سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز کے مطابق پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ پشاور کی امامیہ مسجد میں خودکش حملہ کھلی دہشتگردی ہے، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، قصہ خوانی بازار کی امامیہ مسجد میں خودکش دھماکا ملک کے خلاف سازش ہے، درجنوں افراد کی شہادت پر پوری قوم افسردہ ہے، دہشتگردوں کے بزدلانہ حملوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں، شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، حکومت اسپتالوں میں زخمیوں کو م سہولیات فراہم کرے۔

 

اپنے مذمتی بیان میں ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشتگرد کسی معافی کے لائق نہیں، انہیں انہی کی زبان میں ہی جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نماز جمعہ کے دوران دہشتگردانہ کاروائی ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک دشمن قوتوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ملک کیلئے مرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تو ملک بچانے کیلئے تمہیں عبرت کا نشان بنانا بھی جانتے ہیں۔

 

 ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشتگردی اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو جو بھی کمزور کرنے کی ناپاک جسارت کرئے گا، پاکستان کا بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے پیچھے بھارت اور ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ ملوث ہے، دہشتگرد ملک میں فرقہ وایت پھیلانا چاہتے ہیں، دہشتگردوں اور ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو اتحاد و یکجہتی سے ناکام بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھیں گے، پاکستان ہماری شان پہچان ہے، اس کیلئے قربان ہونا ہمارے لئے سعادت ہوگی.

ایکنا نیوز کے مطابق ایران میں اٹھتیسویں بین الاقوامی، ساتویں طلبا بین الاقوامی اور پانچویں اسپشل افراد کے مقابلوں کی اختتامی تقریب تھران آرٹ گیلری کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوئی۔

«ایک کتاب، ایک امت»  کے نعروں سے شروع ہونے والے مقابلوں میں حفظ کل قرآن، قرائت تحقیق و ترتیل

مردوں، خواتین، طلبا اور بصارت سے محروم قرء میں منعقد ہوئے۔

 

ایکنا نیوز نے مقابلوں میں شامل خاتون جج سے گفتگو کی ہے جو حاضر خدمت ہے:

بلقیس حرب جعفر جو جامعة المصطفی(ص) العالیمه سے فارغ التحصیل ہے انہوں نے حفظ اور جج کا کورس ایران سے مکمل کیا ہےاور اس وقت لبنان میں سرگرم عمل ہے۔

 

لبنانی جج کا کہنا ہے کہ سات سالوں سے حفظ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتی رہی ہوں اور چار سال سے بطور جج فرائض انجام دیں رہی ہوں اور وقف و ابتدا کے حوالے سے نظارت کرتی ہوں اور میرے لیے خوشی کا باعث ہے کہ ایران میں بطور جج شریک ہوں۔

 

انکا کہنا تھا کہ حفظ و تجوید کے شعبے میں لبنان میں کافی پیشرفت ہوئی ہے اور لبنان کے کافی شہروں میں اس طرح کے مراکز کام کر رہے ہیں جنمیں «جمعیة القرآن الکریم» ہے جس کے مختلف برانچیز موجود ہیں اور میں خود اس مرکز سے پڑھ چکی ہوں، یہ مرکز مختلف مواقعوں جیسے بعثت حضرت رسول(ص) اکرم اور دوسرے مواقعوں پر پروگرامز منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

 

بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی اہم ترین بات «ایک کتاب، ایک امت»

 

انہوں نے اٹھتیسویں بین الاقوامی مقابلوں کے حوالے سے کہا: اس سال کورونا کی وجہ سے صورتحال بدل چکی ہے تاہم مشکلات کے باوجود مقابلے عیوب سے پاک تھے۔

 

انہوں نے مقابلوں کے انتظامات کے حوالے سے کہا: ججز کا ائیرپورٹ پر بہترین استقبال کیا گیا اور مجموعی طور پر بہترین ٹریٹمنٹ دی گیی۔

 

انہوں نے مقابلوں کے تمام مراحل کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا: ایران میں مقابلوں کا معیار اچھا تھا اور شیعہ سنی سے ہٹ کر بلاتفریق رویہ رکھا گیا اور یہ بہترین عمل تھا۔

انہوں نے ایرانی مقابلوں میں وحدت کی اہمیت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا: اسی وجہ سے مقابلوں میں

«ایک کتاب ایک امت» کا عنوان رکھا گیا ہے ۔

بلقیس حرب نے بعثت رسول اکرم(ص) کے موقع پر مقابلوں کو منعقد کرانے کے حوالے سے کہا: کہ ایک امت ایک کتاب رکھنے سے ایران نے یہ پیغام دیا کہ ہم سب ایک ہیں اور قرآن کریم کریم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

 

انہوں نے آخر میں تمام منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ہم پورے مقابلے دوران یوں محسوس کرتے رہیں کہ ہم اپنے ہی گھر میں موجود ہیں۔/

پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں سانحہ پشاور کے شہید ہونے والے ایک نوجوان کا جلوس جنازہ تکفریت کے خلاف عظیم الشان احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق، شہید مرتضی علی شاد کے جلوس جنازہ میں ہزاروں سوگوار مرد و خواتین نے شرکت کی اور تفکیری دہشت گردوں سے اپنی شدید نفرت و بیزاری کا اعلان کیا ۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ایسے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پرمسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے حق میں نعرے درج تھے۔

مظاہرین بڑے پرجوش انداز میں لبیک یا حسین کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ مظاہرین، سانحہ پشاور میں ملوث عناصر اور سیکورٹی میں کوتاہی برتنے والے عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے دوران پشاور کی جامع مسجد میں خونی واقعہ رونما ہوا جس میں63  افراد شہید اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
.taghribnews.
 

حضرت عباس علیہ السلام جو "ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند ہیں۔ حضرت عباس (ع) شہنشاہ وفا اور ادب، شجاعت اور سخاوت کا پیکر ہیں ۔

حضرت عباس علیہ السلام ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر فائز ہیں وہ فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔وہ اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ عمل ہیں۔ حضرت عباس (ع) وفا ، ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر ہیں۔وہ فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔وہ اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ عمل ہیں۔ حضرت عباس 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبت رکھتے ہیں ۔

taghribnews.

  آپ اسلام کی بنیاد اور اس دنیائے اسلام کو نجات دلانے وا لے تھے جو امویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکی تھی جو اس کو بدترین عذاب دے رہے تھے، اس کے بچوں کو قتل اور عورتوں کوزندہ رکھتے تھے، انھوں نے اللہ کے مال کواپنی بزرگی کا سبب بنایا، اس کے بندوں کو اپنا نوکر بنایا،نیک اور صالح افراد کو دور کر دیا، مسلمانوں کے درمیان خوف و دہشت پھیلائی ،عام شہروں میںقیدخانوں، جرائم،فقرو تنگدستی اور محرومیت کو رواج دیا،رسول خدا ۖکی آرزوحضرت امام حسین نے ان کامحکم عزم و ارادہ سے جواب دیا،آپ نے ایساعظیم انقلاب برپا کیا جس کے ذریعہ آپ نے کتاب خدا کی تشریح فرمائی اور اس کوصاحبان عقل کیلئے ما یہ ٔ عبرت قرار دیا،ان کے محلوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا ، اُن کی عظمت و شوکت کی نشانیوں کو ختم کردیا، مسلمانوں کے درمیان سیا سی اور دینی شعور بیدار کیا، ان کو غلامی اور ذلت کے خوف سے آزاد کرایا،ان کو ان تمام منفی چیزوں سے آزاد کرایا جو ان کیلئے نقصان دہ تھیں،مسلمان پردے میں بیٹھنے کے بعد آن بان کے ساتھ چلنے لگے ،انھوں نے اس انقلاب کے پرتو میں اپنے حقوق کا نعرہ بلند کیا جن کاامویوں کے حکم سے خا تمہ ہو چکا تھاجنھوں نے ان کو ذلیل و رسوا کیا اور وہ کام انجام دیا جس کو وہ انجام نہیں دینا چا ہتے تھے ۔۔۔ہم اس امام عظیم کے کچھ اوصاف بیان کررہے ہیں جن کی قربانی ، عزم محکم ،صبراور انکار کے چرچے خاص و عام کی زبان پر ہیں ۔

نبی ۖ کی حسین سے محبت

 حضرت رسول خدا ۖ اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

١۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول کا فرمان ہے :''من اراد ان ينظرالیٰ سيد شباب اهل الجنة فلينظرالیٰ الحسين بن علی''۔(١)

''جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ حسین بن علی کے چہرے کو دیکھے''۔
٢۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ۖامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :''اللھم انی احِبُّه فاحبّه ''۔(٢)
''پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ''۔

٣۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم ۖ کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آئو ادھرآئویہاں تک کہ آپ نے امام حسین کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ہاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:''حسين منی وانامن حسين،احب اللّٰه من احب حسينا،حسين سبط من الاسباط''(٣)۔
''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوںخدایاجو حسین محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ''
یہ حدیث نبی اکرم ۖاور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ہے، لیکن
..............

١۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩٠۔تاریخ ابن عساکر خطی ،جلد ١٣،صفحہ ٥٠۔
٢۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧۔نور الابصار، صفحہ ١٢٩:اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ''۔
''خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں''
٣۔سنن ابن ماجہ ،جلد ١،صفحہ ٥٦۔مسند احمد، جلد ٤،صفحہ ١٧٢۔اسد الغابہ، جلد ٢،صفحہ ١٩۔تہذیب الکمال،صفحہ ٧١۔تیسیر الوصول ،جلد ٣، صفحہ ٢٧٦۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧۔

اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ''حسین منی ''حسین مجھ سے ہے ''اس سے نبی اور حسین کے مابین نسبی رابطہ مراد نہیں ہے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی گہری اور دقیق بات ہے کہ حسین نبی کی روح کے حا مل ہیںوہ معاشرئہ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ہیں۔
لیکن آپ کا یہ فرمان:''وانا من حسین ''''اور میں حسین سے ہوں '' اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندئہ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین سے ہیں کیونکہ امام حسین نے ہی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رہا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ہلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

٤۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ہوئے فر ما رہے تھے :
''انت سيد ُبْنُ سَيد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰه وَابْنُ حُجَّتِه،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُهمْ قَائِمُهمْ''۔(١)
''آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ''۔

٥۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ''نِعم المرکب رکبت ياغلام ،فاجا به الرسول :''ونعم الراکب هوَ''۔(٢)
''کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ ۖنے جواب میں فرمایا:''یہ سوار بہت اچھا ہے ''۔

٦۔رسول اللہ کا فرمان ہے :''ھذا(يعنی :الحسين )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ''۔(٣)
..............

١۔حیاةالامام حسین ، جلد ١،صفحہ ٩٥۔
٢۔تاجِ جامع للاصول ،جلد ٣،صفحہ ٢١٨۔
٣۔منہاج السنة، جلد ٤،صفحہ ٢١٠۔

''یہ یعنی امام حسین امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں''۔

٧۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م ۖ عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ سے فر مایا:''اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَه يوْذِينِیْ؟''۔(١)
''کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ''۔
یہ وہ بعض احا دیث تھیں جو رسول اسلام ۖنے اپنے بیٹے امام حسین سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرما ئی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔

نبی ۖکا امام حسین کی شہا دت کی خبر دینا

 نبی ۖنے اپنے نواسے امام حسین کی شہا دت کواتنابیان کیاکہ مسلمانوں کو امام حسین کی شہادت کا یقین ہوگیا۔ابن عباس سے روایت ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں کو ئی شک و شبہ ہی نہیں تھا اور اہل بیت نے متعدد مرتبہ بیان فر مایا کہ حسین بن علی کربلا کے میدان میں قتل کر دئے جا ئیں گے۔(٢)
آسمان سے نبی اکرم ۖ کو یہ خبر دی گئی کہ عنقریب تمہارے بیٹے پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ اگر وہ پہاڑوں پرپڑتے تو وہ پگھل جا تے ،آپ نے متعدد مرتبہ امام حسین کے لئے گریہ کیا اس سلسلہ میں ہم آپ کے سا منے کچھ احا دیث پیس کر تے ہیں :

١۔ام الفضل بنت حارث سے روایت ہے :میںامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے رسول اللہ ۖ کی خد مت میں پہنچی جب آپ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جا ری تھے ۔
میں نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی ۖ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا مشکل پیش آگئی ہے ؟!
..............

١۔مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ٢٠١۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩١۔ذخائر العقبی ،صفحہ ١٤٣۔
٢۔مستدرک حاکم، جلد ٣،صفحہ ١٧٩۔

''اَتَانِیْ جبرئيلُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ ابنِیْ هذَا''میرے پا س جبرئیل آئے اور انھوں نے مجھ کو یہ خبر دی ہے کہ میری امت عنقریب اس کو قتل کردے گی ''آپ نے امام حسین کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا۔ام الفضل جزع و فزع کرتی ہو ئی کہنے لگی :اس کو یعنی حسین کو قتل کردے گی ؟
''نَعَم،وَاَتَانِیْ جِبْرَئِيلُ بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِه حَمْرَائَ ''۔(١)''ہاں ،جبرئیل نے مجھے اس کی تربت کی سرخ مٹی لا کر دی ہے ''ام الفضل گریہ و بکا کرنے لگی اور رسول بھی ان کے حزن و غم میں شریک ہوگئے ۔

٢۔ام المو منین ام سلمہ سے روایت ہے :ایک رات رسول اللہ سونے کیلئے بستر پر لیٹ گئے تو آپ مضطرب ہوکر بیدار ہوگئے ،اس کے بعد پھر لیٹ گئے اور پہلے سے زیادہ مضطرب ہونے کی صورت میں پھر بیدار ہوگئے ،پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہوگئے حالانکہ آپ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ چوم رہے تھے (٢)میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ یہ کیسی مٹی ہے ؟
''اَخْبَرَنِیْ جِبْرَئِيلُ اَنَّ ھٰذَا(يعنی:الحسين )یُقْتَلُ بِاَرْضِ الْعِرَاقِ۔فَقُلْتُ لِجِبْرَئِيلَ : اَرِنِیْ تُرْبَةَ الْاَرْضِ الَّتِیْ يقْتَلُ بِهاْفَهذِہِ تُرْبَتُه ''(٣)
''مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ اس (حسین )کو عراق کی سر زمین پر قتل کر دیا جا ئے گا ۔ میں نے جبرئیل سے عرض کیا :مجھے اس سر زمین کی مٹی دکھائو جس پر حسین قتل کیا جا ئے گا یہ اسی جگہ کی مٹی ہے ''۔

٣۔ام سلمہ سے روایت ہے :ایک دن پیغمبر اکرم ۖمیرے گھر میں تشریف فر ما تھے تو آپ نے فر مایا:''لا یدخُلنَّ عَلَیَّ اَحَدُ''''میرے پا س کوئی نہ آئے ''میں نے انتظار کیا پس حسین آئے اور آپ کے پا س پہنچ گئے ،میں نے نبی کی آواز سنی ،حسین ان کی آغوش میں(یا پہلو میں بیٹھے ہوئے )تھے آپ حسین کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے گریہ کر رہے تھے ، میں نے آنحضرت ۖکی خدمت میں عرض کیا:
..............

١۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ١٧٩۔
٢۔شیعہ کربلا سے حاصل کی گئی مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جس کو رسول اسلام ۖ نے چوما ہے ۔
٣۔کنز العمال، جلد ٧،صفحہ ١٠٦۔سیر اعلام النبلاء ، جلد ٣، صفحہ ١٥۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ١٤٨۔

خداکی قسم مجھ کو پتہ بھی نہ چل سکا اور حسین آ پ کے پا س آگئے ۔۔۔
آنحضرتۖ نے مجھ سے فر مایا:''اِنَّ جِبْرَئِيلَ کَانَ مَعَنَافِیْ الْبَيتِ فَقَالَ :اَتُحِبُّه ؟فَقُلْتُ : نَعَمْ۔فَقَالَ:اَمَااِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلُه بِاَرْضٍ یُقَالُ لَهاکَرْبَلَائُ ''۔
''جبرئیل گھر میں ہمارے پاس تھے تو انھوں نے کہا :کیا آپ حسین کو بہت زیادہ چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا :ہاں ۔ تو جبرئیل نے کہا :آگاہ ہو جائو ! عنقریب آپ کی امت اس کو کر بلا نا می جگہ پر قتل کر دے گی ''،جبرئیل نے اس جگہ کی مٹی رسول ۖکو لا کر دی جس کو نبی نے مجھے دکھایا۔ (١)

٤۔عائشہ سے روایت ہے:امام حسین آنحضرت ۖکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے آنحضرت ۖ کو نیچے جھکنے کی طرف اشارہ کیا اور امام حسین آپ کے کندھے پر سوار ہوگئے توجبرئیل نے کہا : ''اے محمد! کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں ؟''آنحضرت ۖنے فرمایا:کیوں نہیں ،کیا میں اپنے بیٹے سے محبت نہ کروں؟''جبرئیل نے عرض کیا :آپ کی امت عنقریب آپ کے بعد اس کو قتل کردے گی ''جبرئیل نے کچھ دیر کے بعد آپ کو سفید مٹی لا کر دی ۔
عرض کیا :اس سر زمین پر آپ کے فرزند کو قتل کیا جا ئے گا ،اور اس سر زمین کا نام کربلا ہے '' جب جبرئیل آنحضرت ۖ کے پاس سے چلے گئے تو وہ مٹی رسول اللہ ۖ کے دست مبارک میں تھی اور آپ نے گریہ وبکا کرتے ہوئے فرمایا:اے عائشہ !جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ کے بیٹے حسین کو کربلا کے میدان میں قتل کردیا جا ئے گا اور عنقریب میرے بعد میری امت میں فتنہ برپا ہوگا ''۔
اس کے بعد نبی اکرم ۖاپنے اصحاب کے پا س تشریف لے گئے جہاں پر حضرت علی ،ابو بکر ، عمر ، حذیفہ ،عمار اورابوذرموجود تھے حالانکہ آپ گریہ فر ما رہے تھے، تو اصحاب نے سوال کیا :یارسول اللہ آپ گریہ کیوں کر رہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا:مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ میرافرزند حسین کربلا کے میدان میں قتل کردیا جائے گا اور مجھے یہ مٹی لا کر دی ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ ان کا مرقد بھی اسی زمین پر ہوگا ''۔(٢)
..............

١۔کنز العمال ،جلد ٧،صفحہ ١٠٦۔معجم کبیر طبرانی ،جلد ٣،صفحہ١٠٦۔
٢۔مجمع الزوائد، جلد ٩، صفحہ ١٨٧

٥۔رسول خدا کی ایک زوجہ زینب بنت جحش سے مروی ہے :نبی اکرم ۖ محو خواب تھے اور حسین گھر میں آئے اور میں ان سے غافل رہی یہاں تک کہ نبی اکرم ۖ نے ان کو اپنے شکم پر بیٹھالیا اس کے بعد نبی اکر م ۖ نے نماز ادا کی تو ان کو ساتھ رکھایہاں تک کہ جب آپ رکوع اور سجدہ کرتے تھے تو اس کو اپنی پیٹھ پر سوار کرتے تھے اور جب قیام کی حالت میں ہوتے تھے تو ان کو اٹھالیتے تھے ،جب آپ بیٹھتے تھے تو ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھاکر دعا کرتے تھے ۔۔۔جب نماز تمام ہو گئی تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا :آج میں نے وہ چیزیں دیکھی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ؟تو آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے میرے پاس آکر مجھے خبر دی کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جا ئیگا، میں نے عرض کیا: تو مجھے دکھائیے کہاں قتل کیا جائے گا؟تو آپ نے مجھے سرخ مٹی دکھا ئی ''۔ (١)

٦۔ابن عباس سے مروی ہے :حسین نبی کی آغوش میں تھے تو جبرئیل نے کہا :''کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟''آنحضرت نے فرمایا:''میں کیسے اس سے محبت نہ کروں یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ''۔
جبرئیل نے کہا :''بیشک آپ کی امت عنقریب اس کو قتل کر دے گی، کیا میں اس کی قبر کی جگہ کی مٹی دکھائوں؟''جب آپ (جبرئیل )نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سرخ مٹی تھی ''۔(٢)

٧۔ابو اُ مامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے اپنی ازواج سے فرمایا:اس بچہ کو رونے نہ دینا یعنی ''حسین کو''مروی ہے :ایک روز جبرئیل رسول اللہ کے پاس ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ۖ نے ام سلمہ سے فرمایا: ''کسی کو میرے پاس گھر میں نہ آنے دینا''،جب حسین گھر میں پہنچے اور نبی کو گھر میں دیکھا تو آپ ان کے پاس جانا ہی چا ہتے تھے کہ ام سلمہ نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کو تسکین دینے لگی جب آپ زیادہ ضد کرنے لگے تو آپ کو چھوڑ دیاامام حسین جا کر نبی کی آغوش میں بیٹھ گئے تو جبرئیل نے کہا :''آپ کی امت عنقریب آ پ کے اس فرزندکو قتل کردے گی ؟''۔
''میری امت اس کو قتل کردے گی حالانکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتی ہے ؟''۔
..............

١۔مجمع الزوائد ،جلد ٩، صفحہ ١٨٩
٢۔مجمع الزوائد ،جلد ٩ ،صفحہ ١٩١۔

۔''ہاں ،آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔۔۔''۔
جبرئیل نے رسول ۖ کواس جگہ کی مٹی دیتے ہوئے فرمایا: اس طرح کی جگہ پرقتل کیا جائے گا، رسول ۖاللہ ۖ حسین کو پیار کرتے ہوئے نکلے ،آپ بے انتہا مغموم و رنجیدہ تھے۔ام سلمہ نے خیال کیا کہ نبی اکرم ۖ ان کے پاس بچہ کے پہنچ جانے کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے ہیں، لہٰذا ام سلمہ نے ان سے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،آپ ہی کا تو فرمان ہے : ''میرے اس بچہ کو رونے نہ دینا '' اور آپ ہی نے تو مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کے پاس کسی کو نہ آنے دوں،حسین آگئے تو میں نے ان کو آپ کے پاس آنے دیا،نبی اکرم ۖ کو ئی جواب دئے بغیر اپنے اصحاب کے پاس پہنچے اور آپ نے بڑے رنج و غم کے عالم میں ان سے فرمایا:''میری امت اس کو قتل کردے گی ''اورامام حسین کی طرف اشارہ فرمایا۔
ابوبکر اور عمر دونوں نے آنحضرت کے پاس جا کر عرض کیا :اے نبی خدا !وہ مو من ہیں یعنی مسلمان ہیں ؟
آپ ۖ نے فرمایا : ''ہاں ،یہ اس جگہ کی مٹی ہے ۔۔۔''

٨۔انس بن حارث سے مروی ہے :نبی اکرم ۖ نے فرمایا:''میرا یہ فرزند (حسین کی طرف اشارہ کیا )کربلا نام کی سر زمین پر قتل کیا جا ئے گا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس کی مدد کرے '' جب امام حسین کربلا کیلئے نکلے تو آپ کے ساتھ انس بھی تھے جو آپ کے سامنے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے ۔(١)

٩۔ام سلمہ سے مروی ہے :امام حسن اورامام حسین دونوں میرے گھر میں رسول اللہ کے سامنے کھیل رہے تھے تو جبرئیل نے نازل ہو کر فر مایا:''اے محمد !آپ کی امت آپ کے بعد آپ کے اس فرزند کو قتل کردے گی ''اور حسین کی طرف اشارہ کیا آپ گریہ کرنے لگے ،حسین کو اپنے سینہ سے لگالیا آپ کے دست مبارک میں کچھ مٹی تھی جس کو آپ سونگھ رہے تھے ،اور فر مارہے تھے :''کرب و بلا پر وائے ہو ''آپ نے اس مٹی کو ام سلمہ کو دیتے ہوئے فرمایا:''جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا فرزند قتل کردیا گیا ہے ''ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک شیشہ میں رکھ دیا ،آپ ہر روز اس کا مشاہدہ کرتی اور کہتی تھیں کہ
..............

١۔تاریخ ابن الوردی ،جلد ١،صفحہ ١٧٣۔١٧٤۔

دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جا ئے گی وہ دن بہت ہی عظیم ہوگا۔ (١)

١۔معجم کبیر طبرانی ''ترجمہ امام حسین ''،جلد ٣،صفحہ ١٠٨۔

 

شائع 
مؤلف: باقر شریف قرشی

 

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے دو نئے میزائل اور ڈرون مراکز کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ مستقبل پر نظر رکھے ہوئے، ایئرو اسپیس فورس کے تازہ دفاعی اقدامات قابل قدر ہیں۔

جنرل حسین سلامی نے میزائل، ڈرون، ایئرڈیفینس سسٹم، لڑاکا طیاروں اور جنگی جہازوں کو حقیقی طاقت کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طاقت کا سرچشمہ انسان کے قلب و ذہن میں ابھرنے والے عقائد و نظریات سے پھوٹتا ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا کہ طاغوتی طاقتوں کے ذریعے کسی کو ملنے والی طاقت پائیدار نہیں ہوتی اور افغانستان اس کی واضح مثال ہے جہاں امریکہ کی مسلح کردہ فوج دس منٹ بھی جنگ نہ کرسکی۔

واضح رہے کہ آج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے دو نئے زیر زمین میزائل اور ڈرون مراکز کی رونمائی اورانہیں دفاعی سسٹم کے ساتھ منسلک کردیا۔ ایران کی عسکری حکمت عملی دفاع پر استوار ہے اور جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت یافتہ فوج، اس حکمت عملی کے بنیادی ستون ہیں

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کے معروف اہلسنت عالم دین مولانا طارق جمیل نے پشاور میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے بم دھماکے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے ٹوئٹر پیغام میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر دل بہت غمگین ہے، اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور ملکِ عزیز میں امن و امان کی فضا قائم رکھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور کے علاقے قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد کوچہ رسالدار میں ہوئے خود کش حملے کے مزید 6 زخمی شہید ہو گئے، پولیس نے خودکش حملہ آور کے خاکے تیار کر لیے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گزشتہ روز 57 شہداء کی لاشیں لائی گئی تھیں، واقعے میں مزید 6 افراد کی شہادت کے بعد شہید افراد کی تعداد 63 ہو گئی ہے۔ واقعے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے 37 زخمی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جبکہ 5 زخمی آئی سی یو میں ہیں۔

ایکنا نیوز کے مطابق سانحہ پشاور کی مذمت ملکی اور عالمی سطح پر جاری ہے۔ امیر جماعت اسلامی سرا ج الحق نے پشاور مسجد میں خودکش حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کو قتل گاہ بنانے والے حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ منصورہ سے جاری بیان میں سراج الحق نے شہدا کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔ انہوں نے لواحقین کو صبر اور ہمت کی تلقین کی اور کہا کہ ہم ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش ہے۔ پشاور میں ہر سال بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مساجد، مدارس، سکولز اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومت اور سکیورٹی ادارے شہریوں کی حفاظت کا بندوبست کریں اور دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہیں۔

 

عبادت گاہوں کو قتل گاہ بنانے والے حیوانوں سے بھی بدتر ہیں، سراج الحق اور طاہر القادری کی مذمت

تحریک منہاج القرآن کے سرابرہ نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ معصوم جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس ہے۔ شہدا کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندانوں کے لئے صبر جمیل کے لئے دعا گو ہیں۔عبادت گاہ کو مقتل گاہ بنانے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں۔

  تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پشاور میں جامع مسجد میں خودکش حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بدترین دہشتگردی اور انسانیت پر حملہ ہے۔ عبادت گاہ کو مقتل گاہ بنانے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ معصوم جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس ہے۔ شہدا کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندانوں کے لئے صبر جمیل کے لئے دعا گو ہیں۔ دریں اثناء منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل خرم نواز گنڈاپور، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن ڈاکٹر محمد رفیق نجم نے پشاور خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اسلام ٹائمز۔ سانحہ پشاور پر شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے تین دن سوگ اور اتوار کے روز ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا۔ علامہ ساجد نقوی نے ایک مذمتی بیان میں جامع مسجد کوچہ رسالدار میں خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امام جمعہ سمیت 50 سے زائد افراد کی شہادت سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، انہوں نے سانحہ پشاور کی غیر جانبدارانہ و شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی غیر جانبدار انوسٹی گیشن اور مجرموں کی تشخیص کرکے قانون کے حوالے کیا جائے، مضبوط پراسیکوشن کے ذریعے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

علاوہ ازیں علامہ ساجد نقوی نے کوئٹہ میں ہونیوالی دہشتگردی کے مجرمان کو بھی گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے، غم کی اس گھڑی میں ہم شہداء کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی شناسائی کرکے قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے، انہوں نے کہا کہ سانحہ پشاور کے زخمیوں کو تمام طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول سے منسوب ہے حضور (ص) اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں َ سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق -فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین- تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول اﷲ فرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی(ص) کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین+ کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی +سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین -سے سنا کہ جو شخص محبت رسول (ص) اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق -نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاؤں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ(ع) نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول اﷲ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
اے اہل مدینہ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین- فرماتے تھے جب سے منادی رسول (ص) نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزۂ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے