قربانی اور ہم

Rate this item
(0 votes)
قربانی اور ہم

|قال امیر المومین علی ابن ابیطالب علیہما السلام : لَيُغْفَرُ لِصَاحِبِ اَلْأُضْحِيَّةِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا

ترجمہ : قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو صاحب قربانی کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔

قربانی کا لغوی معنی ۔فدا کرنا ، نثار کرنا اور نزدیک ہونے کے ہیں ۔اور اصطلاح میں قربانی یعنی انسان خدا سے قریب ہونے کے لئے اپنی کسی پسندیدہ چیز کو اسکی راہ میں فدا کردے ۔

قربانی ایک ایسا وسیع مفہوم ہے جسکے بہت سارے مصادیق ہیں اُن میں سے ایک دس ذی الحجۃ کو کسی جانور کا ذبح کرنا ہے جو حاجیوں کے لئے واجب اور غیر حاجیوں کے لئے مستحب تاکیدی ہے ۔ زمین پر سب سے پہلی قربانی جو تقرب خدا کے لئے دی گئی تھی قابیل و حضرت ھابیل علیہ السلام کی قربانیاں تھیں جن میں سے خداوندمتعال نے حضرت ھابیل ؑ کے خلوص اور انکے تقوی کیوجہ سے اُنکی قربانی کو قبول فرمایا جیسا کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ ۖ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ۔ آیت ۲۷)( ترجمہ : اے رسول (ص)! تم ان لوگوں سے آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کا سچا قصہ بیان کردو کہ جب ان دونوں نے خدا کی درگاہ میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک ( قابیل) کہ نہ قبول ہوئی تو حسد کے مارے ( ہابیل) سے کہنے لگا میں تو تجھے ضرور مار ڈالوں گا اُس نے جواب دیا کہ ( بھائی ) اس میں اپنا کیا بس ہے خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے ۔ ترجمہ فرمان علی صاحب

اسی طرح طول تاریخ میں یہ عمل سلسلہ وار چلتے ہوئے خلیل خدا حضرت ابراھیم علیہ السلام تک پہونچا اور آپ کو خداوندمتعال کی طرف سے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔

فلمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی ۚ قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ (صافات، آیت ۱۰۲) (ترجمہ : ہم نے اُن کو بڑے نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی پھر جب اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگا تو (ایک دفعہ) ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹا ! میں خواب میں (وحی کے ذریعہ کیا) دیکھتا ہوں کہ میں خود تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرو کہ اس میں تمہاری کیا جائے ہے ، اسماعیل علیہ السلام نے کہا بابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اسکو ( بی تامل) کیجئے اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پائے گا ۔فرمان ۔۔

دور جاہلیت میں قربانی دینے کا انداز یہ تھا کہ وہ لوگ جب کسی جانور کی قربانی دیتے تھے تو اسکے خون کو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لگاتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ قربانی میں جانور کا گوشت و خون وغیرہ خدا تک پہونچتا ہے لہٰذا خدا نے قرآن میں اس طرح کے اعتقادات و تصورات کو غلط قرار دیتے ہوئے تقوی اور خلوص عمل کو قربانی کا اصل مقصد قرار دیا اور فرمایا کہ خدا سے قریب ہونے کا معیار تقوی ہے جو جتنا زیادہ خدا کی معرفت اور خوف خدا اپنے دل میں رکھتا ہوگا اتنا ہی وہ خدا سے قریب ہوتا جائےگا ۔

لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِن یَنَالُهُ التَّقْوَی مِنکُمْ ۔ اور تقوی جس طرح قربانی کی قبولیت کی شرط ہے اسی طرح تمام اعمال کی قبولیت کی بھی شرط ہے اور بغیر تقوی کے کوئی بھی عمل بارگاہ خدا میں قابل قبول نہیں ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ، آیت ۲۷) (ترجمہ : خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے لہٰذا ہمیں اور بالخصوص وہ افراد جنہیں خدا نے قربانی دینے کی توفیق دی ہے چاہیے کہ جانور کے ذبح کے وقت اپنی نیت پر توجہ دیتے ہوئے خدا کی راہ میں اس نیک کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے کر تقرب الٰہی حاصل کریں اور مقصد قربانی سے غافل ہوکر ذاتی مفاد میں گم نا ہوں لہٰذا مقصد قربانی (جو کہ خدا کی مرضی حاصل کرنا اور کمالات کی بلند ترین منزلوں کو طے کرنا ہے ) کو ذھن میں رکھتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کی راہ میں فدا کرنے کا جذبہ پیدا کریں یہ پسندیدہ چیز چاہے مال ہو ، چاہے وہ اولاد اور چاہے وقت آنے پر جان کی قربانی ہی کیوں نا ہو ، اُسی مقصد کے لئے جب انسان خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیتا ہے تو خدا اُسے ذبحِ عظیم سے تعبیر فرماتا ہے اور انسان اگر قربانی کو اس کے تمام مفاہیم کے ساتھ عملی طور پر دیکھنا چاہے تو کربلاء کے شہداء علیہم السلام کی قربانیاں دیکھ لے ۔

قربانی کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ انسان معاشرہ میں موجود تنگدست ، ضرورت مند اور مساکین کا خیال رکھتے ہوئے انہیں قربانی میں سے حصہ دے اور ان کی زندگی کے تمام حالات میں اُن کا ساتھ دے کر اللہ کی خوشی حاصل کرے اور اُسی بات کی طرف قرآن و روایات میں کثرت کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے ۔

فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ (حج۔ آیت ۲۸)۔

( تم لوگ ( قربانی کے گوشت ) خود بھی کھاو اور بھوکے محتاج کو بھی کھلاو۔ ترجمہ فرمان صاحب

فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (حج، آیت ۳۶)۔ ( ان میں سے تم خود بھی کھاو اور قناعت پیشہ فقیروں اور مانگنے والے محتاجوں کو بھی کھلاو ۔ ترجمہ فرمان صاحب ۔۔

اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلام (ص) نے مجھے قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نےان کے حکم کے مطابق قربانی کے پورے گوشت یہاں تک کہ جانور کے چمڑے کو بھی فقراء کے درمیان تقسیم کیا۔ فَأَمَرَنِى فَقَسَّمْتُ لُحُومَها ثُمَّ امَرَنِى فَقَسَّمْتُ جَلالَها وَ جُلُودَها۔

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ :۔اِنَّما جَعَلَ اللَّهُ الْأضْحَى لَيشْبَعَ مِنْهُ مَسَاكِيْنَكُمْ مِنَ اللَّحْم فَاطْعِمُوهم۔ ( ترجمہ : اللہ نے قربانی اس لئے رکھا ہے کہ اس کے گوشت کو تمہارے ضرورت مند بھائیوں کو کھلا کر شکم سیر کرو۔ )مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج ۱۰، ص ۱۱۰

پس مذکورہ آیات و روایات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی کے گوشت کو اپنے شکم سیری کے لئے رکھنے کے بجائے فقراء و پڑسیوں کا خیال رکھتے ہوئے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیئے۔ ۱۔ خود کے لئے ۔۲۔ فقراء کے لئے ۔۳۔ مومنین و پڑوسیوں کے لئے۔۔ یہی عمل انسان اگر ذاتی غرض و مفاد سے ہٹ کر خدا کی رضایت کے لئے انجام دے اور مستحق لوگوں تک اُن کا حق پہونچا کر اُن کے دلوں کو خوش کرے تو یہ حقیقت میں قربانی کہلایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی عمل تقوی اور خلوص سے خالی ہو اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انجام دے تو یہ قربانی نہیں ہوگی اور خدا ، رسول اور آل رسول علیہم السلام کی نگاہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عمل میں دکھاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو مقصدِ قربانی کے بالکل خلاف ہے اور قابل ثواب بھی نہیں ہے ۔

تحریر: ڈاکٹر سید نثار حسین ( حیدر آقا) صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین حیدرآباد

حوزہ نیوز ایجنسی

Read 672 times