سلیمانی

سلیمانی

قال رسول الله صلى الله علیه و آله و سلم:لو يعلم العبد ما فى رمضان لو ان يكون رمضان السنة

رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر بنده «خدا» کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کیا ہے، (اور یہ کن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے) وه چاہتا کہ پورا سال ہی روزہ رمضان ہوتا.[1]

رمضان رحمت کا مہینہ۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلمو هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخرہ عتق من النار.

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:رمضان وہ مہینہ ہے جس کا آغاز رحمت، درمیانے ایام مغفرت اور انتہا دوزخ کی آگ سے آزادی ہے[2]

قرآن اور ماه مبارک رمضان۔
قال الرضا علیه السلام
من قرا فى شهر رمضان اية من كتاب الله كان كمن ختم القران فى غيره من الشهور.

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
جو شخص رمضان کے مہینے مین قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گویا اس نے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کی ہے[3]

*روزه کی اہميت۔*
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم فى الحَرِّ جہاد

رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: گرمی میں روزه رکهنا جہاد ہے[4]

مؤمنوں کی بہار۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: الشتاء ربيع المؤمن يطول فيه ليلہه فيستعين به على قيامه و يقصر فيه نهارہ فيستعين به على صيامه.

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سردیوں کا موسم مؤمن کی بہار ہے جس کی طویل راتوں سے وہ عبادت کے لئے استفادہ کرتا ہے اور اس کے چهوٹے دنوں مین روزے رکهتا ہے[5]

روزه بدن کی زكواة۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :لكل شيئى زكاة و زكاة الابدان الصيام.

رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زکواة ہے اور بدن کی زکاة روزه ہے[6]
روزه آتش دوزخ کی ڈهال۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم جنة من النار.

رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزه جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈهال کی حیثیت رکهتا ہے. «يعنى روزه رکهنے کے واسطے سے انسان آتش جہنم سے محفوظ ہو جاتا ہے[7].»

روزے کی جزا۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: قال اللہ تعالى الصوم لى و انا اجزى به

رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: روزہ میرے لئے ہے (اور میرا ہے) اور اس کی جزا میں ہی دیتا ہوں[8]

خوشا بحال صائمین۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :طوبى لمن ظما او جاع للہ اولئك الذين يشبعون يوم القيامة

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خوش بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے بهوکے اور پیاسے ہوئے ہیں یہ لوگ قیامت کی روز سیر و سیراب ہونگے[9]

طعام و شرابِ جنت نوش کرنے والے۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:من منعه الصوم من طعام يشتهيه كان حقا على اللہ ان يطعمه من طعام الجنة و يسقيه من شرابها.

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کو روزہ اس کی مطلوبہ غذاؤں سے منع کرکے رکهے خدا کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جنت کی غذائیں کهلائے اور انہیں جنیتی شراب پلا دے[10]

جنت اور روزہ ‏داروں کا دروازہ۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :ان للجنة بابا يدعى الريان لا يدخل منه الا الصائمون.

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے[11]

ماہ رمضان کی فضيلت۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:ان ابواب السماء تفتح فى اول ليلة من شهر رمضان و لا تغلق الى اخر ليلة منه

رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم فرمود: آسمان کے دروازے ماه رمضان کے پہلی رات کو کهلتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے[12]

روزه اور قيامت کی یاد دہانی۔
قال الرضا علیه السلام:انما امروا بالصوم لكى يعرفوا الم الجوع و العطش فيستدلوا على فقر الآخر.امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:لوگوں کو روزہ رکهنے کا امر ہؤا ہے تا کہ وه بهوک اور پیاس کے دکھ کو جان لیں اور اس طرح آخرت کی ناداری اور حاجتمندی کا ادراک کریں[13]

اعضا و جوارح کا روزه۔
عن فاطم‍‍ة الزهرا سلام الله علیها:ما يصنع الصائم بصيامه اذا لم يصن لسانه و سمعه و بصره و جوارحه.

حضرت زهرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:وه روزه دار جس نے اپنی زبان، کان، آنکھ اور اعضاء و جوارح کو (گناہوں سے) محفوظ نہیں رکها ہے اس کا روزه کس کام کا ، جس کی کوئی قیمت نہیں[14]

شب قدر کا احياء۔
عن فضيل بن يسار قال:كان ابو جعفر علیه السلام اذا كان ليلة احدى و عشرين و ليلة ثلاث و عشرين اخذ فى الدعاء حتى يزول الليل فاذا زال الليل صلى.

فضيل بن يسار کہتے ہیں:امام باقر (علیہ السلام) ماہ رمضان کے اکیسیویں اور تئیسویں کی راتوں کو دعا اور عبادت میں مصروف ہوجایا کرتے تهے حتی کہ صبح ہوجاتی اور جب رات گزرجاتی نماز فجر ادا فرمایا کرتے[15]

روزے کےفوائد۔
٭ روزے کے طبی فوائد میں سب سے اہم یہ ہے کہ روزے دار مختلف بیماریوں سے دور رہتا ہے۔

٭ کم کھانا اور کم سونا اس کے اندر رمضان کے علاوہ باقی مہینوں کے حوالے سے اہم تبدیلی پیدا کرتا ہے۔

٭روزے سے جسم میں کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ روزہ رکھنے سے صرف دو کھانوں کا درمیانی وقفہ ہی معمول سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔

٭ روزے سے انسانی نظام ہاضمہ کو آرام ملتا ہے اور جگر کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے جس سے وہ مزید فعال ہوجاتاہے۔

٭ روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔

٭ روزہ پھیپھڑوں کو آرام مہیا کرتا ہے اور اس سے پھیپھڑوں میں جما ہوا خون بھی صاف ہوجاتا ہے۔

٭ روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے یعنی معمول پر لاتا ہے۔

٭ روزہ سردرد، گھبراہٹ اور ڈپریشن دور کرتا ہے، اس سے طبیعت تازگی پیدا ہوتی ہے۔

٭ روزہ جسم کی اضافی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭ جدید تحقیق کے مطابق روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔

٭ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا ہے، آنکھوں کوروشن کرتاہے، بصارت کو تیز کرتا ہے۔
*روزے کے اثرات ۔*
مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جارہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے، جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر ازخود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جسم کے اندر میٹا بولزم (Metabolism) کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہو جاتی ہے، اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے، جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آجاتا ہے۔ دنیا میں اب یہ ایک مستند طریقہ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کا بلڈ پریشر کنٹرول ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہورہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کررہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میںطرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میں آجاتا ہے، جسم کے اندر ڈی ٹاکسی فکیشن (Detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے، جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعال ہوجاتا ہے، اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بڑھوتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات۔۔۔۔
[1]بحار الانوار، ج 93، ص 346

[2]بحار الانوار، ج 93، ص 342

[3]بحار الانوار ج 93، ص 346

[4]بحار الانوار، ج 96، ص 257

[5]وسائل الشیعة، ج 7 ص 302، ح 3

[6]الكافى، ج 4، ص 62، ح 3

[7]الكافى، ج 4 ص 162

[8]وسائل الشیعة ج 7 ص 294، ح 15 و 16 ; 27 و 30

[9]وسائل الشیعة، ج 7 ص 299، ح‏2

[10]بحار الانوار ج 93 ص 331

[11]وسائل الشیعة، ج 7 ص 295، ح‏31. معانى الاخبار ص 116

[12]بحار الانوار، ج 93، ص 344

[13]وسائل الشیعة، ج 4 ص 4 ح 5 علل الشرايع، ص 10

[14]بحار، ج 93 ص 295

[15]وسائل الشیعة، ج 7، ص 260،

تحریر :علی احمد بھشتی

ارنا رپورٹ کے مطابق، "محمد مہدی اسماعیلی" نے اتوار کے روز کو تہران میں تعینات پرتگال کے سفیر "کارلوس کوشتا نہوش" سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ اسلامی ثقافت اور مواصلات کی تنظیم میں بین الاقوامی ثقافتی تعلقات کی توسیع کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اس تنظیم کے نئے دور میں، ہم دوسرے ممالک کے ساتھ غیر ملکی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کریں۔

اسماعیلی نے ثقافتی سفارت کاری کو قوموں کے درمیان تعارف کا ایک اہم ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ثقافتی سفارت کاری قوموں کے درمیان آشنائی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور ایران اور پرتگال کے درمیان ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے سے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو وسعت ملے گی۔

انہوں نے تہران کے بین الاقوامی کتاب میلے کو ہمارے ملک کی ایک اہم ثقافتی تقریب کے طور پر ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس میلے میں ثقافت و فن سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد، ماہرین تعلیم، طلباء و طالبات اور مختلف عمر اور تعلیمی زمروں میں موجود ہیں۔

اسماعیلی نے تہواروں، کتابوں، موسیقی، ڈرامہ، سینما وغیرہ کے شعبوں میں مختلف نمائشوں میں ایران اور پرتگال کی موجودگی اور مشترکہ تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور پرتگال کے درمیان مشترکہ تعاون کے دیگر شعبوں میں دونوں ممالک کے عظیم شخصیات کے کاموں کا ترجمہ، تہواروں اور ثقافتی ہفتوں کا انعقاد ہے۔

ایرانی وزیر ثقافت نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعاون کے مشترکہ معاہدے کے مکمل نفاذ پر زور دیا۔

در این اثنا تہران میں پرتگالی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں اور ایران اور پرتگال کے درمیان قریبی تعلقات کی کئی صدیوں کی تاریخ ہے۔

انہوں نے ریاستوں اور قوموں کے درمیان تعلقات کی ترقی میں ثقافت کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ثقافت ریاستوں اور قوموں کے درمیان ایک مضبوط پل کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور اس کی ترویج اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو بھی فروغ دیتی ہے۔

تہران میں پرتگالی سفیر نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، فنی اور ادبی تعاون کی توسیع پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ فارابی سنیما فاؤنڈیشن کے ذریعے سنیما کے شعبے میں مشترکہ تعاون، دونوں ممالک کے ادبی کاموں کے تراجم اور زبان کا فروغ، ایران اور پرتگال میں ثقافتی اور فنی ہفتہ کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ ثقافتی تعاون کے موضوعات میں سے ہیں۔

تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے کہا ہے کہ صہیونی کی چھوٹی سی حرکت بھی ہماری مسلح افواج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

یہ بات سید ابراہیم رئیسی نے آج کی صبح ایرانی آرمی کے قومی دن (18 اپریل کو) کی مناسبت سے ایرانی انقلاب کے بانی  حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں منعقدہ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے صہیونی کی معمولی سی حرکت ہماری مسلح افواج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

ایرانی صدر نے مزید بتایا کہ اگر صہیونی رجیم ہمارے خلاف ذراسی بھی حرکت کرے تو ہماری مسلح افواج صیہونی حکومت کا مرکز کو نشانہ بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ  رہبر معظم انقلاب کے دو بازو کے طور پر ایرانی مسلح افواج اور سپاہ پاسداران کے درمیان بھائی چارہ، دوستی اور اتحاد منفرد اور بے نظیر ہے۔

صدر رئیسی نے ایرانی مسلح افواح کی بہت سی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ملک میں طاقت کا سب سے اہم جزو انقلابی لوگ ہیں۔آج ہماری عسکری صلاحیتیں نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں مشہور اور بے نظیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج نے پابندیوں سے فائدہ اٹھایا اور بااختیار بن گئی اور آج ہماری فوجی صنعت ملک میں بہترین حالت میں ہے لہذا ہمیں اپنی فوجی صنعت کو ملکی صنعتوں میں استعمال کرنا ہوگا۔

رئیسی نے بتایا کہ صیہونی حکومت کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو جان لیں کہ تمہاری ذرا سی حرکت بھی ہماری مسلح افواج اور ہماری انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہوگی ہے اور یہ بھی جاں لیں کہ آپ ہماری قوم کے خلاف ذرا سی حرکت کریں تو ہماری فوج صہیونی ریاست کی سرزمین کو نشانہ بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے آج دنیا کو جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ ہم ایران پر پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ میں شرمناک شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور یہ ان لوگوں کی سرنوشت ہے جو اسلامی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

ایرانی صدر نے دنیا کے تمام محروموں اور مظلوموں کے لیے پیغام یہ ہے کہ آج ہماری مسلح افواج ان کے لیے امید کی کرن ہیں کیونکہ مظلوم کو حمایت کرنا اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے اصولوں میں سے ایک ہے۔

پاکستانی صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں قائم ایرانی خانہ فرہنگ کے زیر اہتمام میں حضرت امام حسن (ع) کے یوم ولات کی مناسبت سے قرآن کریم سے انس کی محفل کا انعقاد کیا گیا جس میں شیعی اور سنی قارئین نے حصہ لیا تھا۔

کریم آل ابا امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر صوبہ بلوچستان میں واقع کوئٹہ میں اتحاد ویکجہتی اجتماع کا ایرانی خانہ فرہنگ کے زیر اہتمام میں انعقاد کیا گیا جس میں کوئٹہ کے ممتاز علمائے کرام، مذہبی مفکرین شیعی اور سنی قارئین اورمذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

اس روحانی اجتماع میں ایران کے قونصل جنرل "حسن درویش وند"، ہمارے ملک کے ثقافتی نمائندے کے سربراہ سید "حسن تقی زادہ وقفی" اور کوئٹہ کی متعدد مذہبی شخصیات، ممتاز قارئین بشمول نوجوان قارئین نے شرکت کی۔

اس شاندار اجتماع میں سنی اور شیعہ قراء کرام، مقیم ایرانیوں کی ایک جماعت اور روزہ دار مومنین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی قارئین نے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی۔

اس موقع پر کوئٹہ میں ایرانی خانہ فرہنگ کے سربراہ نے قرآنی علوم کے فروغ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی معاشروں میں اسلامی علوم کے فروغ کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم سب کو اپنی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں قرآن سے مدد حاصل کرنی ہوگی کیونکہ قرآن انسانیت کا بہترین ضامن ہے۔

اس تقریب کے آخر میں حفظ و قرأت کے شعبوں میں بہترین افراد کو انعامات سے نوازا گیا۔


دو دنوں سے دل بڑا رنجیدہ ہے، صیہونی فورسز مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ آور ہیں اور تمام حدیں پار کرتے ہوئے مسجد کے اصل کمپاونڈ جہاں نماز جماعت ہوتی ہے، وہاں داخل ہوگئی ہیں۔ نہتے نمازی اسرائیلی بربریت سے بچنے کے لیے بار بار مسجد کے ستونوں کی پناہ لے رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں دھواں بھرا ہوا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر مسلمان ایسا دیوار گریہ پر اسرائیلیوں کے ساتھ کرتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اسی طرح اگر مسلمان آرمی ویٹی کن پر قبضہ کرکے وہاں آنے والے مسیحی عبادت گزاروں کے ساتھ ایسا کرے تو مسیحی دنیا کیا ردعمل دے گی؟ اور تو چھوڑیں اگر بابری مسجد شہید کرکے زیر تعمیر رام  مندر پر کسی نے ہندووں یاتریوں کے ساتھ ایسا ظلم و تشدد کیا ہوتا تو اس وقت دنیا بھر کے ہندووں کا کیا ردعمل ہوتا۔؟ افسوس ہے کہ کسی ملک کے پرچم کو جلا دینے  پر جتنا ردعمل وہ ملک دیتا ہے، ہم نے بطور امت اتنا ردعمل اپنے قبلہ اول پر حملے پر بھی نہیں دیا۔ کیا اس سے دشمن کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے؟ کیا وہ مزید ظلم و جبر کا مظاہرہ نہیں کرے گا؟ اس نے پورے قدس شہر کی ڈیموگرافی ہی تبدیل کر دی ہے۔ وہ شہر جو غالب مسلم اکثریت کا شہر تھا، اب مشرقی بیت المقدس میں بھی مسلمان اقلیت میں جا رہے ہیں۔

زندہ قومیں اپنے مقدسات کے تحفظ اور اپنی میراث کے تحفظ سے پہنچانی جاتی ہیں۔ فرانس کے صدر اسرائیل کے دورے پر جاتے ہیں، جہاں اسرائیلی سپاہی ان کے ساتھ اس چرچ میں داخل ہوتے ہیں، جو صدیوں سے فرانس کی ملکیت ہے اور ترک زمانہ خلافت میں فرانس کو بطور تحفہ لوٹایا گیا تھا۔ فرانسی صدر اسرائیلی سپاہیوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ صدر میکخواں نے پولیس اہلکاروں پر اُن قواعد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جن کے تحت اسرائیلی پولیس اہلکاروں کا اُس چرچ میں داخلہ ممنوع ہے، جس کا وہ دورہ کر رہے تھے۔ صلیبی جنگوں کے زمانے کا سینٹ این نامی چرچ فرانس کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں وارننگ دیتے ہوئے کہا "آپ نے جو میرے سامنے کیا ہے، وہ مجھے پسند نہیں آیا۔ یہاں سے نکل جائیں، پلیز،" کسی کو مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا بلکہ 1996ء میں اِسی چرچ کا دورہ کرتے ہوئے فرانس کے اُس وقت کے صدر ژاک شیراک بھی اسرائیلی اہلکاروں پر برہم ہوگئے تھے۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں نے صدر شیراک کے ساتھ آنے والے فلسطینیوں، صحافیوں اور مشیروں کو باہر نکال دیا تھا۔

ایسا کیوں ہے؟ کیوں تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر فرانس کے صدور اسرائیل پر چڑھ دوڑتے ہیں؟ اس کی وجہ فرانس کی عزت نفس اور وہ روایت ہے، جس میں وہ اس چرچ کو فرانسیسی سرزمین قرار دیتے ہیں اور اس کے اندر کسی قسم کی ریاستی مداخلت کو فرانس میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ قومیں اسی سے پہچانی جاتی ہیں اور اسی کے ذریعے دنیا میں انہیں مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے۔ اسرائیل مسلمان عقیدتوں کے مراکز پر بار بار حملہ کرتا ہے اور ہر بار وہ معاشرتی تجربات کرتا ہے کہ اس پر مسلمانوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ دیکھیں ہمارے قبلہ اول پر حملہ ہوا، اس پر پوری امت نے کیا ردعمل دیا؟ یہ افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک ردعمل ہے۔ وہی فلسطینی جو اسرائیلی جبر کے نیچے ہیں، انہوں نے اسی دن اسی جگہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں جمعہ کی نماز میں شرکت کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اقصیٰ کے فرزند اور اس سرزمین کے سپوت ہیں، ہم اقصیٰ کی عزت کی حفاظت کریں گے۔ یہ مجبور و محکوم لوگ اتنا ہی کرسکتے ہیں۔

عمران خان صاحب اور ہمارے وزیراعظم محترم شہباز شریف نے ایک ایک ٹویٹ کرکے امت کی اس ذمہ داری سے بری ہوگئے؟ کیا اتنا کافی ہے۔؟ اللہ کے نبیﷺ سے منسوب یہ فرمان مشہور ہے، آپ نے فرمایا: "من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔" ایک اور حدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔" اب تو لگتا ہے کہ یہ فرامین بھی ہمارے اوپر اثر انداز نہیں ہوتے، ہم سنتے ہیں اور سن کر سن ہو جاتے ہیں۔ مسلمان تو دور کی بات ہے، ہم آزاد مرد بھی نہیں بنتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر  کوئی مرد حر ہوگا تو وہ جہاں ظلم دیکھے گا، اس کی مذمت کرے گا اور مظلوم کی مدد و نصرت کی کوشش کرے گا۔ ہم مفادات کے اس قدر اسیر ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ ظلم نظر ہی نہیں آتا۔

میں دو تین دنوں سے سوشل میڈیا اور ٹویٹر کو فالو کر رہا تھا کہ کہیں ہم قدس کے لیے بھی آواز بلند کرتے نظر آئیں، مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ صیہونی ریاست یہودیت کی نمائندہ ریاست نہیں ہے، یہ فاشسٹ صیہونی ریاست ہے، جو مسلمانوں کی نہیں، انسانوں کی دشمن ہے۔ وہ اہل ایمان کی عقیدتوں پر حملہ کرکے انسانیت پر حملہ کرتی ہے اور بار بار ایسا کرکے اسے ایک نارمل چیز بنانا چاہتی ہے۔ کہاں وہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنے کا سن کر پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں اور ایک لولی لنگڑی او آئی سی کھڑی کر دیں اور کہاں یہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں گولیاں چلائی جائیں اور مسجد سے دھویں کے بادل اٹھتے نظر آئیں اور اس پر نہ ہونے کے برابر ردعمل آئے۔؟ یہ عمل اسرائیل کے دھوکے میں آکر اس سے معاہدے کرنے والے نام نہاد عرب حکمرانوں کے لیے بھی پیغام کہ اسرائیلی امن ایسا ہی ہے، جس میں وہ آپ کے مقدسات کو آگ لگاتا رہے گا۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

تہران، ارنا - قرآن کریم کی 29 ویں نمائش کا اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر اور وزیر ثقافت اور اسلامی گا‏ئیڈنس کی موجودگی میں تہران میں افتتاح ہوا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور وزیر ثقافت اور اسلامی گا‏ئیڈنس محمد مہدی اسماعیلی کی موجودگی میں قرآن کریم کی 29 ویں نمائش منعقد ہوئی۔

قرآن مجید کی نمائشگاہ کے افتتاح کے بعد " قرآن کریم و امام کریم " کے عنوان سے بہت بڑا سمینار منعقد کیا جائےگا جس میں ملک بھر کے مختلف صوبوں کے قرآنی اور ثقافتی اداروں کے 200 ڈائریکٹر شرکت کریں گے۔

قرآن مجید کی 29 ویں نمائش مصلی امام خمینی (رہ) میں شروع ہوئی قرآن مجید کی نمائشگاہ کا سلسلہ آج 14 رمضان المبارک سے لے کر 27 رمضان المبارک  تک جاری رہےگا۔.

تہران، ارنا - بین الاقوامی سائنسدانوں کی نصف صدی سے زیادہ کوششوں اور ایٹمی توانائی کے چشم کشا فوائد کے بعد، یہ ایک ناقابل تردید مسئلہ ہے کہ ممالک کو اپنی سلامتی اور ترقی کی ضمانت کے لیے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا ہوگی۔

اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ ممالک کو ایٹمی توانائی کیوں حاصل کرنی چاہیے؟ اور زیادہ اخراجات اور غیر ملکی دباؤ کو دیکھتے ہوئے یہ کیوں معقول لگتا ہے؟
دنیا میں توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی منڈیوں میں عدم استحکام کے نتیجے میں، توانائی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور ممالک نے سلامتی کو برقرار رکھنے اور توانائی کے وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک وسیع مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ جیواشم کے وسائل ختم ہو رہے ہیں۔ لہذا، ممالک کو ایک متبادل تلاش کرنا چاہئے. جوہری معلومات کا حصول جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں خود کفالت تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے، جو دیگر علوم اور ٹیکنالوجیز میں بھی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح، ایران توانائی اور سلامتی کے میدان میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
عالمی جوہری ادارے (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے 2021 کے گلاسگو اجلاس کے موقع پر کہا کہ جوہری توانائی مستقبل میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور بین الاقوامی استحکام کو محفوظ بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
گروسی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فوکوشیما کی تباہی کے ایک دہائی بعد دنیا نے سیکورٹی کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، لیکن جوہری تنصیبات ہمارے مسائل نہیں ہیں، لیکن ضابطوں کی عدم پاسداری مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
فوکوشیما آفت ان واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو 11 مارچ 2011 کو 9 شدت کے زلزلے اور جاپان میں ایٹمی پاور پلانٹ اور مشینری میں خلل اور تابکار مواد کے اخراج کی وجہ سے سونامی کے بعد پیش آیا۔ ماہرین اس حادثے کو چرنوبل حادثے کے بعد سب سے بڑا جوہری سانحہ قرار دیتے ہیں اور اسے پیچیدگی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جوہری تباہی کا درجہ دیتے ہیں کیونکہ فوکوشیما پلانٹ کے تمام ری ایکٹر یکے بعد دیگرے پھٹ گئے جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ چرنوبل حادثہ بھی شمالی یوکرین میں سوویت یونین کے زیر ملکیت نیوکلیئر پاور پلانٹ میں حفاظتی ٹیسٹ کے دوران پیش آیا۔

- جوہری توانائی قابل اعتماد اور صاف
ماحولیاتی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کے ساتھ ساتھ جیواشم ایندھن کے استعمال نے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ لہذا، ماہرین مسلسل گلوبل وارمنگ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں.
گلوبل وارمنگ ایک ایسا رجحان ہے، جو زمین اور سمندروں کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے پر ختم ہوتا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 1990 سے 22007 کے درمیان 10 گرم ترین سال رونما ہوئے، یہ ایک رجسٹرڈ ریکارڈ ہے جس کی گزشتہ 150 سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹروجن مونو آکسائیڈ اور اوزون کے حوالے سے صورتحال بگڑتی ہے تو ماحول پر گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات واضح ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں نے گلوبل وارمنگ کے مسئلے میں اضافہ کیا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے بغیر، زمین کا اوسط درجہ حرارت منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوگا۔
گروسی نے ارجنٹائن کے اخبار لا ناسیون کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے، تمام ممالک سے زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 سے 2 ڈگری تک کم کرنے میں مدد کی توقع کی جاتی ہے، جو کہ صنعتی ہونے سے پہلے کا مثالی درجہ حرارت ہے، اور یہ ہدف جوہری توانائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کا اثر صفر فیصد تک کم کرسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2050 میں مقصد تک پہنچنے کے لیے، ہمیں اپنی مساوات سے صاف توانائی (جوہری توانائی) کو نہیں چھوڑنا چاہیے، بہت سے ماحولیاتی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری توانائی موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کا ایک مؤثر حل ہے۔
امریکہ میں 100 ری ایکٹر ہیں، جو 20 فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 30 ممالک جوہری توانائی کے مالک ہیں اور عالمی سطح پر 440 ری ایکٹر ہیں۔ ارجنٹائن کے پاس 6 دہائیوں سے تین ری ایکٹر ہیں، جو لاطینی امریکی ملک کو اس کی بجلی کی طلب کا 10 فیصد فراہم کرتے ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے مسائل
حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے حالیہ برسوں میں صاف یا قابل تجدید توانائیوں پر بہت توجہ دی ہے، جیواشم ایندھن کے متبادل کے طور پر جیوتھرمل، شمسی، ہوا، سمندری اور لہر توانائی بشمول صاف توانائی کو تجویز کیا گیا ہے۔
توانائی کے اس قسم کے وسائل کو پوری دنیا میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ مکمل طور پر موسمیاتی عوامل پر منحصر ہیں۔ لہذا، ایسی توانائیاں ہر جگہ اور ہر وقت قابل اعتبار نہیں ہوتیں۔ اگر کسی وجہ سے سورج کی روشنی کی مقدار کم ہو جائے تو خاطر خواہ بجلی فراہم نہیں کی جا سکتی۔ یا اگر ہوا کم چلتی ہے تو پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار کم ہو جائے گی۔
ایک اور مسئلہ ایسی صاف توانائیاں پیدا کرنے کا عمل ہے، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے، جب کہ جوہری توانائی ان قابل تجدید توانائیوں سے کہیں زیادہ صاف ستھری ہوتی ہے۔
اگرچہ جوہری توانائی کا طریقہ کار تابکار فضلہ پیدا کرتا ہے، لیکن ان فضلات کو ٹھیک ٹھیک کنٹرول کیا جا رہا ہے، لیکن فوسل فیول پر منحصر پاور پلانٹس گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں۔ جب جوہری پلانٹ کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو، تابکار فضلہ کو ری ایکٹر سے نکال کر محفوظ جگہ پر ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ فطرت میں تابکار اخراج کو روکا جا سکے۔
دوسرے لفظوں میں، ایٹمی توانائی دنیا میں توانائی کا سب سے صاف ذریعہ ہے۔

- جوہری توانائی کے فوائد اور استعمال
پچھلی نصف صدی میں جوہری ٹیکنالوجی کی ترقی نے صنعت، زراعت، طب اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانے میں مدد کی۔
جوہری ٹیکنالوجی طبی تشخیص کرنے، اربوں انسانوں کو کھانا کھلانے، جانوروں کو بہتر صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے میں مددگار ہے۔
ایٹمی ٹیکنالوجی کے بے شمار فوائد ہیں جیسے کہ بجلی پیدا کرنا، کینسر جیسی کئی بیماریوں کا علاج کرنا، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنا، اربوں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنا اور سائنسی اور صنعتی علم کو فروغ دینا۔
بہت اہم اقتصادی فوائد کے علاوہ، توانائی کی فراہمی، ادویات، سائنس، ماحولیاتی فوائد وغیرہ جو جوہری توانائی کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، جوہری ٹیکنالوجی، یہاں تک کہ اس کے پرامن پیمانے پر، موجودہ وقت میں سیکورٹی کے لحاظ سے ایک ناقابل تردید کردار ادا کرتی ہے۔ بین الاقوامی نظام وہ کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ممالک اپنے سیکنڈل کو بڑھانے کے لیے جوہری توانائی کے استعمال سے ٹیکنالوجی کی سیاست کو اہمیت دیتی ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جوہری ٹیکنالوجی کے مختلف جہتوں کے استعمال کے پیمانے سے انھیں بہتر سیکیورٹی کا تجربہ کرنے اور غیر ملکی خطرات کے خلاف کھڑے ہونے میں مدد ملے گی۔


ایران کی پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی
ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام 1950 میں شروع ہوا۔ اس کے بعد، یہ ملک 1958 میں IAEA میں شامل ہوا اور تہران نے 1968 میں عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دستخط کیے۔ تاہم، ایرانیوں کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں کچھ متعصبانہ رپورٹس کو امریکہ اور یورپی یونین کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ وہ مختلف ممالک پر پابندیاں لگا سکیں۔ ایران پر پابندیاں اس حقیقت کے باوجود کہ اس ملک کا IAEA سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون رہا ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے کے بعد مغربی طاقتوں نے پابندیوں کی پالیسی جاری رکھی جبکہ اسلامی جمہوریہ نے اپنے وعدوں کی پاسداری کی۔ مغرب نے دعویٰ کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کی نوعیت کے بارے میں فکر مند ہیں، جب کہ ایرانیوں نے واضح کیا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا پیچھا کرتے ہیں اور جوہری سرگرمیوں اور کسی بھی ایٹم بم کی تیاری کے درمیان تعلق کو مسترد کرتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا حصول اور استعمال حرام ہے۔ رہبر معظم نے 22 فروری 2021 کو ایک اجتماع میں فرمایا کہ اسلامی اصول اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی بھی قسم کے کیمیائی یا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے منع کرتا ہے، کیونکہ یہ عام لوگوں کے قتل عام کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جوہری ٹیکنالوجی کی 16ویں قومی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ پرامن جوہری توانائی سے استفادہ اور جوہری معلومات حاصل کرنے کا ایران کا حق ناقابل واپسی ہے۔
ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق ایک نمائش میں تین ریڈیو فارماسیوٹیکل، دو ریڈیو پلازما اور چار صنعتی کامیابیوں کی نقاب کشائی کی گئی۔
ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم 10 میگا واٹ جوہری توانائی پیدا کرنے اور دارخوین میں 360,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک آل ایرانی نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
بجلی، پانی، طبی استعمال اور زراعت میں جوہری ٹیکنالوجی کے تمام فوائد کے نتیجے میں، توانائی کو نظر انداز کرنا ممالک کے لیے ایک سٹریٹجک غلطی معلوم ہوتی ہے، جو ممالک کو مستقبل میں توانائی پر انحصار کی طرف لے جاتی ہے۔

تہران، ارنا – ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ مسلمانوں کو فلسطینی کاز کی حمایت میں متحد ہونا ہوگا۔

یہ بات سعید خطیب زادہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونی رجیم کے نئے جرائم اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی حکومت کے نئے مظالم شدید غم و غصے کا باعث ہیں اور ہم مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں۔

خطیب زادہ نے بتایا کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے صرف صہیونی جابروں کو تشدد میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے گی اور امت مسلمہ کو فلسطینی کاز کی حمایت میں متحد ہونا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ صہیونی فوج نے جمعہ کے روز مسجد الاقصیٰ کے صحنوں اور فلسطینی نمازیوں پر حملہ کرکے 344 فلسطینیوں کو زخمی کردیا۔

 

روایات کے مطابق جو سحر کے وقت بیدار ہوتا ہے اگر بغیر کسی سے بات کیے وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے تو دو صف میں فرشتے اسکے پچھے نماز ادا کرتے ہیں۔

 

ایکنا نیوز- رسول اکرم اکرم(ص) سے منقول ہے: «سحور (وقت سحرکی خوراک) کھانا برکت کا باعث ہے». ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے: «میری امت من هرگز سحور کو ترک نہیں کرے گی حتی اگر ایک کجھور ہی کیوں نہ ہو».

امام صادق(ع) فرماتے ہیں بہترین اوقات جسمیں تم خدا کو پکارتے ہو وہ سحر ہے، جیسے خدا کا ارشاد ہے: «وبالاسحارهم یستغفرون(سوره الذاریات، آیه 18)؛ مؤمنین سحر میں خدا سے استغفار طلب کرتے ہیں».

 

سحری کے اوقات میں رمضان مبارک کی بہترین دعائیں

رمضان المبارک میں ائمہ معصومین(ع) سے کافی دعائیں نقل کی گئیں ہیں جنمیں سے ایک دعائے «ابوحمزه ثمالی» ہے جو امام زین العابدین(ع) سے منقول ہے اور اسی طرح ایک دعائے «سریع‌الاجابه» ہے جو امام باقر(ع) سے نقل شدہ ہے۔

 رمضان میں نماز شب یا نافلہ شب پر خاص تاکید کی گیی ہے اور روایات میں کہا گیا ہے کہ مناسب ہے کہ رمضان کی راتوں میں نافلہ شب ترک نہ ہو۔

منبع: «كنز المرام في اعمال شهر الصيام»

* «كنز المرام في اعمال شهر الصيام» رمضان میں عبادات و اعمال کی خاص کتاب ہے جو سيدمحمد فقيه احمدآبادي(1919-1959 میلادی) نے  آيت‌الله سيدمحمد باقر موحد ابطحي اصفهاني کی زیر نگرانی تصنف کی ہے۔

 
 
ہر شخص ایک خاص نظریہ کے ساتھ دنیا کو دیکھتا ہے اور خدا کی تعریف کرتا ہے اب اگر کوئی شخص رسول اسلام(ص) کی تربیت شدہ ہو تو اسکا ایک خاص نظریہ ہوتا ہے۔

 

حسن بن علی رسول اسلام(ص) و علی بن ابی طالب کے تربیت شدہ ہیں اور معاشرے پر خاص توجہ فرماتے۔

تربیت نبوی(ص)، کا اثر تھا کہ وہ دنیا پر انکی گہری نگاہ تھی اور اس نکتہ نگاہ میں دنیا کی مشکلات خدا کی طرف سے ایک ہدیہ شمار کی جاتی ہے اور مشکلات انکی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتی اور وہ ہر حال میں اپنے کو کنٹرول میں رکھنے پر قادر ہوتا ہے۔

 

مثلا جب ایک شخص آپ کی مدح سرائی کرنا چاہتا ہے تو آپ فرماتے ہیں: «هر سپاس وحمد صرف اس خدا کے لیے مخصوص ہے کہ جس کے نہ آغاز سے ہم آگاہ ہے نہ اختتام سے۔ وہ قابل درک نہیں اور اس کی کوئی حد و محدود نہیں۔ وہ عقل و تصور میں جگہ نہیں ہوتا اور افکار میں اس کی گنجائش نہیں اور ذہین اس کے درک سے عاجز ہے۔ وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا ہے اور ہر چیز اس سے پیدا ہوا ہے۔

 

وہ عالم ہستی سے جدا نہیں، خلق کو اس نے پیدا کیا ہے ، وہ آغاز کنند ہے جس کا اغاز کیا ہے، بغیر کسی سابقہ کے اور جس کا ارادہ کیا انجام دیا، یہ ہے خدا بزرگ عالمین». (توحید اثر شیخ صدوق) شیخ صدوق اس کتاب میں مسئله توحید اور ذات پروردگار پر بحث کرتا ہے۔/

ایکنا نیوز- امام حسن مجتبی(ع) نواسہ رسول اکرم(ص) اور فرزند گرامی امام علی بن ابوطالب(ع) و فاطمه(س) ہے۔ وہ پندرہ  رمضان  سال 625 کو پیدا ہوئے اور ، سات سال رسول اکرم (ص) کے ہمراہ زندگی گزارتے رہیں اور پھر تمام واقعات میں والد گرامی کے ہمراہ تھے، شهادت امام علی(ع)، کے بعد  حسن بن علی(ع) امام علی کے جانشین اور امام بنے۔