سلیمانی

سلیمانی

ایکسپریس نیوز کے مطابق ریاست کرناٹک کے 5 سے زائد اضلاع کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں تیزی اس وقت آگئی جب ایک کالج کی انتظامیہ نے حجاب نہ اتارنے پر 58 طالبات کو کالج سے نکال دیا۔

 

طالبات نے کالج سے باہر شدید احتجاج کیا جس پر کالج انتظامیہ نے ان طالبات کی رجسٹریشن معطل کردی اور رجسٹریشن کی بحالی تک کالج میں داخل ہونے پر پابندی ہوگی۔

 

کرناٹک میں دو ماہ سے حجاب پر پابندی کے باعث تعلیمی مدارس بند تھے تاہم تدریسی عمل شروع ہونے کے بعد بھی یہ تنازع اپنی جگہ کھڑا ہے۔ کرناٹک کی طالبات نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر اب تک فیصلہ نہیں آسکا ہے۔

 

عدالت میں حجاب پر پابندی کے خلاف درخواست دائر ہونے کے بعد باحجاب طالبات کے لیے علیحدہ کلاسوں کے انتظام کا کہا گیا تھا جس پر چند کالجز میں عمل بھی ہوا تاہم انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ پر یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔

دوسری جانب حجاب پر پابندی اب کرناٹک سے نکل کر مدھیہ پردیش اور اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی مہم بی جے پی نے چلائی ہے جو کرناٹک میں ہونے والے انتخابات میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے، عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے،صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردی ہیں، اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بھی ماننے کو تیار نہیں، کیا اب بھی ایسی ریاست کے وجود کا باقی رہنے کا جوا ز ہے ؟ عالمی طاقتیں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں پر بلاوجہ مختلف پابندیاں عائد کرتی ہیں مگر انہیں صیہونی مظالم کیوں نظر نہیں آتے ؟عالمی دہرا معیار عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ بنتا جارہاہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے تعاون نہ کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اسرائیلی حکام نے خود اعتراف کیا کہ انہیں اقوام متحدہ کے ادارے میں”شیطانی ریاست“سے تعبیر کیا جارہاہے ، مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس کی بستیوں کو مسمار کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیاہے، خواتین ، بچوں اور بزرگ شہریوں کے ساتھ بلا تفریق امتیازی سلوک و ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو کیا یہ ناجائز ریاست کو دوام بخشنے کےلئے شیطانی ریاستی ہتھکنڈے نہیں ہیں ؟عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے کیا اسرائیل کا اقوام متحدہ کو صاف انکار کے بعد اب بھی کوئی توجیہ باقی ہے کہ اس صیہونی ریاست کی پشت پناہی کی جائے؟۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک پر ایف اے ٹی ایف ، گرے لسٹ، معاشی پابندیوں سمیت دیگر پابندیاں بعض اوقات بلا وجہ عائد کرکے انہیں دبایا جاتا ہے مگر دوسری جانب انسانیت کے دشمن اسرائیل کو کھلی چھوٹ ؟یہ عالمی دہرا معیار کیوں؟

انہوں نے کہاکہ اگر عالمی طاقتوں نے اس دہرے معیار کو سنجیدہ نہ لیا تو عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ یہی بنے گا۔ انہوںنے بعض مسلم ریاستوں کی جانب سے اسرائیل نوازی پر کہاکہ پہلے بہت کچھ درپردہ کیا جارہا تھا اور اب سرعام اس کا اظہار کیا جارہاہے جو اچنبے کی بات ہرگز نہیں البتہ ایک اہم ترین لمحہ فکریہ ہے۔

لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 79 کلومیٹر ہے جو غاصب صہیونی رژیم کے تسلط پسندانہ عزائم کے سبب ہمیشہ شدید تناو کا شکار رہتی ہے۔ سن 2000ء میں جب غاصب صہیونی افواج نے جنوبی لبنان سے پسماندگی اختیار کی تب بھی اس کا یہ اقدام لبنان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا اختتام ثابت نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے صہیونی فورسز سرحد کے اس پار سے لبنانی سرزمین کو ظالمانہ اقدامات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ یوں حزب اللہ لبنان اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان موجود محاذ ہر لمحہ بارود کی بو دیتا ہے اور ایک چھوٹا سا واقعہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران سید حسن نصراللہ سے شدید خوفزدہ ہیں۔
 
سید حسن نصراللہ کی شخصیت انتہائی کاریزمیٹک شخصیت ہے اور اسرائیلی حکمران انہیں بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ انہوں نے جب اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کے جال سے تشبیہہ دی اور یہ تاثر دیا کہ اسے اتنی آسانی سے نابود کرنا ممکن ہے تو ان کی یہ بات صہیونی حکمرانوں اور شہریوں کے ذہن میں پوری طرح بیٹھ گئی۔ صہیونی فوجی اس قدر حزب اللہ لبنان سے خوف کھاتے ہیں کہ خود کو حزب اللہ کے مجاہدین سے مقابلہ کرنے میں عاجز اور ناتوان محسوس کرتے ہیں۔ 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ حسن نصراللہ عرب لیڈر ہیں لیکن عرب دنیا کے لیڈران سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ بیہودہ بات نہیں کرتے اور جھوٹ نہیں بولتے اور ان کی باتیں قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی تقریر میں صہیونی رژیم کو کئی پیغام پہنچائے۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ کے فوجی کارخانے عام بیلسٹک میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کے سکیورٹی مراکز اسرائیل کی جاسوسی کرنے میں بہت اعلی درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے حزب اللہ کے میزائلوں کے ذخائر کا کھوج لگانے کیلئے جاسوس لبنان بھیجے ہیں۔ لہذا وہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا تیسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل تیار کرنے والی فیکٹریاں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک جگہ واقع نہیں ہیں۔
 
اس تقریر کے صرف دو دن بعد لبنان کی سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطین کے قصبے الجلیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ لبنان سے ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے کی خبر ملی تھی جس کے نتیجے میں صہیونی سکیورٹی افراتفری کا شکار ہو گئی اور ان میں شدید ہلچل مچ گئی۔ صہیونی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم اور جنگی طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر اس ڈرون طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ لیکن وہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے والے اس ڈرون طیارے کا سراغ نہ لگا سے۔ کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی مزاحمت نے "حسان ڈرون" نامی ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین بھیجا جو چالیس منٹ جاسوسی کرنے کے بعد واپس لوٹنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
حسان ڈرون طیارہ چالیس منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں 70 کلومیٹر تک علاقے کی جاسوسی کرتا رہا اور صہیونی سکیورٹی فورسز کی تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی سے صحیح حالت میں لبنان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ اقدام ایک طرف حزب اللہ لبنان کی عظیم فوجی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کے کھوکھلے پن اور مکڑی کے جال جیسی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان لاجسٹک اور فوجی اعتبار سے صہیونی رژیم کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جب سید حسن نصراللہ یہ کہتے ہیں کہ صہیونی فوجی جنگ کیلئے تیار نہیں ہیں، تو خود صہیونی حکمران ان کی اس بات پر سب سے زیادہ یقین کرتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے۔
 
تل ابیب بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مستقبل کی جنگ میں اس کے فوجیوں کی بڑی تعداد ماری جائے گی اور اس کے اہم اور حساس مراکز شدید حملوں کا نشانہ بنائے جائیں گے اور اس کی اقتصاد اور معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ جنگ زیادہ مدت تک جاری رہی تو صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ خود مختلف صہیونی حلقوں کے مطابق حزب اللہ لبنان کئی ہفتے تک جنگ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اگر اس کے آدھے میزائل بھی فضا میں تباہ کر دیے جائیں تب بھی بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف صہیونی رژیم کے ایئر ڈیفنس سسٹم میں میزائلوں کی تعداد محدود ہے اور وہ صرف محدود حد تک ہی باہر سے آنے والے میزائلوں کا مقابلہ کر سکتا ہے

تحریر: علی احمدی

 حزب اللہ لبنان کے ڈرون طیارے نے 40 منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے اندر 70 کلو میٹر تک پرواز کرکے اسرائيلی حکام میں ہلچل مچا دی ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج اس کے ڈرون طیارے نے مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی یہ پرواز 40 منٹ تک جاری رہی۔  حزب اللہ کے ڈرون طیارے نے 70 کلو میٹر مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے حسان ڈرون طیارہ اپنی ماموریت کو کامیابی کے ساتھ انجام دیکر اپنے مقام پر واپس پہنچ گيا ہے۔ اسرائیلی حکام نے حزب اللہ کے ڈرون طیارے کو روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے باضابطہ طور پر خبری ذرائع کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایک ڈرون مقبوضہ فلسطین کی حدود میں داخل ہوا ہے اور ساتھ ہی آئرن ڈوم کو فعال کر دیا گیا ہے۔ گھنٹوں بعد، فوج نے ایک دوسرے بیان میں باضابطہ طور پر اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام انٹرسیپٹ استعمال کرنے کے باوجود ڈرون کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یہ کہ ڈرون لبنان میں  بحفاظت واپس آ گیا ہے۔

 

یمن کے ایک سیکورٹی ذریعے نے یمنی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ سعودی امریکی لڑاکا طیاروں نے صنعا میں بنی مطر سیکشن پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو فضائی حملے کیے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی امریکی جارحیت پسندوں نے الحدیدہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور حجہ، معارب اور نجران کے صوبوں میں 23 فضائی حملے کیے ہیں ۔

اس عرصے کے دوران دشمن کی جانب سے یمنی فضائی حدود کی 290 خلاف ورزیاں کی گئیں، جن میں سے ایک حیس پر فضائی حملہ اور الجبالیہ اور حیس پر جاسوس طیاروں کی پروازیں تھیں۔

حملہ آور افواج نے 109 توپ خانے اور راکٹ گولے داغے اور 184 اسالٹ رائفلز سے فائر کیا۔

سعودی لڑاکا طیاروں نے عباس کے علاقے بنی حسن پر آٹھ فضائی حملے کیے، حرد پر تین فضائی حملے اور حجہ صوبے کے التینا پر ایک فضائی حملہ، الجوبہ اور الوادی پر سات فضائی حملے، معارب پر دو فضائی حملے اور دو فضائی حملے۔ نجران میں اجشر پر انہوں نے دیا۔
 تقريب خبررسان ايجنسی

امام علی (ع) اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی بیٹی جناب حضرت زینب (س) کی ولادت پانچ جمادی الاولی پانچویں یا چھٹے سال کو مدینہ منورہ میں ہوئی، جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پانچ سال کی عمر میں اپنی والدہ سے محروم ہوگئیں اس طرح آپ بچپن سے ہی مصیبتوں میں گرفتار ہوئیں۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کیا، اپنے والدین کی شہادت سے لے کر اپنے بھائیوں اور بچوں کی شہادت تک اور اسیری جیسے تلخ واقعات بھی آپ سلام اللہ علیہا نے برداشت کئے، لیکن ان تمام سختیوں نے آپ سلام اللہ علیہا کو صابرہ اور بردبار بنا دیا۔(1) آپ سلام اللہ علیہا کے القابات: محدثہ، عالمہ اور فہیمہ ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا متقی، عابدہ، زاھدہ، عارفہ، خطیبہ اور پاکدامن خاتون ہیں۔ نبوی اور علوی کی پرورش اور خدا کے فضل نے آپ کو نمایاں اوصاف و خصائل کی حامل بنا دیا، جس کی وجہ سے آپ کو "عقیلہ بنی ہاشم" کہا جاتا ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا زاد جناب حضرت "عبداللہ ابن جعفر" سے شادی کی اور اس شادی کے نتیجے میں اللہ نے انہیں اولاد جیسی نعمتوں سے نوازا جن میں سے دو (محمد اور عون) علیہما السلام نے کربلا میں حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں اور امام علیہ السلام کے رکاب میں جام شہادت نوش فرمایا (2)۔

وفات:

آپ علیہا السلام 15 رجب 62 ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔
ہم اس مختصر مقالے میں آپ سلام اللہ علیہا کے بعض فضائل و مناقب کی طرف نہایت اختصار کے ساتھ اشارہ کریں گے:

1- باپ کی زینت:

عموماً والدین ہی بچے کا نام انتخاب کرتے ہیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے وقت ان کے والدین نے یہ کام آپ کے نانا جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردیا اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر تھے، سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت کی خبر سنتے ہی امام علی علیہ السلام کے گھر جاکر نواسی کو گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا اس کے بعد وحی الہی کے مطابق زینب نام رکھا، جس کا مطلب ہے "باپ کی زینت" (3)۔

2- علم الہی:

دوسری مخلوقات پر انسان کی سب سے اہم برتری حتیٰ کہ فرشتوں پر بھی اس کا علم اور بصیرت ہے۔ ''وعلم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علی الملائکة فقال انبئونی باسماء هؤلاء ان کنتم صادقین . قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم."اور آدم ع کو کچھ اسماء کی تعلیم دی گئی اور پھر اس نے انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے ہم سوائے ان چیزوں کے جن کی تو نے ہمیں تعلیم دی ہے نہیں جانتے۔ بیشک تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (4) اور اعلیٰ ترین علوم وہ علوم ہیں جو براہ راست ذات الٰہی سے انسان تک پہنچے ہوں یعنی ان کے پاس علم لدنی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وعلمناه من لدنا علما."ہم نے خود اپنے پاس سے اسے بہت سے علوم سکھایا۔"(5) امام سجاد (ع) کی گواہی کے مطابق زینب (س) کے پاس ایسا علم ہے، یعنی علم لدنی جو خود ذات الہی سے کسب کیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے اپنی پھوپھی کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’آپ عالمہ غیر معلمہ اور فھیمہ غیر مفھمہ ہے۔(6)

3- عبادت اور بندگی:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے قرآن سے سیکھا تھا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد خدا کی بندگی میں کمال تک پہنچنا ہے۔"ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون."ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا سوائے میری عبادت کریں۔‘‘(7)
آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے والدین کی عبادت اور نماز شب کو قریب سے دیکھا تھا۔ آپ سلام اللہ علیہا کربلا میں گواہ تھیں کہ آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے شب عاشورا جناب حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا: ارجع الیهم واستمهلهم هذه المشیة الی غد لقد نصلی لربنا اللیلة وندعوه ونستغفره فهو یعلم انی احب الصلوة له وتلاوة کتابه وکثرة الدعاء والاستغفار'' ان کے پاس جاؤ اور کل تک کے لیے آج کی رات مہلت لے لو تاکہ ہم اپنے خدا کے حضور آج کی رات دعا اور استغفار کرتے ہوئے گزار سکیں۔ "خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز اور قرآن کی تلاوت سے کتنا عشق یے اور بہت زیادہ دعائیں اور استغفار کرنا مجھے پسند ہے۔"(8) ان جملوں میں ہم جناب امام حسین ع کی واجبات کی ادائیگی کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ امام ع کو عبادت اور نماز سے جو عشق ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی راتوں کو عبادت کیا کرتی تھیں اور کوئی بھی مصیبت انہیں عبادت سے نہیں روک سکی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: «ان عمتی زینب کانت تؤدی صلواتها، من قیام الفرائض والنوافل عند مسیرنا من الکوفة الی الشام وفی بعض منازل کانت تصلی من جلوس لشدة الجوع والضعف. میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا تمام واجب اور مستحب نمازوں کو کوفہ سے شام تک کے راستے میں ادا کیا کرتی تھیں اور راستے میں بعض لوگوں کے گھروں میں بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔"(9)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کی حساس ترین رات جو کہ اپنے بھائی سے وداع کی رات تھی اس میں بھی نماز تہجد اور شب بیداری کو ترک نہیں کیا۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:" واما عمتی زینب فانها لم تزل قائمة فی تلک اللیلة ای عاشرة من المحرم فی محرابها تستغیث الی ربها وماهدات لناعین ولا سکنت لنا زمرة. "میری پھوپھی زینب شب عاشورا پوری رات بیدار اور خدا کی عبادت اور راز و نیاز میں میں مشغول رہی جبکہ اس رات، ہم میں سے کوئی نہیں سویا اور ہماری آہیں بند نہیں ہوئیں۔"(10) امام حسین (ع) معصوم ہیں اور واسطۂ فیض الہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہن جو کہ عابدہ زاہدہ ہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختاه لا تنسینی فی نافلة اللیل. بہن جان! " نماز شب میں مجھے مت بھولنا!"(11) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بندگی اور عبادت کے اس اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔

4۔عفت اور پاکدامنی:

عفت اور پاکدامنی عورت کی سب سے خوبصورت زینت اور ان کے لیے سب سے قیمتی جواہر ہیں۔ حضرت زینب (س) نے اپنے والد کے مکتب سے عفت کا سبق سیکھا تھا، جہاں انہوں نے فرمایا:"ما المجاهد الشهید فی سبیل الله باعظم اجرا ممن قدر فعف یکاد العفیف ان یکون ملکا من الملائکة. خدا کی راہ میں شہید ہونے والے مجاھد کو اس شخص سے زیادہ اجر نہیں دیا جاتا جس کے پاس طاقت ہے، لیکن وہ عفت اور پاکدامن ہے۔ عفت اور پاکدامنی کے مالک شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔"(12) زینب کبری سلام اللہ علیھا نے انتہائی مشکل اور دشوار حالات میں بھی اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ اسیری کے دوران کربلا سے شام جاتے ہوئے اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ مورخین نے لکھا ہے: "وهی تستر وجهها بکفها، لان قناعها قد اخذ منها."وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپاتی تھی، کیونکہ آپ کی چادر آپ سے چھین لی گئی تھی۔"(13)
زینب سلام اللہ علیہا کو وہ سب کچھ وراثت میں ملا جو آپ کی ماں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس تھا۔سیدہ زینب سلام اللہ علیہا وہ خاتون تھیں جنہوں نے حیا و عفت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے یزید کو للکارا: "امن العدل یا بن الطلقاء تحذیرک حرائرک و امائک و سوقک بنات رسول الله سبایا؟ قد هتکت ستورهن و ابدیت وجوههن. اے ناجائز ماں کے ناجائز بیٹے، کیا یہ انصاف ہے کہ تم اپنی ازواج اور کنیزوں کو پردے کے پیچھے رکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں اور ان کے خاندان کو قیدی بنائے؟ اور ان کے سروں سے چادریں چھینی جائے؟(14)

5- ولایت مداری:

قرآن بغیر کسی شرط کے، خدا کی مطلق اطاعت کے بعد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت یعنی ائمہ (علیہم السلام) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے: اطیعوا الله واطیعوا الرسول واولی الامر منکم. خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ (15)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ولایت مداری کے تمام پہلوؤں میں سات معصوم علیہم السلام سے کسب فیض کیا تھا (امام کی معرفت، تسلیم، رضا، ولایت کا تعارف اور اس کی راہ میں قربانی) یہ سب آپ سلام اللہ علیہا نے سات اماموں سے سیکھا تھا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کس طرح ایک ماں نے اپنے آپ کو اپنے زمانے کے امام پر قربان کردیا تھا اور اپنے امام سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ: روحی لروحک الفداء ونفسی لنفسک الوقاء"[اے ابوالحسن] میری جان آپ کی جان پر قربان ہو اور میری روح آپ کی روح کی ڈھال ہو۔"(17) آخرکار جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کی حمایت میں اپنی جان قربان کر دی اور ولایت و امامت کی راہ میں شہید ہو گئیں۔ زینب (س) نے ولایت مدرای کا سبق اپنی والدہ سے سیکھا اور اس کا کربلا میں عملی طور پر مظاہرہ کیا، چنانچہ آپ سلام اللہ علیہا نے ایک طرف الزامات کی تردید کرتے ہوئے اور اہل بیت کے فراموش کیے گئے حقوق کی یاد دلا کر ولایت اور امامت کو متعارف کرانے کی کوشش کی؛ من جملہ، شہر کوفہ کے خطبے میں فرمایا۔ وانی ترحضون قتل سلیل خاتم النبوة ومعدن الرسالة وسید شباب اهل الجنة.
آخری نبی کے بیٹے اور جوانان جنت کے سردار کے قتل کا داغ آپ کیسے دھویں گے؟"(18)
آپ سلام اللہ علیہا نے ابن زیاد کے دربار شہر شام اور یزید کی مجلس شھرکوفہ میں بھی ولایت اور امامت کا بھر پور طریقے سے تعارف کرایا۔(19)
آپ امامت کے سامنے سر تسیلم خم کرتی تھیں چاہئے امام حسین علیہ السلام کا دور ہو یا امام سجاد علیہ السلام کا دور، حتیٰ کہ اس وقت جب خیمے کو آگ لگائی گئی تھی، یعنی امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں، آپ س امام کے پاس آئی اور کہا: اے میرے بھائی کی یادگار دشمنوں نے خیموں کو آگ لگائی ہے ہم کیا کریں؟ امام ع نے فرمایا: علیکن بالفرار. فرار کریں۔(20) اور بھی کئی جگہوں پر زینب علیہا السلام نے امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور امامت کا دفاع کیا اور آخری دم تک امام ع کی حمایت کی:
1- عاشورہ کے دن؛ جب امام حسین علیہ السلام نے اتمام حجت کی خاطر مدد طلب کی تو آپ ع کے بیمار بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام میدان کی طرف نکلے جناب زینب س نے امام کو میدان جنگ میں جانے سے روکنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن سے فرمایا: بیٹا سجاد کو واپس لے جاؤ اگر وہ بھی شھید ہو گئے تو پیغمبر کی نسل زمین پر منقطع ہو جائے گی (21)۔
2- عصر عاشورا کے بعد جس وقت دشمنوں نے خیموں پر حملہ کیا، شمر نے امام سجاد علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جناب زینب علیہاالسلام نے فریاد بلند کی اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں، میں زین العابدین کی حفاظت کروں گی۔ اے شمر اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پہلے مجھے قتل کرو، دشمن نے یہ حالت دیکھ کر امام کو قتل نہیں کیا۔ (22)۔
3۔جب ابن زیاد نے امام سجاد علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو حضرت زینب علیہا السلام نے آپ کو گلے لگایا اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے زیاد کے بیٹے! اپ بس کرو تم نے بہت خون بہایا ہے۔ ہمارے خاندان کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کرو اور فرمایا: والله لا افارقه فان قتلته فاقتلنی معه. خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گی۔"اگر تم اسے شہید کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ شہید کرو" ابن زیاد نے حضرت زینب س کی طرف دیکھا اور کہا: اس رشتہ داری سے حیران ہوں میں چاہتا ہوں اسے علی ابن الحسین کے ساتھ قتل کر دوں، البتہ ابن زیاد کے پاس اس بات کو سمجھنے کی اوقات نہیں تھیں کہ یہ حمایت صرف قرابت داری کی وجہ سے نہیں بلکہ ولایت اور امامت کے دفاع کے لیے بھی ہے، اگر بات صرف خاندان اور رشتہ داری کی ہوتی تو زینب (س) اپنے بچوں کی جان بچاتی اور انہیں میدان جنگ میں نہیں بھیجتی۔

6۔عظیم جذبہ اور بلند حوصلہ:

المناک واقعات اور مصیبتوں میں جو چیز انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے وہ حوصلہ اور جذبہ ہے اگر کسی شخص میں اہم اور حساس کام کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو گا اور وہ ناکام ہو سکتا ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سب سے اھم خصوصیات میں سے ایک ان کا عظیم جذبہ اور حوصلہ ہے۔ آپ نے اپنی والدہ کی شہادت کے بعد اپنے والد اور بھائیوں کو حوصلہ دیا اور ان کو دلاسہ دیا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت میں آپ نے پسماندگان کو تسلی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور اسیری کے دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی یہ خصوصیت زیادہ ظاہر ہوئی۔ آپ سلام اللہ علیہا ہمیشہ غمخواروں کی مددگار اور اسیروں کے لیے پناہ گاہ تھی، کربلاء کی مقتل گاہ سے لیکر کوفہ کی تنگ و تاریک گلیوں تک، ابن زیاد کی مجلس سے لے کر یزید کے دربار، ہر جگہ اسیروں کو بچانے والی فرشتہ نما شخصیت زینب سلام اللہ علیہا تھی۔ آپ نے فرمایا: لا یجز عنک ما تری، فو الله ان ذلک لعهد من رسول الله الی جدک وابیک وعمک. اے بھائی کی یادگار! جو تم دیکھ رہے ہو (والد کی شھادت ) آپ کو بے صبری نہیں کرے۔ خدا کی قسم! "یہ رسول خدا کا اپنے آباؤ اجداد، باپ اور چچا سے وعدہ ہے۔"(23)

7۔صبر:

انسان کامل کی سب سے بڑی خصوصیت، زمانے کی نشیب و فراز اور سختیوں میں صبر کرنا ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیاتوں میں صابرین کے لئے عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔ (24) زینب سلام اللہ علیہا اس سلسلے میں کمال کے عروج پر ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے میں، ہم پڑھتے ہیں:" لقد عجبت من صبرک ملائکة السماء"آپ کے صبر پر آسمان کے فرشتے حیران ہوئے۔" بالخصوص عاشورا کے دن، آپ سلام اللہ علیہا نے ایسے صبر و تحمل، تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا کہ اس پر خود صبر شرمندہ ہوا۔جب ابن زیاد ملعون جناب زینب سلام اللہ علیہا کے زخم پر نمک چھڑکنے اور آپ س کو اذیت پہنچانے کے لیے کہتا ہے: "کیف رایت صنع الله باخیک واهل بیتک." آپ نے اپنے بھائی اور خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے پایا؟"درحقیقت وہ ملعون کہنا چاہتا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ جناب زینب سلام اللہ علیہا جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں، گویا آپ سلام اللہ علیہا نے اس ملعون کے منصوبوں کے بارے میں سوچ کر جواب تیار کر لیا ہے۔ اپنے دل میں صبر اور اطمینان کے پرسکون اظہار کے ساتھ، آپ نے فرمایا: ما رایت الا جمیلا."میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔"(25) ابن زیاد ایک اسیر عورت کے جواب پر حیران ہوتا ہے اور اس کے اس عظیم مصیبتوں پر صبر اور استقامت پر حیران ہوتا ہے، اور آپ سلام اللہ علیہا کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔

8۔ایثار اور فداکاری:

بلند مرتبہ والے انسانوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو خود پر مقدم کرتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "الایثار اعلی الایمان." ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ فداکاری اور ایثار ہے۔(27)؛ اور فرمایا: الایثار اعلی الاحسان. (28)؛ ایثار اور فداکاری سب سے بڑا احسان ہے۔ اس صفت میں جناب زینب سلام اللہ علیہا سب سے آگے ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا دوسروں کی جان بچانے کے لیے ہمیشہ خطرات مول لیتی ہیں اور واقعہ کربلا میں آپ سلام اللہ علیہا نے پانی بھی پیا اور بچوں کو دے دیا۔ کوفہ اور شام کے راستے میں اگرچہ آپ خود بھوکھی اور پیاسی تھیں لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے ایثار اور فداکاری کا مظاہرہ کیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "انها کانت تقسم ما یصیبها من الطعام علی الاطفال لان القوم کانوا یدفعون لکل واحد منا رغیفا من الخبز فی الیوم واللیلة."میری پھوپھی زینب کو جو کھانا دشمن دیا کرتے اسے بھی بچوں میں تقسیم کیا کرتی تھیں چونکہ دشمن ھم میں سے ہر ایک کو دن رات ایک ایک روٹی دیتے تھے۔"

9- ہمت اور بہادری:

اولیاء اللہ کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ خدا ان کی نظروں میں بڑا ہے اور اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں ان کی نظروں میں پست اور بے اثر ہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "عظم الخالق فی انفسهم فصغر ما دونه فی اعینهم."خالق ان کی روحوں میں عظیم ہے اور خالق کے علاوہ باقی چیزیں ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہیں۔" اولیاء اللہ کی بلند ہمت کا راز یہی ہے۔ زینب سلام اللہ علیہا جو اس طرح کا نظریہ رکھتی ہیں اور ایک ہمت والے گھرانے میں پرورش پائی۔ اسی لیے آپ سلام اللہ علیہا قاتل کی خون آلود تلوار سے نہیں ڈرتی اور کہتی ہیں: کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں؟ ابن زیاد کی مجلس میں اس کی ظاہری طاقت کی پرواہ کیے بغیر آپ سلام اللہ علیہا ایک کونے میں بیٹھ کر ابن زیاد کے سوالوں کو نظر انداز کر کے اسے ذلیل و خوار کرتی ہیں، اسے "بدکار" اور "فاسق و فاجر" کہتی ہیں اور خود کی پہچان اسطرح کرواتی ہیں: الحمدلله الذی اکرمنا بنبیه محمد صلی الله علیه و آله وطهرنا من الرجس تطهیرا وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وهو غیرنا. خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے نوازا اور ہمیں ہر قسم کی ناپاکی سے پاک کیا۔ "صرف فاسق ہی رسوا ہو گا اور فاسق جھوٹ بولے گا اور وہ ہمارے علاوہ ہے۔"(30)

10۔فصاحت و بلاغت:

کوئی بھی خطیب جو فصاحت و بلاغت سے بات کرنا چاہتا ہے، خدادادی صلاحیت کے باوجود اسے کئی بار مشق کرنی چاہیے، فصیح خطبہ دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل طور پر تیار ہونا ضروری ہے اور سامعین کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے، ورنہ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو نہ صرف آپ کا خطبہ سن رہے ہیں بلکہ آپ پر پتھر مار رہے ہیں اور آپ بغیر کسی تیاری کے، پیاس، بھوک، اسیری کی حالت میں اور آپ کا پورا خاندان آپ کی آنکھوں کے سامنے شھید ہوگیا تھا، اس کے باوجود آپ سلام اللہ علیہا کی آواز بلند ہوتی ہے اور ایک تاریخی خطبہ دیا :اے اہل کوفہ! اے دھوکے باز اور بے وفا» حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کے ضمیر کو بیدار کر دیا اور مرد و خواتین، بوڑھے اور جوان سب کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئی۔ خزیم اسدی کہتے ہیں: میں نے زینب کو دیکھا، خدا کی قسم، میں نے کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو سر سے پاؤں تک حیاء اور عفت اور پاکدامنی کی مالک ہو، ان سے زیادہ فصیح ہو، گویا زینب سلام اللہ علیها امام علی علیہ السلام کی زبان بول رہی ہو۔
ھومو کہتا ہے: میں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا، رونے کی وجہ سے اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی اور اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کے بزرگان بہترین بزرگان ہیں، آپ کے جوان بہترین نوجوان ہیں، آپ کی خواتین بہترین خواتین ہیں،آپ کی نسلیں بہترین نسل ہیں،جو نہ ذلیل ہوئی اور انہوں نہ ہی شکست کھائی بلکہ آپ کامیاب ہوگئے۔(31)

حوالہ جات :

(1)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 46 .
(2)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 210
(3)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج ص39۔
(4)۔سورہ بقرہ آیت32/31۔
(5)۔سورہ کہف آیت 65۔
(6)۔شیخ عباس قمی، منتهی الآمال، (تهران، علمیه اسلامیه، چاپ قدیم، 1331 ه . ش) ج 1، ص 2 98 .
(7)۔سورہ زاریات آیت 65۔
(8)۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری، ج 6، ص 238 .
(9)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(10)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(11)۔ھمان۔
(12)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، حکمت 466 .
(13)۔جزائری، الخصائص الزینبیه، ص 345 .
(14)۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، (بیروت، دار احیاء التراث العربی)، ج 45، ص 134 .
(15)۔سورہ نساء آیت /59 .
(17)۔الکوکب الدری، ج 1، ص 196.
(18)۔ بحار الانوار (پیشین)، ج 45، ص 110- 111 .
(19)۔بحار الانوار
(20) ۔ بحار الانوار، ج 45، ص 58، ومعالی السبطین، ج 2، ص 88۔
(21)۔بحار الانوار، (پیشین)، ج 45، ص 46 .
(22)۔بحار الانوار۔
(23)۔بحار الانوار.
(24)سورہ بقرہ آیت 154۔
(25)۔سورہ بقرہ
(26)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(27)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(28)۔ریاحین الشریعة، (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(29)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، خطبه 182.
(30)۔زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام
(31)۔

زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام، ج 45، ص 108 و ص 110.

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا، معاشی مشکلات، اغیار کے زہریلے پروپیگنڈوں اور بعض داخلی عناصر کی جانب سے ان پروپیگنڈوں کی افسوسناک مدد جیسے مختلف طرح کے مسائل سے گھرے ہونے کے باوجود عوام نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر ہر سال نکلنے والا عظیم الشان جلوس اس طرح سے نکالا کہ باوثوق رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر صوبوں میں جلوس کے شرکاء کی تعداد پچھلے سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے کہا کہ اس سال اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کا پروگرام واقعی بہت حیرت انگیز اور قابل تعریف تھا کیونکہ کورونا وائرس، معاشی مسائل اور دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈوں کے باوجود عوام نے پچھلے سال سے زیادہ تعداد میں اس پروگرام میں شرکت کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ ضرورتوں کے ساتھ ہی آئندہ کی ضروریات پر توجہ دیے جانے پر ززر دیا۔ انہوں نے کہا: اگر آج ہم سائنسدانوں اور محققین کی تربیت، علمی و سائنسی تحریک کی مضبوطی، افزائش نسل اور ملک کی پیشرفت کے ضروری عنصر یعنی نوجوانوں کی تربیت جیسی مستقبل کی بنیادی ضروریات کی فکر میں نہ رہیں تو بیس سال بعد ہم مشکلات میں گھر جائيں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پرامن ایٹمی توانائي کو آئندہ کی بنیادی ضروریات میں سے ایک قرار دیا اور کہا: ایٹمی مسئلے پر دشمن محاذ کے اڑ جانے، ہماری جانب سے پرامن استعمال کی اطلاع ہونے کے باوجود ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایٹمی ہتھیار سے ایران کا فاصلہ کم ہونے جیسی بے بنیاد باتوں کا مقصد، ایران کی مستقبل کی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ملک کی پیشرفت کو روکنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کی جہاں کوتاہی اور غفلت، اگلے برسوں میں مشکلات پیدا ہونے کا سبب بنی۔ آپ نے ایٹمی معاہدے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سن دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کے برسوں میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں میرا اعتراض یہ تھا کہ اس معاہدے میں کچھ باتوں کا لحاظ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ بعد میں مشکلات پیش نہ آئيں اور میں نے انھیں بار بار اس کی یاد دہانی کرائي لیکن ان میں سے بعض باتوں پر توجہ نہیں دی گئي اور بعد میں وہ مشکلات پیش آئيں جن کو سبھی دیکھ رہے ہیں۔ بنابریں، مستقبل پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے پچھلے چار عشروں کے دوران انجام پانے والی بے شمار سرگرمیوں اور کاموں کو انتہائي سودمند اور انقلاب کے تسلسل کا سبب بتایا اور کہا: موجودہ مشکلات کی وجہ سے یہ نہ ہو کہ ہم بے شمار بڑی بڑی پیشرفتوں کو بھول جائیں۔

انھوں نے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز سائنسی پیشرفت اور عالمی اوسط سے ایران کی کئي گنا تیز سائنسی ترقی کے بارے میں عالمی اداروں کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب اسی طرح سڑک سازی، ڈیموں کی تعمیر، بجلی کی ترسیل، صحت و معالجے کی خدمات جیسے انفراسٹرکچر کے میدانوں میں بھی تعجب خیز پیشرفت کا سبب بنا اور اگر انقلاب اور جہادی سرگرمیاں نہ ہوتیں تو یقینی طور پر یہ ترقی و پیشرفت حاصل نہ ہو پاتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب کے بعد ایران میں معاشی صورتحال کی بہتری کے سلسلے میں عالمی اداروں کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ سماجی انصاف، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور کمزور طبقوں تک سہولتیں پہنچائے جانے کے سلسلے میں ہمیشہ میری طرف سے تنقید ہوتی ہے لیکن معیشت کے مسئلے میں بھی دنیا کے معروف معاشی مراکز کی رپورٹوں کے مطابق ایران میں بڑی پیشرفت ہوئي ہے اور اسی کے ساتھ بہت ساری چیزوں میں ہم خودکفیل ہوئے ہیں اور ملکی صنعت کاروں اور پیداوار کرنے والوں کی خود اعتمادی میں بھی اہم پیشرفت ہوئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ پیداوار کے شعبے میں انجام دیے جانے والے کارناموں کو لوگوں تک پہنچانے میں قومی میڈیا کی بڑی ذمہ داری ہے اور اس پر کما حقہ عمل نہیں ہوا ہے اور یہ کام ضرور انجام پانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ مختلف میدانوں میں سرگرم سبھی افراد نے ان تینتالیس برسوں میں انقلاب کے جاری رہنے میں مدد کی ہے، البتہ کبھی کبھی کچھ غفلت، تساہلی اور بدنیتی کا بھی مشاہدہ کیا گيا ہے، اگر يہ چیزیں نہ ہوتیں تو ملک کی صورتحال اور بھی بہتر ہوتی۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مطابق انقلاب کے خلاف اتنی زیادہ دشمنی کی وجہ، اس انقلاب کا زندہ ہونا اور اس کی مسلسل پیشرفت ہے۔ آپ نے کہا: انقلاب کا زندہ ہونا یعنی انقلاب کے اہداف سے عوام اور نئي نسلوں کی وابستگی ہے اور اگر یہ وابستگي اور اس راہ میں استقامت نہ ہوتی تو دشمن کو اتنی زیادہ خباثت دکھانے کی ضرورت نہ ہوتی، بنابریں یہ دشمنی، قوم کی جانب سے انقلاب کے اہداف سے وفاداری اور اس کی پائيداری کی وجہ سے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم کی قابل فخر استقامت و مزاحمت نہ صرف ملک کی پیشرفت کا باعث ہے بلکہ خطے پر بھی اس کے اہم اثرات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خطے میں روز افزوں استقامت نے سامراج کے جھوٹے بھرم کو پاش پاش کر دیا ہے اور امریکا کے مقابلے میں اقوام کو زبان کھولنے کی جرات عطا کی ہے اور ہمیں انقلاب کو جاری رکھ کر اس نعمت کی قدردانی کرنی چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دشمن نے کس جگہ کو نشانہ بنا رکھا ہے اور اس کے ٹھیک برخلاف کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا: دشمن نے آج رائے عامہ خاص طور پر نوجوانوں کے ذہن و فکر کو نشانہ بنا رکھا ہے تاکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے اور اپنے تھنک ٹینکس میں مختلف طرح کی سازشیں تیار کرکے ایرانی قوم، خاص طور پر نوجوانوں کو انقلاب کی راہ سے برگشتہ کر سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے معاشی دباؤ اور میڈیا آپریشن کو، اسلامی نظام سے عوام کو دور کرنے اور ان کی سوچ خراب کرنے کے لئے استعمال ہونے والے سامراج کے دو اصلی ہتکھنڈے بتایا اور کہا: دروغگوئي اور انقلاب کے اہم ارکان نیز انقلاب کی پیشرفت میں مؤثر مراکز کے خلاف تہمت زنی، وہ روش ہے جو میڈیا آپریشن میں استعمال ہو رہی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح سبھی لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو دعا، توسل اور رجب کی پندرھویں تاریخ کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت کی اور کہا: خدا سے رابطہ زندگی، ملک اور انقلاب کے مستقبل کو برکت عطا کرتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اٹھارہ فروری سن 1978 کے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔ انھوں نے اس دن کو تبریز کی درخشندگي کا دن قرار دیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس دن تبریز کے عوام کی جدت عمل، قوم کی جدوجہد جاری رہنے اور انقلاب کے ثمربار ہونے کی وجہ بنی، کہا: یہ انقلاب بندوق، سیاست اور پارٹی بازی سے کامیاب نہیں ہوا بلکہ انقلاب کی کامیابی کی اصل وجہ، عوام کی میدان میں موجودگي تھی اور تبریز کے عوام نے اپنی جدت عمل سے انقلابی تحریک کو مہمیز کیا۔

ٹی آر ٹی نیوز کے مطابق یورپ میں نسل پرستی کے مخالف چینل  (ENAR نے کہا ہے کہ فرانس میں شدت پسندی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

 

مذکورہ ادارے نے فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرایم اور سرگرمیوں کی مذمت کی ہے۔

 

ENAR  نے مزید کہا ہے: یورپ کو فرانس میں نفرت انگیز پالیسی اور اسٹریٹیجی کے حوالے سے ہوشیار رہنا ہوگا جس نے مسلم طبقے کو نشانہ بنا رکھا ہے اور قومی سلامتی کے نام پر مساجد کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور مسلم مدارس اور سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔

 

بیان میں کہا گیا ہے کہ فرنچ میڈیا بھی اس مسلم فوبیا سلسلے کا حصہ بن چکا ہے جو مسلم فوبیا کے حوالے سے جاری ہے۔

 

مذکورہ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ فرنچ سیاست دان دیگر یورپی اداروں سے پوری طرح سے سرگرم ہے کہ اس پالیسی کو فروغ دیا جائے۔/

لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے شہدائے مزاحمت کے کمانڈروں کی یاد میں منعقدہ تقریب میں امام علی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: جب ہم امام علی علیہ السلام کا نام یاد کرتے ہیں ہم اللہ تعالی اور والدین کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم شکر گزار ہیں کہ ہماری پرورش علم، محبت اور پیار کے ساتھ ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: شیخ راغب حرب کی شہادت کو 38 سال گزر چکے ہیں اور سید عباس اور ان کے بعد شہید ام یاسر اور ان کے بیٹے حسین کی شہادت کو 30 سال گزر چکے ہیں۔ ہمارے جہادی کمانڈر حاج عماد مغنیہ کی شہادت کو چودہ سال گزر چکے ہیں اور اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے قیام کو چالیس سال گزر چکے ہیں اور اس راہ میں کمانڈروں کی شہادت نے اس عمل کے تسلسل پر بہت اثر ڈالا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے جاری رکھا: "حزب اللہ سمیت مزاحمت کے تمام دھڑوں نے لبنانی تشخص کی حفاظت اس وقت کی جب 1982 میں اس کے معدوم ہونے کا خطرہ تھا۔ 1982 کا حملہ لبنان، عوام اور عوام کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج تھا۔ قبضے کے خطرات خود مختاری، فیصلہ سازی کی آزادی کی ضبطی، قبضے پر انحصار، اور شناخت کی تبدیلی کے مرحلے میں داخل ہونا تھے۔

سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا: حزب اللہ لبنان میں اس لیے پیدا ہوئی کہ وہ لبنان کی باقی مزاحمتی قوتوں میں شامل ہو اور ان کے شانہ بشانہ لبنان کی آزادی اور اس کی حکومت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرے۔

انہوں نے کہا: "اقتدار ہمارے شہید کمانڈروں کے راستے پر ہے اور مزاحمت اور جدوجہد کے راستے میں کمانڈروں (راغب حرب، سید عباس موسوی اور عماد مغنیہ) کی شہادت نے بہت زیادہ اثر ڈالا۔"

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا: "لبنان اور خطے میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خطے کا مستقبل اسرائیل پر منحصر ہے، اور وہ اسرائیل کے بغیر اس کا تصور بھی نہیں کرتے اور اس لیے معمول پر آنے کے خواہاں ہیں۔"

سید حسن نصر اللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ صیہونی حکومت عارضی ہے اور پسپائی اختیار کر رہی ہے اور علاقے میں مزاحمت کے محور کی تشکیل کے ساتھ ہی غاصب حکومت کے زوال میں شدت آئی ہے۔

انھوں نے کہا: ’’جب "اسرائیلی" فوج لبنان میں نہیں رہ سکتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دریائے نیل سے فرات تک حکومت قائم کرنے کے قابل نہیں ہے۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ ہم "اسرائیل" کو زوال میں دیکھ رہے ہیں اور اس میں صرف وقت لگتا ہے، ہمیں ایک بحرانی حکومت اور فوج کا سامنا ہے اور اس فوج کے بغیر صیہونی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکے گی۔

سید حسن نصر اللہ نے یہ بتاتے ہوئے کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 40 فیصد اسرائیلی مقبوضہ فلسطین چھوڑنا چاہتے ہیں، قابض حکومت کے ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ 59 فیصد یہودی غیر ملکی شہریت کے حصول کے لیے غیر ملکی سفارت خانوں میں جانا چاہتے ہیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مزاحمت کا محور امید بھرے افق کی طرف بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا: "سیاسی تصفیہ اور مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔" آگے کا واحد حقیقی امکان مزاحمت ہے۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا: "لبنان میں مزاحمت کے خلاف کہی جانے والی ہر بات بے سود ہے کیونکہ مزاحمت کا دشمن کے ساتھ مسلسل مقابلہ ہے۔"

سید حسن نصر اللہ نے کہا: "قابض حکومت نے جنگوں کے درمیان لڑائی کو لبنان پر ڈرون اڑانے اور شام میں ڈرون حملوں کے ذریعے جنگوں کے درمیان کشیدگی کے طور پر منتخب کیا ہے ۔"

انہوں نے کہا کہ مزاحمتی مکتب اور مغنیہ اور قاسم سلیمانی کا مکتب ایک خطرے کو موقع میں بدل رہا ہے۔ ہم نے آج لبنان میں ڈرون بنانا شروع کیا - اور بہت پہلے - اور جو بھی خریدنا چاہتا ہے اسے درخواست دینی ہوگی۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مزاحمت ایک ڈھانچے اور صلاحیت کے طور پر آج آگے بڑھ رہی ہے، کہا: "لبنان کے خلاف صیہونی اقدامات کو دیکھتے ہوئے، مزاحمت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے فضائی دفاع سے لیس ہو، جس سے وہ برسوں سے لیس ہے۔ لبنان کے آسمان پر اسرائیلی ڈرونز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: میں دشمن سے کہتا ہوں کہ ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور خدا کی مدد اور مزاحمت کی چوکسی سے ممکن ہے کہ ہم آپریشن انصاریہ 2 کی پوزیشن میں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہم پر انتخابات میں تاخیر کا الزام لگاتے ہیں وہی انتخابات کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہمارا انتخابی نعرہ ہے 'ہم حمایت اور تعمیر کے لیے رہیں گے'۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مزاحمت صرف اپنے بارے میں سوچتی ہے تو لوگ اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے: "ہم اصرار کرتے ہیں کہ لبنانی فوج کی حمایت بھی جامع ہو۔"
 
taghribnews

روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے آج (بدھ 16فروری) کو یوکرین پر روس کے مبینہ حملے کے بارے میں مغربی میڈیا کے جھوٹے دعوؤں کے جواب میں ایک مزاحیہ مضمون میں میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ روسی جارحیت کے سالانہ منصوبے کا اعلان اور اشاعت کریں۔ .

زاخارووا نے بدھ کے روز اپنے ٹیلیگرام چینل پر لکھا: "ہم امریکی اور برطانوی جھوٹ بولنے والے میڈیا بشمول بلومبرگ نیوز، نیویارک ٹائمز اور دی سن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اگلے سال روس کے حملے کا منصوبہ شائع کریں۔"

اپنی درخواست کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے مزید کہا: میں اپنی چھٹیوں کا منصوبہ بنانا چاہتا ہوں۔

دی سن نے مزید کہا: "یہ سب سے زیادہ مناسب وقت ہے، اور روس بڑے پیمانے پر حملے کر رہا ہے، جس میں 200,000 فوجی حصہ لے رہے ہیں۔"

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کل رات (17 فروری) اپنے ٹیلی گرام چینل پر لکھا: بعض مغربی میڈیا نے 15 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کا دن قرار دیا تھا۔ اس دن کو تاریخ میں جنگی پروپیگنڈے کی شکست کا دن کہا جاتا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک بلومبرگ نے دعویٰ کیا تھا کہ روس 15 فروری کو یوکرین پر حملہ کر دے گا، اس نے امریکی میڈیا کو مذاق میں دو گھنٹے دیے کہ توبہ کریں۔

یوکرین میں مغرب کی طرف سے جنگ کے ڈھول پیٹنے کے باوجود، روس نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اس کا یوکرین پر فوجی حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن وہ امریکی قیادت میں نیٹو فوجی اتحاد کی ترقی کو روکنے کے لیے حفاظتی ضمانتیں چاہتا ہے ۔
 تقريب خبررسان ايجنسی