سلیمانی

سلیمانی

سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے پیر کی صبح ایک بار پھر یمنی دارالحکومت صنعا کے مختلف علاقوں پر بمباری کی۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WASS کے مطابق سعودی اتحاد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا مقصد فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔

ریاض میں سرکاری ذرائع سے اتحاد کے حملوں کی تصدیق اس وقت سامنے آئی ہے جب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان امریکہ کے ساتھ یمن میں جنگ پر بات چیت کرنے والے ہیں۔

سعودی اتحاد کے حملوں کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی وزیر خارجہ نے انصار الاسلام کے خلاف ایک خاتون پر الزام لگانے اور جنگ بندی کے معاہدے کی منصوبہ بندی کرنے کا بیان دیا: یہ منصوبہ، جس میں یمن میں جنگ بندی شامل ہے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گی۔

انصار الاسلام کے ترجمان اور یمنی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے سعودی عرب کی طرف سے جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے کہ اس منصوبے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سعودی عرب کا یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جمعے کو یمنی فورسز نے ریاض میں آرامکو کی تیل کی تنصیب پر چھ ڈرونز کو نشانہ بنایا تھا۔

26 اپریل 1994 کو سعودی عرب نے کئی عرب ممالک کے اتحاد کی شکل میں اور امریکہ کی مدد اور ہری جھنڈی سے سب سے غریب عرب ملک یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے، جس کے بہانے بے دخل کر دیے گئے۔ اور مفرور صدر عبد المنصور ہادی کو اقتدار میں لانا، اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کا ادراک کرنا۔

اقوام متحدہ کے اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف نے بارہا خبردار کیا ہے کہ یمن کے عوام کو قحط اور انسانی تباہی کا سامنا ہے جس کی پچھلی صدی میں مثال نہیں ملتی۔

بہت سے ماہرین سعودی اتحاد کے یمن پر حملوں میں اضافے کو یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں اتحاد کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
 تقريب خبررسان ايجنسی 



ایران کا اسلامی انقلاب اپنی شاندار فتح کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا، جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ انقلاب کے عظیم رہنماء امام خمینی نے اپنی وسیع اور شاندار فکر میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے اعلیٰ اور وسیع اہداف کی پیروی کی۔ وہ اہداف جو ان کے لائق جانشین آیت اللہ خامنہ ای بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان عظیم مقاصد میں سے ایک "نئی اسلامی تہذیب کی تخلیق"  یا جدید اسلامی تہذیب کا احیاء ہے۔ اسلامی انقلاب، اسلامی تہذیب کے احیاء کا ایک اہم عامل ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "اسلامی امت اور امت مسلمہ اور اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم اور اہم پیغام، اسلامی تشخص کا احیاء، اسلام کی طرف واپسی، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی طرف واپسی ہے۔ مسلم قوموں کے لیے ہمارے انقلاب کا یہ عظیم پیغام ہے کہ امام خمینی اس راہ کے عظیم رہنماء اور اس سلسلے اور مکتب کے عظیم معلم تھے۔"

پوری تاریخ میں بہت سے مفکرین نے تہذیب کے اجزاء کے بارے میں بات کی ہے۔ رابرٹ پل، ایک فرانسیسی ثقافتی ماہر، تہذیب کو سماجی مظاہر کے ایک مجموعہ کے طور پر دیکھتا ہے، جیسے مذہبی، اخلاقی، علمی، تکنیکی، جمالیاتی اور فنکارانہ مظاہر، جو ایک بڑے معاشرے میں بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ تاہم تہذیب کا لغوی معنی شہری زندگی یا شہر نشینی ہے اور یہ شہری زندگی اور تہذیب کی جڑوں سے ماخوذ ہے اور زیادہ تر اس کا استعمال شہریت، شہری مزاج کی تخلیق اور وحشیانہ، بدامنی اور لاقانونیت کے مقابلہ میں کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تہذیب ایک سماجی تصور ہے، جس کا مطلب ہے، انسانی زندگی میں ترقی اور ارتقاء کے دور تک پہنچنا۔ اس تصور میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ مختلف علوم، فنون، رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں اور تہذیب کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔

لیکن امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کون سی نئی اسلامی تہذیب کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کے حصول کو ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے ایک قرار دیتے ہیں وہ کیا ہیں۔؟ نئی اسلامی تہذیب، زندگی میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس میں ایک انسان روحانی اور مادی طور پر ترقی کرسکے اور مطلوبہ مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان مقاصد کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ وہ مقاصد اچھی اور باوقار زندگی اور قدرتی دنیا میں طاقت، ارادہ، پہل اور تخلیقی صلاحیتتوں کا حصول ہے۔ ایسی تہذیب قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں انسانوں کی تمام روحانی اور مادی جہتوں کو شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ تہذیب جس کی بنیاد مذہبی اخلاقیات پر ہے، متحرک ہے اور اس میں حرکت اور تعامل شامل ہے۔

امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں اسلامی تہذیب سے مراد ایک خارجی اور تاریخی حقیقت ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تشکیل پائی اور بعد میں پھیل گئی۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کی ذمہ داری اور اسلام کی روشنی کو پھیلانے کے ساتھ ایک نئے الہیٰ ترقی پسند مکتب کی منفرد خصوصیات کے ساتھ تہذیب کا ایک نیا چہرہ دکھایا۔ اس نئی تہذیب نے جزیرہ نما عرب کی سرزمین میں جڑ پکڑی۔ ایک ایسی سرزمین جس میں اس وقت تہذیب کے سب سے کم مظاہر تھے اور دنیا تاریکی میں تھی اور عظیم تہذیبیں جیسے قدیم ایران، روم اور یونان کی تہذیبیں زوال پذیر تھیں۔ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے ایک ایسی اسلامی تہذیب کی تعمیر کی، جس نے فکر، عقیدہ، سائنس، فنون لطیفہ، صنعت، سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، حتیٰ کہ عسکری اور حفاظتی تعلقات میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ جو مسلمان مفکرین کی کوششوں سے تشکیل پائی اور دنیا میں تہذیب کا ایک نیا مفہوم پیدا ہوا۔

کھلا ثقافتی ماحول، اخلاقی نظم و ضبط کو وسعت دینا، روحانیت کی حکمرانی، سوچ اور فکر کی اصلیت، بہتر معیار زندگی، فلاح و بہبود کی سطح کی بلندی، نسلی اور قبائلی تعصبات سے اجتناب، خود غرضی پر یکجہتی کی فوقیت، علم اور ادب کی ترقی اور غریبوں کا خیال وغیرہ وہ اسلامی تہذیب کے شاندار اجزاء تھے، جن کی اسلام کے عروج کی پہلی چند صدیوں میں نشوونما ہوئی۔ اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس تہذیب نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ایک قوم اور نسل تک محدود نہیں رکھا، اس لیے تمام مختلف نسلی گروہوں بشمول عرب، ایرانی، ترک، ہندوستانی، چینی، منگول، افریقی اور یہاں تک کہ دیگر نسلی گروہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف اس تہذیب نے سائنس اور علم کو بہت اہمیت دی۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) کی بہت سی احادیث لوگوں اور معاشرے میں عام تھیں، جو لوگوں کو علم سیکھنے کی ترغیب دیتی تھیں اور پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) اسے قیمتی اور ضروری سمجھتے تھے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں انسانوں کو اپنی حکمت، علم اور شعور میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علم کی تاریخ کے باپ جارج سارٹن کہتے ہیں: ’’علم میں اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے دنیا پر چھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس کے بعد 250 سال تک وہ عیسائیوں کے ساتھ ملکر علم کی عالمی تحریک کے علمبردار رہے۔"

اخلاقیات کو اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں "اچھے اخلاق" کی ترویج اسلامی تہذیب کی ایک اور اہم خصوصیت تھی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں صبر، تحمل اور بردباری جیسی صفات میں اضافہ ہوا۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب کی تشکیل کے اہداف میں سے ایک ایسا سیاق و سباق پیدا کرنا ہے، جس میں مسلمان اسلامی اخوت اور محبت کی لڑی میں پرو کر اختلافات کو کم کریں اور اتحاد کے نکات کو زیادہ سے زیادہ اہم سمجھیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور باہمی مشترکات کی طرف توجہ کے مسئلہ پر رہبر انقلاب کی پر زور تاکیدات اسی تناظر میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال وحدت اسلامی کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان جیسے دیگر پلیٹ فارم بنا کر مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے جذبے کو بڑھانے اور ایک نئی اسلامی تہذیب کے ظہور کے لیے مرکزی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔

نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کا مطلب ماضی میں واپس جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی تہذیب کے سرمائے کو جدید تہذیب کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور ایران کا اسلامی انقلاب اپنی صلاحیتوں کے ساتھ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایرانی مفکرین میں سے ایک سید حسین نصر اپنی کتاب "معرفت جاودان" میں لکھتے ہیں: "ایران کے اسلامی انقلاب اور نئی اسلامی تہذیب کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہوئے، یہ کہنا چاہیئے کہ اسلامی انقلاب جدید اسلامی تہذیب کا نقطہ آغاز ہے اور اسلامی انقلاب ماضی کے تجربات اور فتوحات اور شکستوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

اسلامی انقلاب کے ذریعے نئی اسلامی تہذیب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب ترقی سے متصادم نہیں ہے، بلکہ اسلامی قانون میں موجودہ صفات کیوجہ سے سماجی انصاف اور مساوات کو نافذ کیا جا سکتا ہے، جو اقتصادی اور سیاسی ترقی وغیرہ میں تمام لوگوں کے لئے سودمند ہے۔ درحقیقت اسلامی تہذیب کا احیاء نئے حل تلاش کرنے کی کوشش ہے، جس میں تباہ کن مغربی ثقافت کی کوئی جگہ نہیں۔ دنیا میں طبقاتی فرق اور طاغوت کی حکمرانی کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب کی تشکیل، جس کی بنیاد عدل پر ہو، سب سے اہم ہے۔ اسلامی انقلاب نے علم کے میدان بالخصوص، صنعتی، فوجی، طبی ،دوا سازی، ایٹمی ٹیکنالوجی میں ترقی اور خود کفالت و خود انحصاری کے میدانوں یہ ثابت کر دیا کہ پابندیوں کے مشکل ترین حالات میں بھی اسلامی حکومت چل سکتی ہے۔

مسلم اقوام اسلامی جمہوریہ کے مزاحمت اور پیشرفت کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی اور ہمدردی کو بڑھا کر نیز خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو کر ترقی حاصل کرسکتی ہیں۔ اگر مسلمانوں میں روحانیت، علم اور اخلاقیات پر توجہ دی جائے تو نئی اسلامی تہذیب بھی زندہ ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے مفکرین کا اہم کردار ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ بیداری اور بصیرت پیدا کرکے مسلمانوں کو نئی اسلامی تہذیب کے مقاصد اور نظریات سے آگاہ کریں اور اس آزاد تہذیب کی تعمیر میں اپنے اہم اور سنجیدہ کردار سے بے خبر نہ رہیں۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے ہفتہ کے روز بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں وزارت خارجہ کی امام خمینی سے تجدید عہد کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ ویانا مذاکرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

پابندیاں ہٹانے کیلیے ہمارے اہم مسائل میں سے ایک ضمانت حاصل کرنا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں ضمانت کے حوالے سے ہم نے اعلان کیا کہ کچھ معاہدے طے پا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ثالثوں کےذریعہ امریکہ سے کہا ہے کہ امریکہ کو عملی طورپر حسن نیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری نظر میں حسن نیت یہ ہے  کہ اس کے اثرات گراؤنڈ پر  نمایاں اور ظاہر  ہوں۔ بعض پابندیوں کی منسوخی گراؤنڈ پر ثابت ہوجائے تو یہ حسن نیت کا مظاہرہ ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ویانا مذاکرات میں ہمارا ایک اہم مطالبہ پابندیوں کا خاتمہ اور ضمانت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاسی، اقتصادی  اور حقوقی میدانوں ٹھوس ضمانت چاہیے۔ اور ویانا مذاکرات میں ہم اس کا پیچھا کررہے ہیں۔

بسم‌اللّہ‌الرّحمن‌الرّحیم.

 والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی محمّدٍ و آلہ الطّاہرین۔ و لعنۃاللّہ علی اعدائہم اجمعین۔

میں واقعی آپ حضرات کا بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے اس بارے میں سوچا اور یہ بڑا اقدام انجام دیا۔ البتہ یہ ایک تمہید ہے۔ یعنی آپ کا یہ اقدام اور جناب حمزہ سلام اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اجلاس، یہ تمہیدی کام ہے، اگلے کاموں کے لیے آئيڈیل معین کرنے والا کام ہے۔ اصل کام تو ہنر کو انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے پرفارمنگ، لسانی اور ویجوول (visual) آرٹس کو استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ حضرت حمزہ جیسی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مقصد پورا ہو سکے۔ ورنہ صرف خراج عقیدت پیش کرنے کے اجلاس سے، گو کہ ممکن ہے کہ میڈیا سے نشر ہو اور ایک مدت تک اس اہم شخصیت کا نام نشر ہوتا رہے، لیکن آپ جو کام کرنا چاہ رہے ہیں، ثقافت سازی کرنا چاہ رہے ہیں، آئيڈیل سازی کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ہنری کام کے بغیر پوری طرح سے انجام نہیں پا سکتا، ادھورا رہ جائے گا۔ بنابریں آپ کا کام بہت اچھا ہے۔ آپ جو بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ  آپ نے اشارہ بھی کیا ہے، صحیح ہے، اعتقاد پر بھروسہ کیجیے اور کام کی کوالٹی بہتر سے بہتر بنائیے۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ جو، ہنری کام کرنا چاہتا ہے اس کے پاس ضروری مآخذ اور ٹھوس دستاویزات موجود رہیں گی۔ کچھ جملے جناب حمزہ علیہ السلام کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔

واقعی حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ یعنی ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(1) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یہاں تک کہ پیغمبر کے اول درجے کے اصحاب کے بارے میں ہے کہ 'حاص حیصۃ'(1) سوائے مقداد کے، صرف وہی تھے جن میں بالکل بھی لغزش نہیں آئي، یہ چیزیں بڑی اہم ہیں، انھیں سامنے لانا چاہیے، ان کا احیاء ہونا چاہیے۔ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔

ان کاموں کے علاوہ امیر المومینن علیہ السلام کا وہ فرمان، وہ روایت جو نور الثقلین نے خصال کے حوالے سے نقل کی ہے، البتہ میں نے خصال میں نہیں بلکہ نور الثقلین میں دیکھی ہے، حضرت حمزہ کے بارے میں، میرے خیال میں اہم روایت ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امیر المومنین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا، یہ تفصیلی روایت ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "لَقَدْ كُنْتُ‏ عَاھَدْتُ‏ اللَّہَ‏ تعالی وَ رَسُولَہُ اَنَا وَ عَمِّي حَمْزَۃُ وَ اَخِي جَعْفَرٌ وَ ابْنُ عَمِّي عُبَيْدَۃُ" ان عبیدہ ابن حارث کو بھی کوئي نہیں جانتا، یہ عظیم شخصیت بھی ناشناختہ ہے۔ یہ وہ ہیں جو جنگ بدر میں گئے تھے، ان تین افراد میں سے ایک تھے اور پھر شہید ہوئے تھے، بعد میں شہید ہوئے تھے۔ کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ حضرت امیر ان کا نام لیتے ہیں، میں، میرے چچا حمزہ، میرے بھائي جعفر اور میرے چچا زاد بھائي عبیدہ۔ فرماتے ہیں کہ "عَاھَدْتُ‏ اللَّہَ‏ تعالی اَنَا" میں نے اور ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا " عَلَى اَمْرٍ وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی علیہ و آلہ" ایک بات پر آپس میں اتفاق کیا، خدا اور اس کے پیغمبر سے عہد کیا، مطلب یہ کہ بیٹھے اور یہ طے کیا۔ جوان امیر المومنین اپنے سن رسیدہ چچا کے ساتھ، جو پیغمبر سے دو سال بڑے تھے، ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ عمر کے لحاظ سے رسول خدا سے دو یا چار سال بڑے تھے اور وہ پیغمبر کے رضاعی بھائي بھی تھے۔ تو امیر المومنین اپنے ان چچا، بھائي اور چچا زاد بھائي کے ساتھ بیٹھے اور ایک بات کا عہد کیا اور بات "جہاد حتی الشہادۃ" یعنی شہادت تک جہاد سے عبارت تھی۔ یعنی یہ کہ ہم اس راہ میں شہادت تک بغیر ڈرے آگے بڑھتے رہیں گے، شہادت حاصل ہونے تک جہاد کرتے رہیں گے۔(2) اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہیں: "وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی اللّہ عَلَیْہِ وَ آلِہ فَتَقَدَّمَنِي أصْحَابِي" یہ لوگ یعنی میرے تین ساتھی مجھ سے آگے بڑھ گئے "وتَخَلَّفتُ بَعْدَھُم(3)  لِمَا اَرَادَ اللَّہُ تَعالی فَاَنْزَلَ اللَّہُ فِينَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ" آيت کے آخر تک، پھر کہتے ہیں کہ حمزہ، جعفر اور عبیدہ، جن لوگوں نے، قضی نحبہ، یعنی جنھوں نے اپنے عہد کو پورا کیا، وہ یہ تین لوگ ہیں۔ "و انا واللہ المنتظر" اور خدا کی قسم میں منتظر ہوں۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ امیر المومنین کی زبان سے یہ بات اس طرح بیان ہوئي ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے، ان کی عظمت بیان کی جائے اور ان کی شخصیت کو نمایاں کیا جائے، یہ اس موضوع کی عظمت اور اس شخصیت کی عظمت کا غماز ہے۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ اور یہ چیز صرف اسی دن کے لیے نہیں ہے، ہمیشہ کے لیے اور پوری تاریخ کے لیے ہے، تمام مسلمانوں کے لیے ہے، بنابریں آپ کا کام صرف ملک کے اندر اور ایران کا نہیں ہے، آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو ان شاء اللہ اگر اچھے سے ہو گيا اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ کام اچھے سے ہو جائے گا، تو پھر یہ سبھی اسلامی ملکوں، سبھی عرب ملکوں اور دیگر زبان کے ملکوں کی ایک خدمت ہوگي۔ اس سے سبھی کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان شاء اللہ سبھی فائدہ اٹھائيں گے۔ شاید ان کے فنکار پیشقدمی کریں اور بڑے بڑے کام انجام دیں۔

خیر، اب ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر کا تعین کریں۔ یعنی ایک بڑا کام یہ ہے کہ اس شخصیت کے ساتھ کیا ہوا، کس خصوصیت نے انھیں اس حد تک عظمت عطا کی۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم کام ہے، پھر یہ ہم لوگوں کے لیے آئيڈیل بن جائے تاکہ خود ہم لوگ بھی اور دوسرے بھی، اس سے استفادہ کریں۔ میرے خیال میں حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر میں سے دو یہ ہیں: ایک عزم مصمم اور دوسرے شناخت؛ شناخت کی طاقت۔ ان چیزوں کی ہمیں زیادہ سے زیادہ ترویج کرنی چاہیے۔ عزم مصمم، ٹھوس ارادہ؛ کبھی انسان کسی بات سے مطلع ہوتا ہے، کسی بات کو مانتا بھی ہے، اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے لیکن کمزور ارادے کے سبب اس کے مطابق عمل نہیں کر پاتا۔ ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم یہاں پر ایک فیصلہ کن عنصر ہے کہ اس پرعزم شخصیت نے، جس دن حضرت حمزہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، بعثت کے آٹھویں سال انھوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، وہ دن پیغمبر کے سخت ترین ایام میں سے ایک تھا، کیونکہ اسلام آشکار ہو چکا تھا اور ادھر ادھر سے پیغمبر پر حملے ہو رہے تھے، رسول خدا کے اصحاب پر حملے ہو رہے تھے، یہ سختیاں جو ہم نے سنی ہیں، انھیں برسوں سے متعلق ہیں۔ انھیں سخت برسوں میں، ایسے حالات میں جب مسلمان انتہائي سختی میں زندگی گزار رہے ہیں، اس شخصیت نے مسجد الحرام میں، کعبے کے قریب چیخ کر کہا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں، سبھی جان لیں کہ میں ان کے دین پر ایمان لے آيا ہوں۔ یہ وہی شجاعت ہے، وہی ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم ہے اور صحیح شناخت ہے اور یہ صحیح شناخت بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اپنے عوام کو یہ سکھانا چاہیے کہ مسائل کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچیں اور صحیح تعین کریں۔ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في‏ اصحابِ السَّعيرِ"(4) فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِھِم(5) (کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کی سزا پانے والوں میں نہ شامل ہوتے۔"  تو اس طرح وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیں گے۔) یہ کہ ہم نہ سنیں، نہ سوچیں، غور نہ کریں، یہ گناہ ہے، قرآن مجید، اس طرح صراحت کے ساتھ اسے بیان کرتا ہے۔

تو یہ بزرگ شخصیت امام محمد باقر علیہ السلام کے مطابق امیر المومنین کے حوالے سے "صدقوا ما عاھدوا اللہ"(6) کی مصداق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "صدقوا ما عاھدوا اللہ" یعنی عہد الہی کو صداقت کے ساتھ پورا کر دکھانا، یہ کیسے ہوتا ہے؟  اس کی مکمل اور کامل شکل یہ ہے کہ انسان، الہی تعلیمات، الہی احکام اور خدا کی معین کردہ راہ کے لیے خود کو آئيڈیل بنا دے، خود کو اس کا مصداق بنا لے۔ ان شاء اللہ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے۔ اگر معاشرے کی سرکردہ شخصیات اس طرح کی شخصیات تیار کرنے کی کوشش کریں تو ان میں سے ہر ایک، حساس مواقع پر سماج کو نجات دے سکتی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ کچھ ایسے لوگوں کی تربیت کریں یا وعظ و نصیحت کریں یا ایسا ہی کچھ اور کریں کہ نتیجتا وہ اچانک ہی کوئي بھی بات تسلیم کر لیں، نہیں، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسی ایک پوری مشینری ہو۔ بحمد اللہ جامعۃ المصطفی(7) اس سلسلے میں ایک سرگرم مرکز ہو سکتا ہے۔ قم میں بعض مراکز، جنھیں بحمد اللہ حال میں اعلی دینی تعلیمی مرکز کی کارآمد منتظمہ نے وجود عطا کیا ہے، اس طرح کی چیزوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ کچھ تشہیراتی ادارے بھی اس سلسلے میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم ایسی شخصیتیں تیار کریں جو خود الہی تعلیمات، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام کی مصداق ہوں۔ اگر اس طرح کی شخصیات تیار ہو گئيں تو پھر اسلامی تمدن کی تشکیل، ایک یقینی بات ہوگي، یعنی پھر اس میں کوئي شک و شبہ نہیں رہ جائے گا۔

ان شاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو اجر عطا کرے، آپ کو کامیاب کرے تاکہ آپ اس کام کو اور اگلے کاموں کو ان شاء ا للہ بہترین طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس اجلاس کے انعقاد میں شامل آپ تمام حضرات کا میں اپنے طور بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

یمن کی حکومت کی مذاکرات کار ٹیم کے رکن کا کہنا ہے کہ اب یواے ایی کو ہمارے سخت جواب کا انتظار کرنا چاہئے۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق یمن کی مذاکراتی ٹیم کے رکن عبد الملک العجزی نے کہا ہے کہ جب امریکا کو یہ یقین ہو گیا کہ مآرب میں جنگ اپنے آخری مرحلے میں ہے تب سے ہی یمن میں متحدہ عرب امارات کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب جبکہ متحدہ عرب امارات جنگ یمن میں پوری طرح ملوث ہو گیا ہے تو اس کو اس کی قمیت ادا کرنی پڑے گی۔  

عبد الملک العجزی نے کہا کہ یمن کی فوج صرف انہیں لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جو ملک کے عوام پر حملے کرتے ہیں۔

اس سے پہلے یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبد الملک بدر الدین الحوثی نے کہا تھا کہ امریکا اور صیہونی حکومت نے متحدہ عرب امارات کو یمن پر پھر سے حملے کے لئے ورغلایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر اس میں یواے ای کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ یمن کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ حملوں کے جاری رہنے کی صورت میں ان کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

یمنی کی مسلح افواج نے گزشتہ ہفتوں کے دوران طوفان یمن-1، طوفان یمن-2 اور طوفان یمن-3 فوجی آپریشن انجام دیئے جن میں میزائلوں اور ڈرون کا استعمال کیا گیا تھا۔

تقريب خبررسان ايجنسی

Sunday, 06 February 2022 07:14

ایک منفرد انقلاب


امام خمینی (رہ) برسوں کی جلاوطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کی صبح ساڑھے نو بجے یا اس سے بھی زیادہ ٹھیک 9:27:30 پر 14 سال اور تین ماہ کی جلاوطنی کے بعد ایران پہنچے۔ عصری تاریخ میں ایک منفرد انقلاب کے بانی۔ ایک ایسا انقلاب جو بہت سے گواہوں، مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق روحانیت، آزادی اور حقیقی اسلامی اقدار کا پیامبر ہے۔ اس انقلاب نے ایران میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ساتھ ہی خالص محمدی اسلام کی شمع روشن کی۔ بلاشبہ اصل اسلام کی خالص تعلیمات کے دوبارہ ظہور کے اہم عوامل میں سے ایک، انقلاب اسلامی ایران کے عظیم معمار، سید روح اللہ موسوی خمینی، جو امام خمینی کے نام سے مشہور ہیں، کی الہیٰ قیادت تھی، یہ انقلاب اپنی زندگی کے 43 سال گزارنے کے بعد آج بھی دنیا کے مظلوموں، حریت پسندوں اور آزادی کے متلاشیوں کی پناہ گاہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی تعداد چالیس کے قریب پہنچ گئی تو خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اب اپنی دعوت کو ظاہر کریں۔ اس دن جو لوگ کوہ صفا کے قریب تھے، انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹانوں اور پتھروں کو روندتے ہوئے ثابت قدم اور مستحکم قدموں کے ساتھ کوہ صفا پر چڑھے۔ پھر بلند آواز سے پکارا: "یا صباحا" آپ خطرے اور اہم کام کے وقت اس طرح کا شعار بلند کرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف بے پناہ شفقت اور محبت سے دیکھا اور فرمانے لگے: کیا تم نے کبھی مجھ سے جھوٹ سنا ہے؟ کیا آپ نے کچھ غلط سنا ہے۔؟

سب نے کہا: نہیں! ’’ہم نے آپ سے سچائی اور پاکیزگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور نہ سنا۔‘‘ لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لئے آپ نے فرمایا: "اب اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے پیچھے سے آکر تم پر حملہ آور ہوں گے تو کیا تم میری بات پر یقین کرتے ہو۔؟" جان لو اور آگاہ ہو جاؤ! اس زندگی کے بعد تمہیں ایک ہنگامہ خیز دنیا کا سامنا ہے، ایک ایسی دنیا جس میں بہت سے درد، مصائب، عذاب، اذیتیں، بدبختیاں اور محرومیاں ہیں! "لہذا میں آپ کو اس سخت عذاب سے خبردار کرتا ہوں، جس کا آپ کو سامنا ہے اور آپ کو اس کے خطرے سے خبردار کرتا ہوں۔"

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تحریک کا آغاز رسول اللہ (ص) کے دین کو زندہ کرنے کے مقصد سے کیا اور 1343 ھجری شسی (1964ء) میں اپنی تقریر میں کیپچولیشن capitulation یعنی امریکہ کی ایماء پر ایرانی عوام کے خلاف انتہائی ذلت آمیز بل کی منظوری کے خلاف دعوت دی۔ یہ بل امریکہ کو مکمل رعایت اور قومی خود مختاری کی خلاف ورزی تھا۔ آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریر میں  خبردار کیا اور کہا: "لوگو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایرانی فوج، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے سیاستدانو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے تاجرو میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے علماء، اے مراجع اسلام، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے فضلا، اے علماء، اے حضرات، اے اہل نجف، اے اہلیان قم، اے اہل مشہد، اے اہل تہران، اے شیراز، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں!

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اخلاص اور بندگی کے جذبے سے مزین تھے اور ہمیشہ اپنے قول و فعل میں خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کے طلبگار تھے۔ امام خمینی کے جانشین اور انقلاب اسلامی ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای امام خمینی کی اس خصوصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، ایک بابصیر زاہد و عبادت گزار تھے، انہوں نے اپنے آپ کو غیر خدائی بندھنوں سے آزاد کیا اور خدا کے سچے بندے بن گئے۔ آپ قلب سلیم اور باطنی نور کے مالک تھے اور آپ نے اپنی ذات کو خدا کی ذات مین گم کر دیا تھا۔ بانی انقلاب نے خدا پر توکل کرتے ہوئے، ائمہ معصومین (ع) کی سیرت کو اپناتے ہوئے اور قوم کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی، جو تاریخ اسلام کے حیرت انگیز واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس انقلاب نے ایک ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیا، جس کی جڑیں دو ہزار پانچ سو سال قدیمی تھیں۔ امام خمینی اپنی تمام کامیابیوں کو خدا کی طرف سے جانتے تھے۔

آیت اللہ خامنہ ای، جن کی ہمت اور اعتماد سب کو معلوم ہے، انہوں نے گواہی دی ہے کہ جب خوفناک اور سخت ترین حالات و واقعات میں، جب تمام ایرانی حکام اپنے آپ کو بے بس سمجھنے لگتے تھے، وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور امام خمینی نے انہیں ہمیشہ اطمینان اور امید دلائی۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی اپنے روحانی روابط اور خدا پر توکل کے ساتھ ہمیشہ ایک مضبوط پہاڑ کی طرح کھڑے رہے اور انہیں کسی چیز نے متزلزل نہیں کیا۔ ملک کے اکثر حالات اور انقلاب کے واقعات میں تمام بوجھ ہمیشہ امام پر ہی تھا۔ وہ ایک جملے سے حکام کو سخت ترین حالات و واقعات میں ایسے رہنمائی کرتے کہ سب پریشانیان اور خدشات ختم ہو جاتے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شخصیت اور اعلیٰ مقام کے باوجود اپنے آپ کو نہایت عاجز و خاکسار کہتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھا بلکہ اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھا اور اپنے لیے کوئی اعزاز اور عہدہ و لقب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ ہمیشہ اصرار کرتے کہ ان کی تعریف نہ کی جائے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے امام کی عظمت اور بزرگی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ آپ کی تواضع کو اس طرح بیان کیا: "امام وہ تھے، جو اپنی طاقت سے دنیا کی تمام سیاست کو بدلنے پر قادر تھے۔ آپ کے پختہ ارادہ کے سامنے بڑے بڑے پہاڑ چھوٹے تھے،۔ آپ کے الفاظ اور آپ کا موقف دنیا میں بم کی طرح اثر رکھتے تھے۔ اس اثر اور عظمت کے باوجود عوام کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے اور لوگوں کی ہمت، اور قربانی کے سامنے سر جھکا کر عاجزی سے کہتے ’’لوگ ہم سے بہتر ہیں۔۔۔۔‘‘ سورہ انفال کی آیت نمبر 24 میں قرآن کریم نے دین اسلام کے احیاء کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے، جو ایمان لے آئے ہیں اور اپنے دلوں کو ایمان کے نور سے منور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "اے ایمان والو، اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں، جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جاؤ گے۔"

درحقیقت ایک مکتب اس وقت حیات بخش ہوسکتا ہے، اگر وہ خود زندہ ہو۔ اسلام، جو ہمیشہ متحرک اور زندہ رہا ہے، زندگی دے سکتا ہے اور اپنے پیروکاروں کے دل کی موت کو روک سکتا ہے۔ امام خمینی کے نزدیک خالص محمدی اسلام ایک ایسا اسلام ہے، جس کا اصل ماخذ قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور امام عصر (ع) کی عدم موجودگی میں علمائے دین کی سیاسی اتھارٹی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خالص اسلام ایک ایسا مکتب ہے، جو قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور علمائے کرام کی سیاسی مرجعیت سے نکلتا ہے اور صحیح استدلال اور منطق اور رائے کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ کا خالص محمدی (ص) اسلام کفار کے لیے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی گنجا‏ش نہیں چھوڑتا اور مسلمان ہمیشہ احکام الہیٰ کی پابندی اور قرآن کریم کی نورانی آیات پر عمل کرتے ہوئے مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

امام خمینی کی نظر میں انصاف اور سامراج دشمنی خالص محمدی اسلام کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں، ایک ایسا اسلام جس نے ظلم اور استحصال کا مقابلہ کیا اور سماجی انصاف کے قیام کی کوشش کی۔ خداوند عالم نے پیغمبروں کے بھیجنے کے آغاز سے ہی عدل و انصاف کے نفاذ کا تعارف کرایا ہے، دین کا ہدف سورہ حدید کی 25 نمبر آیت کے ایک حصے میں بیان ہوا ہے۔ "بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے، جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقیناً اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔" امام خمینی (رہ) اسلامی جمہوریہ میں عدل کے بارے میں فرماتے ہیں: "اسلامی جمہوریہ میں اسلامی عدل جاری ہوگا، خدائی عدل پوری قوم پر سایہ فگن ہوگا اور جو   طاغوت کے دور میں تھا، وہ اسلامی جمہوریہ میں نہیں ہوگا۔"

بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ خیال صحیح ہے کہ امام خمینی ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعد مذہبی فکر کے سب سے بڑے احیاء کنندہ ہیں؛ جن کا آخری ہدف اسلامی انقلاب اور ایک فکری اور سماجی تحریک کی تشکیل کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا تھا۔ امام خمینی نے مذہب کو انفرادی اعمال تک محدود نہیں رکھا، وہ مذہب کی جامعیت اور سماجی میدانوں میں اس کی موجودگی پر یقین رکھتے تھے۔ بانی انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایرانی انقلاب کو فتح سے ہمکنار کیا، جس نے تمام مسلم معاشروں میں اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیا، بلکہ امام خمینی کا اسلامی انقلاب روشنی کا ایک دھماکہ تھا اور اس روشنی کی کرنیں تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں چمکیں اور تمام مظلوموں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے عزت و افتخار کا باعث بنیں۔ اسلام دشمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے یہ تھے کہ مذہب قوموں کے لئے افیون ہے، لیکن اسلامی انقلاب کے قیام نے دنیا کو دکھایا کہ دین اسلام معاشرے کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت کا بھی ضامن ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال

واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔

امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میںبہ کثرت کہا کرو:

اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ

’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘

ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! وﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوںسے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول ! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟

آپ نے فرمایا: اے سالم!

جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔

واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔

سُبْحانَ الْاِلهِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَهُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ

پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے

سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَهُوَ لَهُ أَهْلٌ

پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔

 

 

ماہ رجب کے مشترکہ اعمال

 

دعایہ روزانہ ماہ رجب

یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔

 

( ۱ )

رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:

یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، وَیَعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ، لِکُلِّ مَسْأَلَةٍ مِنْکَ سَمْعٌ

اے وہ جوسائلین کی حاجتوں کامالک ہے اور خاموش لوگوں کے دلوں کی باتیں جانتا ہے ہر وہ سوال جو تجھ سے کیا جائے تیرا

حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِیدٌ اَللّٰهُمَّ وَمَواعِیدُکَ الصَّادِقَةُ، وَأَیادِیکَ الْفَاضِلَةُ، وَرَحْمَتُکَ

کان اسے سنتا ہے اور اس کا جواب تیار ہے اے معبود تیرے سب وعدے یقینا سچے ہیں تیری نعمتیں بہت عمدہ ہیں اور تیری رحمت

الْوَاسِعَةُ فَأَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَقْضِیَ حَوائِجِی لِلدُّنْیا

بڑی وسیع ہے پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میری دنیا اور اور آخرت کی حاجتیں

وَالاَْخِرَةِ، إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ

پوری فرما بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

 

( ۲ )

یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔

خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِکَ، وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاَّ لَکَ، وَضاعَ الْمُلِمُّونَ إلاَّ بِکَ

نا امید ہوئے تیرے غیرکی طرف جانے والے گھاٹے میں رہے تیرے غیر سے سوال کرنے والے تباہ ہوئے تیرے غیر کے ہاں

وَأَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ بَابُکَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَخَیْرُکَ مَبْذُولٌ

جانے والے، قحط کاشکار ہوئے تیرے فضل کے غیر سے روزی طلب کرنے والے تیرا در اہل رغبت کیلئے کھلا ہے تیری بھلائی طلب

لِلطَّالِبِینَ، وَفَضْلُکَ مُباحٌ لِلسَّائِلِینَ، وَنَیْلُکَ مُتَاحٌ لِلاَْمِلِینَ، وَرِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ

گاروں کو بہت ملتی ہے تیرا فضل سائلوں کیلئے عام ہے اور تیری عطا امید واروں کیلئے آمادہ ہے تیرا رزق نافرمانوں کیلئے بھی فراواں

عَصَاکَ وَحِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاکَ عَادَتُکَ الْاِحْسانُ إلَی الْمُسِیئِینَ وَسَبِیلُکَ

ہے تیری بردباری دشمن کے لیے ظاہر و عیاں ہے گناہگاروں پر احسان کرنا تیری عادت ہے اور ظالموں کو باقی رہنے دینا

الْاِ بْقائُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اَللّٰهُمَّ فَاهْدِنِی هُدَی الْمُهْتَدِینَ وَارْزُقْنِی اجْتِهادَ الْمُجْتَهِدِینَ

تیرا شیوہ ہے اے معبود مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر لگا اور مجھے کوشش کرنے والوں کی سی کوشش نصیب فرما

وَلاَ تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ، وَاغْفِرْ لِی یَوْمَ الدِّینِ

مجھے غافل اور دورکیے ہوئے لوگوں میں سے قرار نہ دے اور یوم جزا میں مجھے بخش دے۔

 

( ۳ )

شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپعليه‌السلام نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ صَبْرَ الشَّاکِرِینَ لَکَ، وَعَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْکَ، وَیَقِینَ الْعَابِدِینَ

اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے شکر گزاروں کا صبر ڈرنے والوں کا عمل اور عبادت گزاروں کا یقین عطا

لَکَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَأَنَا عَبْدُکَ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ أَنْتَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ وَأَنَا

فرما اے معبود تو بلند و بزرگ ہے اور میں تیرا حاجت مند اور بے مال ومنال بندہ ہوں تو بے حاجت اور تعریف والا ہے اور میں تیرا

الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَامْنُنْ بِغِنَاکَ عَلَی فَقْرِی، وَبِحِلْمِکَ عَلَی

پست تر بندہ ہوں اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انکی آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما اور میری محتاجی پر اپنی تونگری سے میری نادانی پر اپنی ملائمت و بردباری

جَهْلِی وَبِقُوَّتِکَ عَلَی ضَعْفِی یَا قَوِیُّ یَا عَزِیزُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الْاَوْصِیائِ

سے اور اپنی قوت سے میری کمزوری پر احسان فرما اے قوت والے اسے زبردست اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورانکی آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما

الْمَرْضِیِّینَ وَاکْفِنِی مَا أَهَمَّنِی مِنْ أَمْرِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَةِ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

جو پسندیدہ وصی اور جانشین ہیں اور دنیا و آخرت کے اہم معاملوں میں میری کفایت فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ کتاب اقبال میں سید بن طائوس نے بھی اس دعا کی روایت کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ جامع ترین دعا ہے اور اسے ہروقت پڑھاجاسکتا ہے۔

 

( ۴ )

شیخ فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔

اَللّٰهُمَّ یَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ وَالآلاَءِ الْوَازِعَةِ وَالرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ، وَالْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ

اے معبود اے مسلسل نعمتوں والے اور عطا شدہ نعمتوں والے اے کشادہ رحمت والے۔ اے پوری قدرت والے۔

وَالنِّعَمِ الْجَسِیمَةِ وَالْمَواهِبِ الْعَظِیمَةِ وَالْاَیادِی الْجَمِیلَةِ وَالْعَطایَا الْجَزِیلَةِ یَا مَنْ

اے بڑی نعمتوں والے اے بڑی عطائوں والے اے پسندیدہ بخششوںوالے اور اے عظیم عطائوں والے اے وہ جس کے وصف

لاَ یُنْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَلاَ یُمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَلاَ یُغْلَبُ بِظَهِیرٍ یَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَأَلْهَمَ فَأَنْطَقَ

کیلئے کوئی مثال نہیں اور جسکا کوئی ثانی نہیں جسے کسی کی مدد سے مغلوب نہیںکیا جاسکتا اے وہ جس نے پیدا کیاتوروزی دی الہام کیاتو

وَابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَعَلا فَارْتَفَعَ، وَقَدَّرَ فَأَحْسَنَ، وَصَوَّرَ فَأَتْقَنَ، وَاحْتَجَّ فَأَبْلَغَ،

گویائی بخشی نئے نقوش بنائے تورواں کردیئے بلند ہوا تو بہت بلند ہوا اندازہ کیا تو خوب کیا صورت بنائی تو پائیدار بنائی حجت قائم کی

وَأَنْعَمَ فَأَسْبَغَ، وَأَعْطی فَأَجْزَلَ، وَمَنَحَ فَأَفْضَلَ یَا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفاتَ نَواظِرَ

تو پہنچائی نعمت دی تو لگاتار دی عطا کیا تو بہت زیادہ اور دیا تو بڑھاتا گیا اے وہ جو عزت میں بلند ہوا تو ایسا بلند کہ

الْاَ بْصارِ، وَدَنا فِی اللُّطْفِ فَجازَ هَواجِسَ الْاَفْکارِ یَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْکِ فَلا نِدَّ لَهُ

آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور تو لطف و کرم میں قریب ہوا تو فکر و خیال سے بھی آگے نکل گیا اے وہ جو بادشاہت میں

فِی مَلَکُوتِ سُلْطَانِهِ وَتَفَرَّدَ بِالآلاَءِ وَالْکِبْرِیائِ فَلاَ ضِدَّ لَهُ فِی جَبَرُوتِ شَأْنِهِ یَا مَنْ

یکتا ہے کہ جسکی بادشاہی کے اقتدار میں کوئی شریک نہیں وہ اپنی نعمتوں اور اپنی بڑائی میںیکتا ہے پس شان و عظمت میں کوئی اسکا

حارَتْ فِی کِبْرِیائِ هَیْبَتِهِ دَقائِقُ لَطائِفِ الْاَوْهامِ، وَانْحَسَرَتْ دُونَ إدْراکِ عَظَمَتِهِ

مقابل نہیں اے وہ جس کے دبدبہ کی عظمت میں خیالوں کی باریکیاں حیرت زدہ ہیں اور اس کی بزرگی کو پہچاننے میں مخلوق

خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْاَنامِ یَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِهَیْبَتِهِ، وَخَضَعَتِ الرِّقابُ لِعَظَمَتِهِ،

کی نگاہیں عاجز ہیں اے وہ جس کے رعب کے آگے چہرے جھکے ہوئے ہیں اور گردنیں اسکی بڑائی کے سامنے نیچی ہیں

وَوَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِهِ أَسْأَلُکَ بِهَذِهِ الْمِدْحَةِ الَّتِی لاَ تَنْبَغِی إلاَّ لَکَ وَبِما وَأَیْتَ

اور دل اسکے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں میں سوال کرتا ہوں تیری اس تعریف کے ذریعے جو سوائے تیرے کسی کو زیب نہیں اور اس

بِهِ عَلَی نَفْسِکَ لِداعِیکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَبِما ضَمِنْتَ الْاِجابَةَ فِیهِ عَلَی نَفْسِکَ

کے واسطے جو کچھ تو نے اپنے ذمہ لیا پکارنے والوں کی خاطر جو کہ مومنوں میں سے ہیں اس کے واسطے جسے تونے پکارنے والوں کی

لِلدَّاعِینَ یَا أَسْمَعَ السَّامِعِینَ، وَأَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، وَأَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ، یَا ذَا الْقُوَّةِ

دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رکھی ہے اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے تیز تر حساب کرنے

الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ وَعَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ وَاقْسِمْ لِی فِی شَهْرِنا هذَا

والے اے محکم تر قوت والے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما جو خاتم الانبیائ ہیں اور ان کے اہلبیت پر بھی اور اس مہینے میں مجھے اس سے بہتر

خَیْرَ مَا قَسَمْتَ وَاحْتِمْ لِی فِی قَضَائِکَ خَیْرَ مَا حَتَمْتَ، وَاخْتِمْ لِی بالسَّعادَةِ فِیمَنْ

حصہ دے جو تو تقسیم کرے اور اپنے فیصلوں میں میرے لیے بہتر و یقینی فیصلہ فرما کر مجھے نواز اور اس مہینے کو میرے لیے خوش بختی پر

خَتَمْتَ وَأَحْیِنِی مَا أَحْیَیْتَنِی مَوْفُوراً وَأمِتْنِی مَسْرُوراً وَمَغْفُوراً وَتَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِی

تمام کر دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے فراواں روزی سے زندہ رکھ اور مجھے خوشی و بخشش کی حالت میں موت دے

مِنْ مُساءَلَةِ البَرْزَخِ وَادْرأْ عَنِّی مُنکَراً وَنَکِیراً، وَأَرِ عَیْنِی مُبَشِّراً وَبَشِیراً، وَاجْعَلْ

اور برزخ کی گفتگو میں تو خود میرا سرپرست بن جامنکر و نکیر کو مجھ سے دور اور مبشر و بشیر کو میری آنکھوں کے سامنے لا اور مجھے اپنی رضا

لِی إلَی رِضْوَانِکَ وَجِنانِکَ مَصِیراً وَعَیْشاً قَرِیراً، وَمُلْکاً کَبِیراً، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

مندی اور بہشت کے راستے پر گامزن کر دے وہاں آنکھوں کو روشن کرنے والی زندگی اور بڑی حکومت عطا فرما اور تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کی

وَآلِهِ کَثِیراً

آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما بہت زیادہ۔

 

مولف کہتے ہیں کہ یہ دعا مسجد صعصعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے جو مسجدکوفہ کے قریب ہے۔

 

( ۵ )

شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ (اما م زمان(عج) کی جانب) سے امام العصرعليه‌السلام کے وکیل شیخ کبیر ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید کے ذریعے سے یہ توقیع یعنی مکتوب آیا ہے۔

رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو:

 

بِسْمِ ﷲ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ

خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِمَعانِی جَمِیعِ مَا یَدْعُوکَ بِهِ وُلاةُ أَمْرِکَ الْمَأْمُونُونَ عَلَی سِرِّکَ

اے معبود میں سوال کرتا ہوں تجھ سے ان پر معنی الفاظ کے واسطے سے جن سے تیرے امر کے ولی تجھے پکارتے ہیں جو تیرے راز کے

الْمُسْتَبْشِرُونَ بأَمْرِکَ، الْواصِفُونَ لِقُدْرَتِکَ، الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِکَ، أَسْأَلُکَ بِما نَطَقَ

امانتدار تیرے امر کی خوشخبری پانے والے تیری قدرت کی توصیف کرنے والے اور تیری عظمت کا اعلان کرنے والے ہیں تجھ سے

فِیهِمْ مِنْ مَشِیءَتِکَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِکَلِماتِکَ وَأَرْکاناً لِتَوْحِیدِکَ وَآیاتِکَ وَمَقاماتِکَ

سوال کرتا ہوں تیری اس مشیت کے واسطے سے جو ان کے حق میں گویا ہے پس تو نے ان کو اپنے کلمات کی کانیں بنایا اور اپنی توحید،

الَّتِی لاَ تَعْطِیلَ لَهَا فِی کُلِّ مَکَانٍ یَعْرِفُکَ بِهَا مَنْ عَرَفَکَ، لاَ فَرْقَ بَیْنَکَ وَبَیْنَها

آیات اور مقامات کے ارکان کو جو کسی جگہ بھی اپنے فرض کے ادا کرنے سے باز نہیں رہتے کہ جو تجھے پہچانتا ہے ان کے ذریعے

إلاَّ أَ نَّهُمْ عِبادُکَ وَخَلْقُکَ، فَتْقُها وَرَتْقُها بِیَدِکَ، بَدْؤُها مِنْکَ وَعَوْدُها

پہنچانتا ہے ان میں تجھ میں کوئی فرق نہیںسوائے اس کے کہ وہ تیرے بندے اور تیری مخلوق ہیں کہ ن کی حرکت اور سکون تیرے حکم

إلَیْکَ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوَادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ، فَبِهِمْ مَلاََْتَ

سے ہے ان کی ابتدائ تجھ سے اور انتہائتجھ تک ہے وہ مددگار گواہ آزمودہ دافع محافظ اور پیغام رساں ہیں انہی کے واسطے سے تو نے

سَمَاءَکَ وَأَرْضَکَ حَتَّی ظَهَرَ أَنْ لاَ إلهَ إلاَّ أَ نْتَ، فَبِذلِکَ أَسْأَ لُکَ وَبِمَواقِعِ الْعِزِّ مِنْ

اپنے آسمان اور زمین کو آباد کیا۔ تب آشکار ہوا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں پس انکے واسطے سے اورتیری عزت کے عظیم موقعوں کے

رَحْمَتِکَ وَبِمَقاماتِکَ وَعَلامَاتِکَ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَنْ تَزِیدَنِی إیماناً

واسطے سے اور تیرے مراتب اورنشانیوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوںکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور میرے ایمان و ثابت قدمی

وَتَثْبِیتاً یَا بَاطِناً فِی ظُهُورِهِ وَظَاهِراً فِی بُطُونِهِ وَمَکْنُونِهِ یَا مُفَرِّقاً بَیْنَ النُّورِ

میں اضافہ فرما اے وہ کہ اپنے ظہور میں پوشیدہ اور اپنی پوشیدگیوں اور پردوں میں ظاہر ہے اسے نور اور تاریکی میں جدائی ڈالنے

وَالدَّیجُورِ، یَا مَوْصُوفاً بِغَیْرِ کُنْهٍ، وَمَعْرُوفاً بِغَیْرِ شِبْهٍ، حَادَّ کُلِّ مَحْدُودٍ، وَشَاهِدَ

والے اے بغیر حقیقی معرفت کے متصف کیے جانے والے اور بغیرمثال کے پہچانے جانے والے ہرمحدود کی حدبندی کرنے والے

کُلِّ مَشْهُودٍ وَمُوجِدَ کُلِّ مَوْجُودٍ وَمُحْصِیَ کُلِّ مَعْدُودٍ وَفاقِدَ کُلِّ مَفْقُودٍ لَیْسَ

اور اے ہر محتاج گواہی کے گواہ ہر موجود کے ایجاد کرنے والے ہر تعداد کے شمار کرنے والے ہر گمشدہ کے گم کرنے والے تیرے سوا

دُونَکَ مِنْ مَعْبُودٍ، أَهْلَ الْکِبْرِیائِ وَالْجُودِ، یَا مَنْ لاَ یُکَیَّفُ بِکَیْفٍ، وَلاَ یُؤَیَّنُ بِأَیْنٍ،

کوئی معبود نہیں کہ جو بڑائی اور سخاوت والا ہو۔ اے وہ جس کی حقیقت بے بیان ہے جو کسی

یَا مُحْتَجِباً عَنْ کُلِّ عَیْنٍ، یَا دَیْمُومُ یَا قَیُّومُ وَعالِمَ کُلِّ مَعْلُومٍ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

مکان میں نہیں سماتا اے وہ جوہر آنکھ سے اوجھل ہے اے ہمیشگی والے اے نگہبان اور ہر چیزکے جاننے والے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آلعليه‌السلام پر

وَآلِهِ وَعَلَی عِبادِکَ الْمُنْتَجَبِینَ وَبَشَرِکَ الْمُحْتَجِبِینَ، وَمَلائِکَتِکَ الْمُقَرَّبِینَ وَالْبُهْمِ

رحمت فرما اور اپنے پاک و پاکیزہ بندوں پر اور پوشیدہ رہنے والے انسانوں پر اور اپنے مقرب فرشتوں پر اور نامعلوم

الصَّافِّینَ الْحَافِّینَ وَبارِکْ لَنا فِی شَهْرِنا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُکَرَّمِ وَمَا بَعْدَهُ مِنَ

صف بستہ دائرے میں کھڑے ہوئوں پر اور برکت نازل فرماہمارے لیے ہمارے اس رجب کے مہینے میں جوبزرگی والاہے اور اس

الْاَشْهُرِ الْحُرُمِ وَأَسْبِغْ عَلَیْنا فِیهِ النِّعَمَ وَأَجْزِلْ لَنا فِیهِ الْقِسَمَ وَأَبْرِرْ لَنا فِیهِ

کے بعد آنے والے محترم مہینوں میں نیز اس مہینے میں ہم پر نعمتیں کامل فرما اور ہمیں زیادہ حصہ عنایت کر اور اس مہینے میں ہماری قسمتیں

الْقَسَمَ بِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ، الَّذِی وَضَعْتَهُ عَلَی النَّهَارِ فَأَضاءَ

نیک کر دے واسطہ ہے تیرے نام کا جو بڑا خوش آئند اور کرامت والا ہے جسے تونے دن پر متوجہ کیا تو وہ روشن ہوگیا اور رات

وَعَلَی اللَّیْلِ فَأَظْلَمَ وَاغْفِرْ لَنا مَا تَعْلَمُ مِنَّا وَمَا لاَ نَعْلَمُ، وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوبِ خَیْرَ

پر رکھا تو وہ تاریک ہوگئی پس بخش دے ہمارے وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے ہم نہیں جانتے اور ہمیں گناہوں سے بخوبی محفوظ فرما ہماری

الْعِصَمِ، وَاکْفِنا کَوافِیَ قَدَرِکَ، وَامْنُنْ عَلَیْنا بِحُسْنِ نَظَرِکَ، وَلاَ تَکِلْنا إلَی غَیْرِکَ،

کفایت فرما جیسی تو قدرت کاملہ رکھتا ہے اور اپنے حسن نظر سے ہم پر احسان فرما ہمیں اپنے غیر کے حوالے نہ کر اپنی خیر و برکت ہم

وَلاَ تَمْنَعْنا مِنْ خَیْرِکَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیما کَتَبْتَهُ لَنَا مِنْ أَعْمارِنا، وَأَصْلِحْ لَنا خَبِیءَةَ

سے نہ روک اور ہماری جو عمریں تونے لکھی ہیں ان میں برکت عطا فرما ہماری چھپی ہوئی برائیاں مٹا دے اور ہمیں

أَسْرَارِنا وَأَعْطِنَا مِنْکَ الْاَمانَ، وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الْاِیمَانِ، وَبَلِّغْنَا شَهْرَ الصِّیامِ،

اپنی طرف سے پناہ عطا کردے ہمیں بہترین ایمان رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں آنے والے ماہ رمضان اس کے

وَمَا بَعْدَهُ مِنَ الْاَیَّامِ وَالْاَعْوامِ، یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرامِ

بعد کے دنوںاور سالوں تک زندہ رکھ اے جلالت و بزرگی کے مالک۔

 

( ۶ )

شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ بِالْمَوْلُودَیْنِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الثَّانِی وَابْنِهِ

اے مبعود! ماہ رجب میںمتولد ہونے والے دو مولودوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو محمدعليه‌السلام بن علی ثانی (امام محمدعليه‌السلام تقی)اور ان کے

عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَأَتَقَرَّبُ بِهِمَا إلَیْکَ خَیْرَ الْقُرَبِ، یَا مَنْ إلَیْهِ

فرزند علیعليه‌السلام بن محمدعليه‌السلام (امام علی نقیعليه‌السلام ) بلند نسب والے ہیں ان دونوں کے واسطے سے تیرا بہترین تقریب چاہتا ہوں اے وہ ذات جس سے

الْمَعْرُوفُ طُلِبَ، وَفِیما لَدَیْهِ رُغِبَ، أَسْأَ لُکَ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ

احسان وکرم طلب کیاجاتا ہے اور جواسکے پاس ہے اس کی خواہش کی جاتی ہے میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس گناہگار کا سا سوال

ذُ نُوبُهُ، وَأَوْثَقَتْهُ عُیُوبُهُ، فَطالَ عَلَی الْخَطایَا دُؤُوبُهُ ، وَمِنَ الرَّزَایا خُطُوبُهُ،

جسے گناہوں نے تباہ کر دیا اور عیبوں نے جکڑ لیا ہے پس گناہوں پر اس کی عادت پختہ ہو چکی اور بلائوں سے مشکلیں بڑھ گئیں ہیں

یَسْأَ لُکَ التَّوْبَةَ وَحُسْنَ الْاَوْبَةِ وَالنُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ وَمِنَ النَّارِ فَکاکَ رَقَبَتِهِ

اب وہ سوال کرتا ہے تجھ سے توفیق توبہ اور بہترین بازگشت کا گناہوں سے کنارہ کشی اور آتش جہنم سے چھٹکارے کا خواہش مند ہے

وَالْعَفْوَ عَمَّا فِی رِبْقَتِهِ، فَأَنْتَ مَوْلاَیَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ اَللّٰهُمَّ وَأَسْأَ لُکَ بِمَسَائِلِکَ

وہ اپنے سبھی گناہوں کی معافی چاہتا ہے پس تو میرا وہ مولا ہے جس پر امید و اعتماد ہے اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے

الشَّرِیفَةِ وَوَسَائِلِکَ الْمُنِیفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِی فِی هذَا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْکَ وَاسِعَةٍ

پاک معاملوں تیرے بلند وسیلوں کے واسطے سے کہ اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت اور بخشی جانے والی نعمتوں کو عطا فرما۔

وَنِعْمَةٍ وَازِعَةٍ، وَنَفْسٍ بِمَا رَزَقْتَها قَانِعَةٍ، إلَی نُزُولِ الْحَافِرَةِ، وَمَحَلِّ الاَْخِرَةِ،

اور جو روزی تو نے دی اس پر میرے نفس کو قانع فرما تا وقتیکہ وہ قبر میں جائے اور منزل آخر پر پہنچے

وَمَا هِیَ إلَیْهِ صَائِرَةٌ

اور جس کی طرف اس کی بازگشت اس تک پہنچے۔

 

زیارت رجبیہ

 

( ۷ )

شیخ نے حضرت امام العصر (عج)کے نائب خاص ابو القاسم حسین بن روح سے روایت کی ہے کہ رجب کے مہینے میں آئمہ میں سے جس امامعليه‌السلام کی ضریح مبارکہ پر جائے تو اس میں داخل ہوتے وقت یہ زیارت ماہ رجب پڑھے:

الْحَمْدُ لِلّٰهِِ الَّذِی أَشْهَدَنا مَشْهَدَ أَوْ لِیائِهِ فِی رَجَبٍ، وَأَوْجَبَ عَلَیْنا مِنْ حَقِّهِمْ مَا

حمد خدا ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں رجب میں اپنے اولیائ کی زیارت گاہوں پر حاضر کیا اور ان کا حق ہم پر واجب کیا

قَدْ وَجَبَ وَصَلَّی ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَعَلَی أَوْصِیائِهِ الْحُجُبِ اَللّٰهُمَّ فَکَما

جو ہونا چاہئے تھا اور رحمت خدا ہو عالی نسب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کے اوصیائ پر جو صاحب حجاب ہیں اے معبود! پس جیسے تونے ہمیں ان کی

أَشْهَدْتَنا مَشْهَدَهُمْ فَأَ نْجِزْلَنا مَوْعِدَهُمْ، وَأَوْرِدْنا مَوْرِدَهُمْ، غَیْرَ مُحَلَّئیِنَ عَنْ وِرْدٍ

زیارت کی توفیق دی ویسے ہی ہمارے لئے ان کا وعدہ پورا فرما اور ہمیں ان کی جائے ورود پر وارد فرما بغیر کسی روک ٹوک

فِی دارِ الْمُقامَةِ وَالْخُلْدِ وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ، إنِّی قَدْ قَصَدْتُکُمْ وَاعْتَمَدْتُکُمْ بِمَسْأَلَتِی

کے جائے اقامت اور خلد برین میں پہنچا دے اور سلام ہو آپ پر کہ میں آپ کی طرف آیا اور آپ پر بھروسہ کیا اپنے سوال

وَحَاجَتِی وَهِیَ فَکَاکُ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ، وَالْمَقَرُّ مَعَکُمْ فِی دَارِ الْقَرارِ ، مَعَ شِیعَتِکُمُ

اور حاجت کے لئے اور وہ یہ ہے کہ میری گردن آگ سے آزاد ہو اور میرا ٹھکانہ آپ کے ساتھ آپ کے نیکوں کار شیعوں

الْاَ بْرَارِ، وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ، أَنَا سائِلُکُمْ وَآمِلُکُمْ فِیمَا

کیساتھ ہو اور سلام ہو آپ پر کہ آپ نے صبر کیا پس آپ کا کیا ہی اچھا انجام ہے میں آپکاسائل اور امید وار ہوں ان چیزوں کیلئے

إلَیْکُمُ التَّفْوِیضُ، وَعَلَیْکُمُ التَّعْوِیضُ، فَبِکُمْ یُجْبَرُ الْمَهِیضُ، وَیُشْفَی الْمَرِیضُ،

جو آپ کے اختیار میں ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے آپ کے ذریعے شکستگی کی تلافی اور بیمار کو شفا ملتی ہے اور جو کچھ

وَمَا تَزْدَادُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَغِیضُ، إنِّی بِسِرِّکُمْ مُؤْمِنٌ، وَ لِقَوْ لِکُمْ مُسَلِّمٌ، وَعَلَی ﷲ

رحموں میں بڑھتا اور گھٹتا ہے بے شک میںآپ کی قوت باطنی کا معتقد اور آپ کے قول کو تسلیم کرتا ہوں میں خدا کوآپ کی قسم

بِکُمْ مُقْسِمٌ فِی رَجْعِی بِحَوَائِجِی وَقَضَائِها وَ إمْضَائِها وَ إنْجَاحِها وَ إبْراحِها

دیتا ہوں کہ میری حاجتوں پر توجہ دے انہیں پورا کرے ان کا اجرا کرے اور کامیاب کرے یا ناکام کرے اور جو کام میں نے آپ

وَبِشُؤُونِی لَدَیْکُمْ وَصَلاَحِها وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ سَلاَمَ مُوَدِّعٍ وَلَکُمْ حَوائِجَهُ مُودِعٌ

کے سپرد کئے ہیں ان میں بہتری کرے اور سلام ہو آپ پر، وداع کرنے والے کا سلام جو اپنی حاجتیں آپ کے سپرد کر رہا ہے

یَسْأَلُ ﷲ إلَیْکُمُ الْمَرْجِعَ وَسَعْیُهُ إلَیْکُمْ غَیْرَ مُنْقَطِعٍ وَأَنْ یَرْجِعَنِی مِنْ حَضْرَتِکُمْ

وہ خدا سے سوال کرتا ہے کہ آپکے ہاں واپس آئے اور اسکا آپکی بارگاہ میں آنا چھوٹنے نہ پائے وہ چاہتا ہے کہ آپکے حضور سے

خَیْرَ مَرْجِعٍ إلَی جَنَابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضٍ مُوَسَّعٍ وَدَعَةٍ وَمَهَلٍ إلَی حِینِ الْاَجَلِ وَخَیْرِ

جائے تو پھر آپ کی خدمت میں حاضری دے تو یہ جگہ ہموار، سر سبز اور وسیع ہو چکی ہو کہ تا دم آخر وہ یہاں رہے اوراس کا انجام بخیر ہو

مَصِیرٍ وَمَحَلٍّ فِی النَّعِیمِ الْاَزَلِ، وَالْعَیْشِ الْمُقْتَبَلِ، وَدَوامِ الاَُْکُلِ، وَشُرْبِ الرَّحِیقِ

ہمیشہ کی نعمتیں نصیب ہوں آئندہ زندگی خوشگوار ہو ہمیشہ بہترین غذائیں اور پاک شراب ملے اور آب شرین

وَالسَّلْسَلِ وَعَلٍّ وَنَهَلٍ لاَ سَأَمَ مِنْهُ وَلاَ مَلَلَ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکَاتُهُ وَتَحِیَّاتُهُ عَلَیْکُمْ

اور یہ مہینہ بار بار آئے جس میں نہ تنگی آئے نہ رنج ہو اور خدا کی رحمت، برکتیں اور درود و سلام ہو آپ پر جب تک

حَتَّی الْعَوْدِ إلَی حَضْرَتِکُمْ، وَالْفَوْزِ فِی کَرَّتِکُمْ، وَالْحَشْرِ فِی زُمْرَتِکُمْ، وَرَحْمَةُ

کہ میں دوبارہ حاضر بارگاہ ہوں آپ کی رجعت میں کامیاب رہوں حشر میں آپ کے گروہ میں اٹھوں خدا کی رحمت اور

ﷲ وَبَرَکاتُهُ عَلَیْکُمْ وَصَلَواتُهُ وَتَحِیَّاتُهُ، وَهُوَ حَسْبُنا وَنِعْمَ الْوَکِیلُ

برکتیں ہوںآپ پر اور اس کی نوازشیں اور سلامتیاں اور وہ ہمارے لئے کافی اور بہترین کارساز ہے۔


امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

آپ ؑ کی والدہ

 دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی

ایک لمحہ سکون!

مرد اپنی زندگی کی کشمکش میں، ایک لمحہ سکون کا محتاج ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی راہ کو جاری رکھ سکے۔ وہ سکون کا لمحہ کونسا ہے؟ یہ وہ وقت ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے گھرانے کے ساتھ پیار اور شفقت سے بھرے ماحول میں پاتا ہے۔ اپنی زوجہ کے ساتھ جو اس سے پیار کرتی ہے ، اس کے شانہ بشانہ ہے اور وہ اس کے ساتھ ایکائی کا احساس کرتا ہے۔ جب وہ اپنی زوجہ کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ سکون کا لمحہ ہے۔

 

 

 

شوہر، ایک مسکن!

اب اس کشمکش میں زوجہ بھی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے۔ چونکہ اس کی روح زیادہ نازک ہے ، اسے سکون ، راحت اور اعتماد پسند شخص پر انحصار کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ اسکا شوہر ہے! اسے زندگی کی کشمکشوں سے دور ایک مسکن اور محفوظ مقام مل گیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

ایک دوسرے کی پناہگاہ

وہ شوہر و زوجہ جو صحیح طور سے ایک ساتھ زندگی گذارتے ہیں ، ان مشکلات میں ایک دوسرے کی پناہگاہ ثابت ہوتے ہیں۔ زوجہ اپنے شوہر کی پناہ لیتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کی پناہ لیتا ہے۔

Wednesday, 02 February 2022 20:17

جامع مسجد الجزایر

مسجد جامع الجزایر کو مسجدالحرام و مسجدالنبی(ص) کے بعد عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مشرقی الجزایر میں واقع ہے۔ اس مسجد کا مینار ۲۶۷ میٹر بلند ہے اور  ۴۳ فلور پر مشتمل اس مینار میں لفٹ لگا ہوا ہے. اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار اس مسجد کو دو ایکڑ پر تعمیر کی گیی ہے جسمیں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجایش موجود ہے اور اس کے کارپارکنگ میں دو ہزار گاڑیوں کی گنجایش موجود ہے۔/