقع بھی نصیب ہوا آپ اپنے شوہر نامدار کی پاکیزہ زندگي کی پیروی کرتے ہوئے ہدایت و کامرانی کی اعلی منزلوں پر فائز ہوئیں۔
جناب ہاجرہ ایک متقی و پرہیزگار ، سیاہ فام کنیز تھیں کہ جنہیں مصر کے ایک حاکم نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو بطور تحفہ دیا تھا ۔ جناب سارہ جو بے اولاد اورحضرت ابراہیم کے وارث نہ ہونے کی بناء پر مضطرب و پریشان تھیں انہوں نے حضرت ابراہیم سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس متقی و پرہیزگار کنیز سے شادی کرلیں اور پھر اس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش کا احترام کرکے ہاجرہ سے عقد کرلیا اب ہاجرہ ایک کنیز نہ تھیں بلکہ وہ اللہ کے خلیل ابراہیم کی شریک حیات بن چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کا سکون و سہارا بن گئیں۔ وقت گذرتا رہا ، ہاجرہ کے یہاں ایک معصوم بچہ پیدا ہوا حضرت ابراہیم نے اس کا نام اسماعیل رکھاایک دن جناب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہاجرہ اور ان کے فرزند کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیں ۔
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو وحی فرمائی کہ اسماعیل اور ان کی ماں کو شام سے باہر لے جائیں حضرت ابراہیم نے کہا “خدایا میں انہیں کہاں لے جاؤں ؟” ارشاد ہوا اے ابراہیم انہیں امن و امان کی جگہ یعنی میرے حرم اور کرہ ارض کے پہلے مرکز پر لے جاؤ جسے میں نے خلق کیا ہے اور وہ مکہ ہے حضرت ابراہیم نے پیغام وحی الہی اور اس بے آب و گیاہ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے اور اسماعیل کے محل سکونت کے بارے میں ہاجرہ کو خبر دی ہاجرہ جو اس سے پہلے سرسبز وشاداب اور بہترین آب وہوا سے سرشار سرزمین پر رہ چکی تھیں بغیر کسی چوں چرا کے مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے شدید مصیبت و آلام کی وادی میں قدم رکھنے پر راضی ہوگئیں جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ میں صبر واعتماد کا مشاہدہ کیا تو ان کے خلوص و اعتماد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سرزمین مکہ پر پہنچے تو وہاں ایک درخت موجود تھا جناب ہاجرہ نے اپنی عبا اس درخت پر ڈال دی اور اپنے بچے کو اس کے سائے میں لے کر بیٹھ گئیں جب حضرت ابراہیم نےوہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا : اے ابراہیم آپ ہم لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ کر جارہے ہیں جہاں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ ہی کو ئی مونس و ہمدم بلکہ یہ تو ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے ؟ ابراہیم نے کہا ” جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو یہاں چھوڑ دوں وہی خدا تمہاری مشکلیں آسان کردے گا ” ابراہیم نے اتنا کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنی بیوی اور معصوم بچے کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ ذی طوی پر پہنچے تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا کی ” پروردگارا میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔” ( ابراہیم :۳۷)
اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔” (بقرہ :۱۵۸)
ہاجرہ اور اسماعیل سرزمین وحی پر رہنے لگے ہاجرہ معنویت و پاکیزگی میں اس درجے پر فائز تھیں کہ ایسے حالات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار عالم کا وعدہ بر حق ہے اور فرشتہ وحی نے جس چیز کی خبر دی ہے کہ نسل ابراہیمی میں اضافہ ہوگا تو وہ یقینا پورا ہوگا کسی طرح رات گذری اور صبح ہوگئی اسماعیل کو شدید پیاس لگی اور ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ادھر پروردگار عالم نے اسماعیل کے قدموں تلے چشمہ جاری کردیا جو ہزاروں برس گذرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح جاری اور رحمت الہی کی عظیم نشانی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پرندے ، جانور اور مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے اطراف میں رہنے لگے اور ہاجرہ اور اسماعیل سے مانوس ہو گئے جب حضرت ابراہیم ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں آباد ہوگئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
روایات کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم اور ان کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ابراہیم ، کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور اسماعیل کوہ ذی طوی سے پتھر لاتے تھے اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی تعمیر کرچکے تو جناب ہاجرہ نے اپنی عبا کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردی “
جناب ہاجرہ فضائل و کمالات کے اعلی مقام پر فائز تھیں وہ حلیم و بردبار ، متقی و پرہیزگار، مادیات سے مبرہ اور صرف خالق کائنات سے لو لگائے تھیں اسی وجہ سے آپ نے وطن اور شوہر سے دوری اور ہر طرح کی سختی و آلام کو برداشت کیا اور اپنے معصوم بیٹے اسماعیل کے ساتھ برسہا برس زندگی بسر کی ۔ہاجرہ نے پرودگار عالم کے خاص بندے اور اس کے پیغمبر کی اپنے آغوش عطوفت میں پرورش کی اس دوران حضرت ابراہیم کبھی کبھی انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کا کوئی مونس و ہمدم بھی نہ تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ہاجرہ کی لیاقت و صلاحیت دیکھتے ہوئے جناب اسماعیل کی تربیت کی ذمہ داری کہ جو مشیت الہی تھی کہ انہی کی ذریت طاہرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوں گے انہیں سپرد کردی جناب ہاجرہ نے اپنے فرزند کی تربیت و پرورش بڑے ہی اچھے طریقے سے کی ۔ حضرت اسماعیل ابھی جوانی کی تیرہویں بہار ہی میں تھے لیکن معرفت الہی میں اس قدر غرق تھے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے بارے میں حکم پروردگار سنایا تو اسماعیل نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔خداوند عالم سورہ صافات کی آیت نمبر ایک سو دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اسماعیل نے اپنے بابا کو مخاطب کرکے کہا: بابا آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے”
اگر اسماعیل نے امر الہی کو ہر چیز پر مقدم کیا تو یہ ان کی ماں جناب ہاجرہ کی صحیح تربیت کی بہترین دلیل ہے ۔
جناب ہاجرہ راہ خدا کی وہ عظیم مسافر ہیں جنہوں نے مصر سے فلسطین اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کی اور اس دوران بہت زیادہ اور ناقابل تحمل سختی و پریشانی سے دوچار ہوئیں یہاں تک کہ خدا پر ایمان و عقیدہ راسخ کے ساتھ اپنے بیٹے اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ان کی سعی وکوشش ، شعائر الہی کا جزء اور واجبات حج کے اعمال کا ایک اہم حصہ قرارپائی اور وہ چشمہ جو ان کے فرزند اسماعیل کے پیروں کے نیچے جاری ہوا تھا وہ لوگوں کے قلوب کے لئے شفا اور نجات دہندہ قرار پایا ۔
خلاصہ یہ کہ پروردگار کی کنیز خاص ہاجرہ اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور انہیں جوار خانہ خدا میں دفن کردیا گیا جب کہ یہ امر بھی مشیت الہی سے انجام دیا گیا تھا تاکہ قیامت تک تمام خداپرست افراد اور طواف خانہ خدا کرنے والے اس عظیم کنیز کے ایثار و جذبے اور خدا پر توکل واطمینان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جان لیں کہ خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی و پرہیزگار ہو چنانچہ پروردگارعالم سورہ حجرات کی تیرہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”
مزاحمتی گروہوں نے جدید میڈل ایسٹ کا نقشہ بدل دیا
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے جدید اپ ڈیٹ کے تناظر میں کہا کہ جولائی 2006 کی جنگ کے اہم نتائج میں سے ایک لبنان اور صیہونی وجود کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔
سید نصراللہ نے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کومخاطب کرتے ہویے کہا: آپ لبنان کو دھمکی دے رہے ہیں جب کہ آپ کی فوج ناکہ بندی ہونے کے باوجود غزہ میں چند میٹر آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔
سید نصراللہ نے صیہونی وزیرِ دفاع گانٹز کو کہا: بیروت، سیڈون اور صور پر حملہ کرنے کی آپ کی دھمکی کھوکھلی ہے۔
عید غدیر…۔۔ تمدنی پھلو
تمدن یعنی مل جل کر رھنا، تعلقات انسانی کو نبھانا۔ تخلیق کائنات سے ھی اللہ تعالٰی نے کائنات کی تمام مخلوقات کو جوڑا جوڑا خلق فرما کر ایک تمدنی مرکز قائم کیا اور آدم (ع) کو اسی کی مرکزیت عطا کی۔
لھذا ایک مسلمان اپنے تمدن و فرھنگ میں مطلق العنان نھیں ہے بلکہ وہ اپنے خالق کی رھنمائی کا محتاج ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے اپنے خاص لطف سے انسان کی عملی رھنمائی کے لئے حضرت آدم (ع) کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔ پس اس سے معلوم ھوا کہ ابتداء انسان سے لے کر ھر دور میں چاھے ایک مختصر سا گروہ ھی سھی، مگر اس کی ھدایت و رھنمائی کے لئے خدا نے ایک نمونہ عمل خلق کیا ہے۔
یاد رھے کہ خدا کی یھی سنت حضرت آدم (ع) سے لے کر حضرت خاتم (ص) کے نظام ھدایت میں جاری و ساری رھی۔ حتٰی کہ ھر زمانے میں خداوند متعال نے جو بھی نبی مبعوث کیا، حتماً اسکے کے بعد اس کے لئے اس کا جانشین بھی قرار دیا، تاکہ اس نبی کے بعد اسکی امت بے وارث و بے یار ومددگار نہ رھے۔
خداوند متعال کی یہ روش فقط سابقہ ادیان کے ساتھ مخصوص نھیں تھی، بلکہ اس کی یہ سنت اسلام میں بھی کارفرما ہے اور ایسا ھرگز نھیں ہے کہ خدا کی یہ سنت باقی ادیان میں تو ھو، مگر دین اسلام میں یہ سنت باقی نہ رھی ھو، بلکہ جانشین و رھبر کی جتنی ضرورت حضرت خاتم (ص) کے بعد کے زمانے کو تھی، شاید ھی ایسی ضرورت کسی اور زمانے میں پیش آئی ھو، کیونکہ حضرت خاتم (ص) کے بعد دین کے اکمال کا مرحلہ تھا۔ کیونکہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ھونے کے ناطے عالمگیر حاکمیت کا بھی خواھاں ہے اور جب اسلام نے انسان کی رھبری کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کے قوائد و ضوابط کے نفوذ کے لئے ایک مرد کامل موجود ھو۔
اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ناقص کسی کامل کا انتخاب نھیں کرسکتا تو پھر یہ کسے ممکن ھوسکتا ہے کہ وہ انسان کہ جو خود ھدایت و رھنمائی کے محتاج ہیں، وہ اپنے لئے کسی مناسب ھادی و رھنما کا انتخاب کریں اور اگر ایسا ھوتا بھی تو یہ ھرگز ممکن نھیں تھا کہ چند افراد کے انتخاب پر تمام امت کا اتفاق ھوتا، کیونکہ فطرتاً ھر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔
لھذا اس بناٗ پر امت میں بعد از رسول (ص) رھبر و جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری یا تو خود رسول اکرم (ص) کے ذمہ تھی یا پھر حاکم شارع خود خداوند متعال کے ذمہ۔ جبکہ صاحبان قرآن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے نہ ھی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ھی کبھی اپنی مرضی سے کوئی کلام کیا۔ لھذا اس بنا پر فقط ایک ذات یعنی ذات خدا وندی ھی ہے کہ جو بعد از رسول خدا (ص) انسانوں کے لئے مناسب رھنما کا انتخاب کرے۔
تاریخ سے آشنائی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں یہ کام خود خدا وند متعال نے ھی اپنے رسول (ص) کے توسط سے مقام غدیر خم میں انجام دیا کہ جس پر اکثر علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ اس پر قرآن کی صریح آیت (یاایھا الرسول بلغ ما انزل۔۔۔۔۔۔) دلالت کر رھی ہے اور وہ مسئلہ، مسئلہ رھبر و امامت ھی تھا کہ جس کی خاطر خداوند متعال نے اپنے حبیب سے اس لھجے میں بات کی کہ اے رسول (ص) اگر آپ نے یہ پیغام نہ پھنچایا تو گویا اپنی تمام رسالت کو انجام نھیں دیا اور یھی وہ حقیقت ہے کہ جس کو پھچاننے و سمجھنے میں امت مسلمہ نے خطا کی۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ وہ تمام واقعہ کہ جو مقام خم میں رونما ھوا، آیا کیا وہ تمام کا تمام اتفاقی تھا؟ اور اس واقعہ سے پھلے رسول خدا (ص) کا تمام علاقائی و قبائلی سرداروں کو خطوط لکھ کر اس سال حج کی دعوت دینا، آیہ غدیر کا نازل کا ھونا، مقام خم میں اگلوں کو پیچھے جبکہ پچھلوں کا انتظار کرنا، کیا یہ سب اتفاقی تھا؟ پھر ایک بڑے انتظام کے بعد گرمی کی اس شدت میں، پھلے اپنی ولایت کا اقرار لینا اور پھر علی کو بلند کرکے لوگوں کے سامنے لانا، کیا یہ سب فقط اس لئے تھا کہ رسول خدا (ص) فقط یہ بتانا چاھتے تھے کہ "جس جس کا میں دوست ھوں، آج سے علی بھی اسکے دوست ہیں؟ اور پھر موقع پر تمام صحابہ اکرام (رض) کا علیؑ کو مبارک دینا، کیا دوستی کے سبب تھا؟
لمحہ فکریہ ہے کہ انتے سال گزرنے کے باوجود بھی امت مسلمہ نے غدیر کو اس زاویے سے کیوں نہ سوچا۔ اس کے دو سبب ھوسکتے ہیں یا تو واقعہ غدیر امت مسلمہ کی نظر مورد اھمیت ھی نھیں یا پھر آج تک غدیر کے معاملے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے۔
تحریر: اشرف سراج گلتری
ایرانی انیمیشن The sprayer کو امریکی میلے کی بہترین شارٹ فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا
ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی مرکز برائے بچوں اور نوعمروں کی فکری نشو ونما نے کہا ہے کہ امریکہ میں منعقدہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول کے جیوری نے جون مہینے کی بہترین شارٹ فلم کے شعبے کے خصوصی ایوارڈ کو ایرانی ساختہ انمیشین The sprayerکو دے دیا۔
انڈیکس فلم فیسٹیول ہر مہینے میں دنیا کی منتخب فلموں کے درمیان نومینیٹس اور فاتحوں کا اعلان کرتا ہے۔
اس میلے کے ہر دور میں دو اصل فاتح (تمام سیکشنز کے درمیان منتخب شدہ) کیلئے بطور بہترین شارٹ فلم اور غیر ملکی زبان میں بہترین شارٹ فلم کے علاوہ دو خصوصی ایوارڈز کا تعین کیا جاتا ہے۔
انیمیشن The sprayer کی کہانی ایک ایسی سرزمین کے بارے میں ہے جس میں ہر قسم کے پھول اور پودے اگانے پر پابندی ہے اور سپرے کرنے والی نامی فوج وہ پودے اور ان افراد جن کی حفاظت کرتے ہیں، کو شکار کرنے پر ذمہ دار ہیں۔ کہانی میں سائنس فکشن کا ماحول ہے اور اس میں کھنڈرات کے مقابلے یوٹوپیا ہیں؛ اس کھنڈارت کے ماحول میں کوئی روشن مستقل کا تصور نہیں کیا جا سکتا تا ہم ایک فوج کی ایک پودے سے ملاقات سے اس کی زندگی کا راستہ بدل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول 19 اگست 2022 کو اپنے حتمی فاتحین کا اعلان کرے گا۔
بائیڈن کے علاقائی دورے کا تلخ پھل بغاوت، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے: نائب ایرانی وزیر خارجہ
تہران، ارنا – نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے مغربی ایشیا نے کہا ہے کہ بائیڈن کے علاقائی دورے کا تلخ پھل بغاوت، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔
یہ بات محمد صادق فضلی نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں کہی۔
انہوں نے جو بائیڈن کے دورہ مغربی ایشیائی کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سفر کا تلخ پھل بغاوت، فتنہ، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔
فضلی نے کہا کہ بائیڈن کے اس بدقسمت قدم کا مقصد کینسر زدہ حکومت(اسرائیل) جو خطے میں تمام بد امنی اور خطرات کی جڑ ہے ، کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے فتح اسلامی مزاحمت کے لیے ہوگی۔
قربانی اور ہم
|قال امیر المومین علی ابن ابیطالب علیہما السلام : لَيُغْفَرُ لِصَاحِبِ اَلْأُضْحِيَّةِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا
ترجمہ : قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو صاحب قربانی کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔
قربانی کا لغوی معنی ۔فدا کرنا ، نثار کرنا اور نزدیک ہونے کے ہیں ۔اور اصطلاح میں قربانی یعنی انسان خدا سے قریب ہونے کے لئے اپنی کسی پسندیدہ چیز کو اسکی راہ میں فدا کردے ۔
قربانی ایک ایسا وسیع مفہوم ہے جسکے بہت سارے مصادیق ہیں اُن میں سے ایک دس ذی الحجۃ کو کسی جانور کا ذبح کرنا ہے جو حاجیوں کے لئے واجب اور غیر حاجیوں کے لئے مستحب تاکیدی ہے ۔ زمین پر سب سے پہلی قربانی جو تقرب خدا کے لئے دی گئی تھی قابیل و حضرت ھابیل علیہ السلام کی قربانیاں تھیں جن میں سے خداوندمتعال نے حضرت ھابیل ؑ کے خلوص اور انکے تقوی کیوجہ سے اُنکی قربانی کو قبول فرمایا جیسا کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ ۖ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ۔ آیت ۲۷)( ترجمہ : اے رسول (ص)! تم ان لوگوں سے آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کا سچا قصہ بیان کردو کہ جب ان دونوں نے خدا کی درگاہ میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک ( قابیل) کہ نہ قبول ہوئی تو حسد کے مارے ( ہابیل) سے کہنے لگا میں تو تجھے ضرور مار ڈالوں گا اُس نے جواب دیا کہ ( بھائی ) اس میں اپنا کیا بس ہے خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے ۔ ترجمہ فرمان علی صاحب
اسی طرح طول تاریخ میں یہ عمل سلسلہ وار چلتے ہوئے خلیل خدا حضرت ابراھیم علیہ السلام تک پہونچا اور آپ کو خداوندمتعال کی طرف سے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
فلمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی ۚ قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ (صافات، آیت ۱۰۲) (ترجمہ : ہم نے اُن کو بڑے نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی پھر جب اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگا تو (ایک دفعہ) ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹا ! میں خواب میں (وحی کے ذریعہ کیا) دیکھتا ہوں کہ میں خود تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرو کہ اس میں تمہاری کیا جائے ہے ، اسماعیل علیہ السلام نے کہا بابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اسکو ( بی تامل) کیجئے اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پائے گا ۔فرمان ۔۔
دور جاہلیت میں قربانی دینے کا انداز یہ تھا کہ وہ لوگ جب کسی جانور کی قربانی دیتے تھے تو اسکے خون کو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لگاتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ قربانی میں جانور کا گوشت و خون وغیرہ خدا تک پہونچتا ہے لہٰذا خدا نے قرآن میں اس طرح کے اعتقادات و تصورات کو غلط قرار دیتے ہوئے تقوی اور خلوص عمل کو قربانی کا اصل مقصد قرار دیا اور فرمایا کہ خدا سے قریب ہونے کا معیار تقوی ہے جو جتنا زیادہ خدا کی معرفت اور خوف خدا اپنے دل میں رکھتا ہوگا اتنا ہی وہ خدا سے قریب ہوتا جائےگا ۔
لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِن یَنَالُهُ التَّقْوَی مِنکُمْ ۔ اور تقوی جس طرح قربانی کی قبولیت کی شرط ہے اسی طرح تمام اعمال کی قبولیت کی بھی شرط ہے اور بغیر تقوی کے کوئی بھی عمل بارگاہ خدا میں قابل قبول نہیں ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ، آیت ۲۷) (ترجمہ : خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے لہٰذا ہمیں اور بالخصوص وہ افراد جنہیں خدا نے قربانی دینے کی توفیق دی ہے چاہیے کہ جانور کے ذبح کے وقت اپنی نیت پر توجہ دیتے ہوئے خدا کی راہ میں اس نیک کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے کر تقرب الٰہی حاصل کریں اور مقصد قربانی سے غافل ہوکر ذاتی مفاد میں گم نا ہوں لہٰذا مقصد قربانی (جو کہ خدا کی مرضی حاصل کرنا اور کمالات کی بلند ترین منزلوں کو طے کرنا ہے ) کو ذھن میں رکھتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کی راہ میں فدا کرنے کا جذبہ پیدا کریں یہ پسندیدہ چیز چاہے مال ہو ، چاہے وہ اولاد اور چاہے وقت آنے پر جان کی قربانی ہی کیوں نا ہو ، اُسی مقصد کے لئے جب انسان خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیتا ہے تو خدا اُسے ذبحِ عظیم سے تعبیر فرماتا ہے اور انسان اگر قربانی کو اس کے تمام مفاہیم کے ساتھ عملی طور پر دیکھنا چاہے تو کربلاء کے شہداء علیہم السلام کی قربانیاں دیکھ لے ۔
قربانی کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ انسان معاشرہ میں موجود تنگدست ، ضرورت مند اور مساکین کا خیال رکھتے ہوئے انہیں قربانی میں سے حصہ دے اور ان کی زندگی کے تمام حالات میں اُن کا ساتھ دے کر اللہ کی خوشی حاصل کرے اور اُسی بات کی طرف قرآن و روایات میں کثرت کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے ۔
فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ (حج۔ آیت ۲۸)۔
( تم لوگ ( قربانی کے گوشت ) خود بھی کھاو اور بھوکے محتاج کو بھی کھلاو۔ ترجمہ فرمان صاحب
فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (حج، آیت ۳۶)۔ ( ان میں سے تم خود بھی کھاو اور قناعت پیشہ فقیروں اور مانگنے والے محتاجوں کو بھی کھلاو ۔ ترجمہ فرمان صاحب ۔۔
اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلام (ص) نے مجھے قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نےان کے حکم کے مطابق قربانی کے پورے گوشت یہاں تک کہ جانور کے چمڑے کو بھی فقراء کے درمیان تقسیم کیا۔ فَأَمَرَنِى فَقَسَّمْتُ لُحُومَها ثُمَّ امَرَنِى فَقَسَّمْتُ جَلالَها وَ جُلُودَها۔
پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ :۔اِنَّما جَعَلَ اللَّهُ الْأضْحَى لَيشْبَعَ مِنْهُ مَسَاكِيْنَكُمْ مِنَ اللَّحْم فَاطْعِمُوهم۔ ( ترجمہ : اللہ نے قربانی اس لئے رکھا ہے کہ اس کے گوشت کو تمہارے ضرورت مند بھائیوں کو کھلا کر شکم سیر کرو۔ )مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج ۱۰، ص ۱۱۰
پس مذکورہ آیات و روایات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی کے گوشت کو اپنے شکم سیری کے لئے رکھنے کے بجائے فقراء و پڑسیوں کا خیال رکھتے ہوئے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیئے۔ ۱۔ خود کے لئے ۔۲۔ فقراء کے لئے ۔۳۔ مومنین و پڑوسیوں کے لئے۔۔ یہی عمل انسان اگر ذاتی غرض و مفاد سے ہٹ کر خدا کی رضایت کے لئے انجام دے اور مستحق لوگوں تک اُن کا حق پہونچا کر اُن کے دلوں کو خوش کرے تو یہ حقیقت میں قربانی کہلایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی عمل تقوی اور خلوص سے خالی ہو اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انجام دے تو یہ قربانی نہیں ہوگی اور خدا ، رسول اور آل رسول علیہم السلام کی نگاہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عمل میں دکھاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو مقصدِ قربانی کے بالکل خلاف ہے اور قابل ثواب بھی نہیں ہے ۔
تحریر: ڈاکٹر سید نثار حسین ( حیدر آقا) صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین حیدرآباد
امت مسلمہ کو اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کی فکری غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی، علامہ امین شہیدی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے حج بیت اللہ اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ حج اور عید کے روحانی اور عظیم لمحات میں سے ایک اللہ سے دعا کرنا ہے کہ امتِ مسلمہ کو بیداری اور ابراہیمی قربانی کا شعور، امت کے رہنماؤں کو نمرودِ وقت کی شناخت اور سنتِ ابراہیمی کے مطابق اپنے اسماعیل کو قربان کرنے کا حوصلہ عطا کرے اور اسلام کے مشترکہ مفادات کے دفاع اور حفاظت کے لئے متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
علامہ امین شہیدی نے فلسفۂ حج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حج، اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر مخصوص شرائط کے ساتھ واجب قرار دیا گیا ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حج کے پس منظر میں موجود فلسفے کے مطابق اسےانجام دیں۔ حج کے دوران خدا تعالیٰ کے حکم مطابق حجاج کرام بہت سی حلال اشیاء سے خود کو روک دیتے ہیں؛ اس مشق کا مقصد خدا کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اسی طرح شیطان کو کنکریاں مارنے کا فلسفہ یہ ہے کہ کنکر مارنے والا ہر شخص شیطان کی شیطانیت سے برأت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی بیزاری یہی ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد تمام حجاج ابلیسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا آغاز اللہ کی اطاعت اور مظلوم انسانوں کی مدد سے کریں۔
امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ حج سے مراد خود کو شیطان کے شر سے آزاد کرنا ہے۔ اس کے بعد جب حجاج کرام کعبة اللہ کی طرف لوٹیں تو "لبیک اللھم لبیک” کہہ کر اس بات کا اعلان کریں کہ ہم اللہ کی طرف پلٹ آئے ہیں اور دوبارہ شیطان کی طرف نہیں جائیں گے۔
علامہ امین شہیدی نے امت مسلمہ کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ مسلمان حکمرانوں اور عوام کو مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کی فکری غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ مسلمان حکمرانوں کی اپنے ہم مذہب و ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ کے گھر میں ایک ساتھ نماز کی ادائیگی کافی نہیں۔ اسلام تہذیبِ نفس کا دین ہے، جو اللہ اور بندوں کے درمیان پاکیزہ رابطہ کو برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ کے گھر کی طرف آنے والے تمام انسان اللہ کے مطیع ہیں اور ظلم سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ امتِ مسلمہ کے مفادات کو اپنے اقتدار پر ترجیح دیں اور جہاں جہاں طاغوت نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے خلاف مسلمان عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ اگر مسلمان حکمرانوں نے امہ کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو حج جیسی اہم اور اجتماعی عبادت اصل روح سےخالی رہے گی۔
ایرانی حکومت کے ترجمان؛ بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی خاموشی تاریخ کی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی بہادری جہرمی" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پچھلے 27 سالوں میں اور ایسی دنوں میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو "موت کا راستہ" جس پر سلامتی علاقے کا نام رکھا گیا تھا، میں قتل عام کردیا گیا؛اب اسی جرم کے ملے گئے 50 نئے اجساد سپرد خاک کیے جائیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منظم یافتہ نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی سنگین خاموشی، کبھی بھی قوموں کی تاریخی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی۔
واضح رہے کہ جولائی 1995 کو سرب فورسز نے مشرقی بوسنیائی قصبے سربرینتسا کے آس پاس آٹھ ہزار سے زائد بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا اور اب اس جرم میں قربان ہونے والے 50 نئے اجساد مل گئے ہیں جن کی پہچان کے بعد سپرد خاک ہوجائیں گے۔
اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں کے نام میں ایگ الگ پیغامات میں؛ ایرانی اسپیکر نے عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "محمد باقر قالیباف" نے اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں سمیت دنیائے اسلام کے بعض مذہبی اور سیاسی شخصیات کے نام میں الگ الگ پیغامات میں ان کو عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ میں عیدالاضحی کی آمد پر سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔
قالیباف نے کہا ہے کہ عیدالاضحی؛ دنیاوی رشتوں کو ذبح کرنے، اللہ رب العزت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، عبادت کا شاندار مظہر، کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ اس عظیم دن کی برکت سے تمام اسلامی ممالک میں قیام امن اور استحکام برقرار ہوجائے گا اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔
ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ پارلیمانوں کے نمائندوں کے درمیان مشاورت اور گفتگو؛ دنیائے اسلام کے موجودہ مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی اور اس سلسلے میں ایرانی پارلیمنٹ باہمی تعلقات کی تقویت اور توسیع پر تعاون کیلئے اپنی تیاری کا اظہار کرتی ہے۔
قالیباف نے اسلامی ممالک کے اسپیکرز اور ان کے عوام اور حکومت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرلیا۔
سوئڈش کمپنی کا ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار ایرانی بچوں کیلئے پٹیوں کی فروخت سے انکار
ارنا رپورٹ کے مطابق، "احمد معصومی فرد" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ طبی سہولیات کی تیار کرنے والی سویڈش کمپنی، امریکی پابندیوں کا بہانہ کرکے ایران میں ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں کیلئے خاص پٹیوں کی فروخت کا انکار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معصوم فرشتہ (بیمار بچے) آئے دن انسانی حقوق کے دعویداروں کی آنکھوں کے سامنے سہتے ہیں۔ کیا یہ بچوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور انسانیت کیخلاف جرم نہیں ہے؟
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر "النا دوہان" نے مئی مہینے میں ایران کا دورہ کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مجھے ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں سے معلومات حاصل ہوا اور مجھ سے کہا گیا کہ ان کیلئے ضروری ادویات اور پٹیوں کی درآمد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں نے کہا ہے کہ ان کو امریکی پابندیوں کا شکار ہونے سے خوف ہے؛ ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ایران کیخلاف اٹھائے گئے اقدامات انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔